مرتبہ: فریدہ سجاد

سوال: حج کے فرائض کیا ہیں؟

جواب: حج کے چھ فرائض ہیں جو درج ذیل ہیں:

  1. اِحرام باندھنا: یہ شرط ہے
  2. وقوفِ عرفہ: یعنی نویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب سے دسویں کی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے کسی وقت مقامِ عرفات میں ٹھہرنا
  3. طوافِ زیارت: طواف کے سات پھیروں میں سے کم از کم چار پھیرے مکمل کرنا۔ یہ دونوں چیزیں یعنی وقوفِ عرفات اور طوافِ زیارت حج کے رکن ہیں
  4. نیت: حج کے لیے نیت کرنا ضروری ہے
  5. ترتیب: یعنی پہلے احرام باندھنا پھر عرفہ میں ٹھہرنا پھر طواف زیارت، ہر فرض کا بالترتیب اپنے وقت پر ادا کرنا
  6. مکان: یعنی وقوف عرفہ، میدانِ عرفات میں نویں ذی الحجہ کو ٹھہرنا سوائے بطنِ عرفہ کے (یہ عرفات میں حرم کے نالوں میں سے ایک نالہ ہے جو مسجد نمرہ کے مغرب کی طرف یعنی کعبہ معظمہ کی طرف واقع ہے۔ یہاں وقوف جائز نہیں) اور مسجد الحرام کا طواف کرنا

سوال: کیا عورت محرم کے بغیر سفر اور حج کر سکتی ہے؟

جواب: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر تنہا طے کرے۔

(طبرانی، المعجم الاوسط، 6: 267، رقم: 6376)

پرانے وقتوں میں سفر بہت کٹھن اور پُر خطر ہوتے تھے، زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے صرف ہو جاتے تھے۔ اِس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو تنہا تین دن سے زیادہ کا سفر کرنے سے منع فرما دیا تاکہ اُس کی عفت و عصمت کی حفاظت ہو، بلکہ ایک روایت میں تو دو دن کے الفاظ بھی ہیں۔ اِنہی سفری تکالیف اور خطرات کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو تنہا حج کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند یا کسی محرم کے بغیر حج کرے۔

  • (ابن خزیمة، الصحیح، 4: 134، رقم: 2522)
  • (طبرانی، المعجم الکبیر، 8: 261، رقم:8016)

اِنہی اَحادیث اور اَحکامِ شریعت کی روشنی میں وضع کیے گئے، سعودی عرب کے مروّجہ قوانین کے مطابق کسی عورت کو مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کا ویزا ہی جاری نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا موجودہ دور میں عورت کا مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

البتہ اُس عِلّت اور پس منظر کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس کی بنا پر عورت کو مَحرم کے بغیر تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر اور حج کرنے سے منع فرمایا گیا۔ در حقیقت منع کا یہ حکم اِس لیے دیا گیا تھا کہ قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پُرخطرات ہوتے تھے۔ سفر پیدل یا جانوروں پر کیا جاتا تھا اور کئی کئی ہفتے اور مہینے سفر میں صرف ہوتے تھے۔ نیز دورانِ سفر چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اندریں حالات عورت کی عصمت و حفاظت اور سفری تکالیف و خطرات کے پیشِ نظر اسے اکیلے سفر کرنے سے منع فرما دیا گیا۔ مَحرم درحقیقت حفاظت کے لیے ہوتے تھے۔ آج ذرائعِ مواصلات بہت ترقی کرگئے ہیں۔ بے شمار سفری سہولیات و آسانیاں میسر آ چکی ہیں۔ دورانِ سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے اور حج کی ادائیگی کا باقاعدہ نظام ترقی پا چکا ہے۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیے جاتے ہیں جو مَحرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور خواتین کو اُس طرح کے مسائل و خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پرانے وقتوں میں درپیش ہوتے تھے۔ گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی مَحرم بن گئے ہیں، کیونکہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے گروپ میں یا ایک ایسے گروپ میں جہاں مرد و خواتیں اکٹھے ہوں لیکن فیملیز ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اِجتماعیت مَحرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ انِ حالات میں عورت کے لیے مَحرم کے بغیر سفر کرنا ناجائز نہیں رہتا۔ چاہے وہ (تین دن سے زیادہ مسافت کا) عام سفر ہو یا سفرِ حج اور عمرہ۔

سوال: حرمین شریفین میں بعض خواتین مردوں کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرتی ہیں، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: حرمین شریفین میں خواتین نماز میں مردوں کی طرف مسجد میں پہنچتی ہیں اگرچہ وہاں عورتوں کے لئے دروازہ بھی مخصوص ہے اور نماز کی جگہ بھی الگ متعین ہے مگر خاص حج کے دنوں میں حاجیوں کی بے انتہا کثرت کی وجہ سے وہ اپنی جگہ نہیں پہنچ پاتیں اس لئے مردوں ہی کے درمیان کھڑی ہو کر نماز شروع کر دیتی ہیں ایسا کرنا جائز نہیں۔

یاد رہے کہ جس طرح خواتین کو اپنے وطن میں گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے اسی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بھی ان کو نماز گھر میں بغیر جماعت کے پڑھنا افضل ہے اور مسجد حرام میں اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نماز کا جو اجر مردوں کو ملتا ہے، یہی ثواب عورتوں کو گھروں میں نماز پڑھنے سے مل جاتا ہے۔ اس لئے وہاں کے قیام کے دوران عورتوں کو اپنی قیام گاہ ہی میں نماز پڑھنا چاہئے، البتہ جب بیت اﷲ کی زیارت یا طواف کرنے کے لئے مسجد حرام میں اور سلام کی غرض سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوں اور نماز کا وقت ہو جائے تو عورتوں کی مقررہ جگہ پر نماز باجماعت پڑھ لیں۔

لیکن یاد رہے کہ اگر کوئی عورت اتفاقی طور پر عین نماز کے وقت مردوں کی صفوں میں پھنس جائے اور نکلنا مشکل ہو تو اس وقت اس کو بغیر نماز کے جہاں بھی ہو خاموش بیٹھ جانا چاہئے اور جماعت میں ہرگز شامل نہ ہو کیونکہ مردوں کے برابر میں جماعت میں شامل ہونے سے دائیں بائیں کے ایک ایک مرد کی اور پیچھے کے ایک مرد کی نماز فاسد ہو جاتی ہے لہٰذا جب امام نماز سے فارغ ہو جائے تو تنہا کسی مناسب جگہ پر حتی الامکان مردوں سے الگ ہو کر نماز ادا کر لے۔

اگر دوران طواف اتفاقاً نماز کا وقت ہو جائے تو اذان ہوتے ہی جلد ہی طواف پورا کر کے، عورتوں کی مقررہ جگہ پہنچ کر جماعت سے نماز پڑھ لیں اگر طواف ختم کر کے مناسب جگہ پہنچنا ممکن نہ ہو تو طواف کو درمیان میں چھوڑ دیں اور نماز کے بعد اسی جگہ سے طواف شروع کر کے مکمل کر لیں جس جگہ سے چھوڑا تھا۔

سوال: کیا خواتین بھی مردوں کی طرح رمل کریں گی؟

جواب: خواتین مردوں کی طرح رمل نہیں کریں گی۔ یہ صرف مردوں کے لیے سنت ہے۔

طواف کے پہلے تین پھیروں میں تیز قدم اٹھانے اور شانے ہلانے کو رمل کہتے ہیں، جیسا کہ قوی اور بہادر لوگ چلتے ہیں۔