اداریہ: معاشرتی انصاف کا فروغ اور کرپٹ پریکٹسز کا خاتمہ ایک بڑا چیلنج

چیف ایڈیٹر

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ پہلی امتیں اس لیے تباہ ہو گئیں کہ جب ان میں سے کوئی طاقتور جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا تھا اور کمزوروں کی کڑی گرفت کی جا تی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قوموں کے زوال اور تباہی کی بڑی وجہ قانون کا یکساں اطلاق اور نفاذ نہ ہونا بتائی۔ عہد نبوی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فاطمہ نامی خاتون کی چوری کا کیس آیا تو اسے چھوڑ دینے کی سفارش پر آنے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتیں تو میں اسے بھی سزا دیتا۔ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ کے لیے منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھڑے تھے سوال کیا گیا ہمیں جو کپڑا ملا اس کا کرتا نہیں بنا آپ کا کیسے بن گیا؟ جواب ملنے پر خلیفہ راشد کا خطبہ سماعت کیا گیا۔ کوئی بھی سوسائٹی اور معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر نہیں پنپ سکتا۔ آج ہم جس عہد میں زندہ ہیں یہ پرفتن دور ہے، حلال،حرام کی تمیز ختم ہو کررہ گئی ہے، جھوٹ، رشوت، چوری، کرپشن ،کمیشن اور بدعنوانی عروج پر ہے، اس پر مصداق کہ انصاف کا بول بالا نہیں ہے، ملزم کی حیثیت کے مطابق اس کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے، آج ہم جس تباہی ،مایوسی اور اشتعال و انتشار کا شکار ہیں اس کی بڑی وجہ قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔ 9 دسمبر کو ہر سال اینٹی کرپشن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کرپشن کے خاتمے کے لیے بڑے بڑے بیانات میڈیا کی زینت بنتے ہیں مگر افسوس کرپشن اور بدعنوانی کی لعنت سے ہم نجات حاصل نہیں کر سکے بلکہ اس کرپشن کا گراف بڑھتا چلاجارہا ہے، کرپشن نے سرکاری اداروں کو تباہ کردیا ہے، جواب دہی کا منظم نظام نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن نے ایک کلچر اور ضرورت کی شکل اختیار کر لی ہے، آئین کا آرٹیکل 37 کہتا ہے معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے گا فی الوقت کرپشن بہت بڑی معاشرتی برائی اورانصاف کے فروغ کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے، کرپشن فرد کے بدترین استحصال کی ایک بڑی وجہ ہے، عوام خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیتے ہیں جن سے محکمانہ امور و معاملات انجام پاتے ہیں، ہماری ٹیکس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور تعلیم ،صحت اور انفراسٹرکچر کے شعبہ جات جو کسی بھی ملک کی ترقی اور فلاحی مملکت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں کو ملنے والا عوامی پیسے کا ایک بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، یہ ریاست کے شہری کے ساتھ بہت بڑا ظلم اور استحصال ہے کہ وہ کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے بنیادی سہولتوں سے محروم رہ جاتا ہے، پاکستان میں گزشتہ 2 دہائیوں سے تواتر کے ساتھ انتخابات ہو رہے ہیں، ہر جماعت کرپشن کے خاتمے کو ایک انتخابی نعرے کے طور پر پیش کرتی ہے اور عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ کرپشن کو جڑوں سمیت کاٹ دیں گے مگر عملاً اس کے برعکس ہوتا ہے، قومی دولت کی لوٹ مار میں ملوث عناصر میں اول تو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا اور کسی کو سزا مل جائے تو اسے سزا سے نجات دلوانے کے لیے بھی قانونی راستے تلاش کیے جاتے ہیں اور صاحب حیثیت اس ضمن میں قانونی راستے تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔اسلامی نظام حکومت ،نظام سیاست و معاشرت کا ٹرانسپرنسی اور جواب دہی کے کلچر پر انحصار ہے۔ جب تک قومی وسائل کی لوٹ مار میں ملوث عناصر کا کڑا احتساب نہیں ہو گا اور عام آدمی کے بنیادی حقوق کا آئین و قانون کی سپرٹ کے مطابق تحفظ نہیں ہو گا اس وقت تک ہم ایک پرامن، باوقار اور خوشحال ملک نہیں بن سکیں گے۔ پارلیمنٹ قانون و انصاف کے اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرتی انصاف کے فروغ، استحصال کے خاتمے، قانون کی حکمرانی اور ہر طرح کی کرپٹ پریکٹسز کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔