تربیت یافتہ ماں پرسکون خاندان

زہرہ نور قادری

عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے

اَلاُمَّ مَدرَسَۃُ اِن اَعدَدتَّھَا، اَعدَدتَّ شُعبَا طِیبَ الاَعرَاق.

ماں کی گود ایک درسگاہ (اور تربیت گاہ )ہے۔ اگر تو نے اس کو سنوار دیا تو ایک پاکیزہ اور مہذب قوم وجود میں آگئی۔

ماں ایک ایسا شیریں اور دلکش لفظ ہے جس کی مٹھاس محسوس کرتے ہی انسان میں جینے کی لہر پیدا ہو جاتی ہے۔ ماں دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، محبت اور رحمت کی ایک بے مثال جھلک ہے۔ ربِ ذوالجلال جس طرح اپنے بندوں سے محبت کرتے ہو ئے ان کے لیے جینے کے اسباب و سامان مہیا کرتے ہیں، اسی طرح ماں بھی اپنی اولاد لے لیے، اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر راحت پہنچانے کی تدبیریں کرتی ہے۔

اسلام نے عورت کو ماں کے روپ میں اتنا بڑا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے کہ تاریخ عالم کے کسی مذہب، معاشرے اور تہذیب میں اس کی مثال تو کجا تصور بھی محال ہے بلکہ دنیا کی قدیم نسوانی تاریخ تو ایک بھیانک داستان ہے۔ مرد نے اس آغوش کو مجروح کیا جس میں اس نے پرورش پائی، اس سینے کو زخمی کیا جس سے اس کا رشتہ حیات وابستہ تھا۔ ذرا تاریخ نسواں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کی عورت کتنی مجبور، مظلوم اور مقہور رہی ہے۔ یورپ میں ایک عرصہ تک یہ سوال زیرِ بحث رہا کہ عورت انسان بھی ہے، یونان عورت کو شر اور شیطان کی بیٹی کہتے، یہودی اسے لعنت کا مستحق اور عیسائی باغِ انسانیت کا شجرِ ممنوعہ سمجھتے تھے۔ اہلِ عرب، عہدِ جاہلیت میں عورتوں سے جو سلوک روا رکھتے، اسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بیٹیوں کو اپنے لیے باعثِ عار سمجھتے ہو ئے زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ مولانا الطاف حسین حالی، اپنی مشہور مسدس مدوجزر اسلام میں عرب کی عورت کے ساتھ اس ظالمانہ رسم کا ذکر کرتے ہو ئے یوں کہتے ہیں

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحمِ مادر

پھرے دیکھتی جبکہ شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

حضرت سیدنا آمنہ کے لختِ جگر محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو ذلت و پستی سے اٹھا کر عزت و عظمت اور شرف و منزلت کے بامِ عروج تک پہنچایا۔ اسے مردوں کی شریکِ حیات اور باعثِ سکینت و مودت قرار دیتے ہو ئے ارشاد فرمایا :

دنیا سر سبز و شاداب ہے اور اس میں سب سے بہترین متاع نیک عورت ہے۔

اسلام نے طبقہ خواتین کو جتنے وسیع حقوق اور اعلیٰ مراتب عطا فرمائے ہیں دنیا کے کسی قدیم و جدید معاشرہ و تہذیب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حثییت سے حسبِ مراتب حقوق عطا فرمائے، راقمہ کیونکہ ماں کے کردار کو واضح کرنا چاہتی ہے تو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر غور کریں۔ قرآن و حدیث میں جا بجا اعمالِ صالحہ کے بدلے جنت کے جن راحتوں کا ذکر ہوتا ہے ان میں ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے الجنۃُ تحت اقدام الامھات، جس کے ذریعے جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا گیا۔ ماں کی خدمت کو جہاد جیسے فریضے پر ترجیح دی اور ماں کی نا فرمانی کو گناہِ کبیرہ قرار دیا۔

ماں کو جب اتنا بڑا مقام عطا کیا تو معاشرہ کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی اسے ذمہ دار ٹہرایا۔ ماں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے کیونکہ ماں کی گود ہر بچے کی پہلی تربیت گاہ اور درس گاہ ہوتی ہے جہاں سے وہ اخلاق، عادات اور اطوار سیکھتا ہے۔ آج ہندوانہ رسم و رواج، فحش لٹریچر، میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط اور بیجا استعمال معصوم ذہنوں کو مسموم اور اسلام سے دور کر رہا ہے۔

اگر ماں سنتِ مطہرہ کی روشنی میں اولاد کی تربیت کرے تو معاشرہ خوبصورت بن جائے گا۔ ایک اچھے معاشرے اور پر سکون خاندان کی تشکیل کے لیے ماں کا کردار بہترین اہمیت کا حامل ہے۔ آئے روز اخبارات میں میاں بیوی کے جھگڑے کے نتیجے میں کہیں نہر میں چھلانگ لگا کر، کبھی پنکھے سے لٹک کر اور کہیں گولی کھا کر خودکشی کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دل دہلا دینے والی باتیں آخر کیوں ہیں۔

بہت سے واقعات کے پس منظر میں ماں کی غیر مناسب تربیت کا عنصر دکھائی دیتا ہے۔ ان چیزوں کا تدارک ماں اس طریقے سے کر سکتی ہے۔

ماں اگر اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کرے گی تو وہ نہ صرف اپنے گھر میں روشنی بکھیرے گی بلکہ جب وہ رخصت ہو کر نئے گھر جائے گی تو اچھی بیوی اور اچھی بہو بن کر سسرال والوں کا دل جیت لے گی

ماں اگر اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کرے گی اسے کتاب و سنت کی روشنی میں عورتوں کے حقوق کا احساس دلائے گی تو کل وہ خاوند کے طور پر اپنی بیوی اور سسرال کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرے گا۔ اپنی بیوی کے ماں باپ کو بھی اپنے ماں باپ کی طرح احترام دے گا۔ اپنے گھر اور اس کے مسائل خوش اسلوبی سے حل کرے گی تو اس سے گھر امن و محبت کا گہوارہ بن جائے گا۔

ماں کو چاہیے کہ بیٹے کو سکھائے کہ جس طرح شریعت نے تمہارے لیے میرے حقوق رکھے ہیں اسی طرح تمہاری بیوی کے بھی حقوق ہیں جو تم نے ہی ادا کرنے ہیں اس لیے تم اعتدال سے کام لو۔ شادی کے بعد یہ اعتدال رکھنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ماں اور بیوی دونوں کو ان کے مقام پر رکھتے ہوئے، اس طرح بہن اور بیوی کو اپنے مقام پر رکھتے ہوئے ہر فرد کو اپنے فرائض نبھانے چاہیے۔

جن خاندانوں اور گھروں میں بہو کی عزت دیکھیں تو سمجھ لیں کہ ماں کی سلیقہ شعاری ہے۔ جب ماں اپنے بیٹے کے لیے کسی کی بیٹی کو بیاہ کر گھر لاتی ہے تو اسے وہی مقام اور عزت دینی چاہیے جو وہ اپنی سگی بیٹی کے لیے اس کے سسرال میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اگر ہر گھر میں بہو کو بیٹی کا رتبہ دیا جائے تو ہمارا معاشرہ بہت سے مسائل سے بچ جائے۔

اگر کہا جائے کہ معاشرے کا حسن ہی ماں میں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ زمین پر سب سے پہلا زمینی رشتہ ماں کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ اللہ پاک نے حضرت حوا علیھا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کی زوج بناتے ہوئے زمین پر اتارا تو آپ زمین پر ماں بنی۔ آپ سے نسلِ انسانی کا آغاز و ارتقاء ہوا۔ اس کے بعد دیگر نسوانی رشتے بہن، بیوی، بھابی، چچی، تائی، خالہ، پھوپھو، دیورانی، جیٹھانی، دادی، نانی، ساس، بہو وغیرہ وجود میں آتے گئے۔ یہ سب رشتے اگر ماں کے رشتے کے تقدس کا خیال رکھیں تو معاشرہ جنت نظیر بن جاتا ہے۔ مگر جب یہ ماں کے روپ سے کسی اور رشتے میں داخل ہوتے ہیں تو خاندانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذات میں ایک نمونہ بن جائے جسے دیکھتے ہو ئے اس کی اولاد صراطِ مستقیم اختیار کرے اور اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق گزارے۔ تربیت یافتہ ماں کی گود سے معاشرے کو پر سکون اور خوشگوار بنانے والے افراد جنم لیتے ہیں۔ اگر ماں سیدۃ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہو تو بیٹی سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتی ہے۔ ماں اگر سیدۃ کائنات ہو تو بیٹا شہیدِ کربلا بنتا ہے۔ ماں اگر ام الخیر ہو تو بیٹا غوثِ اعظم بنتا ہے۔ ماں اگر راستی ہے تو بیٹا سلطان العارفین بنتا ہے۔

حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال اپنی کتاب ارمغانِ حجاز میں دخترانِ ملت کے نام سے ملتِ اسلامیہ کی بیٹیوں کو جو پیغام دیتے ہیں اس سے ماں کا تربیتی کردار واضح ہوتا ہے۔

اگر پندے زدرویشے پذیری
ہزار امت بمیرد، تو نہ میری

بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوشِ شبیرے بگیری

اے مسلمان عورت! تو مجھ درویش سے ایک نصیحت پکر۔ ہزار مائیں مر سکتی ہیں لیکن تو مر کر بھی نہیں مرے گی اگر تومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ ؑ کی طرح بن جائے جو بتول کہلاتی تھیں۔ کیونکہ وہ دنیاوی علائق سے پاک تھیں۔ اور اس زمانے میں اپنی نمائش کی بجائے اس سے چھپ جا، تا کہ تیری گود میں بھی فاطمہؓ کے لعل حسینؑ جیسے بیٹے پیدا ہوں۔

زشام ما بروں آور سحر را
بہ قرآن باز خواں اہل نظر را

تو میدانی کہ سوزِ قرآت تو
دگر گوں کرد تقدیر عمر را

اے مسلمان عورت! تو ہماری شام(برے حالات) سے صبح (اچھے حالات) پیدا کر۔ اس طرح کہ خود بھی قرآن پڑھ اور اہلِ نظر کو دوبارہ قرآن کی طرف بلا۔تو اس واقعہ کو جانتی ہے کہ ایک عورت سے قرآن سن کر عمر کی تقدیر بدل گئی۔