حرمت والے مہینوں کا قرآنی فلسفہ

ڈاکٹر فرخ سہیل

سورۃ التوبہ کی آیت نمبر36 میں پروردگار عالم ارشاد فرمارہا ہے کہ:

’’مہینوں کی تعداد خدا کے نزدیک کتاب میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ بارہ ہے جن میں سے چار مہینے ماہ حرام ہیں اور ان میں جنگ کرنا ممنوع ہے۔ یہ اللہ کا ثابت و قائم آئین ہے۔ لہذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو‘‘۔

سورہ مبارکہ میں پروردگار عالم کا ارشاد ہورہا ہے کہ جب سے آسمان و زمین کی تخلیق کی گئی مہینوں کی تعداد بارہ ہے یعنی جس دن سے نظام شمسی نے موجودہ شکل اختیار کی ماہ و سال موجود ہیں اور سال کے ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں کہ جن میں جنگ و جدل حرام ہے۔ بعض مفسرین کے مطابق ان چار مہینوں میں جنگ کی حرمت حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے دور سے ہے اور یہ زمانہ حرمت جاہلیت کے عربوں میں بھی پوری قوت سے ایک سنت کے طور پر موجود تھی۔ اگرچہ اپنے میلانات اور ھوا و ہوس کے مطابق کبھی کبھی وہ ان مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے لیکن اسلام میں یہ ماہ غیر متغیر ہیں۔ ان میں تین مہینے یکے بعد دیگرے ہیں اور وہ ہیں ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ ایک ماہ الگ اور وہ رجب ہے۔ عربوں کی اصطلاح میں تین ماہ ’’سرد‘‘ (یکے بعد دیگرے) اور ماہ ’’فرد‘‘ (اکیلا) ہے۔

لہذا ان مہینوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنگ کو ممنوع کردیا ہے ماسوائے اس صورت میں کہ جب وہ دشمن کی طرف سے مسلط کی جائے۔ ورنہ ان حرام مہینوں کی مکمل حرمت کو قائم رکھنا مسلمانوں پر لازم ہے لیکن اگر دشمن کی طرف سے اس حرمت کو توڑا جائے تو اس کا جواب دیا جائے۔ اسی لیے قرآن معجز بیان میں ارشاد ہوا کہ یہ پروردگارِ عالم کا قائم و دائم اور ناقابل تغیر آئین ہے نہ کہ عربوں کی باطل رسوم اور ان کی ہوا و ہوس اور خواہشات کو پورا کرنا۔

تفسیر برہان کی روایت کے مطابق ان چار ماہ میں جنگ کی یہ حرمت دین ابراہیمی کے علاوہ یہود و نصاریٰ اور دیگر آسمانی ادیان میں بھی ہے اور ذلک الدین القیم اسی لیے فرمایا گیا ہے اور اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ یہ پہلے سے ایک مستقل قانون ثابت طور پر موجود تھا۔

اس آیت میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ان چارمہینوں میں اپنے اوپر ظلم روا نہ رکھو اور ان کا احترام زائل نہ کرو اور اپنے تئیں دنیا کی سزائوں اور آخرت کے عذابوں میں مبتلا نہ کرو۔

آیت نمبر37 میں ارشاد باری تعالیٰ ہورہا ہے۔

’’نسئی (حرام مہینوں کی تقدیم و تاخیر) مشرکین کے کفر کی زیادتی ہے کہ جس کی وجہ سے کافر گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ایک سال اسے حلال اور دوسرے سال اسے حرام کردیتے ہیں تاکہ ان مہینوں کی تعداد کے مطابق ہوجائے کہ جنہیں خدا نے حرام کیا ہے اور اس طرح سے خد اکے حرام کردہ کو حلال شمار کریں‘‘۔

اس آیہ مبارکہ میں زمانہ جاہلیت کی ایک رسم بد یعنی مسئلہ نسئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمت والے مہینوں کو ادل بدل کرنا کفر کی زیادتی کی وجہ سے ہے۔ اس عمل حرام کے ذریعے بے ایمان لوگ گمراہی کے مرتکب ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ کبھی کسی ایک مہینے کو حلال شمار کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے مہینے کو تاکہ وہ اپنے گمان اور مرضی سے خدا کے معین کردہ حرام مہینوں کی تعداد پوری کرلیں جیسا کہ ان چار مہینوں میں جنگ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ طویل المدت جنگوں کا خاتمہ ہوسکے اور صلح و آشتی کی دعوت دی جاسکے کیونکہ اگر جنگجو قبائل سال میں ان حرمت کے چار مہینوں میں ہتھیار رکھ دیں گے تو خود بخود جنگ کے خاتمے کا امکان پیدا ہوجائے گا کیونکہ ایک کام کو چھوڑ کر نئے سرے سے شروع کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے اور اگر یہی کام متواتر جاری رہے تو وہ زیادہ آسان ہوتا ہے۔ لیکن اگر دشمن اس اسلامی قوانین سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حرام مہینوں کی حرمت کو پامال کردے تو پھر مسلمانوں کو بھی جوابی کاروائی کی اللہ تبارک تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔

ایک روایت کے مطابق زمانہ جاہلیت میں عرب کبھی ماہ حرام کو موخر کردیتے تھے یعنی محرم کی بجائے صفر کو ماہ حرام قرار دیتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ پہلا شخص جس نے اس طریقے کا آغاز کیا وہ عمرو بن لحی تھا اور بعضوں کے نزدیک اس کام کی ابتدا کرنے والا قلمس تھا جس کا تعلق بنی کنانہ سے تھا۔

حرمت کے مہینوں میں ردو بدل کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلسل تین ماہ کی پابندی عربوں کو مشکل میں ڈال دیتی تھی وہ اسے اپنے تئیں جذبہ جنگ کی کمزوری خیال کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ اس عمل سے ان کی فوج کی کارکردگی رک جائے گی اور مستقل جنگ و جدال، غارت گری و خونریزی سے ان کو فطری رغبت تھی اور وہ جنگ و غارت گری کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے لہذا یکے بعد دیگرے تین مہینوں کی جنگ بندی انہیں گراں گزرتی تھی اور مہینوں کی اس تبدیلی میں اس بات کا احتمال بھی ممکن ہے کہ ماہ ذی الحجہ کبھی موسم سرما میں آجاتا تھا اور یوں حج کے معاملات کی ادائیگی ان کے لیے مشکل ہوجاتی تھی۔ اگرچہ حج کی ادائیگی عربوں کی عبادت میں شامل نہیں تھی بلکہ وہ اسے حضرت ابراہیم کی یادگار کے طور پر ادا کرتے تھے اور اس کے علاوہ یہ بھی کہ انہیں اس عظیم اجتماع پر تجارت اور کاروبار زندگی کے وسیع مواقع حاصل ہوتے تھے۔ لہذا وہ ماہ ذی الحجہ کو کسی دوسرے مہینے میں بدل دیتے تھے تاکہ انہیں دنیاوی فوائد حاصل کرنے کے لیے ان کی پسند کا موسم مہیا ہوسکے اور یوں ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عربوں کی خصلت کا ذکر کیا ہے وہ شیطانی وسوسوں سے حرام مہینوں کو ادل بدل دیتے تھے اور اس کام کو وہ تدبیر زندگی اور معیشت کے لیے موزوں اور مفید گمان کرتے تھے اور بصورت دیگر حرمت کے مہینوں میں جنگ بندی کرنے کو وہ جنگی مہارت میں رکاوٹ اور کمی تصور کرتے تھے اسی لیے پروردگار نے ان لوگوں کو جو ہدایت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے اور ان کی ہدایت سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے کیونکہ

واللہ لا یدی القوم الکفرین.

حرمت کے مہینوں میں ذی الحجہ ایسا ماہ مبارکہ ہے جس کی فضیلت و بزرگی سورۃ المائدہ کی اس آیت سے بخوبی واضح ہورہی ہے:

’’اے ایمان والو شعائر خداوندی کو حلال قرار نہ دو اور نہ ہی حرام مہینہ کو اور نہ بغیر نشانی والی قربانیوں کو اور نہ نشانیوں والی کو اور نہ وہ کہ جنہیں خانہ خدا کے قصد سے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لاتے ہو اور جب تم حالت احرام سے نکل جائو تو پھر شکار کرنا تمہارے لیے کوئی منع نہیں ہے اور وہ گروہ جو مسجد الحرام کی طرف تمہارے آنے میں حائل ہوا تھا۔ اس کی دشمنی تمہیں تجاوز پر نہ ابھارے اور ہمیشہ نیکی اور پرہیزگاری کی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور تجاوز کی راہ میں ساتھ نہ دو اور خدا سے ڈرو جس کی سزا سخت ہے‘‘۔

مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے کہ شعائر خداوندی کو نہ توڑو اور ان کی حرمت کا خیال رکھو۔ اس آیہ مبارکہ سے مختلف نکات کی وضاحت ہورہی ہے۔

  1. شعائر اللہ سے مراد مراسم حج ہیں اور سب پر ان کا احترام لازم ہے۔
  2. حرام مہینوں کا احترام لازم ہے اس میں جنگ و جدال ممنوع ہے۔
  3. قربانی کے جانور چاہے وہ نشانی والے ہوں یا بغیر نشانی کے انہیں حلال نہ سمجھو۔
  4. خانہ خدا کی زیارت کو آنے والے افراد، قبائل میں کوئی امتیاز نہیں رکھنا چاہئے۔
  5. شکار کی حرمت زمانہ احرام میں منع ہے۔
  6. اپنے ان دشمنوں کو بھی خانہ خدا کی زیارت سے مت منع کرو جنہوں نے تمہیں روکا تھا۔
  7. نیکی اور تقویٰ کی راہ میں ایک دوسرے کے دست راست بن جائو اور گناہ میں تجاوز کرنے والے سے تعاون نہ کرو۔
  8. پرہیزگاری اور تقویٰ اختیار کرو اور حکم خدا کی نافرمانی سے بچو۔

اس مفصل آیہ کریمہ میں آٹھ اہم احکامات مذکور ہیں۔ جن میں سب سے اول اور اہم بات شعائر اللہ کی حرمت کو قائم رکھنا ہے۔ شعائر سے مراد مناسک حج اور حج کے ایام ہیں۔ لہذا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب ان شعائر کا احترام کریں۔ اس کے علاوہ دوسرا اہم نکتہ حرام مہینوں کی حرمت کو قائم رکھنا ہے حکم الہٰی ہورہا ہے کہ ان مہینوں میں جنگ و جدال سے احتراز کرو۔ ان حرمت کے مہینوں کی حرمت کو قائم رکھو اور اس کے علاوہ یہ حکم بھی دیا جارہا ہے کہ خانہ خدا کی زیارت کے لیے آنے والے اپنے ساتھ قربانی کے جو جانور لاتے ہیں ان کی حرمت کو پامال نہ کرو اپنے اوپر انہیں حلال نہ سمجھو اور قربان گاہ تک پہنچنے دو تاکہ انہیں جس مقصد کے لیے لایا گیا ہے اس مقصد کے لیے قربان کیا جائے۔

اس کے علاوہ آیہ مبارکہ میں یہ حکم بھی دیا جارہا ہے کہ خانہ خدا کے تمام زائرین کو مناسک حج کی ادائیگی میں پوری آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ رنگ و نسل، خاندانوں اور زبانوں کا کوئی امتیاز نہیں رکھنا چاہئے، یہاں تک کہ جو لوگ تجارتی فوائد حاصل کرنے کے لیے بیت اللہ کی زیارت کے لیے آتے ہیں ان سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہ کی جائے چاہے وہ تمہارے دوست ہوں یا دشمن یہاں تک کہ بعض مفسرین اور فقہا کا نکتہ نظر یہ ہے کہ اس مفہوم میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ اگر وہ بھی خانہ خدا کی زیارت کی غرض سے آئیں تو ان سے مزاحمت مت کرو اور انہیں مسجد الحرام میں آنے سے مت روکو۔ اگرچہ انہوں نے تمہیں مسجدالحرام کی زیارت سے روکا اس حکم میں قرآن کا یہ فلسفہ ہے کہ پرانی دشمنی کو زندہ کرنے کی بجائے ختم کردیا جائے اور یہ اسی مقدس و محترم مہینے کی بدولت ممکن ہے۔

آخر میں آیہ قرآنی سے اس حکم خداوندی کا ذکر ہے کہ اے مسلمانوں تم اپنے پرانے دشمنوں سے دشمنی چھوڑ کر ایک ہوجائو نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ و برائی میں ایک دوسرے سے تعاون مت کرو اور اے مسلمانوں پرہیزگاری اختیار کرو اور خدا کے حکم کی نافرمانی کرنے سے بچو کیونکہ

واتقواللہ ان اللہ شدید العقاب.

مختصر یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام احکامات میں انسانوں کے لیے ہدایت و راہنمائی پنہاں ہے۔ یہاں تک کہ شہوز الحرام کی حرمت کو قائم اور برقرار رکھے۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود کی حلت و حرمت کا احترام کرنا ہے پروردگار نے اسی کے لیے دین و دنیا کی فلاح رکھی ہے جبکہ تجاوز کرنے والو ںکے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔