اسلام میں تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت

ڈاکٹر فرخ سہیل

ایک بہترین معاشرے کی تشکیل میں افراد کی تعلیم و تربیت کو بہت اہمیت حاصل ہے لہذا افراد کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ حاصل کردہ علم سے معاشرتی منصوبوں کا بہترین انداز سے اجراء کرسکیں۔ اس کی اولین مثال انسان اول حضرت آدم علیہ السلام کی ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے آدم کی تخلیق کے بعد تمام اشیاء کا علم سکھایا جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 31، 32 کا ترجمہ ہے کہ:

’’اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے‘‘۔

مندرجہ بالا آیت کے ترجمے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اللہ نے آدم سے پہلے فرشتوں کو بھی علم سکھایا تھا مگر وہ آدم علیہ السلام کو سکھائے جانے والے علم سے مختلف تھا۔ کیونکہ آدم علیہ السلام  سے بنی نوع انسان پر مبنی ایک معاشرہ تشکیل پانا تھا۔ لہذا معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لے آدم علیہ السلام  کو علم سکھایا گیا۔ اس کے علاوہ آدم کو زمین پر اپنا خلیفہ نامزد کرنے کے بعد بنی نوع انسانی کی راہنمائی کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بوقت ضرورت اور حسب ضرورت ہدایت کا سلسلہ جاری مختلف زمانوں میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے اور ہدایت و راہنمائی پر مبنی علم کا نزول ہوتا رہا اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کو وحی پر مبنی علم کے ساتھ ساتھ حکمت بھی عطا فرمائی کیونکہ علم کا حصول اگرچہ ایک طرف عام انسانوں کے لیے ضروری ہے لیکن دوسری طرف حکمت کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کو منتخب کیا تاکہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے علم کی وضاحت و تفسیر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت سے کرسکیں جیسا کہ سورۃ البقرہ 269 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمارہا ہے کہ:

’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں‘‘۔

علم کی اقسام:

اسلام انسان کی عقلی و فکری تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتا ہے کیونکہ علم سے استفادہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تک وہ انسانی عقل تک رسائی حاصل نہیں کرلیتا جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا فرمان ہے کہ

’’علم دو طرح کے ہیں ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم نافع ہے اور ایک علم زبان پر ہوتا ہے یہ ابنِ آدم پر اللہ کی حجت ہے‘‘۔

(رواه الدیلمی)

اسی حدیث کو خطیب بغدادی یوں بیان کرتے ہیں:

’’اور ایک روایت میں ہے کہ علم دو طرح کے ہیں ایک علم دل میں راسخ ہوتا ہے اور ایک علم زبان پر جاری ہوتا ہے۔ پس دوسرا علم اللہ کے بندوں پر حجت ہے‘‘۔

یعنی علم کی دوسری قسم ایسی ہے کہ اگر اسے صحیح عمل میں نہ لایا جائے تو یہ علم بندوں کے خلاف حجت ہوگا یا ثبوت ہوگا۔

مذکورہ بالا روایات سے علم نافع کی اہمیت بتائی جارہی ہے کہ اللہ نے جب اپنے بندوں کو علم عطا کیا لیکن اگر وہ اس کے مطابق زندگی نہیں گزاریں گے تو یہی علم ان کے خلاف گواہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم و ہدایت اپنے بندوں کو عطا کیا وہ اس کے اس ودیعت کردہ علم کے مطابق زندگی گزاریں اور اگر وہ اس نعمت سے فیض یاب نہیں ہوں گے تو انہیں اس کے متعلق باز پرس ہوگی۔

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 338 میں مولا علی کرم اللہ وجہہ کا ایک جملہ رقم ہے کہ:

’’علم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سنا سنایا اور دوسرا وہ جو نفس و روح میں بس جائے۔ پس سنا سنایا علم فائدہ نہیں دیتا جب تک وہ دل میں راسخ نہ ہو‘‘۔

باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے علم کی جو دو اقسام بیان فرمائی ان کو علم مطبوع اور علم مسموع کا نام دیا علم مطبوع ایسا علم جو انسان کی طبع اور فطرت سے سرچشمہ لے یعنی ایسا علم جو انسان نے کسی سے نہیں سیکھا بلکہ اس کی اختراعی قوت ہے جبکہ علم مسموع سے مراد سنا سنایا علم ہے اور اگر علم مسموع، علم مطبوع میں تبدیل نہ ہوسکا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں جیسا کہ کچھ لوگ جن کے پاس علم مطبوع بالکل نہیں ہوتا اس کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت اچھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کی اختراعی قوت متحرک نہیں ہوتی جو اسے پروان چڑھاتی۔ لہذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علم کی عقل تک رسائی ہونا بہت ضروری ہے۔

معلم و متعلم کا کردار

تعلیم و تربیت کے حوالے سے معلم اور متعلم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تعلیم کے معنی ہیں یاد کرانا یعنی متعلم اپنے معلم سے جو علم سیکھتا ہے اسے یاد بھی کرتا ہے۔ ایسی صورت میں صرف معلومات متعلم کے دماغ میں ذخیرہ کی جارہی ہیں اور اگر ذخیرہ کردہ معلومات سے کچھ عملی اہداف حاصل نہیں ہورہے تو تعلیم بے مقصد ہے۔ لہذا تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ معلم کا فرض ہے کہ وہ متعلم کی فکری توانائی کو بھی پروان چڑھائے۔ اسے خود اعتمادی اور خود اختیاری بخشے اور متعلم کی ایجادی قوت کو حیات بخشے لہذا تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی تربیت بھی کی جائے۔

آیت اللہ مرتضیٰ مطہری اپنی کتاب ’’اسلام میں تعلیم و تربیت‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’معاشرے میں فکری و عملی شخصیت کا رشد و نمو یعنی مسائل میں تجزیہ و تحلیل کی قوت پیدا ہونا، ایک بنیادی مسئلہ ہے اور تعلیم و تربیت میں سکول کے اندر استاد کی ذمہ داری بچے کو کوئی چیز یاد کرانے سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کی بات کی تہہ تک پہنچنے والی قوت میں اضافہ ہو نہ کہ صرف اس کے دماغ میں معلومات ڈالتا رہے کیونکہ اگر معلومات کا دباؤ زیادہ ہوجائے تو بچے کا ذہن جمود کا شکار ہوجائے گا‘‘۔

ایک معلم کا یہ فریضہ اول ہے کہ وہ علم کے ساتھ ساتھ متعلم کی فکری تربیت بھی کرے۔ اپنی ساری توانائیاں اسے سبق حفظ کرانے پر نہ صرف کردے بلکہ اس سے استفادہ کرنے کی صلاحیت کو بھی بیدار کرے کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نافع علم وہی ہے جو انسان کے عمل میں جاری و ساری ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان کائنات اور خالق و مخلوق کے تعلق پر غورو فکر نہ کرنے جیسا کہ سورہ العنکبوت (43) میں ارشاد الہٰی ہے:

’’فرمادیجئے: تم زمین میں چلو پھرو اور پھر دیکھو (یعنی غورو فکر کرو) کہ اس نے مخلوق کی ابتداء کیسے فرمائی‘‘۔

اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں بارہا انسانوں کو دعوت غورو فکر دے رہا ہے کہ تم میری ذات پر بھی ایمان لاؤ تو میری نشانیوں پر تدبر و فکر کے ذریعے جیسا کہ العنکبوت کی آیت نمبر 49 کا ترجمہ:

’’اور یہ مثالیں ہیں ہم انہیں لوگوں (کے سمجھانے) کے لیے بیان کرتے ہیں اور انہیں اہل علم کے سوا کوئی نہیں سمجھتا‘‘۔

اللہ تبارک و تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ صحیح اہل علم وہ ہیں جو میری نشانیوں اور مثالوں پر غورو فکر کرتے ہیں جو کائنات اس کی موجودات اور انسان کے باہمی تعلق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تفکر تعلیم و تعلم کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ غورو فکر کرنے کے بعد ہی کسی نتیجے تک پہنچتا ہے۔ تفکر و تعقل اور تدبر سے ہی اپنی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے اسی لیے پروردگار عالم قرآن مجید میں بار بار غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔

جیسا کہ پہلی وحی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے تمہیں قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں جو وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا اور اس کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدائش کی حقیقت سے بھی آگاہ کیا کہ اے انسان تمہاری حیثیت ایک گوشت کے لوتھڑے کی تھی اور تجھے پروردگار نے علم عطا کیا اور تجھے فرشتوں کے سامنے لائق سجدہ بنادیا۔

اللہ تبارک تعالیٰ مجید میں ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر ہوسکتے ہیں‘‘۔

تعلیم و تعلم کے حوالے سے ایک اور چیز بھی بہت اہم ہے کہ علم کس قسم کا ہونا چاہئے تو یہ بات واضح ہے کہ اسلام نے صرف دینی علوم کے حصول کا حکم نہیں دیا بلکہ دینی احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جب احکاماتِ الہٰیہ پر عمل ہوگا تو انسان کو دیگر ذمہ داریوں سے آگاہی حاصل ہوگی۔ یعنی اگر ہم قرآن سے کچھ سیکھیں گے تو اس پر عمل کرنا بھی لازم آئے اور عمل قرآن کی تفسیر کے بغیر ممکن نہیں اور یوں علم کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے گا کیونکہ انسان پر عینی واجبات کے علاوہ کفائی واجبات بھی لازم آتے ہیں یعنی ایسے واجبات جو تقسیم کار کی بنیاد پر ہوں جیسا کہ ایک ڈاکٹر کا ہونا ضروری ہے اور اس حوالے سے میڈیکل سائنس واجب کفائی ہے اور ڈاکٹر بننا بھی علم کے بغیر ممکن نہیں۔ (اسلام میں تعلیم و تربیت)

اسی طرح تجارت کی مثال ہے کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو چلانے کے لیے علم تجارت حاصل کرنا بھی واجب کفائی ہے۔ اسی لئے تو پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا کہ

طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة.

کہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے اور دین کا علم حاصل کرنا علم کی ایسی قسم ہے کہ جس سے انسان اپنے دینی فرائض کی بجا آوری بآسانی کرسکتا ہے یعنی معرفت الہٰی کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی ذمہ داریوں اور فرائض بھی ادا کرنا لازم ہیں اور اسلامی معاشرے کا حسن بھی یہی ہے کیونکہ جب تک ہم اپنی ذمہ داریوں سے متعلق علم وآگاہی نہیں رکھیں گے اس وقت تک ان پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ لہذا ایک مسلمان پر لازم آتا ہے کہ وہ ایسا علم حاصل کرے جو اسے اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے تاکہ وہ اپنے فرائض پر بآسانی حسن و خوبی سے عمل پیرا ہوسکے۔

مختصراً یہ کہ اسلامی تعلیم و تربیت میں فکری ہدایت و راہنمائی کو بہت اہمیت حاصل ہے اور دوسری اہم بات یہ کہ اسلام تعلیم کی کوئی حد مقرر نہیں کرتا اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ یعنی علوم کا حصول اس لیے ضروری ہے کہ انسان اس کے توسط سے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے اور حقیقی عالم وہ ہے جس کو علم کی روح پر عبور حاصل ہو کیونکہ بنیادی طور پر علم حقیقت جوئی اور حق کی تلاش فطری استعداد سے شروع ہوتا ہے چونکہ انسان فطری طور پر حقیقت طلب ہے۔ اس لیے وہ حقائق کی اصلیت جاننا چاہتا ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک اسے روح علمی تک رسائی حاصل نہ ہو۔ لہذا روح علمی غیر جانبدارانہ حصول علم کا نام ہے جوکہ اندھی تقلید سے بے نیاز، تعصب سے پاک، جمود و غرور سے خالی اور خود ساختہ و بناوٹی دلیلوں سے مبرّا ہو۔ لہذا ایک معلم کا فرض ہے کہ وہ اپنے متعلم کو روحِ علمی عطا کرے تاکہ وہ عالم باعمل بن سکے متعلم کے اندر موجود قابلیت کو حقیقی صورت میں پروان چڑھاتے ہوئے اس کی باطنی صلاحیتوں کو جلا بخشے۔