مقام اہل بیت اطہار علیھم السلام

ڈاکٹر فرخ سہیل

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْرًا.

’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘

(الاحزاب، 33: 33)

اس آیہ کریمہ میں پروردگار نے پاکیزگی و طہارت کو اہل بیت کرام کی سب سے بڑی خوبی قرار دیا ہے۔ قلب و روح، فکرو خیال اور کردار و عمل کی پاکیزگی کو ان کی فطرت سلیمہ قرار دیا چونکہ اہل بیت اطہارؓ بنص قرآنی گناہوں سے مبرا و منزا ہیں۔ اسی بنا پر رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت کی محبت کو اپنے ساتھ قرار دیا اور فرمایا کہ

احبوا اھل بیتی لحبی. (ترمذی)

کہ اگر مجھ سے محبت رکھتے ہو تو اس بنا پر میرے اہل بیتؓ سے محبت رکھو۔ اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھی بہت اہم ہے کہ اللہ کی قسم! کسی کے دل میں اس وقت تک ایمان نہیں آسکتا جب تک کہ کوئی میرے اہل بیت سے اللہ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ رکھے۔ (ابن ماجہ)

اب دیکھتے ہیں کہ اہل بیت میں کون کون لوگ شامل ہیں۔ مستدرک للحاکم کی یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی نظر آرہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’جو شخص کسی باپ کا بیٹا ہے یقینا اس کا ایسا رشتہ دار بھی ہے جس سے اس کو بڑی تقویت ہے اور اس کی طرف اس کی نسبت ہوتی ہے لیکن اولادِ فاطمہؓ کی نسبت مجھ سے ہے میں ان کا ولی ہوں اور مجھ ہی سے ہے۔ ان کی تقویت اور یہ میری عترت ہیں یہ میری طنیت سے پیدا ہوئے ہیں جو ان کی فضیلت کا منکر ہے اس کے لیے بڑی تباہی ہے جو ان سے محبت رکھے گا اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا۔ اللہ اس کا دشمن ہے۔‘‘

اس حدیث مبارکہ نے یہ ثابت کردیا کہ اہل بیت اور عترتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد حضرت فاطمہؑ، حضرت علیؓ اور ان کے فرزندانِ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام ہیں اور پھر حسنؑ و حسینؑ کے فرزندان بھی اہل بیت میں شامل ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

امام حسینؑ کے فرزند حضرت امام زین العابدینؑ پھر ان کے فرزند حضرت امام محمد باقرؑ، امام جعفر صادقؑ، امام موسیٰ کاظمؑ، حضرت امام علی رضا، امام محمد جواد التقی، امام علی ہادی النقی، حضرت امام حسن عسکری اور امام مہدی قرار پائے ہیں۔

حدیث ثقلین جس میں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک وصیت کا ذکر ہے کہ

یا ایھا الناس انی ترکت فیکما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب الله وعترتی اهل بیتی.

’’لوگو! میں تمیارے پاس وہ چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر انہیں تھامے رہو گے تو گمراہ ہو ہی نہیں سکتے۔ ان چیزیں میں کتاب الہٰی اور میری عترت جو میرے اہل بیت ہیں۔‘‘

ہادی برحق کے اس بیان وصیت کا مخاطب کون لوگ تھے۔ آپ نے کن کو مخاطب کرکے یہ ارشاد فرمایا تو یقینا وہ صحابہ کرامؓ ہی تھے اور ان کے بعد آنے والے مومن جنہیں آپ نے اپنی عترت پاک کا دامن تھامنے کی ہدایت فرمائی۔

اہل بیت اطہارؓ کا مقام و مرتبہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا اور اس کے ساتھ ساتھ اہل بیت کی اطاعت کرنے کا حکم بھی دیا۔ ان کے ساتھ محبت کرنے کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت قرار دیا۔ عترت رسول کو ایذا پہنچانے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیا جیسا کہ مسند احمد اور مستدرک للحاکم کی یہ حدیث من اذی علیا فقد اذنی یعنی جس نے علیؑ کو اذیت دی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور اپنی پیاری دختر فاطمہؑ زہرا کے لیے فرمایا کہ

فاطمه بضعت منی.

فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔

امام حسن علیہ السلام کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ پیشین گوئی فرمائی کہ میرا یہ فرزند سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر دو بڑے گروہوں کی صلح کرائے گا۔

اور امام حسینؑ کے متعلق آپ کا یہ فرمان کسی نظر سے پوشیدہ نہیں کہ

حسین و منی وانا من الحسین احب الله من احب حسینا. (سنن ترمذی)

’’حسین میرے ہیں اور میں حسین کا ہوں جو شخص حسین سے محبت رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کو پیار فرمائے گا۔‘‘

اس کے علاوہ حسنؑ و حسینؑ کی محبت سے متعلق ترمذی اور ابن ماجہ کی یہ حدیث کہ

من احب الحسن والحسین فقد احبنی ومن ابغضھما فقد ابغضنی.

’’یعنی جس نے حسنؑ اور حسینؑ سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘

لہذا عترت رسول کا احترام و محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے برابر ہے اور ان سے بغض و عداوت اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھنا ہے اور اس حوالے سے اہل بیت و عترت رسول کا احترام و توقیر تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کی بے ادبی اور بے توقیری کرنا امت کے لیے حرام ہے۔ صحیح مسلم کی یہ حدیث اس بات کی مزید تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ دھرایا۔

اذکرکم اللہ فی اهل بیتی.

’’کہ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ میرے اہل بیت کے حق میں اللہ سے ڈرو۔‘‘

اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی مرتضیٰؓ تعظیم و تکریم کرنے والے کو اللہ کی طرف سے اعزاز بخشنے کی دعا فرمائی:

اللهم اکرم من اکرم علیا.

’’یا اللہ جو علی کا احترام کرے تو اس کو محترم بنادے۔‘‘

ایک بہت ہی اہم حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ

’’آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عرفان حاصل کرنا جہنم سے نجات ہے اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھنا پل صراط سے پار ہوجانا ہے اور آل محمد کی نصرت و حمایت کرنا عذاب سے امان پانا ہے۔‘‘

ان تمام احادیث مبارکہ سے بہت اچھی طرح یہ وضاحت ہورہی ہے کہ محسن انسانیت خیرالبشر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی امت کے ساتھ یہ احسان عظیم ہے۔ اہل بیت سے محبت کرنا جہنم سے نجات کا پروانہ بنادیا۔ لہذا اگر امت اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آل محمد کی نصرت و حمایت کرے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کجا کہ آپ کے اہل بیت کو ایذا دی جائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اہل بیت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کی مثال تاریخ اسلام میں کہیں نہیں ملتی۔

وہ حسینؑ جن کے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ

حسین منی وانا من الحسین.

’’کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘

اس حدیث مبارکہ میں نانا اور نواسے کہ وجود مبارکہ و مطہر کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا ہے کہ اگر نواسے کا وجود اپنے نانا کی وجہ سے ہے تو نانا بھی اپنے نواسے کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور فرمان کہ میں نے حسین علیہ السلام کو اپنی بہادری عطا کی اور پیغمبرانہ شجاعت کے بعد تمام دنیا میں شہادت حسین بہادری کی اعلیٰ ترین مثال ہے کہ جس میں امام حسین نے اپنے نانا کی طرح اولوالعزمی اور بہادری و شجاعت کا ثبوت دیتے ہوئے فاسق و فاجر کی بیعت پر اپنی قربانی کو ترجیح دی اور اپنی اولاد و اصحاب کی قربانی دے کر یہ ثابت کردیا کہ اگر میں حسینؑ نانا سے ہوں تو نانا کا دین بھی میری دی ہوئی اس بیش بہادر اور لازوال قربانی سے تاابد زندہ رہے گا۔

لہذا امت مسلمہ قیامت تک کے لیے امام حسینؑ کے اس احسان کو فراموش نہیں کرسکتی بلکہ امت مسلمہ کے تمام مردو زن پر روز قیامت تک امام حسینؑ کا حق واجبی حیثیت کا حامل ہے جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومنوں کے ایمان و تقویٰ کا حصہ قرار دیا۔ لہذا یوم قیامت تک امت مسلمہ میں جو بھی نمازی پیدا ہوگا اس پر حق حسینؑ کو ادا کرنا واجب ہوگا۔

مختصر یہ کہ حضور اکرم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق

  • اہل بیت سے محبت رکھنا تمام عالم اسلام پر واجب ہے۔
  • ان کا ادب و احترام کرنا ایمان کا حصہ ہے۔
  • ان کے تمام حقوق کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔
  • ان سے بغض و عداوت رکھنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا اور جہنمیوں کی علامت ہے۔

لہذا دین و آخرت کی بھلائی اور فلاح کا راز اس فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پوشیدہ ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ

’’ان لوگوں کا معاملہ کیسا ہے؟ جو میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے ایذا پہنچاتے ہیں۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک مجھ سے محبت نہ رکھے اور اس وقت تک مجھ سے محبت نہیں رکھتا جب تک کہ میری ذریت سے محبت نہ رکھے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اہل بیت سے محبت و عقیدت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین