مرتبہ: فریدہ سجاد

ماہ رمضان المبارک مسلمانوں کے لئے رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات سمیٹ سکے اس ماہ مبارک کی اہمیت کا اندازہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات سے لگایا جا سکتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے:

مَاذَا یَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟

کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ.

بے شک اللہ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔

(منذری، الترغیب والترهیب، 2: 64، رقم: 1502)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے:

اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ.

اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور (بالخصوص)ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے۔

(أبو نعیم، حلیة الأولیاء، 6: 269)

اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل دو ماہ تک روزے رکھتے نہیں دیکھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان المعظم کے مبارک ماہ میں مسلسل روزے رکھتے کہ وہ رمضان المبارک کے روزہ سے مل جاتا۔

آپ کی اتباع میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول ہوتا حضرت انس رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

کان المسلمون إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أکبُّوا علی المصاحِفِ فقرؤوها، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أموالهم تقوِیَةً للضَّعیفِ والمسکینِ علی صیامِ و رمضانَ.

شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔

(ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف: 258)

رمضان المبارک کے فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم روزہ کے احکام و مسائل سے بھی بخوبی آگاہ ہوں تاکہ ہماری عبادات میں سقم نہ رہے اسی سلسلہ میں ذیل میں روزہ سے متعلق چند مسائل سوالا جوابا پیش کیے جا رہے ہیں۔

سوال: کیا رمضان کے روزے کے دوران دانت نکلوانے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جب کہ دانت سے خون بھی نہ نکلا ہو ؟

جواب: دانت نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا اگر کوئی انجکشن لگایا جائے نہ کوئی ایسی دوا استعمال کی جائے جو گلے کے اندر جائے، نہ ہی خون کا کوئی قطرہ یا کوئی بھی چیز گلے کے اندر جائے تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

سوال: اگرایک آدمی جس کے اوپر رمضان کے روزے قضاء تھے اس کی وفات ہو گئی کیا اب اس کا بیٹا اس مرحوم کی جگہ قضاء روزے رکھ سکتا ہے؟

جواب: ایسی صورت میں فوت ہونے والے کے مال سے یا اس کے ورثاء میں سے کوئی اپنے مال سے فی روزہ دو کلو گندم یا آٹا، چار کلو کھجور یا جو یا پھر اجناس کے برابر ان کی قیمت فدیہ دے دیں۔

سوال :قضائے عمری سے کیا مراد ہے؟

جواب: اگر کسی شخص کی بہت سی نمازیں قضا ہو چکی ہوں جن کے بارے میں اسے علم نہ ہو کہ کس وقت کی نمازیں زیادہ قضا ہوئیں اور کس وقت کی کم تو اسے چاہیے کہ اوقات ممنوعہ کے علاوہ بقیہ اوقات میں ان نمازوں کو ادا کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوافل و سنن کی بجائے صرف فرض رکعتیں ادا کرے۔ اسی کو قضائے عمری کہتے ہیں۔

بعض لوگوں میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ رمضان کے آخری جمعہ کو ایک دن کی پانچ نمازیں بمع وتر پڑھ لی جائیں تو ساری عمر کی قضا نمازیں ادا ہو جائیں گی۔ یہ قطعاً باطل خیال ہے۔ رمضان کی خصوصیت، فضیلت اور اجر و ثواب کی زیادتی اپنی جگہ لیکن ایک دن کی قضا نمازیں پڑھنے سے ایک دن کی ہی نمازیں ادا ہوں گی ساری عمر کی نہیں۔

سوال: اگر شوگر کا مریض روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کے لئے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: اگر رمضان کے بعد بھی صحت یاب ہونے کی کوئی امید نہ ہو تو فدیہ دے دیا جائے، جو کہ دو کلو گندم، اس کا آٹا یا اس کی قیمت فی روزہ ہے۔ کھجور یا جو دینا چاہے تو چار کلو ہو گا۔ (مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی)

سوال :افطاری کا افضل ترین وقت کیا ہے؟ اذان کے بعد یا پہلے؟

جواب: احادیث مبارکہ میں ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رات اس طرف سے آ رہی ہو اور دن اس طرف سے جا رہا ہو اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ افطار کرے۔ (بخاری شریف، رقم: 1853)

یعنی معلوم ہواکہ روزہ افطار کرنے کا وقت غروب آفتاب ہے۔ جونہی غروب آفتاب ہو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ حدیث مبارکہ میں ہے۔

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ ہمیشہ خیر وخوبی سے رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔ (بخاری شریف رقم: 1856)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غروب آفتاب کے فورا بعد روزہ افطار فرماتے تھے۔ کھجور ہوتی تو کھجور کیساتھ نہیں تو پانی کے ساتھ روزہ افطار فرماتے۔ باقی رہا مسئلہ دعا کا مروجہ دعا جو ہم مانگتے ہیں یہ تو نہیں لیکن یہ بھی اس میں چند الفاظ کا اضافہ ہے جو حضرت معاذ نے روایت کی ہے۔

سوال:کیا نفلی روزوں کے دوران خون کا عطیہ دے سکتے ہیں؟

جواب: روزہ نفلی ہو یا فرض خون دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن دوران روزہ خون نکلنے کی وجہ سے بے ہوش ہو جانے یا کسی بھی مسئلہ کی بنا پر کوئی چیز کھلانے، پلانے یا انجکشن وغیرہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 201، رقم: 21801)