ماہِ صفر اور غلط تصورات

عابدہ قاسم

صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے۔ اسلام سے پہلے اسے منحوس سمجھا جاتا تھالیکن مسلمان اسے صفر الخیر یا صفر المظفر(کامیابی کا مہینہ) کہتے ہیں۔ یہ مہینہ زمانہ جاہلیت میں منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا سمجھا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی بیاہ، سفرکرنا، لین دین) قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آ رہا ہے۔

ذیل میں اس مضمون کے تحت درج ذیل موضوعات کی وضاحت کی جائے گی۔

  1. ماہِ صفر کی وجہ تسمیہ
  2. دورِ جاہلیت میں ماہِ صفر کے متعلق نظریات
  3. ماہِ صفر قر آن و حدیث کی روشنی میں
  4. ماہِ صفر اور غلط تصورات

1۔ ماہِ صفر کی وجہ تسمیہ

صفر کا لفظی مطلب’’خا لی ہونا ‘‘ ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے ’’صفر المکان‘‘یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے کیونکہ وہ تین حرمت والے مہینوں (ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم) کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لئے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ سے بے شمار انسان قتل ہوتے، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہو جاتیں۔

(ابنِ کثیر، تفسیر ابن کثیر (2004ء).جلد دوم، ص:604)

عربوں نے اس ویرانی اور بربادی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے اور اس سے کنارہ کشی کی بجائے اس ماہ کو ہی منحوس، بلاؤں اور مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا۔

2۔ دورِ جاہلیت میں ماہِ صفر کے متعلق نظریات

عربوں کے ہاں ماہِ صفر میں دو بڑی برائیاں تھیں:

1۔ ماہ ِ صفر کواپنی جگہ سے آگے پیچھے کرنا

مشرکین حرمت والے مہینے کو موخر کرتے رہتے تھے۔ محرم حرمت والا مہینہ تھا اس میں قتال حرام تھا مشرکین عرب لوٹ مار اور قتل و غارت کرنے والے لوگ تھے۔ ذوالقعدہ، ذوالحج اور محرم یہ تینوں متواترحرمت والے مہینے تھے ان تین مہینوں میں قتال سے صبر کرنا مشرکینِ عرب کے لئے بہت مشکل اور دشوار تھا انہیں جب محرم کے مہینے میں کسی سے لڑنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ محرم کے مہینہ کو موخر قرار دے دیتے اور صفر کے مہینہ کو محرم قرار دیتے اور اصل محرم کے مہینہ میں قتال کرتے اسی طرح وہ ہر سال محرم کے مہینہ کو ایک ماہ موخر کرتے رہتے حتی کہ جس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کیا اس سال گیارہ مرتبہ محرم کا مہینہ موخر ہو کر اپنی اصل ہیئت پر آچکا ہے جس ہیت پر وہ اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔

(سعیدی، تبیان القرآن، جلد: 5، ص: 133)

2۔ ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا

مشرکین ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے تھے لڑائی اور قتل و غارت کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے تھے اور مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے اعمال درست کرتے وہ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے۔

3۔ ماہِ صفر قر آن و حدیث کی روشنی میں

قرآن کی روشنی میں:

مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اﷲِ ز وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ط وَاَرْسَلْنٰـکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاط وَکَفٰی بِاﷲِ شَهِیْدًاo

(القرآن، 4: 79)

(اے انسان اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر) اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابیٔ نفس کی طرف منسوب کر)، اور (اے محبوب!) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور (آپ کی رسالت پر) اللہ گواہی میں کافی ہے۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اﷲِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتٰبِ اﷲِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَـلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّةً کَمَایُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّةًط وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اﷲَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَo

(القرٓآن، 9: 36)

بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں (اَز خود جنگ و قتال میں ملوث ہو کر) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا اور تم (بھی) تمام مشرکین سے اسی طرح (جوابی) جنگ کیا کرو جس طرح وہ سب (اکٹھے ہو کر) تم سب پر جنگ مسلط کرتے ہیں، اور جان لو کہ بے شک اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں

عن ابی هریرة قال قال النبی لا عدوی ولا صفر ولا هامة.

(صحیح البخاری، کتاب الطب، باب الهامة، رقم: 5770، دارالمعرفة بیروت)

حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا، نہ بد شگونی ہے، نہ صفر اور اُلّو (کی نحوست) کی کوئی اصل ہے۔

ایک اعرابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر کیا وجہ ہے کہ اونٹ ریگستان میںہرنوں کی طرح پھر رہے ہوتے ہیں پھر ان میں ایک خارش زدہ اونٹ داخل ہوتا ہے اور سب کو خارش میں مبتلاء کر دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پہلے اونٹ میں خارش کس نے پیدا کی تھی؟

(سعیدی، شرح صحیح مسلم، جلد 6، کتاب السلام، باب: لا عدویٰ، رقم: 5672، ص: 596)

4۔ ماہِ صفر اور غلط تصورات

اس ترقی یافتہ دور میں بھی ماہِ صفر المظفر میں نحوست سے متعلق لوگوں کے غلط نظریات ختم نہیں ہوئے بلکہ جیسے ہی اس با برکت مہینے کی آمد ہوتی ہے تو نحوست کے وہمی تصورات کے شکار بعض نادانوںکی جانب سے اس پاکیزہ مہینے سے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں پر مشتمل پیغامات پھیلائے جاتے ہیںاور اس ماہ کو انتہائی منحوس تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی فرماتے ہیں کہ:

’’ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے کے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ خصوصا ماہِ صفرکی ابتدائی تیرہ تاریخیںبہت زیادہ نجس مانی جاتی ہیںاور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں‘‘۔

بهار شریعت، حصه: 16، 3: 659

اسلامی مہینوں کے فضائل میں شاہ عبد الحق محدث دہلوی کا قول نقل کیا گیا ہے کہ عوام اسے (یعنی صفر کے مہینے کو) بلاؤں، حادثوںاور آفتوں کے نازل ہونے کا مہینہ قرار دیتے ہیں یہ عقیدہ باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

(محمد عدنان چشتی عطاری، اسلامی مهینوں کے فضائل، ص: 44)

تیرہ تیزی کی شرعی حقیقت

اس کی ابتدائی تیرہ تاریخوں اور اس مہینے کے آخری بدھ کے بارے میں بھی بہت سی خلافِ شریعت باتیں مشہور ہیں مثلا ابتدائی تاریخوں میں چنے یا گندم ابال کرنیاز دلائی جاتی ہے، مخصوص تعداد میں سورہ مزمل کا ختم کروایا جاتا ہے، ساحل ِ سمندر پر آٹے کی گولیاں بنا کر مچھلیوں کو ڈالی جاتی ہیں۔ ان سب کے پیچھے لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوتا ہے کہ ماہِ صفر میں جو آفات و بلیات نازل ہوتی ہیں ان کاموں کے کرنے سے یہ بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ یاد رہے مصیبتیں اور آزمائشیں اللہ پاک کی طرف سے آتی ہیں اور ان کے لئے کوئی دن یا مہینہ مخصوص نہیں۔ قرآن خوانی یا نیاز فاتحہ کرنا مستحب کام ہے اور ہر طرح کے رزقِ حلال پر ہر ماہ کی کسی بھی تاریخ کوکسی بھی وقت دلوائی جا سکتی ہے لیکن محض وہم کی بنا پر یہ سمجھ لینا کہ اگر تیرہ تیزی کی فاتحہ نہ دلوائی گئی اور چنے ابال کر نہ تقسیم کئے گئے توگھر کے کمانے والے افراد کاروزگار متاثر ہو گایا گھر والے کسی مصیبت کا شکار ہو جائیں گے یہ نظریہ بے بنیاد ہے۔

ماہِ صفر کا آخری بدھ

(ابتدائی تیرہ تاریخوں کے علاوہ ماہِ صفرکے آخری بدھ کے بارے میںبھی بہت سی غلط باتیں مشہور ہیںجیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے کہ ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ(بدھ کا دن) ہندوستان میں منایا جاتا ہے۔ لوگ اپنے کاروبار بند کر دیتے ہیں، سیرو تفریح و شکار کو جاتے ہیں، پوریاں پکتی ہیں، خوشیاں منائی جاتی ہیںاور کہتے ہیں کی اس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسلِ صحت فرمایا تھااور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے بنیاد ہیںبلکہ ان دنوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامرض شدت کے ساتھ تھا۔

بهار شریعت، حصه: 16، 3: 659

ماہِ صفر میں بلائیں، آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے۔ اللہ تعالی کی تقدیر و تاثیر میں زمانے کا کوئی دخل نہیں۔ ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے اگر ایک شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہتا ہے تو یہ مہینہ اس کے لئے مبارک ہے اور دوسرا شخص اس مہینہ میں گناہ کرتا ہے، حدود اللہ کو پامال کرتا ہے تو اس کی بربادی کے لئے اس کے اپنے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے۔

خلاصہ

جو قومیں دینِ فطرت اسلام سے اعراض کرتی ہیں وہ اسی قدر توہمات اور بد شگونیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالی کی ذات پر کامل و اکمل یقین انسان کو مضبوط اور مستحکم بنا دیتا ہے پھر انسان کسی دن یامہینے کو منحوس نہیں سمجھتابلکہ ہر خیر و شر کا اللہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھتا ہے۔ اس ماہ میں دیگر مہینوں کی طرح درودِپاک کی کثرت کی جائے، نمازِ پنجگانہ کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جائے اور اورادو وظائف کئے جائیں۔