حقیقت زہد: اللہ بندے کیلئے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ.

(آل عمران، 3: 152)

’’تم میں سے کوئی دنیا کا خواہشمند تھا اور تم میں سے کوئی آخرت کا طلبگار تھا ‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی دو قسمیں بتائیں کچھ طالبان دنیا ہوئے اور کچھ طالبان آخرت ہوئے۔ پھر ایک قسم اللہ رب العزت نے اور گنوائی اور فرمایا:

وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللهِ.

’’اور اللہ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے‘‘۔

(البقره، 2: 272)

کچھ ایسے بھی ہیں جو میری دی ہوئی ساری نعمتیں لٹاتے ہیں۔ نہ دنیا کے لیے نہ آخرت بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لیے۔ انہی کے لیے ارشاد فرمایا جب وہ اپنا کھانا اٹھا کر دے دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے کسی اور عرض کے لیے نہیں کھلایا بلکہ اللہ کی رضا کے لیے کھلایا ہے تاکہ اس کے بدلے اللہ کا چہرہ نصیب ہوجائے اس طرح تین طبقات بن گئے ہیں ایک طالبان دنیا، دوسرا طالبان آخرت اور تیسرا طالبان خدا یعنی اللہ کے مکھڑے کے طالب۔

اللہ نے طلب دنیا کی ہلاکتوں میں پڑے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑا ہے اور فرمایا:

کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ. وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ.

(القیامة، 75: 20-21)

’’حقیقت یہ ہے (اے کفّار!) تم جلد ملنے والی (دنیا) کو محبوب رکھتے ہو اور تم آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو‘‘۔

تو تم دنیا کی چیزوں کو ترجیح اس لیے دیتے ہوئے کہ یہ تمہارے سامنے نظر آتی ہے اور جلد مل جاتی ہے۔ جلد ملنے والی چیز کے پیچھے پڑتے ہو جو نظر نہیں آتی اور بعد میں آنے والی ہے اس کو نظر انداز کردیتے ہو۔ دنیا اور آخرت میں فرق نہیں کرتے بس جلد نفع ملے۔ اس دنیا میں جھوٹی عزت و نمود مل جائے۔ اس دنیا میں آرام و آسائش مل جائے۔ اس دنیا کے مکانات و محلات مل جائیں۔ اس دنیا کی لذت، حلاوتیں مل جائیں وہ چیزیں جو نفس کو لبھاتی ہیں تمہارے دلوں کو بہلاتی ہیں جبکہ آخرت دنیا سے کہیں بلند و بالا راحتوں و چاہتوں کی جگہ ہے۔ وہ دور ہے، پیچھے ہے تم نے اس کو ٹھکرا دیا ہے اس ذلیل، کمینی، گھٹیا دنیا کو جس میں کوئی خیر نہیں اس کے پجاری بن گئے ہو۔ سورۃ انفعال میں فرمایا:

تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ق وَاللهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ.

’’تم لوگ دنیا کا مال و اَسباب چاہتے ہو، اور ﷲ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے‘‘۔

(الانفال، 8: 67)

اللہ فرماتا ہے میں تمہار رب ہوں سوچ میں فرق یہ ہے کہ تم دنیا کا نفع تلاش کرتے ہو میں تمہارے لیے آخرت کا نفع چاہتا ہوں کہ بڑا نفع عطا کروں پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا کی کمینگی پر روشنی ڈالی تاکہ طبیعتیں طلب دنیا اور حب دنیا سے بیزار ہوجائیں۔ اس دنیا نے اللہ کا حسین مکھڑا بھلادیا۔ اس دنیا کے لالچ نے ہمیں مولا سے دور کردیاجس نے ہمیں اپنا مرنا بلایا جس نے قیامت کا دن بھلادیا۔ جس نے میزان کا منظر بھلادیا رب کو بھول جانے والے جب محشر کے روز لائے جائیں گے تم دنیا میں ہمیں بھول گئے آج ہم تمہیں بھول گئے ہیں۔ ہم اس دنیا میں اتنے اندھے ہوئے جارہے ہیں، کھوگئے ہیں فنا ہوگئے ہیں ہلاک ہوگئے کہ دنیا ہمارا قبلہ و کعبہ بن گئی ہے۔ اس دنیا کے مال و زر کو، دنیا کی چاہت کو جڑ سے نکال کر دل دنیا سے موڑ کر رب سے رشتہ جوڑنے کو زہد کہتے ہیں۔ ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌز وَّاِنَّ الْاٰخِرَۃَ ھِیَ دَارُ الْقَرَارِ.

(غافر، 40: 39)

’’یہ دنیا کی زندگی بس (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں اور بے شک آخرت ہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے‘‘۔

اے لوگو! دو سودے ہیں۔ دنیا کا سودا متاع ہے۔ چار دن کا کھیل ہے آخرت کا سودا قرار ہے۔ دائمی راحت ہے ہمیشہ رہنے والی شے ہے۔ تم اب دنیاوی سودے کے پیچھے جاتے ہو یا دائمی قربت والے سودے کے پیچھے جاتے ہو۔ آخرت قرار کی جگہ ہے بے قرارو مارے مارے پھرتے ہو کہیں سے قرار مل جائے، کہیں سے سکون مل جائے، کہیں مضطرب روحوں کو اطمینان مل جائے۔ رب کہتا ہے تم جنگل، بیابان میں چشمے تلاش کرتے ہو، یہ دنیا قرار کی جگہ نہیں تمہیں قرار کہاں سے مل جائے۔ یہ دنیا راحت کی جگہ نہیں، تمہیں سکون کہاں سے ملے۔ ارے چین کے طالبو! ’’ٹھکڑا دو حرص دنیا کو میری طرف تکو قرار کا چشمہ آخرت ہے، اگر مجھ سے محبت کرو گے تو چین مل جائے گا پھر اس دنیا میں سکون کی نیند آئے گی‘‘۔

آخرت کا قرار اسی دنیا میں سکون کا چشمہ بن جائے گا۔ ہم آخرت سے کٹ گئے اور دنیا سے جڑ گئے ہیں۔ دنیا کا لغت میں معنی ہے گھٹیا۔ جو کمینی چیز کا طالب ہوگا اس کا حال کیا ہے؟ انسان نے عزت کے پیمانے بدل ڈالے، راحت کو سکون کے پیمانے بدل ڈالے اور رب کی بات پر یقین کرنا چھوڑ دیا۔ کفارو مشرکین یہی کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں نہ سنو یہ قرآن کی صورت میں تمہیں بتاتا ہے یہ قصے کہانیاں ہیں۔ فرق اتنا رہ گیا ہے وہ زبان سے کہہ دیتے تھے کیونکہ وہ کافر تھے ہم منافق ہیں۔ ہم بھی قصے کہانیاں ہی سمجھتے ہیں پر حق نہیں کہتے۔ اگر ان کو حقیقت سمجھتے ہمارا حال بدل گیا ہوتا۔ ہماری کیفیتیں بدل گئی ہوتیں۔ آقا علیہ السلام نے صحاہ کرامؓ کو فرمایا: ’’اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں اللہ کی عزت کی قسم روتے چیختے کپڑے پھاڑتے جنگلوں میں نکل جاؤ۔ تمہارے چہروں سے مسکراہٹیں چھن جائیں‘‘۔ ہم اس لیے بے پرواہ ہیں کہ ہمیں خبر نہیں کہ مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

ہم نے آنکھیں بند کرلیں۔ دنیا نے ہمیں بے ایمان کردیا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو دنیا کی خاطر جھوٹ بولتے ہیں بددیانتی کرتے ہیں، چوری، ڈاکہ زنی، استحصال، ملاوٹ کرتے ہیں۔ اپنی قبر دوزخ کے انگاروں سے بھرتے ہیں۔ اپنی آخرت برباد کرکے صرف چار دن کی دنیا اچھی کرنے کے لیے تو آخرت پر ایمان نہ ہوا اگر ہوتا تو سودا یوں نہ کرتے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰـوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌم بَیْنَکُمْ.

(الحدید، 57: 20)

’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خودستائی ہے ‘‘۔

دنیا کیا ہے؟ اللہ نے فرمایا دنیا پانچ چیزوں کا نام ہے۔ کھیل ہے حقیقت نہیں۔ دنیا تماشا ہے دنیا میں سجاوٹ و آرائش ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں کو لبھاتی ہے اور حقیقت کو چھپاتی ہے۔ ایک دوسرے پر بڑھائی کو ظاہر کرنا ہے۔ میں بڑا ہوں یہ چھوٹا ہے۔ میں اونچا ہوں یہ نیچا ہے، فخر، تکبر اور گھمنڈ ہے۔ مال و دولت اور خاندان کی کثرت ہے۔ میرا خاندان یہ ہے اور میرے پاس اتنا مال ہے اس حسرت کا نام دنیا ہے ایک دوسرے پر گھمنڈ کرنے کا نام دنیا ہے۔ جھوٹی زیب و آرائش کا نام دنیا ہے۔ کھیل تماشے کا نام دنیا ہے۔ ہمارے کعبہ کا نام دنیا ہے۔ ہمارے ایمان کا نام دنیا ہے۔ ہمارے جینے مرنے کا نام دنیا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ التکاثر میں فرمایا:

اَلْهٰـکُمُ التَّکَاثُرُ. حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ.

(التکاثر، 102: 1-2)

’’تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے‘‘۔

انسان سمجھتا ہے وقت پڑا ہے چلو توبہ کرلوں گا۔ آخری عمر آئے گی تو سنور جاؤں گا۔ عبادت کرلوں گا اللہ اللہ کرلوں گا۔ اس آخری عمر کے انتظار میں وقت گزارتا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمارے اس انتظار کا جواب دیا فرمایا تمہیں کیا خبر کونسا وقت آئے گا یا نہیں آئے گا؟ تم اس حرص میں رہو گے یہاں تک کہ قبر کی شام آپہنچے گی، بلاوا آجائے گا۔ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ کل کا دن میری زندگی کا یقینی ہے۔ ہمیں تو ایک پل کی خبر نہیں۔ اگر کسی کو پتہ چل جائے اور اسے علم اور یقین ہو جائے۔ میرے پیچھے شیر ہے اور آکر مجھے کھانے کو ہے۔ وہ آدمی آرام کے ساتھ نہیں رہ سکتا ہے۔ اگر اسے یقین ہوجائے کہ میرے موت میرے سر پر آپہنچی تو بندے کا آرام چھن جاتا ہے۔ آخرت پہ اتنا یقین بھی نہ رہا کہ ہمارا چین چھن جاتا۔ بستر پر پہلو رکھتے تو بے تاب ہوجائے اتنا بھی یقین نہ رہا۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر بتاتے بتاتے گزر گئی کہ لوگو قیامت آگی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا دنیا کے لالچ میں کون لوگ مست ہیں۔ فرمایا جو ہماری ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے۔ اس لیے دنیا کی زندگی سے راضی ہوگئے ہیں۔

ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث صحیح ہے۔ ’’لوگو مجھے ایک ہی خوف ہے میرے بعد میری امت میں کیا ہوگا۔ میری امت کے لیے دنیا کی زیب و زینت کھول دی جائے گی اس کو دیکھ کر میری امت اس میں غرق ہوجائے گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دنیا بڑی میٹھی ہے بڑی سر سبز ہے آنکھوں کو بھی لبھاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میٹھی اور سرسبز باغات میں تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ چھوڑ کر دیکھتا ہے کہ اب کرتے کیا ہیں ان باغات کے پیچھے جاتے ہیں یا آخرت کے باغات کے پیچھے جاتے ہیں۔ میرے غلامو دنیا سے بچنا، دنیا کے حرص و لالچ سے بچنا‘‘۔

سائل بن سعدیؓ روایت کرتے ہیں۔

ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اس نے کہا آقا مجھے ایک ہی عمل ایسا بتادیں وہ کروں تو خدا کا محبوب ہوجاؤں اور خلق خدا کا بھی محبوب ہوجاؤں۔ فرمایا ’’پھر زہد اختیار کر۔ دنیا سے دل کو بے رغبت کرلے تو خدا تجھ سے پیار کرے گا جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں نظر آئے اس سے بھی دل کو بے نیاز کرے۔ لوگ تمہیں اپنا محبوب بنالیں گے‘‘۔

(صحیح مسلم، جلد: 4، ص: 2098، رقم: 2743)

بندہ جس شے سے بے رغبت ہوجائے پھر وہ شے بھی اس کے پیچھے دوڑتی ہے۔ سایہ بھی اس لیے پیچھے چلتا ہے آپ پشت کرکے اسے پیچھے پھینک کر چل پڑتے ہیں۔ اگر سائے کی طرف منہ کرلیں تو سایہ آگے ہوگا۔ بندہ پیچھے ہوگا۔ دنیا سائے کی طرح بندہ کے آگے بھی چلتی ہے پیچھے بھی چلتی ہے۔

حضرت سہل بن سائل سعدی روایت کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جن کے پاس مال کی کثرت ہے وہ شاہد گھمنڈ کرتے ہیں کہ اللہ ان سے بڑا راضی ہے۔ یہ جھوٹا تصور ہے قارون بھی یونہی سوچتا تھا۔ جس کو دنیا میں کم ملا ہے وہ یہ تصور کرے کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے یہ غلط تصور ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا ساری دنیا کی قیمت اس مکھی کے پر کے برابر بھی ہوتی کافر جو میرے دشمن ہیں اس میں سے ایک رتی نہ دیتا۔ دیکھتے ہی ہو کہ میں نے اپنے دشمنوں کو بے تحاشا دے رکھی ہے۔ اگر قدر کی چیز ہوتی تو اپنے دشمنوں کو یوں نہ دیتا۔ تم کس لیے اس کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو۔

المستدرک میں عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں۔

فرمایا امت کا اوائل دور دو چیزوں سے اچھا ہوا ایک ان میں دنیا سے بے رغبتی تھی ایک ان کو مجھ پر یقین تھا۔ دو چیزیں ان کو اونچا لے گی۔ میری امت کے آخری لوگ ہلاک ہوں گے۔ دو چیزوں سے دنیا کو جوڑ جوڑ کر بخیلی کرکے رکھنے سے اور دنیا کی لمبی امیدیں رکھنے سے۔ فرمایا میرے ساتھ جڑنا چاہتے ہو اور آخرت کا اعلیٰ سودا کرنا چاہتے ہو۔

لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰـکُمْ.

(الحدید، 57: 23)

’’تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی‘‘۔

تمہارے دل میری محبت میں دنیا سے ایسے بے نیاز ہوجائیں آجائے تو دل خوش نہ ہو اور چلا جائے تو دل غمزدہ نہ ہو۔ دنیا آتی بھی رہے گی جاتی بھی رہے گی ہم نے اسے تمہاری ضرورت اور خدمت کے لیے بنایا ہے۔ جب اس کو برتو جیسا میں نے کہا جب آئے خوش نہ ہو۔ جب جائے تو اس کے جانے پر غم نہ کرو۔ خوشی اور غمی کو میرے ساتھ متعلق کرلو۔

حضرت احمد بن حنبل سے ایک صاحب نے سوال کیا۔ حضرت زہد کیا ہے؟ فرمایا دنیا سے بے رغبت ہونا۔ عرض کیا دل دنیا سے کب لاتعلق ہوجائے۔ حضرت احمد بن حنبل نے فرمایا زہد یوں آتا ہے کہ چند باتیں سن اور دل میں بٹھا لے۔ اگر تیرا یقین ہے کہ تیرا رزق مقرر ہے تو پھر حرص کیسا امیرالمومنین سے اور عوام کا شکوہ ہے کہ امیر دیر سے آتا ہے۔ اس لیے کہ ہمارے گھر میں کوئی ملازم نہیں میں آٹا گوندتا ہوں اور بیوی میری سالن بناتی ہے۔ ہم گھر کی صفائی مل بانٹ کر کرلیتے ہیں۔ دوسری شکایت یہ ہے کہ رات کو نہیں ملتا۔ فرمایا دن کو بندوں سے ملتا ہوں رات کو مولا سے ملتا ہوں۔ ایک دن کسی سے نہیں ملتا۔ فرمایا ایک دن سب کے کپڑے ہم میاں بیوی مل کر دھوتے ہیں۔ ایک یہ شکایت ہے کہ کبھی کبھی بے ہوش ہوجاتا ہوں۔ اس لیے بے ہوش ہوجاتا ہوں خبیب انصاری جب مکہ میں تھے میں ابھی مشرک تھا وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتا تھا کفار مکہ نے اس کو پکڑ کر پہاڑی کی چوٹی پر لے جاکر اس کے جسم کے تین ٹکڑے کردیئے تھے ابھی زندہ تھا تھوڑا تھوڑا کاٹ دیتے۔ اذیت دیتے پوچھتے اس طرح اپنے ٹکڑے کرنا اچھا لگتا ہے۔ اگر اس جگہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو تو پھر اس نے کہا یہ پوچھتے ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر میرے بیوی، بچوں سب کے ٹکڑے ہوجائیں پھر بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوا نہ لگنے دوں۔ جب وہ جواب دیتا تھا وہ اور اس کو ذبح کرتے تھے وہ ذبح ہوتے ہوتے شہید ہوگئے ہیں میں ان کی مدد نہ کرسکا۔ کیونکہ کافر تھا جب وہ منظر یاد آیا ہے تو کانپ کر بیہوش ہوجاتا ہوں۔ کہیں اسی پر میری گرفت نہ ہوجائے اور دوزخ میں پھینک نہ دیا جاؤں۔

امام ابوالقاسم القشیری فرماتے ہیں، جنید بغدادی زہد یہ ہے کہ دنیا جتنی بھی بڑی ہو جتنی بھی کثرت کے ساتھ ہو اس میں جتنی بھی زیب و زینت ہو دنیا کے کسی عہدو منصب پر جتنی بھی بڑی طاقت ہو نظر میں بالکل چھوٹی اور حقیر نظر آئے۔ اس کا اثر تیرے دل کی تختی پر حقیر نظر آئے تو سمجھ لو کہ مولا نے تجھے زہد عطا کردیا۔

حضرت یحییٰ بن معاذ غازی سے پوچھا کہ حضرت زہد کیا ہے؟ فرمایا اگر بندے کو تین خصلتیں حاصل ہوجائیں۔

  1. بندہ جب بولے تو اس کے بولنے میں طمع نہ ہو حق کے لیے ہو۔
  2. جب کسی کے ساتھ عمل کرے تو کسی دنیاوی غرض کے پیش نظر نہ کرے فقط اللہ کی رضا کے لیے ہو اس کے پاس کوئی عہدہ اور منصب نہ ہو مگر عزت ہو۔

’’بنو امیہ کا دور تھا بادشاہ وقت حج کرنے آیا تو اس کے ساتھ فوج تھی وہ ہر ممکن کوشش کررہی تھی کہ خلیفہ وقت کے لیے صحن کعبہ کو خالی کروانا چاہتے ہیں تاکہ بھیڑ چھٹ جائے تاکہ خلیفہ وقت کو طواف کرنے میں آسانی ہو مگر لوگوں پر لوگ چڑھتے جارہے ہیں کوئی خلیفہ وقت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسی اثناء میں دوران طواف بھیڑ چھٹنے لگی۔ لوگ ادب میں راستہ چھوڑنے لگے خلیفہ وقت کو جلال آگیا۔ میں حکمرانِ وقت میرا کسی نے احترام نہیں کیا اب یہ کسی کی خاطر صحن کعبہ خالی ہورہا ہے۔ اس نے سپاہیوں سے کہا دیکھو ماجرہ کیا ہے؟ ایک نوجوان جس کے چہرے پر پردہ ہے نحیف جسم ہے آنسو گر رہے ہیں کعبہ کے طواف کے لیے چلا آرہا ہے بس اس کی ہیبت دیکھ کر دنیا صحن کعبہ خالی کررہی ہے۔ اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوگی دیکھ یہ نوجوان کون ہے۔

کسی نے جاکر پوچھا تو پتا چلا کہ کیا یہ حسین کا بیٹا زین العابدینؓ ہے منصب نہ ہو حکمرانی نہ ہو لیکن بغیر تخت کے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرے۔ جسے تین چیزیں مل گئی سمجھو اس کو مولا نے زہد کی خیرات دے دی۔

حضر ت ذوالنون مصری سے کسی نے پوچھا حضرت میں دنیا کو کب چھوڑوں؟ انہوں نے فرمایا جب تو اپنے نفس کو چھوڑ دے تب تو دنیا کو چھوڑ دے۔ اگر دنیا سے ہٹ کر بھی گرفتار نفس ہے تو دنیا سے الگ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دنیا سے بے رغبتی کی کیفیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی۔ جب تک دل کی لو اللہ سے نہیں لگتی جب دل کی لو اللہ سے لگ جاتی ہے۔ غیر کی توجہ، دھیان ختم ہوجاتا ہے پھر بندہ کی لو اللہ سے لگ جاتی ہے تو اس کا زہد کامل ہوتا ہے۔

حضرت امام زین العابدینؓ حالت سجدہ میں ہیں ساتھ ہی آگ لگ گئی۔ شور مچا امام اعلیٰ مقام آگ لگ گئی ابن رسول آگ لگ گئی آپ نماز پڑھتے رہے سجدہ میں تھے، سجدہ ہی کرتے رہے۔ آپ نے نماز مکمل کی اور لوگوں کی ہنگامہ آرائی سے آہستہ آگ بجھاتے بجھاتے آگ بجھ گئی۔ آپ کو نہ آگ لگنے کی خبر ہوئی نہ بجھنے کی۔ لوگوں نے پوچھا امام عالی مقام اتنی آگ لگی اور اتنا شور مچا آپ کو اس آگ سے کس شے نے بے پرواہ کردیا۔ امام زین العابدینؓ فرمانے لگے اس دوسری آگ نے جس کی نگاہ میں وہ آگ ہوتی ہے وہ اس آگ کی پرواہ نہیں کرتا۔

زہد قلب کی کامل بے رغبتی کا نام ہے۔ دل کا کامل رجوع الی اللہ کا نام ہے غیر از خدا دل سے نکال دینے کا نام زہد ہے پھر بندے کا طرز عمل لین دین، معاملہ طرز فکر بدل جاتا ہے۔ حضرت شیخ بلخی سیدنا جعفر بن صادق کی بارگاہ میں آگئے اور پوچھتے ہیں کہ حضور جواں مردی کیا ہے؟ حضرت جعفر بن صادق نے پوچھا پہلے تم بتاؤ کہ جوانمردی کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں جوانمردی یہ ہے کہ کچھ نہ ملے تو صبر کرتے ہیں کچھ نہ ملے تو شکر ادا کرتے ہیں۔ حضرت جعفر الصادق نے فرمایا شقیق مدینہ کے کتوں کا یہی حال ہے۔ اپنا حال یہ ہے ملے تو بانٹ دیتے ہیں نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔

خواجہ نظام الدین اولیاء روایت کرتے ہیں امیر خسرو نے روایت کیا کہ امام احمد بن حنبلؒ کے باورچی خانے میں آٹا ختم ہوگیا کوشش کے باوجود انہیں آٹا نہ ملا جلدی سے دوڑا اور آپ نے بیٹے کے گھر سے آٹا لے آیا اور روٹیاں بنائیں اور پیش کردی۔ امام احمد بن حنبلؒ کو خبر ہوگئی تھی کہ آٹا ختم ہوگیا۔ پوچھنے لگے آٹا کہاں سے لائے ہو۔ عرض کرنے لگے آپ کے بیٹے کے گھر سے لایا ہوں فرمایا ان روٹیوں کو کپڑے میں باندھ کر دریائے دجلہ میں پھینک دو ہم رات فاقے سے گزاریں گے۔ فرمایا وہاں کھڑے رہنا جتنی مچھلیاں آتیں سونگھ کر واپس چلی جاتیں دجلہ کی کسی مچھلی نے روٹی نہیں کھائی۔ پھر دریا کی لہر آئی ساری روٹیاں اٹھا کر اس نے باہر پھینک دی۔

باورچی واپس آگئے امام احمد بن حنبل نے پوچھا کیا دیکھا اس نے سارا ماجرا سنادیا۔ فرمایا جو روٹیاں مچھلیاں نہیں کھاتی وہ ہمیں کھلانا چاہتے ہو۔ عرض کیا حضور ماجرا کیا ہے فرمایا یہ آٹا میرے بیٹے نے ان پیسوں کا خریدا ہے جب وہ بغداد میں قاضی تھا۔ اس لیے اس کے لیے حلال ہوگا لیکن احمد بن حنبلؒ کے لیے نہیں۔ جب زہد و ورع کی کیفیت یہ ہوتی ہے تو حجابات اٹھتے ہیں اور قربتیں ہوتی ہیں، معرفت نصیب ہوتی ہے۔ مقام محبت اور عشق کی ان منزلوں تک بندے کو لے جایا جاتا ہے جس کی کسی کو خبر نہیں ہوتی۔

حضرت ذوالنون مصری روایت کرتے ہیں کہ میں کوہ لببان جنگل سے گزر رہا ہے کہ مجھے آواز آئی اور اس آواز میں وہ درد تھا کہ میں تڑپ اٹھا۔ میں آواز کے پیچھے پیچھے ہوگیا۔ غار میں ایک جوان تھا۔ میں نے دیکھا تو وہ آواز دیتا تھا مولا! پاک ہے تو جس نے عقل مندوں کو وادی توکل کا سفر عطا کیا۔ مولا پاک ہے تو تیرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کے دلوں میں تم نے عشق کی آگ جلائی ہے کہ وہ تیری عشق کی شدت سے ملاکوت کی سیر کرتے ہیں۔ تیرے تعلق کے واسطہ سے تیرے جبروت کے پردے میں جو پوشیدہ ہے اس کا ملاحظہ کرتے ہیں۔ پاک ہے تو، تیرے عاشق بندے تیری رحمت کے غار میں پناہ گزین رہتے ہیں۔ تیرے ہاتھ سے تیری محبت کے جام لے لے کر پیتے رہتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ اس جوان کو کوہ طور پر دیکھا ہم نے دیکھا نفل پڑھتے تو نفل پڑھنے لگ جاتا۔ ہم علمی مذاکراہ کرتے تو گوشہ میں بیٹھ کر سنتا رہتا۔ مجلس میں کسی نے پوچھا معرفت کیا ہے؟ معرفت پر گفتگو ہوچکی اس جوان کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس نے آہ بھری، منہ سے سانس نکالی سامنے جتنا سبزہ تھا، وہ سارا جل گیا اور وہ روتا چلا گیا اس نے کہا معرفت یہ ہے عشق کی آگ جلے تو اس کو معرفت کہتے ہیں۔

یہ زندگی چار روزہ ہے اس دنیا کے بے وقتی کو دیکھو پھر اس شام کو دیکھو جب آنکھ بند ہوگئی تو شام ختم نہیں ہوگی پھر قیامت تک قبر کی شام چلے گی۔ جب قبر میں رکھ دیا جائے گا مرنے والے کی قیامت اسی شام سے شروع ہوجائے گی آخرت میں موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنتی اور دوزخیوں کے سامنے ذبح کردیا جائے گا۔ فرمایا جائے گا آج موت ختم کردی گئی۔ اب بلا موت رہتے رہو۔ جبکہ ہم روزہ زندگی کے لیے سب کچھ لٹانے بیٹھے ہیں وہ زندگی جس نے کبھی ختم نہیں ہونا اس کے لیے ہم نے کیا تیاری کی ہے۔ سب سے بڑی تیاری زہد ہے اور زہد سے بڑا مرتبہ اللہ کا عشق ہے۔