اداریہ: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

چیف ایڈیٹر

17 جون 2020ء کے دن شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور تحریک منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان اپنے پیاروں کی چھٹی برسی منارہے ہیں، آج سے 6سال قبل 17 جون 2014ء کے دن قاتل شریف برادران کی پروردہ پولیس اور سول افسروں نے ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی کھیلی اور 14بے گناہوں کو شہید اور درجنوں شہریوں کو زخمی کر دیا، شہید ہونے والوں میں دو خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ بھی شامل تھیں، ان دونوں باپردہ اور عصمت مآب خواتین کو پولیس کے درندہ صفت پولیس افسروں نے وحشیانہ فائرنگ کر کے شہید کیا اور ان ظالموں نے 17 جون 2014ء کے دن سفاکیت اور بربریت کی ایک ایسی گھناؤنی تاریخ رقم کی کہ جس کے ذکر پر عزت دار پرامن شہریوں کے دل دہل کر رہ جاتے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز شریف برادران کو ڈر تھا کہ اگر ڈاکٹر طاہرالقادری نے جون 2014ء میں پاکستان آکر حکمرانوں کی کرپشن ، لاقانونیت اور ظلم و جبر کے خلاف عوامی تحریک چلائی تو ان کا اقتدار کاغذی کشتی کی طرح الٹ جائے گا، انہوں نے اپنا اقتدار اور لوٹ مار بچانے کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر ہلہ بول دیا اور پولیس کے ظالم افسران اور اہلکار 17 جون کے دن ماڈل ٹاؤن لاہور میں انسانوں کا شکار کھیلتے رہے، نہ کسی بچے کو چھوڑا گیا نہ کسی بوڑھے کو، نہ کسی جوان کو بخشا گیا اور نہ کسی خاتون کا لحاظ کیا گیا، یہ وہ مظلوم شہری ہیں کہ جن کا کوئی قصور بھی نہیں تھا، ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ملکی تاریخ کا ایک ایسا سانحہ ہے جس کی کسی دوسرے سانحہ سے کوئی مماثلت نہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ظلم کے دو باب ہیں، ایک ظلم 17 جون 2014 ء کے دن کیا گیا اور دوسرا ظلم انصاف نہ دے کر مسلسل چھ سال سے جاری ہے اور ہر دن انصاف کا قتل عام کیا جارہا ہے، 6سال گزر جانے کے بعد بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور کوئی ادارہ مظلوموں کے سر پر ہاتھ نہیں رکھ رہایہاں تک کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمران بھی وعدے کے باوجود مظلوموں کو انصاف دلوانا بھول گئے، سوال یہ ہے کہ 17 جون 2014 ء کے دن ماڈل ٹاؤن لاہور میں شہید کر دئیے جانے والے کارکنان کیا پاکستان کے شہری نہیں تھے؟ کیا آئین پاکستان نے ان کے جان و مال کے تحفظ کی گارنٹی نہیں دی تھی؟ کیا انصاف ان مظلوموں کا بنیادی حق نہیں ہے؟ یہ وہ سارے سوال ہیں مظلوم جن کے جواب تلاش کررہے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ 6سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف ملنا دور کی بات مظلوموں کو غیر جانبدار تفتیش کا حق بھی نہیں ملا، قاتل شریف برادران نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس پر جو پہلی جے آئی ٹی بنائی تھی اس کی تشکیل کا مقصد انصاف کرنا نہیں بلکہ قاتلوں کو کلین چٹیں دلوانا تھا اور جس مقصد کیلئے وہ پہلی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی وہی مقصد پورا ہوا کہ اس جے آئی ٹی نے تمام مرکزی قاتلوں کو کلین چٹیں جاری کر دیں، اس کے بعد قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے غیر جانبدار تفتیش کے حق کے لئے دن رات جدوجہد کی اور پھر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے دوسری جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا، جے آئی ٹی تو بن گئی مگر اسے کام کرنے سے روک دیا گیا، اس ملک کا امن اور قانون پسندشہری یہ سوال کررہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کیوں نہیں ہونے دی جارہی؟ کن کے بے نقاب ہو جانے کا خوف ہے؟ یہاں اس بات کا ذکر افسوس کے ساتھ کرنا پڑرہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کے خلاف احتجاج کرنے والے 107کارکنان کے خلاف پولیس نے دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات درج کر کے انہیں پانچ سال اور سات سال کے لئے قید و بند کی سزائیں دلوالیں مگر جنہیں قتل کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے پاکستان کے کروڑوں عوام نے دیکھاوہ آج بھی دندناتے پھررہے ہیں، عمران خان جب تک وزیراعظم نہیں بنے تھے تو وہ کہتے تھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا کیس ایک مہینے کا کیس ہے اس کیس میں زیادہ تفتیش کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ قتل کرنے والوں کو میڈیا کے ذریعے پوری قوم نے دیکھا ہے مگر اقتدار میں آکر وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کو بھول گئے ہیں۔ انصاف تو عدالت نے کرنا ہے لیکن بطور وزیراعظم وہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس افسروں کو کیس کے حتمی فیصلے تک ان کے عہدوں سے الگ کر دیں؟بہرحال اللہ کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی واحد امید شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔انصاف سے ملک اور معاشرے معتبر ہوتے ہیں اور جس معاشرے سے انصاف رخصت ہو جاتا ہے وہاں عذاب، آفات اور کورونا وائرس جیسی بلائیں آتی ہیں۔