فکرِ شیخ الاسلام: اچھی زندگی گزارنے کا راز کیا ہے؟

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

انسان روز اول سے مسافر ہے یہ ہمیشہ مرحلہ وار سفر پر گامزن ہے۔ اچھا سفر اور مقام اس انسان کا ہے جو اپنی اصل پر قائم ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ جن کے والدین جوان عمری میں دنیا سے رخصت ہوگئے ان کے لیے ایک پیغام یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ نعمت نصیب ہے کہ والدین حیات ہیں یا والدین میں سے ایک حیات ہے ان کے لیے نصیحت کا کلمہ یہ ہے کہ جنت کا دروازہ ان کے لیے کھلا ہے۔ والدین کی خدمت اولاد کی بخشش اور جنت میں داخلے کا سبب ہوتی ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور پختہ عمر لوگوں کو جنہیں والدین کی نعمت میسر ہے ۔ ذہنوں میں یہ بات جاگزین رکھنی چاہئے کہ والدین کی خدمت سے بڑے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ آفتیں ٹل جاتی ہیں، بڑی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں۔ دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چھوٹی عمر یا زندگی میں جب یہ نعمت موجود ہوتی ہے تو انسانی زندگی کا مزاج ایسا ہے موجودہ نعمت کی قدر نہیں ہوتی۔

جس کو پانی ملتا رہتا ہے اس کو وہ قدر نہیں ہوتی جو پیاسے کو ہوتی ہے۔ صحت مند کو وہ قدر نہیں ہوتی جو بیمار کو ہوتی ہے جن کو اللہ نے دولت سے نوازا ہے ان کو اس کی وہ قدر نہیں ہوگی جو اس نعمت سے محروم لوگوں کو ہوگی۔ اس کی قدر دانی اس شکل میں ہی معتبر ہوتی ہے کہ آپ اچھی زندگی گزاریں۔ اگر آپ نے اچھی زندگی نہیں گزاری تو آپ والدین کے بھی کسی کے کام کے نہیں ہیں کسی اور کے کام کے بھی نہیں۔ دنیا اور آخرت میں اچھی زندگی کس طرح گزاری جائے اس کا ایک راز ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان اپنی اصل میں رہے۔ اصل وہ خوبی ہے جس پر اللہ رب العزت نے انسان کو تخلیق کیا تھا۔ اسے ایک مخلوق بنا کے انسان کا نام دیا تھا۔ انسان کا نام انس میں سے نکلا ہے۔ یہ انسان کی اصل ہے یہ انسان کی خلقت کی بنیاد ہے۔ انس پیار کو کہتے ہیں۔ انس کے لیے عام طو رپر یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں میں فلاں سے مانوس ہوگیا یا میرے بچے مجھ سے مانوس ہیں۔ مانوسیت ایسی چیز ہے کہ ہر شخص اس سے مانوس ہے۔ ہر شخص اس سے کسی بنا کسی طریقے سے مانوس ہے۔ خواہ وہ اپنے گھر سے یا وہ اپنی بیوی بچوں سے مانوس ہے یا وہ عزیز و اقارب یا خونی رشتوں سے مانوس ہے یا خواہ وہ اپنے فن، پیشے یا ہنر سے مانوس ہے یا وہ اپنے ماحول زندگی سے مانوس ہے۔ کسی بھی انسان کو دیکھیں وہ کسی نہ کسی سے مانوس ضرور ہے۔ اسے مانوس ہونا ہے کیونکہ انس انسان کی خلقت، جبلت اور اصل میں ہے۔ یہ انس کسی چیز سے بھی بڑھتا جائے پختہ ہوجائے، اسے محبت کہتے ہیں۔ محبت بڑھتی جائے اور پختہ ہوکر کمال کو پہنچ جائے تو اسی کو عشق کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے جب انسان کو پیدا فرمایا تو اس کو معلوم تھا کہ میں انسان کو پیدا کررہا ہوں اور اس کی خلقت میں انس ہے اللہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے جسے ایمان دیتا ہے۔ ایمان اور ابتلاء یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جب اس کو انسان بنایا تو اس کے اندر انس کا مادہ رکھ دیا اور فرمایا یہاں آزادی کے ساتھ رہو جو جی چاہے کھائو، پیو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا یہ انس پر آزمائش رکھ دی۔ کبھی انسان صادق امین ہوتا ہے مگر اس کے اندر خطا ہوتی ہے وہ خطا حبوط کا باعث تو بنتی ہے مگر گراوٹ کا باعث نہیں۔

آدم علیہ السلام کو سجدہ جنت میں کروایا گیا۔ سجدہ کروانے سے پہلے فرشتوں کو بتادیا گیا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ ابھی درخت کے قریب نہیں گئے، حبوط نہیں، کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً.

(البقره، 2: 30)

’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔

میں زمین میں خلیفہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں پھر آدم علیہ السلام کو تعلیم اسماء ہوئی اور نام بتائے گئے پھر ان سے سجدہ کروایا گیا۔ سارے مراحل عبور کرواکے فرمایا یہاں رہو۔ آپ اور آپ کی زوجہ حوا بھی جہاں چاہیں رہیں لیکن اس درخت کے پاس نہیں جانا مگر درخت کے قریب لے جایا گیا پھر حبوط کا حکم ہوا تب جاکر زمین میں خلیفہ بنے۔ مگر سارے مراحل سے پہلے اعلان کردیا تھا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو یہ خطا اس منصب خلافت پر فائز کروانے کے لیے کروائی گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو جنت سے زمین پر کیوں بھیجے جاتے۔

یہ ساری آزمائشیں ہوتی ہیں۔ آزمائش میں انسان پریشان ضرور ہوتا ہے اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس میں میرے لیے بہتری ہے۔ اگر بندے کی نیت میں صدق ہو اس کی طبیعت کے اندر جو انس ہے اس سے اس کا رشتہ نہ ٹوٹے، نافرمانی کا ارادہ نہ آئے بیگانہ نہ بنے۔ ظاہر اور باطن کے ساتھ جوڑا رہے تو خطا بھی ہوجائے اس کے ذریعے بھی مرتبہ بلند کردیا جاتا ہے۔ مرتبہ خطا سے بلند نہیں ہوتا بلکہ خطا ذریعہ بنتی ہے توبہ کا اور توبہ ذریعہ بنتی ہے بلندی کا۔ خطا کے بغیر توبہ ہو تو بندے کے اندر اتنی گریہ و زاری نہیں ہوتی۔ احساس خطا نہ ہو تو بندہ جب توبہ کرتا ہے تسبیح کرتا ہے ذکر کرتا ہے۔ اتنی گریہ و زاری چیخ و پکار نہیں ہوتی۔ وہ تڑپتا نہیں ساری ساری راتیں نہیں جاگتا اگر اس کے ذہن میں خطا کا تصور نہیں ہے کہ خطا ہوئی ہے۔ تو یہ اس کے لیے تسبیح کی مانند ہے جیسے فرشتے کرتے ہیں۔ فرشتوں کے ہاں رونا دونا نہیں کیونکہ خطا نہیں ہوتی۔ اس لیے گریہ و زاری آہ و بکا نہیں۔ اللہ پاک نے یہ دونوں خوبیاں انسان میں جمع کردی ہیں اور ان کے پیچھے انس ہے۔ انس اور محبت نیکی بھی کرواتا ہے، خطا بھی کرواتا ہے، یہ تقویٰ کی طرف بھی لے جاتا ہے۔ یہ گناہ بھی کرواتا ہے پھر توبہ کی طرف لے جاکر اللہ کی قربت بھی دلاتا ہے۔

بنیادی چیز یہ ہے کہ انس اگر پختہ ہو تو محبت ہے انسان کا امتحان ہے کہ اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ اسے بھی کئی درخت بناکر گنوائے ہیں کہ اس کے قریب نہیں جانا۔ بہت سی چیزیں کھلی بھی دے دی ہیں یہ بھی کرسکتے ہو جو کھلی چیزیں دی ہیں وہ بے حساب ہیں جو ممنوع کردی ہیں وہ کم ہیں۔ پھر اللہ ان میں بندے کو آزماتا ہے کہ بندہ میرے ساتھ تعلق کو کتنا نبھاتا ہے۔ میرے امر کو کتنا عزت و احترام دیتا ہے یہ آزمائشیں زندگی میں ابتلا ہوتے ہیں۔ ابتلا، ایمان والوں کے لیے ہوتا ہے طغیان والوں کے لیے نہیں ہوتا۔

دراصل ایمان کی اساس اور بنیاد جاننا نہیں ہے بلکہ ماننا ہے۔ بہت لوگ ہیں جو بہت کچھ جانتے ہیں مگر بہت کچھ جاننے سے ایمان نہیں آتا۔ ایمان ماننے سے شروع ہوتا ہے اس لیے سورہ بقرہ میں ایمان کی اساس سمجھادی۔ تین چیزوں پر ایمان کا مدار رکھا۔ سب سے پہلے کہا شک دور کردو لاریب فیہ کیونکہ شک ترد کا نام ہے، شک بندے کو گرداب میں رکھتا ہے، شک جم نہیں دیتا استقامت نہیں دیتا اور بندے کو آگے جانے نہیں دیتا جب شک کی کوئی گنجائش نہ رہے تو پھر بندہ اس قابل ہوجاتا ہے۔ محبوب حقیقی جو کہے گا وہ مان لیتا ہے۔ مرجاتا ہے جی اٹھتا ہے، وہ سوال جواب ہونے ہیں، حشر ہوگا قیامت ہوگی، میزان لگے گا، پل سے گزریں گے، شفاعت ہوگی، دوزخ ہوگی جنت ہوگی۔ سب کچھ نہ آنکھوں نے دیکھا ہے نہ دماغ سمجھنے کے قابل ہے نہ تجربہ نے دیکھا ہے۔

جب شک کی کلیتا بیخ کنی ہوجائے گی اور شک کی جگہ نہیں بچے گی تو پھر مالک جو کہے گا بن دیکھے مان لیتا ہے۔ یہ ایمان کا دوسرا درجہ ہے۔ جب بن دیکھے ماننے کا یوں حق ادا کرنے لگے تو اس کو یقین کامل مل جاتا ہے۔ یومنون بالغیب کے بعد وبالآخرۃ ہم یوقنون بالآخر وہ صاحب یقین ہوجاتا ہے۔ اس پر آگ بھی گلزار ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے گلزار نہیں ہوتی آگ تو آگ ہے اس کا کام جب ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے آگ میں پھنکوا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی فرشتے کو بھیجا فرشتے نے کہا آگ کے اندر آپ کو میری مدد چاہئے کہ میں تمہاری آگ بجھا دوں۔ آپ نے فرمایا کس لیے آئے ہو۔ اپنے طور پر مدد کرنے آئے ہو۔ اگر اپنے طور پر آئے تو کوئی ضرور نہیں۔ اگر کسی کے بھیجے ہوئے آئے تو وہ مجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے کہ میرے لیے اچھائی کیا ہے اور برائی کیا ہے۔ تم چلے جائو۔ تب فرمایا یا النار قوتی بردا و سلاما علی ابراہیم پھر نار گلزار ہوگئی۔

یہ یقین کا آخری مرحلہ ہے سفر شروع ہوتا ہے اس محبت سے اس انس سے جو اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے پھر اس کو پالتا ہے پھر اس کو تمام شر سے محفوظ و مامون رکھتا ہے۔ پھر بندہ اس دنیا کی زندگی کو اتنی پاکیزہ گزارتا ہے کہ فرشتے آسمانوں پر اس کی زندگی پر رشک کرتے ہیں۔ کہتے ہیں باری تعالیٰ تو نے اس اسفلین میں ٹھہرایا ہے۔ اعلیٰ علیین سے بھی ستھری زندگی گزارتا ہے۔ محبت اور یقین اس کی پہرا داری کرتا ہے اگر ایسی زندگی گزار کر بندہ اللہ کی طرف جائے اس کا جانا ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت سب کو ایسی زندگی عطا فرمائے جس کے نتیجے میں وہ سفر سب سے اعلیٰ بن جائے وہ ملاقات جو اس سفر کے بعد وہ بڑی مقبول ملاقات بن جائے۔