ہم بدلیں گے تو پاکستان بدلے گا

آسیہ سیف قادری

وطن عزیز پاکستان کا 71 واں یوم آزادی سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ قوموں کی زندگی میں یوم آزادی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ تجدید عہد وفا کا دن ہوتا ہے یہ دن سفر آزادی کے آغاز و ارتقاء کی یاد دلاتا ہے۔ آزادی کا سفر وفائوں کا، بے شمار قربانیوں کا، عظیم الشان شہادتوں کا اور انتھک جدوجہد کا سفر ہوتا ہے یہ یوم آزادی جو 14 اگست 1947ء کو تاریخ عالم میں وجود پاکستان کی نوید لے کر آیا اور یوں دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مسلم ریاست معرضِ وجود میں آگئی۔

ہمارے نام سے ہوں گی روایتیں زندہ
ہمارے حصے میں پرچم وفا کا آیا

بے شک وطن عزیز کا یہ سبز ہلالی پرچم وفائوں کا پرچم ہے مائوں کی نوائوں کا پرچم ہے یہ عطائے رب کریم پرچم ہے میرے دیس کا پرچم جب اقوام عالم کے پرچموں کے درمیان لہراتا ہے تو اس کی سربلندی اور وقار و جمال پر قدرت کی ساری رنگینیاں نثار نظر آتی ہیں۔ ہمالیہ کے فلک بوس پہاڑ بھی اس کی عظمتوں کے آگے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔

جان و دل نثار کرنے ہیں اے وطن
ہم تجھ سے پیار کرتے ہیں
تیرے پرچم وفا کی سربلندی کی خاطر
ہم اپنی ساری خوشیاں نثار کرتے ہیں

یوم آزادی کے اس پر سعید موقع پر ہم خراج عقیدت پیش کرنے ہیں اپنے ان عظیم اسلاف کو جملہ قائدین تحریک کو اور اپنے عظیم قائد قائداعظم محمد علی جناح کو کہ جن کی محبتوں، کاوشوں اور بے انتہا قربانیوں کے بدلے میں قیام پاکستان ممکن ہوا۔

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان

قائداعظم محمد علی جناح کی بے لاگ قیادت نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی یہ آپ کی ولولہ انگیز قیادت کا نتیجہ تھا کہ صرف چند سالوں میں مسلمانوں نے اپنے لیے علیحدہ وطن پاکستان حاصل کرلیا۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں مگر جب جذبے سچے ہوں اور قیادت بے لوث ہو تو ایسے معجزات رونما ہوہی جاتے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اس وقت کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز و محور تھے آپ نے بھی مسلمانوں کی اپنی ذہانت و فطانت، کردار کی لیاقت، گفتار کی صداقت، علم کی طاقت اور حکمت و تدبر کے بل بوتے پر بیک وقت دو مکار دشمنوں انگریزوں اور ہندوئوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں ہندوستان کی تقسیم پر مجبور کردیا ایک انگریز لیڈر کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ اگر مسلم لیگ میں ایک محمد علی جناح نہ ہوتا تو پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا۔

لیڈر قوم کی پہچان ہوتا ہے اور قوم لیڈر کی، جہاں باصلاحیت، باکردار اور ولولہ انگیز بے لوث قیادت قوم کی نائو کو کنارے لگا دیتی ہے تو اس کے برعکس نااہل بے کردار قیادت ملک و قوم کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی ہے یوں تو ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے ایک ایک اینٹ ملتی ہے تو عمارت مکمل ہوتی ہے اسی طرح آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں نجانے کتنی سہاگنوں کے سہاگ لٹ گئے کتنی مائوں کے لال شہادت کا جام نوش کرگئے ہزاروں بچے یتیم ہوگئے سینکڑوں گھر جلا دیئے گئے ایک آگ اور خون کا دریا تھا جسے مسلمانوں نے پار کیا اور ایک آزاد وطن اور خود مختار اسلامی ملک حاصل کیا۔ جدوجہد آزادی کے اس عظیم سفر میں میر کارواں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی ہستی نے بھی قوم کے ملی شعور کو اجاگر کرنے اور انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا وہ جو خالق فکر پاکستان ہیں میری مراد ہے شاعر مشرق حکیم الامت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ہیں کہ جن کی ولولہ انگیز، بامقصد اور فکر انگیز شاعری نے غلامی کی زنجیروں میں لپٹی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہوئے فلسفہ خودی و حریت سے آشنا کیا آپ نے محکوم قوم کو بتایا کہ آزادی بیش بہا نعمت ہے ایک غلام قوم کی کوئی عزت وآبرو نہیں ہوتی غلام قوم کی تمام صلاحیتیں، عقل و تدبریریں، علم و حکمت سب بے کار ہوتا ہے۔ بقول علامہ اقبال

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

الغرض آپ نے قوم کو جھنجھوڑتے ہوئے بار بار یہ احساس دلایا کہ تمہارا مذہب دین، ایمان، اسلام تمہاری عزت و آبرو، جان و مال سب کی سلامتی اور بقا کے لیے آزاد وطن کا حصول ناگزیر ہے اور یوں آپ کی شاعری نے خون مسلم کو گرما دیا دل مسلم کو زندہ تمنا دے دی۔ خودی کا پیام دے کر حیات جاوداں عطا کردی۔ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ اجاگر کرکے فاقہ کش کو موت سے بیگانہ کردیا۔

خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقام رنگ و بو کا راز پا جا

آزادی کی جدوجہد اپنی منزل کے قریب پہنچ گئی اور وہ پاکستان جس کا خواب اقبال نے دیکھا جس کی تعبیر قائداعظم نے فرمائی مگر اس کی تکمیل ابھی باقی ہے قیام پاکستان صرف ہماری منزل نہیں بلکہ نظریہ پاکستا ن کے مقاصد کی تکمیل اصل منزل ہے۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کا مقصد بتاتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ صرف ایک خطہ زمین کے حصول کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا تھا جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو عملی طور پر آزما سکیں۔

گویا پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ فقط ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ ایک عظیم نصب العین کے حصول اور منزل کی نشاندہی کا کھلم کھلا اعلان تھا۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے قائم کیا گیا تھا اسلام اس کا تشخص، قرآن اس کا دستور اور سیرت و سنت رسول کی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ٹھہری، عدل و انصاف، اخوت و مساوات، جمہوریت و مشاورت اور امن و خوشحالی کا قیام اس ریاست کے بنیادی مقاصد قرار پائے لیکن افسوس صد افسوس آج 71 سال کا عرصہ بیت گیا لیکن پاکستان نہ ہی صحیح معنوں میں ہم اسلام کا قلعہ بناسکے نہ اسلامی نظام نافذ کرسکے نہ معاشرے میں عدل و انصاف کو بول بالا قائم کرسکے۔ اس کے برعکس ہم بحیثیت قوم ہر زاویہ زندگی میں پسماندگی اور زوال کا شکار ہوگئے۔ قلمی میدان میں ہماری شرح خواندگی نہایت ابتر ہے۔ معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اخلاقی قدریں پامال ہورہی ہیں جہاں امیروں کے لیے قانون اور ہے اور غریبوں کے لیے اور ہے جہاں ملک و قوم کا سرمایہ لوٹ کر کھانے والوں کو بڑی عزت و اعزاز کے ساتھ باہر روانہ کردیا جاتا ہے اور ایک شخص کو سائیکل کی عدم ادائیگی پر جیل کی سلاخوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ جہاں قاتل سر عام دندناتے پھرتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جہاں امیروں کے بچوں کو نوکریاں ایک فون پر کنفرم ہوجاتی ہیں جہاں غریبوں کے بچے بے روزگاری سے تنگ آکر خودسوزی پر مجبور ہوجاتے ہیں جہاں نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم کی بجائے پستول آجائے جہاں عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جہاں رہب راہزن بن گئے جہاں محافظ لٹیرے بن گئے جہاں ملک و قوم کا سرمایہ لوٹنے والوں کو تخت و تاج کا وارث بنادیا جاتا ہے اور اہل باکردار باصلاحیت لوگوں کو سیاست و جاہ و منصب سے محروم کردیا جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

خاک میں مل گئے نگینے لوگ
حکمران بن گئے کمینے لوگ

کسی دانا نے کیا خوب کہا۔ جب تم کسی شہر میں چوروں کو حکمران بنتا دیکھو تو ان کی دو جہتیں ہوسکتی ہیں یا تو اس ملک کا سسٹم کرپٹ ہے یا وہاں کی عوام بے شعور ہیں میں کس پاکستان کی بات کروں جس کا وجود پارہ پارہ ہوچکا ہے جس کے نظریے کی دھجیاں اڑا دی گئی جس کے قرار داد مقاصد کو پس پشت ڈال دیا گیا جس کے صوبے تعصب کا شکار جس کا قومی اتحاد لخت لخت، جس کی معیشت بیساکھیوں کا سہارا لیے ہوئے تو جس کی سیاست کرپشن و بدعنوانی کی لپیٹ میں گھِر چکی ہے جہاں صدائے حق نہ سننے والا کوئی جہاں حق بات نہ کہنے والا کوئی بچا اس لیے میں تو کہتی ہوں یہاں کا سسٹم بھی کرپٹ ہوچکا ہے اور عوام بھی بے شعور ہے مفاد پرستی کی چادر اوڑھے خواب غفلت کے مزے لوٹ رہی ہے۔

یہاں بکتا ہے سب کچھ ذرا سنبھل کے رہنا
لوگ ہواؤں کو بھی بیچ دیتے ہیں غباروں میں ڈال کر

آج ہم دیکھتے ہیں کہ تاجر سے لے کر مزدور، استاد سے لے کر شاگرد، افسر سے لے کر کلرک، ایک چھابڑی فروش سے لے کر بس کنڈیکٹر تک ووٹر سے حکمران تک سب بدعنوانی کی روش کے مرتکب ہورہے ہیں بلکہ انہیں یہ احساس تک نہیں کہ وہ کچھ غلط کررہے ہیں۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

مگر سوال یہ ہے کہ یہ غفلت کب تک کب تک میری قوم محرومیوں کا شکار رہے گی کب تک غریب، غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا رہے گا کب تک میری قوم کے ٹیلنٹ کی، میرے جوانوں کے میرٹ کی دھجیاں رشوت ستانی، تعصب اور اقرباء پروری کی وجہ سے اڑتی رہیں گی کب تک میری قوم کے باسی عدل و انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں گے؟ کب تک اس دھرتی کے بچے صاف پانی کی بوند بوند کو ترستے رہیں گے کب تک جعلی ڈگریوں والے وڈیرے، جاگیر دار، دھن دھونس اور دھاندلی کے ذریعے کرسی اقتدار پر براجمان رہیں گے آخر کب تک؟

اٹھو! وگرنہ حشر ہوجائے گا
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نظریہ پاکستان کو از سر نو اجاگر کیا جائے حسینی فکر و فلسفہ کو عام کیا جائے اپنے سیرت و کردار پر مصطفویت اور حسینیت کی چھاپ لگائی جائے بدعنوانی کا علاج تقویٰ قانون کی بالادستی معاشرتی عدل وانصاف، انسانی مساوات، اخوت و ہمدردی کا بول بالا کیا جائے۔

دین کے پیالے میں تھا شہد پیار کا
ظالموں نے بانٹا زہر گھول گھول کے

الفرض قوم کو آج بھی قائداعظم جیسی قیادت، کسی مسیحا اور کسی نجات دھندہ کی ضرورت ہے اور اس بھولی بھٹکی قوم کو کب اپنا رہبر و رہنما میسر آئے گا۔ کیونکہ بقول اقبال

اگر کوئی شعیب آجائے میسر
شیبانی سے کلیمی دو قدم ہے

اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں فرعون کے لیے موسیٰ اور یزید کے لیے حسینؑ پیدا کررکھا ہے۔ بس ہمیں پہچان نصیب نہیں ہوتی اور اگر پہچان ہو بھی جائے تو قدر نہیں ہوتی۔

جیسا کہ اس دور پر زوال میں مردقلندر، مرد حق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات ہے جو ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں جنہوں نے دعوت و تبلیغ کے ذریعے پورے عالم اسلام میں اسلام کا بول بالا کیا وقت کے یزیدوں کو للکارا اور مصطفوی انقلاب کو اپنی منزل قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی عظیم قیادت کو سمجھنے اور ان کا دست و بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تو شیوہ ہے اندھیروں میں جلائے ہیں چراغ
ان کی حسرت ہے زمانے میں یونہی رہے رات

جب تک ہم بحیثیت قوم انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے فکرو نظر کو انقلاب آشنا نہیں کریں گے جب تک برائی کے خاتمے کے لیے اپنی زبان اور قوت کا استعمال نہیں کریں گے معاشرے سے بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اپنے کردار میں پختگی لانا ہوگی اپنے عمل میں اخلاص و للہیت کا رنگ چڑھانا ہوگا۔ ہاں پھر بدلے گا پاکستان پھر امن و خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ جب ہر سو عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا جب مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہوگا۔

کردار بدلے گا، سوچ بدلے گی
ہم بدلیں گے، پاکستان بدلے گا