فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمانِ الٰہی

یٰـبُنَیَّ اِنَّهَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللهُ ط اِنَّ اللهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ. یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ. وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ.

(لقمان، 31: 16 تا 18)

’’(لقمان نے کہا:) اے میرے فرزند! اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو، پھر خواہ وہ کسی چٹان میں (چھُپی) ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (تب بھی) الله اسے (روزِ قیامت حساب کے لیے) موجود کر دے گا۔ بے شک الله باریک بین (بھی) ہے آگاہ و خبردار (بھی) ہے۔ اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑے ہمت کے کام ہیں۔ اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بے شک الله ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘۔

(ترجمہ عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ جَابِر رضی اللہ عنہ قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ، دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّیْلِ، فَقَالَ: مَا أَرَانِي إِلَّا مَقْتُوْلاً فِي أَوَّلِ مَنْ یُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، وَإِنِّي لاَ أَتْرُکُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْکَ غَیْرَ نَفْسِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَإِنَّ عَلَيَّ دَیْنًا، فَاقْضِ، وَاسْتَوصِ بِأَخَوَاتِکَ خَیْرًا. فَأَصْبَحْنَا، فَکَانَ أَوَّلَ قَتِیْلٍ، وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ، ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُکَهُ مَعَ الآخَرِ، فَاستَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّۃِ أَشْھُرٍ، فَإِذَا ھُوَ کَیَوْمٍ وَضَعْتُهُ ھُنَیَّۃً، غَیْرَ أُذُنِہِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب غزوہ احد کا وقت آ گیا تو میرے والد (حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ) نے مجھے رات کے وقت بلایا اور فرمایا: میں یہی دیکھتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلے میں شہید کیا جائوں گا اور میں اپنے بعد کسی کو نہیں چھوڑ رہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ مجھے تم سے زیادہ عزیز ہو۔ مجھ پر قرض ہے اسے ادا کر دینا اور اپنی بہنوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ صبح ہوئی تو سب سے پہلے وہی شہید کئے گئے اور ایک دوسرے (شہید) کے ساتھ دفن کیے گئے پھر میرا دل اس پر رضامند نہ ہوا کہ انہیں دوسروں کے ساتھ چھوڑے رکھوں لہٰذا (تدفین کے) چھ ماہ کے بعد میں نے انہیں نکالا تو وہ اسی طرح (تر و تازہ) تھے جیسے دفن کرنے کے روز تھے، سوائے ایک کان کے (جو کہ دورانِ جنگ شہید ہو گیا تھا)۔‘‘

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی صلی الله علیه وآله وسلم، ص: 405-406)