حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے کلام کے لیے قرآن سے رہنمائی لی

سمیّہ اسلام

علامہ محمد اقبال،جو تقریباً پون صدی کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پاکستان قوم کے فکر و خیال پر اور اسی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے شاعر ہیں۔ وہ اپنی شاعری سے محض ہمارے دلوں کو نہیں گرماتے ذہنوں کو بھی بیدار کرتے ہیں او ر وہ محض شاعر نہیں تھے بلکہ اس قوم کے سب سے بڑے فکری رہنما کا درجہ رکھتے ہیں جس قدر ان کے فلسفیانہ خیالات پر آراء پیش کی جاتی ہیں یا ان کے شاعرانہ کلام پر جتنی گفتگو ہوتی ہے۔ اسے سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا ہمارے ادبی منظر کا کوئی دوسرا شاعر ان کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ بھارت میں بھی اقبال کو ابوالکلام سے زیادہ پڑھا جاتاہے۔ ان کے کلام کا زیادہ حصہ فارسی زبان میں ہے۔ ایران کی یونیورسٹیوں میں اگر کسی غیر ایرانی شاعر پر سب سے زیادہ کام ہوا ہے تو وہ شاعر مشرق ہیں۔ علامہ کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ بیسویں صدی میں پوری مسلم امہ کے روشن ضمیر کا درجہ رکھتے تھے تو غلط نہ ہو گا۔

شاعر مشرق، حکیم الامت، حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام صرف اتنا ہے کہ ہم مسلما ن اپنی کھوئی ہوئی دولت یعنی قرآنِ پاک کو اپنی سینوں سے لگالیں تو ہمارا زوال عروج میں بدل سکتا ہے۔ ایک جگہ تو باقاعدہ انہیں الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

بلاشبہ اقبال نے اپنی بیشتر شاعری کو مسلمانوں کیلئے قرآن کی تعلیمات سے آگاہی کا ایک موثر ذریعہ بنایا اور اپنے پراثر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے بڑے احسن اور دلنشین انداز میں روشناس کروایا۔ اقبال نے قرآن کے آفاقی پیغام کو ہوبہو اپنے شعروں کے قالب میں ڈھال کر من و عن اسی طرح بیان کر دیا۔ قرآنی پیغام پر مبنی شاعری نے نہ صرف عام مسلمانوں میں جذبہ ایمانی کی نئی روح پھونک دی بلکہ قرآنی تعلیمات کے بیان نے ان کی شاعری میں ایک ایسی لازوال شادابی و آفاقیت پیدا کر دی کہ ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا یہ کلام تروتازہ و شاداب ہے۔ درج ذیل چند اشعار علامہ اقبال کی جانب سے قرآنی آیات کو نثری پیرائے سے ہوبہو شعری اسلوب میںڈھال کربیان کرنے کی عکاسی کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَهُدًی لِلْعَالَمِینَ.

بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کیلئے مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور سارے جہانوں کے لئے ہدایت۔

(آل عمران، 3: 96)

علامہ اقبال یہی بات اپنے کلام میں اس طرح کہتے ہیں:

دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

قرآن پاک فرماتا ہے:

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ.

کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے۔

(النساء: 82)

علامہ اقبال اسی پیغام کو اپنے شعر کی صورت میں یوں بیان کرتے ہیں:

کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

ہمیں خوب جان لینا چاہیے کہ ہماری آج کی زبوں حالی کی وجہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام ہی کو تو فراموش کرنا ہے، جو سراسر قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے کلام کے لئے ہمیشہ قرآن سے رہنمائی لی ہے۔اس بارے میں علامہ فرماتے ہیں کہ مجھے قیامت میں خوار اور رسوا کیا جائے، اگر میں قرآن کے علاوہ کچھ اور کہوں تو مجھے ختم کر دیا جائے اور قوم کو میرے شر سے محفوظ رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اتنی بڑی گزارش اقبال جیسا مردِ قلندر ہی کر سکتا ہے۔

تیرہویں صدی عیسوی میں ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ و برباد کردیا ۔ پندرھویں صدی عیسوی میں عظیم اندلس سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا ۔ اور پھر انیسویں صدی میں ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی عظیم سلطنت کا خاتمہ ہوگیا ۔ اور اسی طرح بغداد، پھر غرناطہ اور پھر دہلی میں یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے عروج کا سورج غروب ہوا تو امتِ مسلمہ میں ایک نہ ختم ہونے والی مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ الغرض مسلمان اکیسویں صدی میں ہر سطح پر خواہ ریاستی سطح ہو یا معاشی، علمی سطح ہو یا عملی، کسی بھی طور پر مضبوط نہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ کوئی اصلاحی صورت بھی نظر نہیں آتی۔

ایسے وقت میں جس شخصیت نے نوجوان نسل کو تدبر و فکر کی دعوت دیتے ہوئے اسلام اور مغربی تہذیب کا موازنہ پیش کیا وہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ہی تھے جنہوں نے مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کابار بار موازنہ پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کیا تاکہ وہ خود کو پہچان سکیں۔

اپنی ملت پر قیاس اقوام ِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ِ ہاشمی

اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس 21 مارچ 1932ء میں خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کہا۔

"میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا سیاست سے تعلق نہ ہو۔ ان کا بڑا مقصد نوجوانوں کی خوابیدہ روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اُن کو آگاہ کیا جائے کہ اسلام نے انسانی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں کیا کارنامے انجام دیے اور مستقبل میں مزید کیا امکانات ہوسکتے ہیں۔‘‘

مجموعی طور پر دیکھا جائے توعلامہ اقبال نوجوان نسل کوجمودکے دور سے نکل کرآگے بڑھنے کے لیے انگیخت کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے زمانے کے جمود کا ذکرکرتے ہوئے نوجوان نسل کو تبدیلی اورارتقاء میں اپنا کردار ادا کرنے کی طرف راغب کیا ہے۔مغرب میں آنے والی تیز رفتار تبدیلیوں اور اپنے ہاں کے جمہود پروہ اظہار ِرنج کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ نئے معرکوں کی سکت جوانوں میں ہی ہوتی ہے وہی جرأت مندی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ وہ تبدیلی کو نسبتاً جلد قبول کرتے ہیں۔علامہ اقبال کی شاعری میں ہمیں اس بات کا بڑا واضح پیغام ملتا ہے کہ انسان مادی علم کی حدوں سے نکل کر چیزوں کی معنویت اورروحانیت پر بھی غور کرے۔

اُدھر اقبال کی فکر کا خورشید ِ روشن، ادھر تاریک راتوں میں کھڑے ہم، ادھر کلمہ توحید کا اقبالی مفہوم، الحاد و بدعت کی دلدل میں پھنسے ہم،اُدھر اقبال کا پیغامِ اتحاد، اِدھرفرقہ بندی اور ذاتیں، اُدھر پیامِ مشرق، اِدھر تہذیبِ مغرب، اُدھر بانگِ درا، اِدھر مرضِ لادوا، اُدھر بالِ جبریل۔

آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم علامہ اقبال کی اس تجویز پر صدق دل سے عمل کریں تاکہ نوجوانوں کا قبلہ درست ہوسکے اور وہ مایوسی سے باہر نکلے سکیں۔اقبال نے اپنی نظم میں ایک نوجوان کے نام میں نوجوانوں کو اپنے اندر عقابی روح اور شاہین جیسی خصوصیات پیدا کرنے کی تلقین کی۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُن کو اپنی منزل آسمانوں میں

اقبال نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل انسان بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اُن اوصاف سے آراستہ کرلیں جو خود اُن کی نشوونما و ترقی کے لیے ضروری ہیں اور جو عظیم قوم کی تعمیر و تشکیل کے لیے معاون بن سکتی ہیں۔ اقبال کا مثالی نوجوان خود دار، تعلیم یافتہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے۔

اقبال کی شخصیت سرحدوں سے ماورا ہے۔وہ ایک عالمی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ہم اگر ان سے محروم رہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا پیغام دنیا کی کسی دوسری قوم کے لیے تحرک بخش نہیں ہوسکتا۔ آج بھی اقبال کا پیغامِ حرکت و انقلاب کا باعث بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔دنیا بھر میں آج بھی علامہ اقبال سے روشنی حاصل کرنے والے لوگ، ممالک اوردانشور موجود ہیں لیکن پاکستان میں اس حوالے سے صورت حال افسوس ناک ہے۔خاص طور پر اس حوالے سے کہ ہم رجعت پسند قوتوں اور افراد کے زیر اثر اپنا بہت سا نقصان کر چکے ہیں۔ ہمیں ترقی و ارتقاء کے لیے اولاً قرآن مجید نے حضور نبی اکرمa پھر ثانیاً پیامبر شعرائ، ادباء اور مفکرین کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جن میں اقبال یقینی طور پر بہت نمایاں ہیں۔