اداریہ: غربت کا عالمی دن اور 21 کروڑ آبادی والے ملک پاکستان کے زمینی حقائق

ایڈیٹر: ام حبیبہ

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، زرعی اور ڈیری مصنوعات کی پیداوار میں پاکستان دنیا کے ٹاپ 6 ممالک کی فہرست میں شامل ہے، اللہ نے پاکستان کو 4 موسم، محنتی کسان اور پرعزم افرادی قوت سے نوازا ہے، پاکستان دودھ کی پیداوار حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں 6 ویں نمبر پر ہے، پاکستان گوشت کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتا ہے، خوراک کے بنیادی جزو گندم، چاول، دالوں اور مختلف اجناس کی پیداوار میں بھی خودکفیل ہے، پاکستان دنیا کے بہترین اور طویل ترین نہری نظام کی نعمت سے مالا مال ہے، ان تمام تر صلاحیتوں کے باوجود یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان ان غریب ترین ممالک کی صف میں شامل ہے جس کے عوام غذا اور غذائیت کی کمی کا شکارہیں۔ غذا اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں زچہ بچہ کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں 96 لاکھ بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 44 فیصد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جبکہ حقیقی اعداد و شمار اس سے زیادہ ہیں۔ تھر اور چولستان میں ہر سال سینکڑوں بچے ناکافی غذا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں یا بیماریوں کا شکار ہو کر مستقل طور پر مختلف جسمانی عوارض کا شکار ہو کر زندگی میں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

بظاہر مختلف قومی و بین الاقوامی سرویز میں پاکستان میں غربت کی شرح 30 فیصد بیان کی جاتی ہے لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد 50 فیصد سے زائد ہے، یہ 50 فیصد وہ آبادی ہے جسے غذائیت سے بھرپور غذا میسر نہیں ہے، اس میں کچھ شرح ایسے افراد کی بھی ہے جنہیں 2وقت کا کھانا میسر نہیں ہے، آج کل پاکستان کے خلاف ہمسایہ ملک ہر طرح کی جارحیت کررہے ہیں، اس جارحیت میں پاکستان کا پانی بند کرنے یا محدود کر دینے کے ہتھکنڈے بھی شامل ہیں، پاکستان کا زیادہ تر زرعی رقبہ بین الاقوامی دریائوں سے آنے والے پانی کے ذریعے سیراب ہوتا ہے آج کل اس پانی کے اوپر ہمسایہ ملک نے کٹ لگا رکھا ہے اور پاکستان کے حصے کے دریائوں پر بڑے بڑے ڈیمز بنا کر پانی کے بہائو کو کم یا محدود کر دیا گیا ہے جس سے ہماری زراعت اور زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہورہی ہے اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان پانی اور خوراک کے بحران سے دو چار ہو سکتا ہے، آبادی میں مسلسل اضافہ اور پیداور میں کمی کا رجحان خطرے کا آلارم ہے اس پر طرفہ تماشا پاکستان کی ماضی کی حکومتوں کی طرف سے آبی ذخائر تعمیر نہ کرنا بھی ہے، 60ء کی دہائی کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا جس کی وجہ سے پاکستان میں آنے والے پانی کا ایک بڑا حصہ استعمال ہوئے بغیر سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے، جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے اور بین الاقوامی سیاست متشدد ہوتی جارہی ہے، پاکستان بری طرح اس کے منفی اور مضر اثرات کی زد پر ہے، پاکستان کی زراعت پاکستان کو مشکل ترین حالات میں بھی معاشی اور سماجی حوالے سے پائوں پر کھڑا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اس لیے آبی ذخائر کی تعمیر اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومت کو تمام تر وسائل بروئے کار لانا ہوں گے ورنہ غربت پاکستان کی سیاسی، سماجی، معاشی بنیادوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دے گی۔