اقبال: ایک ہمہ گیر شخصیت

سعدیہ محمود

شخصیات، ادوار کی پہچان ہوتی ہیں کسی ایک زمانے میں بسنے والے لوگ اس دور کا حوالہ بن جاتے ہیں کیونکہ لوگوں کا اسلوبِ فکر اور طرزِ عمل ایسے معاشرے کو تشکیل دیتا ہے جو اس دور کے رجحانات کی عکاسی کرتا ہے اگرچہ عوام و خواص ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں مگر فطرت کا ایک قانون تسلسل سے چلا آ رہا ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسی شخصیات ضرور موجود ہوتی ہیں جو انسانیت کا ناز اور قوموں کا فخر بن کر وقت کے ماتھے پر اپنا نام یوں ثبت کر دیتی ہیں کہ تاریخ انھیں کبھی فراموش نہیں کر پاتی۔ ایسے لوگ ایک زمانے کے لیے نہیں رہ جاتے بلکہ آنے والا ہر زمانہ انھیں فکر و شعور کی مسند پر بٹھا کرہمیشہ اپنے اندر زندہ رکھتا ہے اس پیرائے میں علامہ اقبال کی شخصیت کسی گوہر نایاب سے کم نہیں۔ تیرھویں صدی میں مولائے روم کے بعد علامہ اقبال ہی وہ شخصیت ہیں جن کا سکہ مشرق تا مغرب، بلا امتیاز مذ ہب و قوم ہر جگہ چلتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ علامہ اقبال نایاب میں بھی نایاب تر تھے تو یہ قطعا مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔

علامہ اقبال محض ایک شخصیت نہیں بلکہ تاریخ کا ایک مکمل باب ہیں جو جامعیت اور ہمہ گیریت کو یوں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ سادگی، سنجیدگی اور کم گو فطرت کے ساتھ علامہ اقبال ایک لطیف طبیعت کے مالک تھے مگر خاموشی کا عنصر طبیعت پر غالب تھا اور گھر میں عموما آنکھیں بند کئے کسی سوچ میں مستغرق دکھائی دیتے۔ شاعری میں جھلکنے والی صاف گوئی اور نڈر پن کے برعکس ذاتی زندگی میں ان کا مزاج اظہار جذبات کے رجحان سے معدوم تھا یہی وجہ ہے کہ جاوید اقبال بیٹے کی نظر سے علامہ اقبال کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ زندگی میں شاذونادر ہی ایسا موقع آیا ہو گا جب علامہ اقبال نے روایتی شفقت پدری کا اظہار کیا ہو۔ مگر اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ وہ اولاد سے محبت نہیں کرتے تھے بلکہ مزاجا وہ ایسی شخصیت کے حامل تھے کہ ان کا ہر ردعمل اور اظہار خاموشی کے اندر ہی پنہاں رہتا۔ گھر میں بچوں کو کھیلتا مسکراتا دیکھ کر مسکراتے تو بظاہر یوں لگتا جیسے انھیں کوئی مجبورا مسکرانے کو کہہ رہا ہو مگر یہ ساری سردمہری ایک انسان کے آنے سے رخصت ہوتی اور وہ تھے مولانا محمد علی جوہر جو کئی کئی دن علامہ اقبال کے گھر آ کے ٹھہرتے اور ان کے قہقہوں سے گھر گونج اٹھتا اگرچہ بظاہر خاموش مگر گھریلو معاملات سے لا تعلق ہرگز نہیں تھے۔ بچوں کی تربیت کے لئے جہاں سختی کی ضرورت پڑتی وہاں سختی سے کام لیتے۔ مگر بچوں سے بلا ضرورت ڈانٹ ڈپٹ پر زوجہ سے خفا بھی ہوتے۔

گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو بار بار طبیعت کا پوچھتے۔ اور پریشانی میں آس پاس ٹہلتے رہتے۔ زوجہ کی وفات کے بعد ان کی چپ مزید بڑھ گئی مگر بچوں کی دیکھ بال کی ساری ذمہ داری خود لے لی۔

سمندر کے سکوت جیسی ٹھہراؤ والی طبیعت میں اگر کبھی ہیجان پیدا ہوتا تو اس وقت جب کسی شعر کی آمد ہوتی۔ چہرہ متغیر ہو جاتا۔ بے چینی کے عالم میں کبھی بستر پر کروٹیں لیتے۔ کبھی اٹھتے کبھی بیٹھتے اور کبھی گھٹنوں پر سر دیئے تادیر بیٹھے رہتے۔ اکثر اوقات رات گئے علی بخش کو آواز دے کر قلم دوات لانے کا کہتے۔ اشعار لکھ لینے کے بعد رفتہ رفتہ ان کی بے چینی ڈھلنے لگتی اور چہرہ پر سکون ہو جاتا۔

قرآن اور صاحبِ قرآن سے عقیدت اور انسیت کا جو تعلق علامہ اقبال کے ہاں دکھائی دیتا ہے وہ کسی پیمانے میں سما نہیں سکتا۔ قرآن سے آپ کا تعلق کبھی بھی محض قاری اور کتاب کا نہیں تھا بلکہ آپ کے اندر قرآن سے شغف، اور فکر وشعور کے ساتھ مطالعہ قرآن کا ایک والہانہ پن موجود تھا۔ آپ اپنا ایک واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ والد صاحب دیکھتے تو پوچھتے کیا کر رہے ہو۔ میں ہر روز ایک ہی جواب دیتا اور وہ خاموشی سے چلے جاتے۔ ایک دن آپ نے والد صاحب سے سبب دریافت کیا کہ آپ ہر روز ایک ہی سوال کرتے ہیں میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموشی سے چلے جاتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ تم قرآن پڑھتے ہو تو یوں پڑھا کرو گویا قرآن اسی وقت نازل ہو رہا ہو اورگویا خدا تم ہی سے ہمکلام ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے قرآن کو برابر سمجھ کے پڑھنا شروع کیا اور یوں ہی پڑھا گویا ابھی نازل ہو رہا ہو۔

اسی طرح اپنے ایک خط میں علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ اب میں نے ساری کتب پڑھنا ترک کر دی ہیں سوائے دو کتب کے۔ ایک قرآن اور دوسری مثنوی مولانا روم۔

قرآن اور صاحب قرآن سے عقیدت کا یہ عالم تھا کہ قرآن کی تلاوت یا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سنتے ہی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب ہو جاتیں۔ ایک دفعہ سورۃ مزمل کی تلاوت سن کر اتنا روئے کہ تکیہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ خود بھی خوبصورت لہن کے ساتھ قرآن پڑھتے۔

جاوید اقبال سے ایک واقعہ منقول ہے کہ وہ ایک دفعہ وہ اپنے والد کے ساتھ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے مزار پر حاضری کے لئے گئے۔ آپ نے قرآن کا ایک پارہ منگوایا اور تلاوت کرنے لگے۔ آپ کی آواز کی گونج سے مزار کی فضاء جاگ اٹھی اور جب آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو آنسوؤں سے چہرہ تر تھا۔

گویا آپ نے قرآن کو نہ صرف پڑھا بلکہ سمجھا، اپنایا اور قرآن ہی بولا یہی وجہ ہے کہ فکروتدبر کے ساتھ قرآن سے محبت کی جو کیفیت اقبال کے ہاں ملتی ہے وہ فقید المثال ہے۔ آپ کے مجموعات میں ہر دوسرا شعر قرآن کی کسی آیت کا حوالہ دیتا یا تشریح کرتا دکھائی دیتا ہے۔آپ فرمایا کرتے کہ اگر میرا کوئی شعر قرآن کی بات سے خالی ہوتو بروزِ حشر مجھے حضورِ اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب نہ ہو۔

ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ذکر مدینہ پر بے قرار ہوجاتے۔ گویا تڑپ اٹھتے اور آنکھوں سے زاروقطار اشک رواں ہو جاتے۔ اپنے ایک شعر میں خدا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

مکن رسوا حضور خواجہ مارا
حساب من زچشم او نہاں گیر

اسی محبت کا ثمر تھا کہ آپ کا ہر لفظ، ہرشعر قلب و روح کو ایک آفاقی سوز و گداز اور جلا بخشتا ہے اسی صدق، عقیدت، محبت اور ایمان کا کمال ہے جس نے آپ کے کلام کو زندہ و جاوید کلام بنا دیا جو روحوں کو آب حیات کی طرح آبیار کرتا چلا جا رہا ہے۔

علامہ اقبال کی ذاتی زندگی کے مشاہد کے بعد یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ آپ سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے ہوں گے مگر عظیم مقاصد کے ساتھ زندگی گزارنے والے لوگوں کی یہی شناخت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے کسی پہلو کو نظرانداز نہیں کرتے اور یہی خصلت ان کی شخصیت میں ایسی معنویت اور عالمگیریت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ زماں ومکاں کی قید سے ماوراء زمانوں تک لوگوں کے قلب و اذہان پر حکومت کرتے ہیں۔

زمانہ طالبعلمی سے ہی ایک اچھا شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا وسیع سماجی حلقہ احباب بھی موجود تھا کیونکہ آپ نے کافی ابتداء سے ہی مشاعروں اور محافل میں اپنا کلام سنانا شروع کر دیا تھا جس سے بڑی بڑی شخصیت آپ کے اندر موجود قابلیت اور صلاحیت کی معترف تھی اور بہت سے لوگ آپ کی صحبت کے خواہاں رہتے تھے۔

ان سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپ طلبہ تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہتے۔ 1896ء سے ہی آپ نے انجمن حمایت اسلام کی کاروائیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ آپ اس کے سیکرٹری بھی رہے۔ انجمن کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت سے بڑی بڑی شخصیات سے آپ کا تعارف ہوا۔ آپ ان اجلاس میں باقاعدہ اپنا کلام پیش کیا کرتے تھے۔ خواجہ حسن نظامی اور مولانا غلام قادر گرامی سے آپ کی ملاقات یہی ہوئی جو بعد ازاں سیاسی جدوجہد میں بہت کارگر ثابت ہوئی۔

بعدازاں اسی انجمن سے آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور میں وجود میں آئی اس کے پہلے جنرل سیکرٹری علامہ اقبال ہی منتخب ہوئے مگر جب آپ نے محسوس کیا کہ مسلمان عالمی اخوت کے نصب العین سے غافل ہو کربرادریوں میں بٹتے جا رہے ہیں تو کشمیری برادری کی بہبود کے لئے بنائی جانے والی اس تنظیم سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اور برادری سے بڑھ کر امت کے اتحاد اور بہبود کو اپنا مرکز جہد بنا لیا۔

مگر یہ سماجی سرگرمیوں کا سلسلہ ان طلبہ تحریکوں سے آگے نہ بڑھا اورآپ تعلیم کے لیے انگلستان اور پھر جرمنی چلے گئے جہاں سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی اور مغربی معاشرت اور ذہنیت کو اتنے قریب سے دیکھا کہ روایتی مغرب پسندانہ سوچ سے کلیتا بیزار ہو گئے۔ جس کا تذکرہ جا بجا آپ کے کلام میں نظر آتا ہے۔

اگرچہ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست میں حصہ لینے سے منع کر رکھا تھا مگر تعلیم یافتہ طبقے میں سیاسی بیداری اور غلامی سے بیزاری اور آزادی کی آرزو انگڑائیاں لینے لگی تھی۔

1905ء میں تقسیم بنگال سے مشرقی و مغربی بنگال کی تشکیل عمل میں آئی تو مشرقی بنگال میں مسلمان اکثریت سے ان کی ترقی کے مواقع کھلنے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ جس سے یہ خیال زور پکڑتا گیا کہ اگر مسلمانوں کو کچھ علاقوں میں اکثریت حاصل ہو جائے تو ان کی زندگی سہل ہو سکتی ہے مگر ہندوؤں نے احتجاج کر کے 1911ء میں تنسیخ تقسیم بنگال کروالی۔ یہ وہ موقع تھا جب اقبال نے وطنی قومیت کے جذبے کی کمی کو مسلمانوں میں محسوس کیا اور اس کا اظہار اپنے اشعار میں بھی کیا۔ آپ وہ پہلے شاعر تھے جس نے ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو فروغ دیا اور اس کا اعتراف خلیفہ عبدالحکیم نے یوں کیا کہ وطن پرستی کی تحریک ہندوؤں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی مگر مسلمان قوم کوئی ایسا شاعر نہ پیدا کرسکی جو اس جذبے کو ابھارے مگر اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کے لیے وقف کیا تو مسلمان کے علاوہ ہندو زیادہ متاثر ہوئے اور تب یہ نعرہ مقبول ہوا "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا"۔

1911ء سے قبل ہی 1907ء میں مغربی معاشرت اور عالمی سیاست کے پیچ و خم کے بغور جائزہ کے بعد آپ ذہنی اور فکری انقلاب کے ایک ایسے ارتقائی دور سے گزرے کہ آپ نے ہندو مسلم اتحاد کے خیال سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور آپ کی شاعری میں اسلام کا عنصر مزید نمایاں ہوتا چلا گیا۔

سماجی طور پر سرگرم ہونے کے باوجود آپ نے 1926ء سے قبل عملی سیاست میں حصہ نہ لیا مگر آپ فکری اعتبار سے ہمیشہ سے سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس متن میں سر سید احمد خان کے سیاسی نقطہ نظرکے حامی تھے جس کے مطابق ہندوستان میں امن کے لیے مسلمانوں اور ہندوؤں کا مرکزی حکومت میں برابر کا حصہ ہونا ضروری ہے مگر یہ بات ہندوؤں کو کسی طور پر روا نہ تھی جس کا عملی ثبوت تنسیخ تقسیم بنگال سے مل گیا تھا۔

1926ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لے کر عملی سیاست میں قدم رکھا اور کامیاب امیدوار قرار پائے۔

1926ء سے 1930ء تک حکومتی و غیر حکومتی شخصیات سے میل ملاپ اور سیاسی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ ہندوستان کے اس وقت کے ماحول سے آپ کا اس بات پر یقین اور بھی بڑھ گیا کہ ہندوؤں سمیت تمام عالمی طاقتیں ہر صورت اسلام اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے پر مصر ہیں۔ اور وہ کسی صورت مسلمانوں کو معاشرتی، معاشی یا سیاسی اشتراک کے ساتھ قبول نہیں کر سکتیں۔ چناچہ 1930ء میں خطبہ الہ آباد میں آپ نے اس خیال کو آواز بخش دی جس نے مسلمانان ہند کے مقدر کا فیصلہ کرنا تھا۔ 1930ء سے 1932ء تک دو گول میز کانفرنسوں میں اپنے نقطئہ نظر اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کا بھرپور دفاع کیا۔

یہ علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی تھی کہ آزادی سے کم و بیش 17 سال قبل علی الاعلان اور بالعموم لندن سے 1908ء میں واپسی کے بعد سے ہی آپ نے مسلمانوں کے ہندوستان میں مستقبل کو دیکھ لیا تھا اور نہ صرف اس حقیقت کو سمجھا بلکہ اس حقیقت کے لیے مسلمانوں کو اپنے کلام سے آگاہ بھی کیا۔ عملی سیاست کے ذریعے بھرپور انداز میں اس بیانیے کے لئے جدوجہد کی۔ یہی وجہ ہے کہ 1930ء تک جو لوگ علامہ اقبال اور محمد علی جناح سمیت باقی علیحدہ پسند رہنماؤں کے مخالف تھے۔ 1937ء کے عام انتخابات کے بعد اس نظریے کے قائل ہونا شروع ہو گئے جس سے تحریک آزادی نے زور پکڑا اور 1947ء میں اقبال کا خواب پاکستان شرمندہ تعبیر ہوا۔ شاید یہی وہ خدمت تھی جس کا علامہ اقبال کے والد نے ان سے عہد لیا تھا۔ اور یہی وہ مقصد تھا جس نے علامہ اقبال کو ہندوستان کی زمین پر پیدا کیا تھا مگر امت مسلمہ کے لیے آپ کا خواب اور پیغام ابھی تک شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر ہے۔

علامہ اقبال کو صرف شاعر سمجھنا اقبال شناسی کے منافی ہے۔ ان کی شخصیت کے تخلیقی پہلوؤں میں اس قدر جامعیت ہے کہ ایک گوشہ جان کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہی کل شخصیت کے لئے کافی ہے مگر آپ ہر پہلو میں اتنی جامعیت اور استقامت ہے کہ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا بذاتِ خود ایک تخلیق ہے۔آپ نہ صرف ایک شاعر بلکہ مفکر، مدبر، قانون دان، سیاستدان، فلسفی، صوفی اور پختہ مومن تھے۔ نہ صرف آپ کی ذات بلکہ آپ کی فکر بھی کلیت اور جامعیت کا مرقع تھی۔ آپ نے تضاد کے بغیر عقل اور عشق کا تقابلہ جس انداز میں کیا وہ عام انسان کے فکر و شعور کو جھنجوڑ کے رکھ دیتا ہے اور قاری کو ششدر چھوڑ دیتا ہے۔آپ کے فکر میں عقل بھی عروج پر ہے اور عشق بھی کمال پر۔آپ نے جہاں ایک طرف جوانوں کو عشق و جنون کا سبق دیا وہی عقل، تدبر اور حکمت کو نصب العین بنا کر زندگی کا مقصد حاصل کرنے کی تلقین بھی کی۔

گویا اقبال ایک ایسا سنگم ہیں جہاں علم و عرفان کے بہت سے دریا آکرملتے ہیں۔ بحرِعرفان و بحرِ ایکان، بحرِفلسفہ وبحرِ قدامت، بحرِ سکون و بحرِانقلاب اور سنگمِ مشرق و مغرب کا نام اقبال ہے۔

تاریخ میں بہت ساری نامور شخصیات گزری ہیں مگر ان کو کسی ایک مذہب یا خطے کے لوگ پڑھتے ہوں گے مگرعالمِ اسلام کی چار ہستیاں ایسی ہیں جنھوں نے مشرق و مغرب کو اپنا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔ وہ چار ہستیاں ہیں: امام غزالی، ابن العربی، مولانا رومی اور علامہ اقبال۔

یہ ان کے پیغام کی صداقت اور عالمگیریت تھی جس نے انھیں مغرب ومشرق، عقیدہ و مذہب، نسل و زبان سے بالا تر ہو کر ہر خطے تک پہنچا دیا۔

آپ کا پیغام علم و عرفان، فقر و عشق، حیاتِ جاویداں، معرفتِ قرآن اور نسبتِ صاحبِ قران کے امتزاج کا بہترین و کامیاب مجموعہ ہے۔ آپ کے فکر کے سرچشمے تین ہیں: قرآن، بارگاہِ رسالت اور رومی۔ آپ نے 1935ء میں محمد حسین عرشی کے ایک خط کے جواب میں جو لکھا وہ آپ کے ان تینوں بالا تذکرہ عوامل کے ساتھ تعلق کی توثیق کرتا ہے۔ سب سے پہلے آپ نے ان کو روحانی مشکلات کے حوالے سے راہنمائی فرمائی اور پھر مثنوی کے حوالے سے فرمایا کہ:

"آپ اسلام اوراس کے حقائق سے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی پڑھنے سے قلب میں گرمیٔ شوق پیدا ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔ شوق خود مرشد ہے۔ میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں۔ میں اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو قرآن یا مثنوی رومی۔ افسوس ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے"

کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحبِ سرور نہیں

اس کے بعد آپ نے عرشی صاحب سے ملاقات کے لئے کہا جس کا احوال کچھ یوں ملتا ہے کہ علامہ اقبال نے سورۃ نجم کی ابتدائی آیتوں کی تلاوت فرمائی اور شرح کرتے ہوئے مقامِ ناصوت کو بیان کیا پھر مقامِ لاہوت کو، پھر عقل اور وحی کو، پھر حقیقتِ بشریت کو، پھرعرشِ الوہیت اور پھر کعبہ قوسین میں کمانوں کے دو دائروں کی شرح کی۔ اس کے بعد علم ِلدنی کو بیان کیا۔ آپ نے علامہ سے دریافت کیا کہ علم کی کتنی قسمیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: دو قسمیں ہیں۔علم العوام اور علم الخواص۔ علم العوام، مخلوق کا علم مخلوق کے لئے ہے۔ اور علم الخواص، خواص کو عطا کیا جاتا ہے۔ اس میں کسب کا دخل نہیں۔ یہ قلب و روح کے اعمال سے چشمے کی طرح ابلتا ہے اور خواص کی نشاندہی کرتا ہے۔

آپ نے پوچھا یہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟

علامہ اقبال نے فرمایا: تزکیہِ نفس سے۔

آپ نے پوچھا تزکیہِ نفس کا طریقہ کیا ہے؟

تو علامہ اقبال نے جواب دیا: اس کا طریقہ صوفیاء سے سیکھو اور پھر فرمانے لگے کہ مجھ پر زندگی اور موت کا راز منکشف بارگاہِ رومی سے ہوا۔

اقبال کی فکر میں خودی کی بحث اور واعظ تسلسل کے ساتھ موجود ہے کیونکہ آپ خودی کو حصولِ معرفت کی اساس مانتے ہیں۔ خودی ایک ذومعنی لفظ ہے۔ ایک خودی وہ ہے جو ذات کا عرفان عطا کرتی ہے۔ یہ خودی اس بات پر موقوف ہے کہ اپنی ذات کو پہچانو، خاموش ہو جاؤ اور اپنے اندر خود سپردگی پیدا کرو۔ یہ خودی انسان کو اپنی ذات سے بے نیاز کر کے مالک کے آگے سرِ تسلیم خم کے مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ جبکہ خودی کا دوسرا تصور تکبر کا ہے جو انسان کو اپنی ذات کے علاوہ ہر ایک سے یوں بیگانہ کر دیتی ہے کہ انسان فرعون بن کر خدائی کا دعوی کرنے لگتا ہے جبکہ عرفانِ ذات کی خودی منصور جیسے عاشق پیدا کرتی ہے۔دعوی دونوں خودی کا کر رہے ہیں مگر منزل اور مقصود جدا ہے۔ اقبال کے ہاں خودی کا تصور عرفانِ حق اور عرفانِ ذات کا ہے۔ اسی لئے وہ لکھتے ہیں

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

آپ کے نزدیک خودی کی آبیاری کے لئے عشق کی زمین موزوں ترین ہے اور بارگاہِ حق میں تسلیم و رضا اور ہر باطل سے استغنٰی و بے نیازی خودی کی شرط ہے۔

آپ کے کلام سے خودی کی دو جہتیں ملتی ہیں: ایک ذات کی خودی اور دوسری جماعت کی خودی۔

فرد کی خودی کے بارے میں فرمایا:

خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

جبکہ جماعت کی خودی سے مراد معاشرے اور قوم کی خودی ہے۔

اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان
سفالِ ہند سی مینہ و جام پیدا کر

یعنی اگر ایک فرد کی معراج خودی پر منحصر ہے تو ایک قوم کا عروج بھی اسی خودی کا محتاج ہے۔ اقبال نے ان دونوں جہتوں کو امت اور بلخصوص نوجوانوں میں بیدار کرنے کی حتی المقدور کوشش کی کیونکہ ایک مسلمان جو اللہ پر ایمان کا دعوی کرتا ہے جب تک تصورِ خودی سے ناواقف ہے تب تک اسے ذاتِ حق کی معرفت نہیں ہو سکتی اور اس کے بغیر مسلمان ایمان کے حقیقی تصور اور لذتِ ایمان و یقین سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔

بلا شبہ اقبال شعور، فکر، عرفان، علم اور عمل کا ایک بحرِ بیکراں ہیں۔ آپ وقت اور امت کا وہ قیمتی اثاثہ ہیں جسے ہر دور اپنے دامن میں سجا کر اپنی قدرو قیمت بڑھاتا رہے گا۔ اقبال جامعیت اور عالمگیریت کا وہ عملی پیکر ہیں کہ جسے نسلِ انسانی کا ہر طبقہِ فکر بلا امتیاز و بلا اختلاف ماننے اور اپنانے کو تیار ہے مگر بد قسمتی سے بعض طبقہ ہائے فکر اپنی منشاء کے مطابق جزو نکال لیتے ہیں اور اس جز کو کلیت مان لیتے ہیں جو فکرِ اقبال سے سراسر زیادتی ہے۔ آپ خضرِ عصر ہیں اور آپ کا پیغام، پیغامِ حیات ہے جو تمام انسانیت کے لئے ہے۔ آپ نے اس پیغام سے امت اور قوم کو اندھیرگی میں روشنی سے آشنا کر کے حیات کا علمبردار بنا دیا۔ تاریخ بنی نوع انسان ایسی نادر ہستیوں کی ہمیشہ مقروض رہتی ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حوالہ جات:

کتاب: زندہ رود از جاوید اقبال ( ولیم 1، 2)

آرٹیکل: اقبال ایک باپ کی حیثیت سے از جاوید اقبال