اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال

ایمن سہیل

سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ نبی محترم و اکرم خلق عظیم کے اس اعلیٰ ترین منصب پر متمکن تھے کہ جس کی نظیر تمام عالم میں نہیں مل سکتی۔ آپ کے عمدہ ترین اخلاق کا تعارف قرآن مجید میں پروردگار یوں کروارہے ہیں کہ:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

(القلم، 68: 4)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی نوع انسان میں اعلیٰ و ارفع اور پاکیزہ و مقدس ترین انسان تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ’’اخلاق عالیہ‘‘ کا ایسا پیکر تھی کہ حضرت عائشہ سے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ

فان خلق نبی صلی الله علیه وآله وسلم الله کان القرآن.

’’آپ کے اخلاق قرآن کریم ہیں۔‘‘

یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل سراسر قرآنی احکامات کے مطابق ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ جس کام سے آپکو منع فرماتے ہیں وہ کام آپ سے کبھی سرزد نہیں ہوا کیونکہ آپ کا نفسِ مبارک ’’فطرت سلیمہ‘‘ کی اعلیٰ ترین کیفیات کا حامل تھا۔ بشری صفات کے علاوہ ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الوہی اخلاق کی حامل تھی اور یہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر خاص کرم تھا اور اسی وجہ سے آپ کے اخلاق کو ’’خلق عظیم‘‘ کہا گیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو بھی اعلیٰ اخلاق اپنانے کی تعلیم دی جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے وہی شخص مجھے زیادہ محبوب ہے اور قیامت کے دن وہی میری مجلس کے زیادہ قریب ہوگا جس کے اخلاق بہتر ہوں گے اور تم میں سے وہ شخص مجھے ناپسند ہے اور وہی قیامت کے دن میری محفل سے دور ہوگا جو زیادہ باتیں کرتا ہو۔ گلہ پھاڑ کر لمبی گفتگو کرے اور متکبر بھی ہو‘‘۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب اپنی کتاب ’’حسن اخلاق‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ:

’’آپ کے لیے خلق عظیم کا جو لفظ قرآن پاک میں آیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے باطن میں مشاہدہ حق کی حلاوت محسوس کرتے تھے اور آپ نے دوسرے پیغمبروں سے زیادہ خدا کی نعمتوں کو قبول کرکے ان سے فائدہ اٹھایا۔ اسی لیے تو اقبال رحمۃ اللہ علیہ بے ساختہ کہہ اٹھے:

حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

شیخ ابن عطار کے مطابق خلق عظیم کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اختیار حاصل نہیں تھا آپ نے اپنے نفس اور خواہشات کو فنا کردیا تھا اور آپ خدا کے حکم کے ماتحت تھے اور اس طرح آپ اخلاق خداوندی کے ساتھ متصف ہوتے ہوئے ذات حق تک پہنچ گئے آپ سے تمام دنیوی لذتوں اور خواہشات کو ترک کرادیا گیا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شریفانہ اخلاق دس ہیں۔ جیسا کہ:

  1. سچ بولنا
  2. دنیا سے قطعی ناامیدی رکھنا
  3. سائل پر بخشش کرنا
  4. پڑوسی یا دوست کا ہر طرح سے خیال رکھنا
  5. احسانات کا بدلہ دینا
  6. امانت داری
  7. صلہ رحمی
  8. حقوق ادا کرنا
  9. مہمان نوازی
  10. حیا داری

روایت کے مطابق جب نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو اسے اخلاق کی ہدایت فرمائی کہ:

’’اے معاذ میں تمہیں ہدایت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو، عہدو پیمان کو پوراکرو، امانت ادا کرو، خیانت چھوڑ دو، پڑوسیوں کی حفاظت کرو، یتیم پر رحم کرو، نرم گفتگو کرو، سلام کو پھیلائو، اچھے کام کرو، امیدیں کم رکھو، حساب سے ڈرو، تواضع کرو، کسی شریف اور بردبار آدمی کو گالی دینے سے گریز کرو، سچے انسان کو جھٹلانے سے پرہیز کرو، کسی گناہ گار سے کوئی توقع نہ رکھو، انصاف پسند حاکم کی نافرمانی نہ کرو، زمین میں فتنہ نہ پھیلائو، میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ہر پتھر، مٹی یا درخت پر سے گزرتے ہوئے اللہ سے ڈرو، ہر گناہ سے توبہ کرو، اگر گناہ پوشیدہ تو توبہ بھی پوشیدہ کرو اور اگر گناہ اعلانیہ ہو تو تم اعلانیہ توبہ کرو۔‘‘

اسی طرح حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ہے کہ:

’’حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی چیز جو حساب کے ترازو میں رکھی جائے گی، حسن اخلاق سے زیادہ بھاری نہیں ہوگی۔‘‘

ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ ہر انسان کی زندگی میں حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور جب ایک انسان میں مذکورہ تمام صفات مجتمع کردی جائیں تو وہ اخلاق کا مکمل ضابطہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ نیک لوگوں کا دائرہ کار، صداقت، امانت، دیانت، شجاعت، سخاوت، صبرو اعتدال، ایثار حیا، وفائے عہد، اخوت و محبت پر مشتمل ہے اور ایک سچے مسلمان میں ان سب صفات کو کچھ یوں سمودیا جاتا ہے جسے پھول میں خوشبو، نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ان تمام صفات کا مرقع تھی۔ آپ کی سخاوت بے پایاں تھی۔ آپ کا پیکر سب سے حسین اور آپ کے اخلاق سب سے بڑھ کر تھے۔ آپ کی معاشرت سب سے بہتر تھی اور آپ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔ لیکن جب حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اس وقت آپ کے جلال کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی۔ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ متواضع تھے، گھر والوں کی ضروریات خود پوری کرتے۔ کمزوروں کے ساتھ نرمی سے پیش آتے۔ آپ حیا میں بلند مقام رکھتے تھے۔ کھانے میں کبھی عیب نہ نکالتے، ہدیہ قبول کرلیتے تھے مگر صدقہ قبول نہ کرتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے جوتا مرمت کرلیتے، پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے، مریض کی عیادت کرتے اور امیر و غریب کی دعوت قبول کرلیتے۔ آپ کے پاس دنیاوی ساز و سامان بہت کم تھا۔ آپ کثرت سے ذکر کرنے والے اور ہمیشہ غورو فکر کرنے والے تھے۔ آپ کی ہنسی اکثر اوقات صرف تبسم ہوتا۔ آپ خوش طبع تھے اپنے اصحاب کی تالیفِ قلب فرماتے اور قبیلے کے سرداروں کی عزت کرتے تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا: وہ کون سے اعمال ہیں جن کی بدولت اکثر لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو آپ نے فرمایا:

’’تقویٰ اور حسن اخلاق۔‘‘

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ قاری کو صرف تاریخی واقعات و حالات سے آگاہی نہیں دیتا بلکہ قاری کو اسلامی حقائق کے اصول و ضوابط اور احکام کو سمجھنے کا شعور بھی بخشتا ہے اور نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کو عملی شکل میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق بھی ملتی ہے کیونکہ آپ کی شخصیت مبارکہ تمام مذکورہ صفات کا مظہر تھی اور اسلامی حقائق کی کامل ترین شکل رسول اللہ کے احوال اور حیات طیبہ کا مطالعہ نہ صرف آپ کی نبوی حیثیت کی شناخت میں مدد دیتا ہے بلکہ عقیدہ و احکام کے ساتھ ساتھ اخلاق سے متعلق صحیح اسلامی تعلیمات بھی میسر آتی ہیں۔ اس داعی اعظم اور معلم اخلاق کے طریقہ ہائے تعلیم و تربیت مسلمانوں کے لیے مشعل راہ اور نفع بخش ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات نفس کا ظہور اس لیے ہوا کہ امت کی اصلاح ہوسکے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکرم نے فرمایا کہ خدا کے پاس اخلاق کا خزانہ جمع ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے یہ خزانہ عنایت فرماتا ہے اور یوں عبد اپنے معبود کے خلق کا مظہر بن کر الوہی خلق کا پیکر بن جاتا ہے اور پھر وہ خلق عظیم کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔