حضرت عائشہ کا اشاعتِ حدیث میں کردار

تحریم رفعت

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بنت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ اللہ تعالیٰ کے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب زوجہ تھیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار انہیں حمیرا کہہ کر بھی پکارا کرتے تھے۔ واقعہ اِفک میں آپ ؓ کی پاکدامن کا بیان قرآن حکیم میں نازل ہوا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ان سے منگنی کی جبکہ وہ غیر شادی شدہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ان سے شادی کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے علاوہ اور کسی باکرہ عورت سے نکاح نہیں کیا۔ ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو نہایت ہی اعلیٰ، ارفع اور قابل رشک مقام حاصل ہے۔ آپ معاصر صحابہ و صحابیات میں طبعی ذہانت و فطانت، فراست و متانت اور وسعت علمی کے اعتبار سے ایک امتیازی شان رکھتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے تفقہ فی الدین، دقت نظر، قوت حافظہ اور شوق حدیث ایسا تھا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ کم و بیش آٹھ ہزار صحابہ و صحابیات نے علمی و فقہی معلومات حاصل کرنے کیلئے آپ سے سلسلہ تلمذ قائم کیا۔ آپ مکثرین الروایۃ صحابیات میں سے ہیں، آپ سے مروی احادیث کی تعداد دو ہزار دو سو دس ہے۔ مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، ان کے علل واسباب کی تلاش وتحقیق میں بھی آپ کو خاص امتیاز حاصل تھا اور آپ کی صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے، کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفادہ کے معاملے میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سب سے آگے تھیں۔ ان کے ذہن میں جو بھی اشکال پیدا ہوتا وہ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا اظہار کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس کی وضاحت فرمادیتے۔

آپ کی روایات سے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سیرت مقدسہ کے ان گوشوں اور پہلوؤں کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کی گھریلو زندگی میں تقسیم کار کیا، ازواج مطہرات سے آپ کا سلوک کیسا تھا، آپ کی راتیں کیسے بسر ہوتی تھیں، آپ کتنا سوتے اور کتنا جاگتے تھے، اور کس قدر عبادت و ریاضت میں شب بسر کرتے، کیسے ہم کلام ہوتے وغیرہ وغیرہ۔

شریعت کے اکثر مسائل جن میں بیشتر خواتین سے متعلق ہیں وہ آپ اور دیگر ازواج مطہرات کے ذریعے امت کو معلوم ہوئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کو فقہی امور پر کامل دسترس حاصل تھی اور علم کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جس کے بارے میں آپ کو کمال درجے کی معلومات نہ ہوں۔ آپ قرآن مجید کی حافظہ تھیں، بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ اپنے اختلافی مسائل آپ کے سامنے پیش کرتے آپ اپنی اجتہادی بصیرت اور وسعت علمی سے انہیں حل کر دیتیں۔

حضرت موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ جب بھی ہمیں کوئی علمی مشکل پیش آتی تو آپ کی خدمت میں حاضری دیتے، آپ اس کے بارے میں تسلی بخش معلومات فراہم کر دیتیں۔

حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے: حضرت عائشہ ؓ کے خصائص میں سے ہے کہ وہ نہ صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ عالمہ تھیں بلکہ ان کا علم تمام عورتوں سے بھی مطلقاً زیادہ تھا۔ امام زُہری نے کہا ہے: اگر حضرت عائشہ ؓ کا علم تمام ازواج مطہرات کے علم کے مقابلے میں لایا جائے اور پھر تمام عورتوں کا علم ان کے علم کے مقابلے میں جمع کیا جائے تو پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا علم ان تمام کے علم سے زیادہ افضل ہوگا۔ حضرت عطا بن رباح نے کہا ہے: حضرت عائشہ ؓ تمام لوگوں سے زیادہ فقیہ تھیں، تمام لوگوں سے زیادہ علم والی تھیں اور بالعموم تمام لوگوں سے زیادہ صائب رائے رکھنے والی خاتون تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: بے شک میرے لئے یہ امر آسان ہوگیا کہ تم مجھے جنت میں میری زوجہ دکھائی گئی ہو۔

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم و تربیت اور فیضان نبوت کا اثر تھا کہ علم کے اعتبار سے سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ راویوں میں انتہائی اہم مقام رکھتی ہیں۔

آپ سے 2210 احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم روایت ہیں جبکہ اِن میں سے 174 متفق علیہ ہیں، یعنی اِن کو امام بخاری نے صحیح بخاری اور امام مسلم نے صحیح مسلم میں سنداً روایت کیا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے متفق روایات 174 لی ہیں جن میں امام بخاری 54 میں منفرد ہیں اور امام مسلم 69 احادیث میں منفرد ہیں ۔(145) 2210 احادیث والی تعداد کو سید سلیمان ندوی نے سیرت عائشہ میں لکھا ہے مگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ صرف مسند احمد بن حنبل میں ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات کی تعداد 2524 ہے۔

اگر صحاح ستہ میں مکرر رویات حذف نہ کی جائیں تو روایات عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعداد یوں ہے:

  • صحیح بخاری: 960 احادیث
  • صحیح مسلم: 761 احادیث
  • سنن ابوداود: 485 احادیث
  • سنن نسائی: 690 احادیث
  • جامع سنن ترمذی: 535 احادیث
  • سنن ابن ماجہ: 411 احادیث
  • موطاء امام مالک: 141 احادیث
  • مشکوٰۃ المصابیح: 553 احادیث
  • سنن الدارمی: 200 احادیث
  • مسند امام احمد بن حنبل: 2524 احادیث
  • موطاء امام محمد: 80 احادیث

صحاح ستہ کے ساتھ موطاء امام مالک کی روایات کو جمع کر لیا جائے تو تعدادِ روایات 3983 ہوتی ہے۔

حدیث کا منبع و ماخذ چونکہ ذات رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اسی ذات سے سب سے زیادہ تقرب حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے محبوب خدا کو جلوت و جلوت میں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کا بنظر غائر مشاہدہ کیا تھا۔ اس لئے آپ سے بہتر مصدقہ روایت حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو خداداد قوت حافظہ اور فطری ذہانت و فطانت بھی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سب سے زیادہ احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ یہ فضیلت کسی بھی ام المومنین کو حاصل نہیں حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک پردہ نشین خاتون اور ام المومنین ہونے کے باعث مرد معاصرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرح ہر مجلس میں نہ جاسکتی تھیں جس میں رہبر کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا سے مروی احادیث کا ہزاروں کی تعداد میں ہونا اس امر کی شہادت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ جو آپ رضی اللہ عنہا کی نظر سے گزرا اسے ذہن میں بحسن و خوبی محفوظ کرلیا۔

اکثر روایات احادیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے صرف بیان کرنے کی حد تک رکھی ہیں مگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ شرف حاصل تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جن احکام اور واقعات کو روایت کیا ہے ان میں سے اکثر کے اسباب و علل بھی بیان کئے ہیں اور وہ خاص حکم کن مصلحتوں کی بناء پر صادر کیا گیا اس کی تشریح بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتیں۔ گویا آپ رضی اللہ عنہا کے ذہن میں احادیث کا مکمل سیاق و سباق اور حوالہ موجود ہوتا تھا۔ بعض اوقات رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو احکامات دیتے تھے ان کی مصلحتیں خود بتادیتے تھے اور کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے خود پوچھ لیتی تھیں۔ اس ضمن میں آپ کوئی خوف یا ڈر محسوس نہیں کرتی تھیں بلکہ سوال کرکے اور تسلی بخش جواب پاکر مطمئن ہوجایا کرتی تھیں۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جن کے اسباب اور مصلحتوں کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے مثلاً جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے لیکن اس کے سبب کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:

لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادی سے جمعہ کی نماز میں آکر شامل ہوتے تھے وہ گردو غبار اور پسینے سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک آدمی سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت میرے ہاں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ تم آج جمعہ کی نماز کے لئے نہالیتے تو اچھا ہوتا۔

(بخاری، کتاب الغسل)

اسی طرح عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ چار رکعت والی نمازیں سفر کی حالت میں سہولت کی خاطر دو رکعت میں بدل گئی ہیں جبکہ اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مکہ میں دو رکعت نماز فرض تھی۔ جب سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار رکعت فرض کی گئیں اور سفر کی نماز اپنی حالت پر چھوڑ دی گئی اور وہ دو رکعت ہی رہیں۔ ہجرت کے بعد نمازوں میں جب دو رکعتوں کی بجائے چار رکعتیں ہوگئیں تو پھر مغرب میں تین رکعتیں کیوں ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس ضمن میں فرماتی ہیں کہ مغرب کی رکعتوں میں اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ وہ دن کی نمازکا وتر ہے۔

(مسند احمد بن حنبل)

صبح کی نماز میں دو رکعتیں کیوں برقرار ہیں وہ چار کیوں نہ ہوئیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ نماز فجر میں رکعتوں کا اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ صبح کی دونوں رکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔

(مسند احمد)

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رات کی عبادت، نماز و نوافل کے بارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کوئی واقف نہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نماز تراویح کے بارے میں فرماتی ہیں: ماہ رمضان میں ایک روز سردار دوجہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نماز میں مشغول دیکھ کر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوگئے۔ دوسرے روز پہلے سے زیادہ اجتماع ہوگیا۔ تیسرے روز اس سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے۔ چوتھے روز اتنا مجمع ہوا کہ مسجد نمازیوں سے بھر گئی اور تل دھرنے کو جگہ نہ رہی لیکن اس روز رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد میں تشریف نہ لے گئے البتہ صبح کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: گذشتہ رات تمہاری آمد مجھ سے مخفی نہ تھی لیکن مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر تمہارے شوق کی وجہ سے تراویح کی نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا کرنے سے قاصر رہو۔

(بخاری، باب قیام رمضان)

لیکن سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد جب کہ فرضیت کا گمان جاتا رہا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نماز تراویح کو رغبت کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ حجۃ الوداع میں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ سنت بالالتزام ہے جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اس ضمن میں فرمان ہے: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے طواف کے لئے سواری اس لئے استعمال کی تھی کہ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا اور اس بے انتہاء بھیڑ میں ہر شخص کی کوشش تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب پہنچ جائے۔ اس ہجوم میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ لوگوں کو زبردستی ہٹایا جائے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا تاکہ ہر شخص کی نگاہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پڑسکے اور کوئی اس سعادت سے محروم نہ رہے۔

(مسلم کتاب الحج، ابودائود)