فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمانِ الٰہی

یُنْبِتُ لَکُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ. وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَط وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ م بِاَمْرِهٖ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ. وَمَا ذَرَاَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ.

(النحل، 16: 11-13)

’’اُسی پانی سے تمہارے لیے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اگاتا ہے، بے شک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے۔ اور اُسی نے تمہارے لیے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں، بے شک اس میں عقل رکھنے والے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور (حیوانات، نباتات اور معدنیات وغیرہ میں سے بقیہ) جو کچھ بھی اس نے تمہارے لیے زمین میں پیدا فرمایا ہے جن کے رنگ (یعنی جنسیں، نوعیں، قسمیں، خواص اور منافع) الگ الگ ہیں (سب تمہارے لیے مسخر ہیں)، بے شک اس میں نصیحت قبول کرنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے‘‘۔

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ مُعَاوِیَةَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: مَن یُرِدِ اﷲُ بِهِ خَیْرًا یُفَقِّهْهُ فِي الدِّیْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاﷲُ یُعْطِي.

مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو بس تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ دیتا اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘

عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَ فِي سَبِیْلِ اﷲِ حَتَّی یَرْجِعَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حصولِ علم کے لئے نکلا وہ اس وقت تک اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹ آتا۔‘‘

(المنهاج السوّی، ص: 327)