عصر حاضر کا نوجوان اور درسگاہیں

پروفیسر حلیمہ سعدیہ

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

عصرِ حاضر کے نوجوان تشنہ لب ہیں اور ان کے معرفت و عرفان کے پیالے خالی ہیں کیونکہ ان نوجوانوں میں نہ ذکر اذکار کا رجحان ہے اور نہ ہی اس کی فکر کی اہمیت کا اندازہ۔ یہاں فکر سے مراد وہ غورو فکر ہے کہ جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے کہ مشاہدہ مومن کی معرفت میں اضافہ کرتا، ایمان کی راہ پر چلنے میں مدد کرتا ہے اور زندگی کے اسرار و رموز کو تعلیمات قرآنی کی روشنی میں سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

جب کہ عصر حاضر کے نوجوان کے چہرے تو چمکدار ہیں لیکن جانیں تاریک، دماغ تو روشن ہیں لیکن فکرِ ایمانی سے خالی۔ گویا عصر حاضر میں نوجوان جسم کی آرائش و تزئین کے تو قائل ہیں لیکن روح کی تجلی کے قائل نہیں۔ آرائش دنیا کو دیکھتے اور سراہتے تو ہیں لیکن اشیاء کی حقیقت کو معرفت کی روشنی میں پانے اور حقیقت کائنات تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روپیہ پیسہ کما لینے کے باوجود اور ظاہری مراتب دنیا کی بار آوری کے باوجود یہ نوجوان اصل مقصد حیات سے بے خبر رہتے ہیں اور ایک بے چینی اور مایوسی ان کے قلوب و اذہان کو گھیرے رکھتی ہے۔

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ دور حاضر کی مادر علمی جن میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں اپنے مقصود سے آگاہ نہیں ہے۔ آج کا تعلیمی ادارہ اور استاد ذہن اور بدن کی عمارتیں تو تعمیر کرتا ہے لیکن روح اور قلب کی عمارتیں مسمار ہوتی جاتی ہیں گویا یہ تعلیمی ادارے جو علم دے رہے ہیں وہ انسان کے تن کی پرورش کو تو کافی ہے لیکن من کی پرورش فراموشی کا شکار ہے۔ مولانا رومؒ کے الفاظ میں:

’’جو علم تن کے لیے پڑھا جاتا ہے، وہ آدمی کو سانپ بن کر ڈس لیتا ہے اور جو علم دل کے لیے پڑھا جاتا ہے، وہ آدمی کا دوست بن جاتا ہے‘‘۔

دین حق کی تعلیمات سے دور ان درسگاہوں نے گویا عصر حاضر کے نوجوانوں کی جانوں سے فطرت کے نور کو دھو ڈالا اور روح آدم پکار پکار کر کہہ رہی ہے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.

(الاعراف، 7: 23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔

ان درسگاہوں میں فرائض منصبی ادا کرنے والے اساتذہ جب پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتے ہیں تو ان درسگاہوں میں فارغ التحصیل ہونے والے فرزندان شوق استادکو زرخرید غلام کی حیثیت تو دیتے ہیں لیکن روحانی والدین کا درجہ دینے سے قاصر ہیں۔ ان درسگاہوں میں معرفت حق کے مراتب پانے والے شاداب پھول (مردِ حق) نہیں کھلتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے تعلیمی اداروں اور ان سے علم یافتہ نوجوانوں کے لیے اقبال کہتے ہیں:

نوجواں تشنہ لب، خالی ایاغ
شستہ رُو، تاریک جاں، روشن دماغ

کم نگاہ و بے یقین و نا امید
چشمِ شاں اندر جہاں چیزے ندید

اگر عصر حاضر کا تعلیمی نظام انسان کو اس کے مقصد تخلیق سے دور لے جاتا ہے اور نیا بتِ الہٰی کے منصب عالیہ کے لیے تیار نہیں کرتا تو یہ علم درحقیقت جہالت ہے کیونکہ محض رزق اور تن پروری کے لیے علم حاصل کرنا یہ تو خود کو حیوان بنانا ہے کہ کھانا پینا اور ختم ہوجانا تو حیوانوں کی زندگی ہے۔

جبکہ علم تو ’’من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ۔۔ کا مصداق ہوتا ہے علم کی معراج یہ ہے کہ کسب علم کے بعد آج کا نوجوان خود سے آشنا ہوجائے۔ علم اس کی مخفی انسانی صلاحیتوں کو اجاگر کردے مفکر قوم حضرت اقبال کہتے ہیں:

علم جز شرح مقامات تو نیست
علم جز تفسیر آیات تو نیست

علم حق اول حواس، آخر حضور
آخر اوسی نگنجد در شعور

بے شک حق کا علم پہلے حواس سے حاصل کیا جاتا ہے اور آخر میں مشاہدات سے یہ علم جو آخر میں آتا ہے حضوری پیدا کرتا ہے اور حضوری ایسی چیز ہے جو عقل کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ مراد یہ ہے کہ علم حق کی ابتدا بے شک شعور سے ہوتی ہے لیکن اس کی انتہا کا شعور کسی کے علم میں نہیں۔ اسے صرف کوئی مرد حق ہی جان سکتا ہے۔

تحریر کے آخر میں حضرتِ اقبال کے اپنے فرزند جاوید کے نام پیغام کو پیش کرنا فرض سمجھتی ہوں کہ یہ اشعار عصر حاضر کے نوجوان کی فکر کی آبیاری کا حسین ترین سبب ہیں۔ حضرت اقبال سے دوسری گول میز کانفرنس کے لیے درپیش سفر کے دوران ان کے صاحبزادے جاوید نے بذریعہ خط کچھ عصری آسائشوں پر مبنی اشیاء کی فرمائشیں کیں اس خط کے جواب میں مفکر قوم نے جس خوبصورت اندازمیں عصر حاضر کے نوجوان کو ’’امت محمدیہ‘‘ کا فرد ہونے کا منصب عالیہ یاد کرایا ہے۔

غارت گر دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ

دربارِ شہنشاہی سے خوشتر
مردانِ خدا کا آستانہ

سرچشمۂ زندگی ہوا خشک
باقی ہے کہاں مئے شبانہ

خالی اُن سے ہوا دبستان
تھی جن کی نگاہ تازیانہ

جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
ہے اس کا مذاق عارفانہ

بے شک دور برا ہے، عرفان اور معرفت حقیقی کے چشمے کم ہیں لیکن عصر حاضر کے نوجوان کے راہ راست پر رہنے کے لیے اتنا تعارف ہی کافی ہے کہ وہ ’’امت محمدی‘‘ کا فرد ہے اور یہ تعارف اس کو اگر یاد ہوجائے تو درسگاہوں اور استاد کی کمی کو بھی عصر حاضر کے نوجوان کا ایمان اور یقین کامل دور کرسکتا ہے اور جس لمحہ ہم نے بہ حیثیت مسلمان قوم یہ سمجھ لیا کہ ’’علم‘‘ درحقیقت انسانیت اور آدمیت کے مقامات کی شرح کے سوا کچھ نہیں ہے تو وہیں سے ہمارا عروج شروع ہوجائے گا۔

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ