گلدستہ: صبر کا انتقام اللہ خود لیتا ہے

مرتبہ: ماریہ عروج

حضرت شہاب الدین ابو حفص عمر بن محمد سہروردی رحمۃ اللہ علیہ:

آپ سلسلہ سہروردیہ کے بانی ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ آپ 536ھ میں عراق کے قصبہ سہرورد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت کے باعث اس قصبے کو شہرت ملی۔

آپ نے سلوک کی منازل اپنے چچا شیخ ابو نجیب سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ طے کیں۔ آپ کے چچا حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بیٹھتے تھے۔ ایک دن آپ کو لے کر بارگاہ غوثیت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ شہاب الدین علم الکلام سے بہت شغف رکھتا ہے۔ مدعا یہ تھا کہ بھتیجا کلامی بحثوں میں الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی معارفت میں مقام حاصل کرے۔ سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے کتابوں کے نام دریافت کیے پھر اپنا دست اقدس سینے پر رکھا تو علم الکلام کے سارے مسائل بھول گئے اور قلب باطنی علوم سے منور ہوگیا۔

آپ نے خلیج فارس کے جزیرہ عبادان میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ عرصہ دراز تک عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔ بیس ابدال کی صحبت سے بہرہ یاب ہوئے۔ حج کی سعادت کئی بار نصیب ہوئی۔ بیت اللہ شریف میں کئی سال گزارنے کے بعد بغداد واپس آئے اور وہیں 632ھ میں وصال فرمایا۔

ایک مرتبہ فرمایا: مبتدی سالک کو دنیا داروں کی صحبت سے بچنا چاہئے۔ ان سے تعلق رکھنا زہر قاتل ہے۔ مبتدی سالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ قرآن حکیم کی تلاوت کرے اور کچھ قرآن حفظ بھی کرے۔ جس شخص نے تلاوت کو اپنی خلوت میں لازم کرلیا اور اس کی پابندی کی تو یہ اسے نماز کی طرح یکساں فائدہ دے گی۔ بشرط یہ کہ جب زبان سے تلاوت کرے تو زبان کو کسی دوسرے کلام میں مشغول نہ کرے، اسی طرح جب قرآن کا معنی قلب میں کرے اور اسے حدیث نفس سے نہ ملائے، استقامت و مداومت سے یہ عمل بجا لاتا رہے تو ارباب مشاہدہ میں سے ہوجائے گی۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ:

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: انسان پر چھ چیزوں کی وجہ سے تباہی آتی ہے:

  1. اعمال صالحہ سے کوتاہی کرنا
  2. ابلیس کا فرمانبردار ہونا
  3. موت کو قریب نہ سمجھنا
  4. رضائے الہٰی کو چھوڑ کر مخلوق کی رضا مندی حاصل کرنا
  5. تقاضائے نفس پر سنت کو ترک کرنا
  6. اکابرین کی غلطی کو سند بناکر ان کے فضائل پر نظر نہ کرنا اور اپنی غلطی کو ان کے سر تھوپنا

پھر فرمایا: جس طرح ہر جرم کی ایک سزا ہوتی ہے، اسی طرح ذکر الہٰی سے غفلت کی سزا دنیاوی محبت ہے۔