عورت معاشرہ ساز خاندان کی اساس

عائشہ مبشر

8 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے، کچھ عرصہ سے بطور خاص یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ اور بازیابی کی بجائے خواتین کے حقوق کی جدوجہد متنازعہ ہوتی چلی جارہی ہے اور اس کا خواتین کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچ رہا ہیکیونکہ معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار مرد و زن کا ہے ان دونوں طبقات کے باہمی تعاون سے معاشرہ پروان چڑھتا ہے اگر کسی کی وجہ سے یہ باہمی اختلافات کا شکار ہو جائیں تو معاشرہ کی تعمیر و تشکیل کو زک پہنچتی ہے، معاشرہ حقوق و فرائض کے متوازن نظام سے نمو پاتا ہے لہذا جب بھی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو فرائض کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، حقوق نسواں اور آزادی نسواں میں فرق ہے، بحیثیت مسلمان ہم سمجھتے ہیں کہ آج سے 14 سو سال پہلے امت مسلمہ بطور ملت اسلامیہ قرآن و سنت کے نظریہ پر وجود میں آ گئی تھی اور ہر نوع کے نظریاتی جبر و تسلط سے آزاد ہو گئی، بحیثیت پاکستانی شہری ہم سب 14اگست 1947 ء کو آزاد ہو گئے تھے، اس لیے خواتین کے حقوق اور آزادیء نسواں میں فرق رکھنا ہو گا، کچھ طبقات جو اپنی سوچ اور فکر میں ابہام اور سرتاپا تضادات سے دو چار ہیں آزادی نسواں کی آڑ میں انتشار کا باعث بن رہے ہیں اور خواتین کے سر پر موجود سیاسی، سماجی، عائلی تحفظ کی چادر کو تار تار کرنے کے در پے ہیں، حقوق نسواں کے حوالے سے موجودہ حالات میں ایک متوازن فکر کو پروان چڑھانا اور لائحہ عمل طے کرنا ازحد ضروری ہے، بصورت دیگر فکری انتشار اور تضادات کا شکار مٹھی بھر طبقہ ہماری دینی، قومی، ملی، سماجی اقدار کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گا، اس موقف کے اظہار کی ضرورت اس لیے بھی محسوس کی گئی کہ گزشتہ سال 8مارچ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کچھ سول سوسائٹی کا لیبل استعمال کرنے والی خواتین و حضرات نے حقوق نسواں اور آزادیء نسواں کے نام پر ایسے ایسے سلوگن نمایاں کیے اور موقف اختیار کیا جو مروجہ انسانی اخلاقی، اقدار و روایات سے میل نہیں رکھتا تھا اور اس رویے سے حقوق نسواں کی جدوجہد کو نقصان پہنچا، یہ بات باعث اطمینان ہے کہ قومی میڈیا اور جملہ سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے اسے پذیرائی نہیں ملی۔

یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان ہو یا خطہ کا کوئی بھی ترقی پذیر ملک خواتین ایک مخصوص استحصالی سوچ کا شکار ہیں، تمام تر آئینی گارنٹیوں اور قانونی تحفظ کے باوجود خواتین کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس کا استحصال کرنے کے راستے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اسے ترقی کی مساوی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے ہتھکنڈے بھی اختیار کیے جاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 ء کے آئین کاآرٹیکل 34 جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ قومی زندگی میں عورتوں کی مکمل شمولیت کو یقینی بنایاجائے گا جبکہ یہ بھی ایک تلخ زمینی حقیقت ہے کہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کی روح کے مطابق حکومتیں عملدرآمد میں ناکام رہیں، اس ناکامی کی بے شمار وجوہات ہیں، ان وجوہات میں انتظامی وجوہات کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی وجوہات بھی شامل ہیں۔

ایسے میں women empowerment کی حقیقی روح کو ازسر نو زندہ کرنے، انفرادی، معاشرتی، خاندانی اور عائلی سطح پر عورت کے حقوق کے تحفظ اور معاشرے میں اسے ایسا تقدس اور احترام فراہم کرنے کے لئے کہ جس سے اسکے حقوق کے حقیقی تحفظ کا اظہار ہو، منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام ویمن سمٹ2020اور Women dignity march کا انعقاد کیا گیا،

جس کی صدارت مرکزی صدر منہاج القرآن ویمن لیگ محترمہ فرح ناز نے کی، ریلی سے تحریک انصاف کے پی کے سے رکن اسمبلی محترمہ ملیحہ اصغر، صدر انصاف فیڈریشن محترمہ شہلا خان نیازی، محترمہ فوزیہ اصغر، محترمہ ڈاکٹر فرخندہ جبیں، محترمہ راضیہ نوید، محترمہ نصرت آمین، محترمہ ارشاد اقبال، محترمہ عائشہ مبشر، محترمہ ام حبیبہ، محترمہ ا نیلا الیاس، محترمہ رابعہ خان اور محترمہ عذرا اکبر نے اظہار خیال کیا، ایم پی اے ملیحہ اصغر نے کہا کہ قانون بنانے سے زیادہ بڑا چیلنج ان پر عمل درآمد کروانے کا ہے، مرد عورت کے تعاون کے بغیر معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا، شہلا نیازی نے کہا کہ کہ آج حقوق نسواں کے نام پر اُٹھنے والی آوازوں میں اگر پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ظلم و استحصال کا شکار عورتوں کے لئے بھی کوئی نعرہ ہوتا اور عورت کے حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازیں اخلاص پر مبنی ہوتیں تو یقینا ہم اُن کے ساتھ ہوتے مگر افسوس ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے، ویمن سمٹ 2020ء میں شریک جملہ خواتین نے محترمہ فرح ناز کی پیش کردہ درج ذیل نکات پر مشتمل قرارداد کی مکمل تائید و حمایت کی۔ جو درج ذیل نکات پر مشتمل تھی:

  1. آج کا یہ اجلاس اور پرامن مارچ اتفاق رائے سے قرار دیتا ہے کہ آئین پاکستان اور ملکی و بین الاقوامی قوانین میں خواتین کو تعلیم و تربیت، انصاف و تحفظ کی فراہمی، صحت اور روزگار کے ضمن میں جو گارنٹیاں دی گئی ہیں ان پر ان کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے اور خواتین کی حالت زار اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق ہر سال بجٹ کے موقع پر خصوصی رپورٹ جاری کی جائے اور سال میں کم از کم تین دن خواتین کی حالتِ زار اور ان سے کیے گئے وعدوں اور ان کی بہتری کیلئے قومی اسمبلی، سینیٹ بشمول چاروں اسمبلیوں میں بحث کی جائے اور مسائل کی نشاندہی او ران کے حل کیلئے قراردادیں پاس کی جائیں۔
  2. ویمن امپاورمنٹ کیلئے ضروری ہے کہ پرائمری سے اعلیٰ سطح کی تعلیم فراہم کرنے کے لیے خواتین کیلئے نئی یونیورسٹیاں، کالجز اور سکول بنائے جائیں اور یہ ہدف مقرر کیا جائے کہ کسی بھی بچی کو ناخواندہ نہیں رہنا دیا جائے گا، ناخواندگی کا ذمہ دار خاندان اور ریاست ہو گی۔
  3. آئین پاکستان اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں عورت کے سیاسی، سماجی، معاشی کردار کو اجاگر کیا جائے اور حقوق و فرائض کے ضمن میں ایک متوازن سوچ کے ساتھ رائے عامہ ہموار کی جائے، یہ سوچ کہ عورت صرف خدمت گار، چادر اور چار دیواری کی محض چوکیدار، خاندان کی نشوونما اور بچوں کی پرورش تک محدود ہے ایک استحصالی سوچ ہے۔ خواتین کو ان کی تعلیم و تربیت اور سماجی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت ہونی چاہیے اور اس راہ میں اگر کوئی بے جا رکاوٹیں ہیں تو ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان رکاوٹوں کو دور کرے۔
  4. آزادی ہر جاندار کا فطری حق ہے مگر اس حق کے استعمال کے لیے کچھ حقوق و فرائض اور حدود و قیود بھی ہیں، تعلیم، روزگار، معاشی سرگرمیوں میں برابری کی بنیاد پر فعال کردار عورت کا حق ہے
  5. خواتین کے حقوق کے حصول کی دوڑ میں مردوں کی تحقیر و تذلیل، خاندانی نظام اور مروجہ اخلاقی، ثقافتی، سماجی، خاندانی روایات کو تہس نہس کرنا یاعائلی زندگی کی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنا حقوق نسواں کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایک عورت محض ایک ذی نفس نہیں ہے وہ معاشرہ ساز اور نسلوں کی امین ہے۔
  6. حقوق نسواں کی جدوجہد کی قوت محرکہ Competetion نہیں Coopration کی سوچ ہونی چاہیے یعنی مقابلہ نہیں موازنہ۔مواخذہ نہیں محاسبہ۔
  7. خواتین سے متعلق استحصالی اور انتہا پسندانہ سوچ کو ختم کرنے کے لیے سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتیں، پارلیمنٹرینز، علماء و مشائخ، اساتذہ، وکلاء، جملہ مذاہب کے رہنما متوازن سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے اپنا فکری، تقریری، تحریری کردار ادا کریں اور ان مقاصد کے حصول کے لیے سوسائٹی کے تمام طبقات پر مشتمل سہ ماہی کانفرنسز منعقد ہونی چاہئیں اور قومی میڈیا اس کی بھرپور تشہیر کو یقینی بنائے تاکہ خواتین کے حوالے سے ایک مثبت سوچ اور اپروچ کو پروان چڑھایا جا سکے، خواتین کے حقوق کے نام پر سال میں محض ایک دن منا لینا اور اس کی کوریج کو یقینی بنا لینا کافی نہیں ہے۔
  8. خواتین کے حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکلز، قوانین، سیاسی، مذہبی جماعتوں کے منشور اور مذاہب و مسالک کی حقوق نسواں سے متعلق تعلیمات کو پبلک کیا جائے، اور مذہب کی غلط تشریح کا راستہ روکا جائے تاکہ استحصال کے جتنے بھی چور دروازے ہیں انہیں بند کیا جا سکے۔
  9. معاشرے کی حقیقی معمار خاتون ہے کیونکہ ہم بحیثیت استاد، ماں، بہن، بیٹی مختلف کرداروں میں نظر آتی ہیں لہذا خاتون معاشرے میں اپنے حقیقی کردار کو پہچانے پھر نہ تو کسی حوا کی بیٹی کو تیزاب سے جلانے والے اور نہ جہیز کے نام پر قتل کرنے والے مرد اس معاشرہ میں پڑوان چڑھ سکیں گے_

سمٹ کے اختتام پر Women Dignity March ہوا جس میں اسلام اباد، راولپنڈی، چکوال، جہلم، مری، کشمیر، کوٹلی ستیاں کے علاوہ دیگر شہروں سے کثیر تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔