اتباعِ سیرت کے فیوض و برکات

اسامہ مجید

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلیٰ اخلاق کا بہترین نمونہ بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے‘‘۔

(الاحزاب، 33: 21)

اسوہ کا معنی ہے نمونہ انسان جب کسی دوسرے انسان کی پیروی میں جس طریقہ پر چلتا ہے اس کو اسوہ کہا جاتا ہے اور کوئی انسان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کو صدق دل سے اپنا کر اس طریق پر چلتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں بہت سے فیض و برکات سے مستفید ہوتا ہے۔

اطاعت الہٰیہ کا حصول:

اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ.

(النساء، 4: 80)

’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا ‘‘۔

حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شریعی اور تشریحی دونوں حیثیتں حاصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دین اسلام عطا فرمایا اور اس پر عمل کرنے کے لیے احکامات واضح کیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان احکامات کی تشریح فرمائی جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اخلاق، معاملات وغیرہ الغرض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے بغیر دین پر عمل کرنا ممکن نہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:

’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری کائنات پر فوقیت دی پھر نبوت و رسالت کا منصب عطا کرکے تمام مخلوق کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کردیا۔

محبت الہٰیہ کا حصول:

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے۔ انہی اصول اور ضابطوں پر عمل کرکے انسان دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ اللہ سے محبت انسان کا حقیقی جز ہے اور فطرتاً اپنے اللہ سے محبت کرتا ہے اور احکام الہٰیہ کو بجا لاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ.

(البقره، 2: 165)

’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں‘‘۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا ‘‘۔

(آل عمران، 3: 31)

اس آیت کا شان نزول ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کفار مکہ سے دوستی رکھنے سے منع فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے صرف اہل اللہ سے محبت اور دوستی کی اجازت دی۔ پھر بعض کفار اللہ سے محبت کا دعویٰ کرنے لگے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی محبت کے لیے تمام انسانیت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو لازمی قرار دیا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیروکار ہے وہ اللہ کا محبوب ہے اور جو آپ کی پیروی سے محروم ہے وہ اللہ کی محبت سے محروم ہے۔ لہذا ہر انسان کو چاہئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرے۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں

اتباع سیرت سے اللہ کی نصرت کا حصول:

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْ کُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ.

(محمد، 47: 7)

’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط رکھے گا‘‘۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک عظیم صفت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی مخلوق کا بہترین مددگار ہے۔ اللہ رب العزت نے اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو اپنی نصرت و مدد کی یقین دہانی کروائی ہے اور اس نصرت و مدد کا ذریعہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو لوگوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا اور آپ کی سیرت کی اتباع کو اپنی نصرت و مدد کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ اللہ نے امت مسلمہ کو اپنی نصرت کے حصول کا ایک راستہ دکھایا کہ اگر میری نصرت چاہتے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مطہرہ کی اتباع کرو اور ان احکام کی پیروی کرو جو احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ لا اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

(الاعراف، 7: 157)

’’پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کی تو اسے اس پیروی کے نتیجے میں اللہ کی نصرت و مدد کا انعام حاصل ہوا۔ جس کی واضح مثال صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ہیں۔

اتباع سیرت سے اعمال کی درستگی:

اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ.

(محمد، 47: 33)

’’تم اللہ کی اطاعت کیا کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کیا کرو اور اپنے اعمال برباد مت کرو‘‘۔

اعمال کی قبولیت اور جزا کا دارو مدار سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اعمال ضائع نہ کرو۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی تمام تر اسلامی عملی و نظریاتی پہلوئوں کا مرکز و محور ہے۔ پس فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرو اور ایمان پر برقرار رہو اور آپ کی اطاعت سے نہ پھرنا ورنہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ قرآن مجید میں ایک اور جگہ فرمایا:

وَاِنْ تُطِیْعُوا اللهَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ.

(الحجرات، 49: 14)

’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا‘‘۔

انسان کو چاہئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم برقرار رکھے۔ اگر کسی موقع پر سے تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرق آیا تو انسان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب میں بھی اعمال کی درستگی و سلامتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی آواز کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے پست رکھو ورنہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی واحد ذریعہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے اور اپنے اعمال کو بارگاہ خداوندی میں مقبول بناسکتا ہے۔

اتباع سیرت سے اللہ کی رحمت کا حصول:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب آدمؑ سے لے کر جناب ابراہیمؑ تک پھر جناب اسماعیلؑ سے لے کر جناب عیسیٰؑ تک تمام انبیاء کا فخر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بہت سے فیوضات و ثمرات سے نوازتی ہے جن میں ایک عظیم ثمر اللہ کی رحمت ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَ اَطِیْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.

’’اور اللہ کی اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔

(آل عمران، 3: 132)

جو انسان سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتا ہے تو اللہ اسے اپنی رحمت خاص کی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا فرمادیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے لطف و عنایت اور رحمت کے حصول کا راستہ بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کی رحمت کا طلبگار ہے تو وہ سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرے۔ ارشاد ربانی ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.

(الحدید، 57: 28)

’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کے رسولِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ وہ تمہیں اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور پیدا فرما دے گا جس میں تم (دنیا اور آخرت میں) چلا کرو گے اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

پس جو شخص اللہ کی رحمت اور اس کا نور حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بجا لاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کامل کے مطابق دین کے احکام پر عمل کرے اور اپنی زندگی کو سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ڈھالے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی اتباع ہی اللہ کے فضل اور رحم و کرم کا باعث ہے۔ پس ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی اتباع کرے اور خود کو اللہ کی رحمت کا مستحق ٹھہرائے۔

الغرض مسلمان کی زندگی کی فلاح غلامی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آپ کی اطاعت ہی ایمان کی بنیاد ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لا یومن احدکم حتی اکون احب الیه من ولده و والده والناس اجمعین.

(صحیح بخاری 1، 4)

’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجائوں‘‘۔

لہذا ہمیں اپنی زندگی کے ہر گوشے میں سنت مصطفی، اطاعت مصطفی اور محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا چاہیے۔ آج کے اس دور میں تحریک منہاج القرآن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مشکل دور میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر انسان کی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے پوری دنیا میں کوشاں ہے۔ پوری دنیا میں اسلامی تعلیمی مراکز بناکر آن لائن تربیتی، اخلاقی اور روحانی کورسز کے ذریعے امت مسلمہ کی جھولیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات، محبت اور اطاعت کے جذبے سے بھر رہی ہے۔ اسی طرح ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کو ہی اپنی زندگی کی اصل بنائے اور سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق مصطفی کی شمع اپنے دل میں جلاتے ہوئے اپنی زندگی کو منور کرے۔ بقول شاعر

عشق سرکار کی اک شمع جلا لو دل میں
بعد مرنے کے لحد میں بھی اجالا ہوگا

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہماری زندگیوں کو عشق مصطفی اور اتباع سنت و سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے منور فرمادے اور ہماری زندگیوں کو سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور آپ کی محبت کے ساتھ ایسا بنائے جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے ہیں۔