فکر شیخ الاسلام: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا. وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَا.

’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا) ‘‘۔

(الشمس، 91: 9)

انسان کی شخصیت تین چیزوں سے مرکب ہے۔ جسم، روح اور نفس ان تینوں میں سے ہر ایک کی جدا جدا خصوصیات ہیں۔ انسان کی شخصیت اس پوری کائنات کے مقابلے میں عالم کا درجہ رکھتی ہے۔ انسانی شخصیت کے اندر زمین بھی ہے اور آسمان بھی اس کے اندر عالم پست بھی ہے اور عالم بالا بھی ہے، عالم اصغر بھی ہے اور عالم اعلیٰ بھی ہے۔ انسان کا جسم عالم شہادت اور عالم ناسوت کی چیز ہے جس کو ہم عالم خلق کہتے ہیں اسی طرح روح اور نفس دونوں عالم امر کی چیزیں ہیں۔

نفس کے سبب سے انسان دو قسم کی آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے ایک کا سبب فصاحت نفس ہے اور دوسرے کا سبب ہوائے نفس ہے۔ فصاحت، ناواقفیت، جہالت اور بیوقوفی کو کہتے ہیں یعنی کہ انسان اپنے نفس کے حال سے بے خبر ہو اور ہوائے نفس یہ ہے کہ انسان نفس کی خواہشوں کی پیروی کررہا ہو۔ یہ دونوں حالتیں انسان کی تباہی کا سبب ہوتی ہیں۔ اس کی تربیت اور تہذیب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان نفس کی بے خبری سے چھٹکارا نہ پالے۔

لہذا تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے کہ انسان فصاحت نفس سے بھی چھٹکارا پائے اور ہوائے نفس سے بھی۔ ان دونوں چیزوں کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے۔

وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ الِاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ.

’’اور کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو‘‘۔

(البقره،2: 130)

گویا شریعت سے وہی شخص منہ پھیرتا ہے اور اللہ کے احکام سے بغاوت، سرکشی کا مرتکب وہی شخص ہوتا ہے جو اپنے نفس کے حال سے بے خبر رہتا ہے اس لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

اذا اراد الله بعبد خیرا بشرهم بعموک بنفسه.

کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اُسے اپنے نفس کے عیبوں سے باخبر کردیتا ہے۔ نفس کے عیب آئینے کی مانند اس کے سامنے روشن کرجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کسی مرد کامل نے اپنے نفس کو چوہے کسی کو لومڑی سے تشبیہ دی، کوئی کہتا ہے میں نے اپنے نفس کو کتے کی مانند دیکھا۔ یہ بڑے بڑے اولیائ، صلحاء کے اقوال ہیں۔ یہ شکلیں عالم مثال کی شکلیں ہیں کہ کتے، لومڑی اور چوہے وغیرہ کا دکھائی دینا یعنی نفس جن غلط خصلتوں، عادتوں اور رذائل میں مبتلا ہے وہ خصلتیں کسی جانور کی شکل میں متشکل ہوکر دکھائی دیتی ہیں۔

جس شخص کے نفس میں حسد اور کینہ ہوگا یہ کتے کے مزاج کی خاصیت ہے اسے اپنا نفس کتے کی شکل میں دکھائی دے گا تاکہ اسے خبر ہوجائے اس کی اصلاح کرے اور جسے نفس لومڑی کی شکل میں دکھائی دے گا۔ لومڑی کی خاصیتیں عیاری، مکاری اور چالاکی ہے اسے اپنے نفس کی خرابی بتائی جارہی ہے کہ اے بندے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے تجھے تیرے نفس کی خرابی سے آگاہ کردیا کہ اس میں عیاریاں، مکاریاں، دھوکہ اور فریب ہے ان کی اصلاح کرو کیونکہ نفس کی معرفت کے بغیر بندہ خدا کا نہیں ہوسکتا اسی لیے کہا گیا کہ

من عرف نفسه فقد عرف ربه.

جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے رب کو پہچان لیا۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نفس کی معرفت رب کی معرفت کس طرح ہوگئی؟ دراصل جب تک انسان اپنے نفس کے عیبوں سے بے خبر رہتا ہے تب تک وہ نفس کی پیروی سے باز نہیں رہ سکتا اگر اسے یہ خبر نہ ہو کہ میرا نفس کس حال میں ہے اس کی خرابی کیا ہے؟ اس کی تباہی کیا ہے، تب تک وہ نفس کی اصلاح نہ کرسکے گا جب تک انسان کا نفس درست نہ ہوگا تو وہ اللہ کی راہ پر کس طرح چل سکے گا؟

اس لیے یہ فرمایا کہ خدا کی معرفت کو پانے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنے من کی دنیا میں کھوجائے۔

اپنے من میں ڈوبے بغیر اگر اسے تلاش کرنے کے لیے نکلے گا تو ہر بار سوائے خود کے کسی اور کو نہ پائے گا اور خدا حجاب میں رہے گا اور اگر اسے تلاش کرنے کی بجائے خود کو تلاش کرنے کے لیے نکل پڑے تو ہر قدم پر وہی نظر آئے گا۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ ’’میری یہ حالت تھی کہ جب بھی اُسے (اللہ کو) تلاش کرنے کے لیے نکلتا تھا تو سوائے خود کے اور کسی کو نہیں پاتا تھا اب بیس سال سے مجاہدہ نفس کرکے اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ جب اس کی تلاش میں نکلتا ہوں تو سوائے اس کے کسی کو نہیں پاتا۔

اور ایک شیخ فرماتے کہ جو لوگ خود کو تلاش، اپنے نفس کی کیفیتوں کا محاسبہ اور اپنی معرفت حاصل کرلیتے ہیں وہ اللہ تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک دوسروں پر تنقید کی نظر ختم نہ ہو جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم صبح سے شام تک دوسرے کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں ایسے میں اپنے نفس کی معرفت کس طرح حاصل ہو۔

معرفت نفس کا حصول

نفس کی معرفت مراقبے سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کے گورکھ دھندوں سے اپنے آپ کو آزاد کرکے خلوت نشینی اختیار کرنا اور یکسو ہوکر اپنے من میں ڈوب کر اپنے من کا تجزیہ کرنا کہ اس کے من میں جاہ و منصب کی کتنی طلب ہے۔ تو پتہ چل جائے گا کہ نفس میں دنیا کا کتنا حرص اور لالچ ہے۔ دوسروں کے لیے کتنا بغض اور حسد ہے، کتنا عناد اور کینہ ہے، کتنا تکبر ہے کتنی برائیاں ہیں۔ لوگوں کے سامنے تو تصنع کرکے ہزارں پردے اوڑھ کر ان کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور اس دھوکے میں خود کو بھی مبتلا کیے رہتے ہیں مگر انسان جو جلوت میں بیٹھ کر اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے۔ اسے خبر ہوجائے گی کہ میرے نفس کی کیا خرابیاں ہیں اس لیے فرمایا:

’’ایک لمحے کا مراقبہ سینکڑوں سالوں کی عبادت سے بھی افضل ہوسکتا ہے کہ اس لمحے سے انسان کے نفس کی معرفت ہوتی ہے نفس کی اصلاح کا راستہ نکلتا ہے‘‘۔

قرآن نے فرمایا:

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوَاهُ.

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے‘‘۔

(الجاثیه، 45: 23)

کیا آپ نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنے نفس کی خواہشوں کو اپنا مولا بنالیا ہے گویا نفس کی خواہشات کی پیروی کرنا طریقت و روحانیت میں شرک ہے۔

مگر جس کے پاس جانے سے خدا کی محبت جس کی صحبت میں بیٹھنے سے خدا کی معرفت جس کے قدموں میں خدا کی عبادت کا ذوق ملے اس کو کبھی غیر نہ سمجھنا وہ خدا کا اپنا ہے اس لیے غیر تو وہ ہوتے ہیں جو دور لے جاتے ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی الحمد سے والناس تک اولیاء کرام کا انبیاء کرام کا ذکر کیا، کہیں ان کو اپنا کہا، کہیں حزب اللہ کہا کہیں اولیاء اللہ کہا، کہیں عباد الرحمن کہا جن کو خدا اپنا دوست کہے کبھی بھول کر بھی ان کو اللہ کا غیر نہ کہو ورنہ خدا کے غضب کا سبب بن جائے گا۔

نفس اور نفس کے غلط رجحانات سے مجاہدے کے ذریعے چھٹکارا پالیتے ہیں ان کے لیے باری تعالیٰ نے فرمایا:

وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا.

’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘‘۔

(العنکبوت، 29: 69)

ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ ایک غزوہ سے واپس لوٹتے ہوئے فرمایا:

راجعنا من جهاد اصغر من اکبر قالو من جهاد اکبر یارسول الله قال مجاهدة الانفس.

’’میرے صحابیو اب ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف جارہے ہیں‘‘۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض یا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد اکبر کیا ہے فرمایا نفس کی اصلاح کرنا۔

انسان کی طبیعت کے اندر کچھ شہوات ودیعت کردی گئیں ہیں تو انہیں کلیتاً تو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ان پر قابو پاکر انسان خدا کی معرفت کا عرفان حاصل کرسکتا ہے۔

ان کو کلیتاً ختم کرنا مقصودِ اسلام ہے بھی نہیں ہے یہ رہبانیت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

لا رهبانیة فی الاسلام.

اسلام رہبانیت کی اجازت نہیں دیتا۔ بیوی، اولاد اور ماں کی محبت کوئی چاہے کہ نکل جائے یہ کبھی نہیں ہوگا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حسن رضی اللہ عنہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کی اور اپنے صحابہ کو اولاد سے محبت کرنے کی تلقین کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بوسہ دیا ایک صحابی پاس بیٹھے بول پڑے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے بہت سے بیٹے ہیں لیکن آج تک میرا دل کسی کو پیار سے بوسہ لینے کو نہیں چاہا۔ حضور نے فرمایا ظالم! جو مخلوق سے محبت نہیں کرتا وہ اللہ سے محبت نہیں کرتا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم کیا بھی نہیں جاتا تو مقصود یہ نہیں کہ یہ محبتیں کلیتاً ختم ہوجائیں۔ یہ محبتیں ختم نہیں ہوسکتیں تو پھر قد افلح من زکھا کا مطلب کیا ہے نفس ان رجحانات سے پاک کس طرح ہوتا ہے۔ نفس کی پاکیزگی کا معنی یہ ہے اگر انسان خود کو ان شہوات و خواہشات سپرد کردے تو تباہ ہوگیا اگر ان کو اپنے سپرد کردے تو انسان کامیاب ہوگیا۔

خود کو سپرد کرنا یہ ہے کہ نفس کی خواہشیں غالب آگئیں اور ان کو اپنے سپرد کرلینے کا معنی یہ ہے کہ بندہ ان خواہشوں پر غالب آگیا۔ جس طرح اس نے چاہا اس سے فائدہ اٹھالیا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن و جمال سے متاثر ہوکر جب زلیخا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں ان کے پیچھے لپکتی ہے تو یوسف علیہ السلام اللہ کے فضل و کرم اور رحمت سے اور اپنے تزکیہ نفس کی برکات سے بچتے ہیں۔ قرآن میں آتا ہے آپ جواب دیتے ہیں۔

وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌم بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ.

’اور میں اپنے نفس کی برأت (کا دعویٰ) نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔‘‘

(یوسف، 12: 53)

ان دونوں حقیقتوں کا مظاہرہ حضرت یوسف علیہ السلام کے اس واقعہ سے ہوتا ہے۔ وہ زلیخا جو بادشاہت کی مالک ہے محض بادشاہی کی مالک ہوکر خواہش نفس کی اس نے پیروی کی اور عزت کھو بیٹھی اور یوسف جو غلام تھا اس نے خواہش نفس کو چھوڑا گو وہ باعزت اور باوقار ہوگیا۔

نفس کی اصلاح مرد کامل کی صحبت سے بھی نصیب ہوتی ہے۔ صحبت سے مراقبہ، محاسبہ اور مجاہدہ بنتا ہے اسی لیے فرمایا کہ:

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

جب صحبت میں آتے ہیں تو دل کی سیاہیاں چھٹ جاتی ہیں۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ نفس پاک ہوجاتا ہے جب نفس میں تواضع و انکساری آجائے اور ہر کوئی خود سے بہتر نظر آئے۔ اس کے برعکس نفس جب تک گندہ رہتا ہے تب تک وہ دوسرے کے عیب دیکھتا ہے۔

نہ تھی اپنے حال کی جو خبررہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنے حال پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

کئی خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو سوتے ہیں رب کو پالیتے ہیں اور کوئی بدبخت جاگتے ہیں مگر سب کچھ کھودیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَﷲُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ.

’’اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے‘‘۔

(الشوریٰ، 42: 13)

یہ اس بارگاہ کے کرم کے فیصلے ہیں جو کوشش کرتا ہے اسے وہ راستہ دکھا دیتا ہے۔

مولوی عبدالحق کا واقعہ یہ ہے۔ مدینہ پاک مسجد نبوی میں حاضر ہیں۔ رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ ایک اعرابی پھٹے پرانے کپڑوں والا، غریب سا شخص ہر روز حضور کے روضے کو دور سے تکتا رہتا اُن کے دل میں خیال آتا کہ یہ ان پڑھ سا آدمی ہے مگر جس عشق سے یہ زیارت کرتا ہے اس نے میرے اندر بھی جذبہ عشق پیدا کردیا کہ مولانا عبدالحق اس کے پاس جا بیٹھے۔ روز اس کے پاس بیٹھنے لگے ایک دن اس غریب نے کہا کہ آج شام میرے گھر دعوت ہے آپ تشریف لانا۔ انہوں نے کہا نہیں افطاری کرکے نماز مغرب ہوگی اور کھانے کے لیے باہر گیا تو عشاء کی نماز ہوجائے گی اس لیے انکار کردیا اس غریب نے پھر اصرار کیا آپ نے پھر انکار کیا اور کہا کہ میری نماز عشاء کی رہ جائے گی۔ اس نے پھر بھی اصرار کیا کہ نہیں میں غریب آدمی ہوں میرے ساتھ دعوت پر چلے آئیں۔

وہ غریب شخص ان کو لے کر چل دیا چلتے چلتے خیال آیا کہ کسی محلے میں گھر ہوگا لیکن شہر مدینہ سے باہر نکل گئے جونہی باہر پہنچے دل میں غصہ آتا گیا۔ اس غریب نے تو مجھے تباہ کردیا۔ عشاء کی نماز کی جماعت گئی۔ تراویح کی نماز گئی۔ خدا جانے کب واپس آئوں گا مسجد نبوی کا دروازہ بھی کھلا ہوگا یا نہیں۔ چلتے چلتے جنگل آگیا کئی گھنٹے گزر گئے بس اسے یقین ہوگیا کہ عشاء کی نماز گئی۔ بس غصے کی حالت میں اس کے گھر میں جا پہنچے جب اس غریب بوڑھے نے آواز دی بیٹے یہاں مہمان آیا ہے اس کے لیے کھچڑی بنائو پھر اور غصے میں جل گئے کہ کھانا اب تیار ہوگا۔ دیر لگ جائے گئی۔ کھانا کھایا پھر واپس چلے۔ وہ شخص بوڑھا تھا۔ آہستہ آہستہ چلتا پھر انہیں چھوڑنے کے لیے راستے میں آتے آتے اس کا کوئی مہمان اسے مل گیا وہ انہیں سلام کہہ کر واپس لوٹ گیا اب مولوی صاحب تیزی سے گئے کہ شاید مسجد کا دروازہ بند ہوگیا ہو تو آخری دیدار ہی کرلوں گا جب مسجد نبوی پر پہنچے۔ اندر گئے ایک شخص کھانا کھارہا تھا قریب جاکر اس سے پوچھا کہ عشاء کی نماز ہوئے کتنی دیر ہوئی اس نے کہا تم پاگل ہو ابھی تو مغرب کی نماز ختم ہوئی اور میں کھانا کھا رہا ہوں۔

اس پر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کہتے ہیں کہ دوستو! کسی کو برا نہ کہا کرو تمہیں کیا خبر کہ جو غریب دکھائی دے رہا ہے کس حال میں زندہ ہے، اپنی برائی کی اصلاح ہوجائے تو پھر ہر ایک کی اصلاح کے راستے نکل آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نفس کا تزکیہ عطا فرمائے۔ آمین