لازوال قائد، لازوال نسبت

ایس کے نعیمی

خدارکھے تیرے ہی، آستاں سے وابستہ مجھ کو
کہ تیرے پیکر میں روشن نور کا مینار دیکھا ہے

انسانی جسم میں پیشانی جسم کاایساحصہ ہے جسکا کام سوائے اپنے مالک کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے کچھ نظر نہیں آتامگر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ جبیں جسے جب سنگ آستاں نہیں ملتا تو لاکھوں معبود وں کے سامنے جھکتی پھر تی ہے۔ وہ انسان جو خدا کو ماننے والا تھا وہ دولت شہرت، سامان تعیش اور بڑے بڑے مناصب کے آگے جھکتا نظر آتا ہے مگر فطرت کا ایک اصول ہے کہ وہ ایسی گمراہی اور ذلت سے نکالنے کے لئے انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں نکھار پیدا کر نے کے لئے اور اللہ سے بھاگے ہوئے انسان کو خود ساختہ خداؤں کے حضور سجدہ ریز ہونے سے روکنے کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی مرد حق منتخب کرلیتا ہے اور وہ مرد حق اس اٹھے ہو ئے طوفان بدتمیزی کا رخ موڑ تے ہوئے اس طوفان کی سرکش موجوں سے ٹکرا تے ہوئے ملت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگا دیتا ہے اور ایک بات ہمیں ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر کسی لیڈر، رہبر اور مصلح میں کوئی کمال نہ ہو، اس کے سامنے کوئی مقصد، کوئی فلسفہ، کوئی نصب العین، کوئی منزل نہ ہو اور اس میں اخلاص اور خدمت گری کی شدید تڑپ نہ ہو، وہ خداداد صلاحیتوں کا مالک نہ ہو اور اس کے اندر رہبری کا فن نہ ہو تو وہ قوم تو ایک طرف کسی فرد واحد کے دل میں بھی گھر نہیں کر سکتا۔ گزشتہ مسلم وغیر مسلم رہبرانِ قوم کو چھوڑئیے ماضی قریب میں قائد اعظم کے وصفِ قیادت پر نظر ڈال لیجیے کس طرح ان کی آواز پر 10 کروڑ مسلمانان ہند لبیک کہتے ہوئے مرگ وآتش سے کھیلتے ہوئے منزل سے ہمکنار ہوئے۔قوم میں ایثار کا جذبہ نادیدہ منزلوں کو سر کرلینے کی تڑپ وآگہی اور پہاڑوں کوالٹ دینے کا حوصلہ اور تڑپ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی ملت کی زبوں حالی پر مضطرب دل ایک حسین و جمیل منزل کی نشاندہی کرتے ہوئے قوم کو اس درد سے پکارے کہ دلوں میں آگ بھڑک اٹھے قدم بے ساختہ سوئے منزل چل پڑیں ایک قابل، مدبر، دانش مند، نڈر اور بلند نصب العین کے حامل لیڈر کی اطاعت میں کتنا مزہ اور سکون ملتا ہے بحیثیت کارکن اگر ہم سوچیں تو جس درجے کا کا قائد ہمیں میسر ہے اُس کی رفاقت اور تربیت ہر میدان میں چاہے وہ روحانی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عائلی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات ہوں، ہماری انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری رہنمائی کر تی ہے۔ اس کی رفاقت ایک نعمت عظمیٰ ہے۔ 19 فروری کا دن تجدید عہد کا دن ہے مالک کے حضور سجدہ شکر کا دن ہے اپنی تما م تر توانائیاں جمع کر کے اس رسول نما تحریک اور مشن کے پھیلاؤ اور نصرت میں وارفتگی کے ساتھ کوشش کر نے کا دن ہے۔ 19فروری تجدید وفا کا دن اور نسبت کو مضبوط کر نے کا دن ہے۔

تحریک منہاج القرآن کو روئے زمین پر دنیا کی سب سے بڑی تحریک کا اعزاز دلانے والا قائد جس کی داڑھی کی سیاہی اب سفیدی میں بدل چکی ہے۔ جو اپنی زندگی کی 69سالہ بہاریں دیکھ چکا۔مگر اس کے ارادے حوصلے اور عزم جوان ہیں وہ جس نے دنیا کو 1000 کتابیں لکھ کر 600 سے زائد لیکچر ز دے کر ا ور 90 سے زائد ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک قائم کر کے ورطہ ء حیرت میں تو ڈالا ہی مگر 2019 میں قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی تخلیق ان کی سب سے بڑی علمی و تحقیقی اور عظیم کاوش ہے جو ایک طرف تو امت مسلمہ اور غیر مسلمہ کی رہنمائی کے لیے سب سے بڑا تحفہ اوردوسری طرف اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور آقا صلی علیہ وآلہ وسلم کے دین کی نصرت اور غلامی کا حق ادا کرتی ہے۔ اس انمول کام کے ذریعے امت کے اندر صدیوں کے خلاء کو پر کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ابھی تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اور بے شمار تجدید ی کام منظر عام پر آنیوالے ہیں۔ جن میں ان شا اللہ احادیث پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا اور عربی میں تفسیر قرآن بھی شامل ہے جن پر کام جاری ہے جو شیخ الاسلام کی علمی پختگی کی زندہ و جاوید مثال ہیں۔

ہمیں اپنے قائد کی کی نسبت، سنگت اور انکے عالی شان معیار کو اپنی ذات میں مضبوط اور منسوب کرنا ہے۔ جن کاروحانی سفرمقام ومرتبہ دن بدن عروج پر اور بشری تقاضوں کے بدولت جسمانی سفر کم اور کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے لیے ایسی بے مثال شخصیت کی سنگت وقربت کے لمحات غنیمت ہیں۔ ہر آنیوالا سال لمحہء فکر بھی کہ ہم غفلتوں سے نکل آئیں۔ اپنی ذات کے اندر انقلاب بپا کریں۔ وہ شخصیت جس کی فکر کی منبع و مرکز امت محمدی ہے جس کے دن کے اجالے نہ صرف تحقیقی اور تجدید ی فکر ی کاموں میں کوششیں کرتے بسر ہو رہے ہیں بلکہ پوری دنیا میں منہاج القرآن کی تنظیمات کے مختلف فورمز منہاج اسلامک سنٹرز، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشنز اور منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے علمی، فکری، دعوتی اور وائس کے ذریعے فلاحی کام ہورہے ہیں یہ سب بھی اس قائد کا فیض نظر اور اخلاص کا خاصہ ہیں کہ منہاج القرآن سے وابستہ ہر کارکن کسی نہ کسی پلیٹ فورم پر اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔

المختصر تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں ہمیں مبارک ہو کہ ایسے صفات کا حامل میر کارواں نصیب ہو چکا ہے، یہ نعمت ِعظمیٰ میسر آچکی دیکھنے والی آنکھیں اسکی اقتداء میں چلنے کو تیار ہوچکی ہے۔ قافلہ برق رفتاری کے ساتھ اپنے قافلہ سالار کے ساتھ چل پڑا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اذان فلاح جس کو ہم سب سن چکے اس کی جماعت کھڑی ہے اس جماعت میں کھڑے ہونے کے لئے ہمارا زاد راہ تقوی، نیک نیتی، اخلاص مشن، قائد سے محبت، وفاداری اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار محبت، ہمدردی اور سب سے بڑھ کر اپنے نفس کو مار کر اس تحریک کے ہر کارکن کو اپنے سے بڑھ کر جانیں ایک دوسرے کے کام، قربانی اور جذبوں کی قدر کریں انکی حوصلہ افزائی کریں انکے کام کو سراہتے ہوئے ایک دوسرے کو عزت دیں پھر کام کا بھی مزہ اور اقتداء کابھی مزہ آئے گا۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنے والا وقت قائدانقلاب کا ہے وہ صبح انقلاب جس کا خواب ہم نے اپنے قائد کی آنکھ سے دیکھا ہے وہ شرمندۂ تعبیر ہو کر رہے گا اس خواب کو جلد پورا کرنے کے لئے قوم کے ہر ذی شعور طبقے کی سماعتوں پر دستک دیتے رہنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔