اسلامی نظام تعلیم میں متعلم کا کردار

نورالزمان نوری

اسلامی معاشرہ میں استاد کے مقام و منصب کی اہمیت و عظمت مسلّمہ ہے۔ اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیدالانبیاء محبوب خدا سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جامع الکتاب حیثیت ہونے کے باوجود منصب معلمی کو اس انداز سے عزت و تکریم بخشی کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

انما بعثت معلما۔ (مجھے معلم بناکر مبعوث کیا گیا ہے) مزید برآں آپ کے ’’چہار گانہ فرائض‘‘ نبوت کا قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر ذکر ہے۔ ان میں ’’تعلیم کتاب‘‘ اور ’’تعلیمِ حکمت‘‘ میں معلمانہ حیثیت کارفرما ہے۔

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ.

(الجمعه، 62: 2)

’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔

مذکورہ آیت کریمہ اور قرآن مجید کے دیگر مقامات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک مقاصد ہیں تعلیم و تزکیہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ تزکیہ کا لفظ تربیت کے مترادفات میں سے ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتی اس کے بغیر علم، علم نافع نہیں بن سکتا۔

معلم، باب تفعیل (تعلیم) سے اسم فاعل ہے۔ یہ علم کے مادہ سے ہے۔ علامہ مرتضیٰ زبیدی کے الفاظ میں تعلیم کے معنی ہیں:

’’تعلیم مخصوص ہے اس علم کے ساتھ جو بار بار اور بکثرت سکھایا جائے تاکہ متعلم کے دل پر اس کے اثرات متحقق ہوجائیں‘‘۔

(الزبیدی، 17: 396)

قرآن و حدیث میں یہ لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

الرحمن علم القرآن.

(الرحمن، 55: 1-2)

’’(وہ) رحمان ہی ہے جس کے (خود رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) قرآن سکھایا‘‘۔

اسی طرح حدیث مبارکہ علم کے دوسروں تک ابلاغ کے عمل کی فضیلت و اہمیت بایں الفاظ مذکور ہے۔

خیرکم من تعلم القرآن وعلمه.

(الترمذی، السنن، الرقم: 2909)

’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے دوسروں کو سکھائے‘‘۔

مفکرین اسلام نے تعلیم کے مفہوم میں عمدہ اخلاق کی تربیت کو بھی شامل کیا ہے۔ تعلیم صرف تدریس کا ہی نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ایک قوم آگہی حاصل کرتی ہے اور یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے شعور اور احساس کو نکھارنے کا ذریعہ ہے۔ تعلیم ہی سے ایک قوم اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثہ کو آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے۔ متعلم کا کام ایک ایسی نسل کی تیاری ہے جس سے معاشرہ فلاح و کامرانی کے راستہ پر گامزن ہوسکے۔ افراد قوم کی ذہنی و روحانی نشوونما اس منصب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ علامہ اقبال استاد کے مربیانہ کردار کے متعلق یوں گویا ہیں:

شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
اس کی صنعت ہے روح انسانی

تعلیم اور تربیت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تعلیم کے ذریعے قوموں کو اجاگر کیا جاتا ہے جبکہ تربیت کے ذریعہ انسان کی جملہ فطری قوتوں کو اجاگر کرکے اسے عمدہ اخلاق سے مزین کرکے اسے فلاح و سعادت کے راستہ پر ڈالا جاتا ہے۔ علامہ اقبال پیر رومی سے سوال کرتے ہوئے علم کا ذکر یوں کرتے ہیں:

پڑھ لیے میں نے علوم شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب

مولانا جلال الدین رومی اس ’’کرب‘‘ کا سبب بیان کرتے ہیں جس سے تربیت و تزکیہ کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے آپ فرماتے ہیں:

علم را برتن زنی ماری بود
علم را بردل زنی باری بود

علم کے ساتھ اگر تربیت و تزکیہ کا عمل نہ ہو تو ایسے علم سے تکبر، رعونت، خود پسندی، عجب، ریا اور حرص و ہوس جیسے رذائل اخلاق پیدا ہوتے ہیں اور اگر علم کے ساتھ تربیت و تزکیہ ہو تو ایسے علم سے انسان میں صدق و اخلاص، خیر خواہی، استغنا، ایثار و ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

معلم کا کام نسل نو کی ذہنی، اخلاقی اور روحانی تربیت ہے اس سے طلبہ کی تعمیر شخصیت اور تشکیل سیرت کی تکمیل ہوگی۔ معلم کا مقصد ایسے تہذیب یافتہ افراد کی تیاری ہے جو معاشرہ کے اچھے انسان بھی بن سکیں اور کسی ریاست کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض کو انجام دینے کے بھی اہل ہیں ہر دور کے ممتاز اسلامی ماہرین تعلیم کے نظریات کا مطالعہ اسی تصور تعلیم کا پتہ دیتا ہے۔ نامور سکالر عبدالکریم زیدان، مقصد تعلیم بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’اسلامی احکام کے علم کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک وہ دل میں گھر نہ کر جائیں اور عملی زندگی میں سمو نہ جائیں جو شخص احکام اسلامی جانتا ہو مگر ان کے مطابق اپنی تربیت نہ کرے ایسا علم نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ اس امر کا زیادہ امکان ہے کہ ایسا صاحب علم آزمائش میں مبتلا ہوکر دین سے برگشتہ ہی نہ ہوجائے۔

(زیدان، ص: 238)

اسی طرح ایک اور ماہر تعلیم ڈاکٹر مشتاق الرحمن ایک معلم کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے تربیتی عمل کو یوں واضح کرتے ہیں:

’’اسلامی تناظر میں تعلیم کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان کو عمدہ اخلاق سے مزین فلاح و سعادت کے راستہ پر ڈالا جائے اور اس کے تمام امور اللہ کی رضا کے تابع کیے جائیں یعنی اسلامی تعلیم وہ ہے جو ان اقدار کی ترویج اور فروغ کا وسیلہ بنے جنہیں اسلام بنی نوع انسان میں پروان چڑھانا چاہتا ہے۔‘‘

(مشتاق الرحمن، ص: 10)

ذیل میں اسلامی نظام تعلیم میں تربیت کے مقاصد اور خصوصیات رقم کی جاتی ہیں۔ جن کی روشنی میں عصر حاضر ایک استاد اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام دے سکتا ہے۔

اسلام کا تصور تربیت

اسلام اپنے پیروکاروں کی نہ صرف ذہنی نشوونما اور علم کی دولت سے مالا مال کرتا ہے بلکہ عمل پر اتنا ہی مستعد بناتا ہے۔ ایمان اور عمل کے بغیر کوئی کام قابل قبول نہیں۔ اعمال کی درستگی اور تہذیب کے لیے اسلام و عبادات کا ایک جامع نظام ارکان اسلام کی سورت میں بخشتا ہے۔ انسان کا اپنی پوری زندگی اللہ کی خوشنودی اور اس کی منشاء کے مطابق گزارنا اور ایسے امور جن میں اللہ کی رضا ہو ان پر عمل کرنا اور ایسے تمام امور سے بچنا جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوں عبادت کہلاتا ہے۔ تقرب الی اللہ کے لیے جن تقاضوں کو پوراکرنا ضروری ہوتا ہے وہ عبادات کے ذریعے ہی پورے ہوتے ہیں۔

اسلامی عبادات میں نماز، روزہ، حج، جہاد فی سبیل اللہ اور ذکر الہٰی، تلاوت قرآن وغیرہ ایسے اعمال ہیں جن کے ذریعے براہ راست انسان کی تربیت ہوتی ہے اور تربیت میدان عمل میں انسان کو ثابت قدم رکھتی ہے۔

اسلام میں نظام تعلیم و تربیت کے مقاصد

  1. رضائے الہٰی کا حصول
  2. رجوع الی اللہ
  3. علم بالعلم
  4. صالح معاشرہ کا قیام
  5. آخرت کی تیاری

اسلام کے منہج تربیت کے خصائص و امتیازات

قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں تعلیم کتاب کے ساتھ تربیت نفوس ایک بنیادی مقصد قرار دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ میں معروضی حالات و واقعات کے مطابق افراد معاشرہ کی تربیت کی۔ آپ کی تربیت کے نتیجہ میں عرب کے صحرا نشین، ایران و روم کی سلطنتوں کے وارث اور علوم و فنون میں دنیا بھر کے امام بن گئے۔ اسلام کی وہ کون سی بنیادی خصوصیات تھیں جن کی بناء پر یہ حیرت انگیز انقلاب بپا ہوا۔

اسلام کے منہج تربیت میں درج ذیل امور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:

  1. تربیت میں اخلاص اور پاکیزگی نیت
  2. تربیت بذریعہ تلاوت قرآن
  3. تربیت بذریعہ صحبت صالح
  4. تربیت میں تدریج و ترتیب
  5. تربیت میں مزاج و نفسیات

ان خصوصیات کا اجمالی انداز میں تعارف کرایا جاتا ہے۔

1۔ تربیت میں اخلاص اور پاکیزگی نیت

اخلاص اور حسن نیت، اعمال کا بنیادی وصف ہیں جن کے بغیر کوئی عمل نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ کوئی کام کتنی ہی خوبصورتی سے انجام دیا جائے، اگر اس میں اخلاص کی روح کار فرما نہ ہو تو ملمع سازی کی چمک دمک جلد اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ مربی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تربیت و اصلاح کے سلسلہ میں صرف خدا کی رضا کو پیش نظر رکھے۔ تربیت کے لیے کوئی قدم بھی اٹھائے، اس میں خلوص و للہیت کی جھلک نظر آنی چاہئے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:

انما الاعمال بالنیات، وانما لکل امری مانوی.

(البخاری، 2010ء، ص: 65، الرقم: 1)

’’اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی‘‘۔

2۔ تربیت بذریعہ تلاوت قرآن

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض منصبی میں سے پہلا فریضہ تلاوت کتاب ہے۔ اس لیے کہ کتاب سراپا شفا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـایُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآئَتْکُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَهُدًی وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.

’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لیے رحمت (بھی)‘‘۔

(یونس، 10: 57)

قرآن اول سے آخر تک نصیحت ہے جو لوگوں کو مہلک اور مضر باتوں سے روکتا ہے دلوں کی بیماریوں کے لیے نسخہ و شفاء ہے۔ وصول الی اللہ اور رضائے خداوندی کا راستہ بتاتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو دنیا و آخرت میں رحمت الہٰیہ کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ مزید یہ کہ نماز انسان کو پاکیزگی اور طہارت کا عادی بناتی ہے۔

قصص میں ایک پُر سحر تاثیر ہے جو انسانی نفوس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص کوئی قصہ پڑھتا یا سنتا ہے تو وہ اس قصہ کے افراد اور واقعات سے جدا نہیں رہتا بلکہ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر قصہ کے واقعات میں شریک ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے درمیان اور قصہ کے افراد کے موازنہ کرکے کچھ امور سے اتفاق اور کچھ سے اختلاف کرتا ہے اور کچھ پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں نہایت اختصار کے ساتھ قصوں کی تربیتی تاثیر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ ط مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰـکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْئٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.

’’بے شک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے، اس قوم کے لیے جو ایمان لے آئے‘‘۔

(یوسف، 12: 111)

3۔ تربیت بذریعہ صحبت صالحہ

انسان کی فکری وعملی تربیت میں ماحول کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ ماحول خواہ گھر کا ہو یا ادارہ یا بستی کا۔ انسان جیسے ماحول میں رہتا ہے، اس کے اثرات غیر شعوری طور پر وہ ضرور قبول کرتا ہے دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص بہت صالح نیک ہے مگر اس کے کچھ ایام غلط قسم کے لوگوں کے درمیان گزارنے پڑے تو اس غلط صحبت نے اس کی بہت سی اچھائیوں کو ختم کرکے بہت سی برائیوں کو نشوونما دے دی۔ اس طرح کوئی بہت خراب آدمی ہے مگر اسے اچھے لوگوں کی معیت نصیب ہوگئی تو وہ گناہوں سے توبہ کرکے نیک راستہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔

المرء علی دین خلیله فلینظر احدکم من یخالل.

(الترمذی، 1412ھ، ص: 673، الرقم: 2378)

’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اسے دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے‘‘۔

فطری خاصیت کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی نفسیاتی تربیت کرنے اور بہت سے عبرتوں اور حکمتوں کو سکھانے میں قصوں سے مدد لی ہے۔

4۔ تربیت بذریعہ حسن اخلاق:

حسن خلق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفت میں متصف گردانا اور سوء خلق کے تمام پہلوئوں سے آپ کی برات بھی فرمائی ہے۔ قرآن نے ارشاد فرمایا:

فَاجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ.

(القلم، 68: 50)

’’پھر ان کے رب نے انہیں برگزیدہ بنا لیا اور انہیں (اپنے قربِ خاص سے نواز کر) کامل نیکو کاروں میں (شامل) فرما دیا‘‘۔

حضرت انس بن مالک نے فرمایا:

کان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم احسن الناس خلقاً.

(مسلم، 2016ء، ص: 973، الرقم: 6017 )

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے عمدہ اخلاق والے تھے‘‘۔

5۔ تربیت میں تدریج و ترتیب

تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں تدریج ایک فطری اور ضروری چیز ہے۔ اگر تدریج کا خیال نہ رکھا جائے تو اصلاح و تربیت کا کام موثر نہیں ہوتا۔ زیر تعلیم و تربیت افراد کی خوبیوں اور خامیوں کا اچھی طرح تجزیہ کرکے ایک ایک خامی دور کرنا چاہئے اور ایک ایک خوبی پروان چڑھانا چاہئے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ کسی کی تمام خامیاں یک لخت ختم ہوجائیں تو یہ خام خیالی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کا نزول 23 سالوں کے عرصہ میں آہستہ آہستہ ہوا۔ اسی طرح سے اسلامی احکام و تعلیمات کا نفاذ یک لخت نہیں کیا گیا۔ بلکہ تدریج و ترتیب کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسی کا ثمرہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں جو کردار پروان چڑھا، وہ پائیدار اور مستحکم تھا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ اور آپ کی پوری حیات دعوت، تربیت کے حسن سے روشن ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کا گورنر اور معلم و مربی بناکر بھیجا تو تبلیغی و تعلیمی سلسلہ میں اسی تدریج اور ترتیب طبعی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

’’کہ تمہیں وہاں نصاریٰ کی قوم ملے گی، انہیں دین کی دعوت اس طرح دینا کہ اول ان کے سامنے کلمہ توحید پیش کرنا، جب وہ قبول کرلیں تو پھر انہیں نمازکا فریضہ بتانا، جب اسے بھی مان لیں تو کہنا کہ تمہارے مالوںمیں اللہ تعالیٰ نے تم پر زکوٰۃ بھی فرض کی ہے، جب وہ اسے تسلیم کرلیں تو پھر روزہ کی تلقین کرنا‘‘۔

(البخاری، 2010ء، ص: 391، الرقم: 1395)

6۔ تربیت میں مزاج و نفسیات کا لحاظ

تذکیر و تربیت معمولی کام نہیں ہے۔ انسان کے جذبات و احساسات کو تعمیری رخ دینا ایک کار دشوار ہے۔ اس میں ایک فرد کی تمام ناپسندیدہ عادات کو قابل قبول پسندیدہ عادات میں بدلنا ہوتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو، برتائو اور تمام معاملات میں لوگوں کے مراتب اور ان کی نفسیات کا پورا پورا خیال کرتے۔ آپ کو مردم شناسی میں کمال حاصل تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ:

امرنا رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ان ننزل الناس منازلهم.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں لوگوں کے مراتب کے مطابق پیش آنے کا حکم دیا‘‘۔

(مسلم 2016ء، ص: 14)

تربیت کا نبوی منہاج اور اس کے اثرات:

اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا تعلیم و تربیت کا عمل ہمہ وقت ساتھ ساتھ چلتا نظر آتا اور کوئی لمحہ ایسا نظر نہیں آتا جب دونوں میں سے کسی ایک پہلو سے غفلت برتی ہوگئی دراصل یہی آپ کی تعلیمات کی جامعیت و کاملیت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی ابتدائی آیات ہی میں علم کی غرض و غایت اور مقاصد کی نشاندہی کردی گئی۔ ان آیات میں مقاصد تعلیم کا تعین بھی ہوگیا کہ علم وہی کارآمد و مفید ہوگا جو معرفت خداوندی اور معرفت ذات سے آگاہ کرے۔ اگر کوئی علم ان مقاصد کو پورا نہیں کرتا تو وہ حقیقی معنوں میں علم ہی نہیں ہے۔ دوسری وحی جو سورۃ المدثر کی پہلی پانچ آیات پر مشتمل ہے واضح طور پر مربی کی شخصیت اور تعلیم و تربیت کے طریقہ کار کی نشاندہی کرتی ہیں:

یٰـٓاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنْذِرْ. وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ. وَ ثِیَابَکَ فَطَهِّرْ. وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ.

(المدثر، 72: 1،5)

’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔ اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔ اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔ اور (حسبِ سابق گناہوں اور) بتوں سے الگ رہیں‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف انفرادی سطح پر یا گھریلو سطح پر ہی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا بلکہ اس کے لیے ایسے مراکز بھی قائم کئے جن میں یہ کام وسیع پیمانے پر اور اجتماعی سطح پر سرانجام پائے۔ مکی دور میں اس کی بہترین مثال دار ارقم سے دی جاسکتی ہے۔

آپ تعلیم کتاب کے ساتھ ساتھ لوگوں کے نفوس کا تزکیہ بھی کرتے تھے، علم کے ساتھ عمل پر آمادہ کرتے تھے، خالق کے ساتھ مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لیے تیار کرتے تھے۔

آپ کی تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی زندگیوں کو آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے رنگ میں رنگ لیا۔ ان کی زندگیوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا عکس نظر آنے لگا۔ آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلیم و تربیت سے ایسے قدسی صفات افراد پیدا ہوئے جو آج بھی ساری انسانیت کے لیے نمونہ ہیں۔ جہاں ساری انسانیت کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نمونہ تقلید بنایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘

(الاحزاب، 33: 21)

وہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت، تعلیم و تربیت کے زیر اثر اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ وہ دنیا کے انسانو ںکے لیے راہبر و راہنما ٹھہرے۔ محسن انسانیت کے کارنامہ کے مبہوت کردینے والا یہ پہلو بڑا ہی اہم ہے کہ انسان اندر سے بدل گیا اور یکسر بدل گیا ہے۔ انسانی روپ میں جو خواہش پرست حیوان پایا جاتا تھا۔ کلمہ حق کے اثر سے وہ بالکل مٹ گیا اور معاً اس کی راکھ سے خدا پرست اور بااصول انسان ابھر آیا۔