آپ کی صحت: بچوں کی صحت کو کیسے بہتر کیا جائے؟

ویشا وحید

ذرا سوچئے! آج کل بچوں پر جو پریشر ہے پڑھائی کا یعنی صبح 7 بجے سے وہ شروع ہوتے ہیں۔ گھر پہنچتے ہیں کھانا کھاتے ہیں بلکہ گھر پہنچنے کے بعد وہ 15منٹ نہیں بیٹھتے تو گھر پر ٹیوٹر آجاتے ہیں۔ اسی میں 2 گھنٹے گزر جاتے ہیں۔ اس کے بعد قاری صاحب یا قاریہ آجاتی ہیں۔ قرآن مجید پڑھانے اس سب کے بعد وہ بچہ جو صبح 7 بجے مشقت میں لگا بغیر کسی وقفے کے شام 5-6 بجے جاکر فارغ ہوتا ہے یعنی وہ مسلسل 10-12 گھنٹے پڑھائی کے نام پر چکی میں پس رہا ہے۔ آپ کے خیال میں آپ اپنے بچوں کے ساتھ ٹھیک کررہے ہیں؟ آپ کے خیال میں یہ ہر اگلی نسل پچھلی نسل سے زیادہ کمزور ہے اس کے پیچھے آپ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ بالکل اس میں آپ کا کردار اور آپ کا یہ عمل بالکل غلط ہے۔ آپ کے بچے کے لیے بھی اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی۔ آپ کا بچہ ایک روبوٹ بن گیا ہے اور بچے کی اپنی نشوونما اس سب سے متاثر ہورہی ہے۔ بچے کے پاس اپنا ٹائم یا اپنے لیے ٹائم نہیں ہے جس کو آج کل کی زبان میں ہم ’Me time‘ کہتے ہیں۔ یعنی آپ اگر غور کریں تو بچہ ایک نوجوان یا ایک 20,25 سال کے انسان سے زیادہ مصروف ہے۔ ایک بڑے انسان کے پاس شاید پھر بھی اپنے دوست احباب سے ملنے کا ٹائم ہے مگر بچے کے پاس یہ ٹائم بھی نہیں ہے یعنی اگر کوئی رشتہ دار آجائے تو ماں باپ بچے کو الگ کمرے میں بھیج دیتے ہیں تاکہ اس کا So-Called پڑھائی کا ٹائم ٹیبل متاثر نہ ہو۔ مہینے دو مہینے میں چند گھنٹے اس کو اجازت ہوتی ہے کہیں باہر جاکر کھیلنے کی یا اپنے کزنز اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کی۔ اس سے بچے کی صحت ہر صورت متاثر ہورہی ہے چاہے آپ اس کا شعور رکھیں یا نہ رکھیں۔ خاص طور پر بچے کا ذہن متاثر ہورہا ہے یعنی اس کا ذہن اس کی عمر سے زیادہ بڑے مسئلوں کے بارے میں سوچ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔ ہم جو تعلیم دے رہے ہیں وہ بہت سطحی ہے جس سے ان کی ذہنی نشوونما نہیں ہورہی۔

بچوں کی صحت کو کیسے بہتر کیا جائے؟

  1. دودھ: 1 سال سے کم عمر کے بچے کے لیے بکری کا دود، 1 سال سے بڑا بچہ اس کے لیے گائے کا دودھ اور اس کے بعد بھینس کا دودھ بڑے بچے کے لیے اس کی Calcium اور Vitamin D فراہم کرنے میں سب سے زیادہ مددگار ہے اور اس میں 3-4 سال تک کے بچے کے لیے کوئی چینی، شکر وغیرہ ملانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
  2. سب سے اہم بات بچے کے ٹیسٹ بڈز 1 سال کی عمر میں develope ہورہے ہوتے ہیں۔ اگر اس عمر میں آپ اپنے بچے کو باہر کی خوراک کا ذائقہ دے دیں گے پھر ساری زندگی شکایت بچے سے نہ کریں کہ وہ گھر کا کھانا نہیں کھاتا۔ اس کو بس باہر کی چیزیں ہی پسند آتی ہیں۔ گھر بنا بھی لیں باہر جیسا ذائقہ نہیں آتا بچے کو۔ تو اس میں بچے نخرے نہیں کررہے۔ قصور آپ کا ہے کہ آپ نے اس کو اس عمر میں انہی ذائقوں سے متعارف کروایا ہے جن سے اب آپ ساری عمر اس کی جان چھڑوانے میں لگا دیں گے۔
  3. اس کو سکول کے لیے پیسے دینے کے بجائے گھر کی بنی چیزیں دیں۔ جس میں میٹھا ٹوسٹ، آلو کے چپس اور نوڈلز گھر کے مصالحے میں بنی ہوئی چیزیں پھل، شیک، آلو سے بنی مختلف چیزیں، کھچڑی، دال کے لڈو وغیرہ شامل ہیں۔
  4. اس کے علاوہ آپ کے لیے شاید یہ حیران کن انکشاف ہو کہ یہ تحقیق سے ثابت شدہ بات ہے کہ وہ بچے جو نانا نانی، دادا دادی کے ساتھ ان کے پیار محبت اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں وہ ذہنی نشوونما کے لحاظ سے ان بچوں سے بہتر ہوتے ہیں جو اس کے برعکس نشوونما پاتے ہیں۔
  5. بچے کے سامنے یا اس کے ہاتھ میں فون، TV، I-pad چلا کر اس کو کھانا کھلانے کا رواج اپنی زندگی سے نکال دیں یا اپنا سکون یا آرام کا وقت نکالنے کے لیے اس کو فون پکڑا کر نہ بٹھا دیں۔ اس سے نکلنے والی شعاعیں اس قدر اندرونی نقصان پہنچاتی ہیں جس کا شاید آپ کو گمان بھی نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ سارے کھیل جو آپ اپنے بچپن میں کھیلتے تھے بچوں کے ساتھ مل کر کھیلیں۔
  6. اس کے علاوہ صحیح کھانا ہی صرف ایک نہیں ہے صحیح خوراک اور صحیح وقت بھی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ ابھی ماں نے کھلایا پھر 15 منٹ بعد دادی نے کھلا دیا۔ 15 منٹ بعد پھر ابا نے کھلا دیا۔ اس طرح آپ اس کے معدے کو overhadکر رہے ہیں جس کی وجہ سے 2 چیزیں ہوسکتی ہیں یا تو وہ بہت Hyper ہوجائیں گے یا بہت سلو ہوجائیں گے۔ دونوں صورتوں میں بچہ موٹاپے کا شکار بھی ہوسکتا ہے اور وزن کم بھی ہوسکتا ہے۔
  7. ہر انسان کے لیے سب سے زیادہ ضروری خوراک صبح کا ناشتہ ہے اگر آپ کا بچہ صبح کا ناشتہ کیے بغیر سکول جاتا ہے تو پھر سے دو چیزیں ہوسکتی ہیں اس کے ساتھ یا تو وہ بھوکا رہے گا یا وہ باقی کے دن زیادہ کھائے گا۔

ماں کی ذمہ داری بچہ کے شروع کے سالوں میں سب سے زیادہ ہے یعنی وہ عمر جس میں آپ نے بچے کے ہر لاڈ اٹھانے ہیں تو لاڈ لاڈ میں اس کے اندر وہ خوراک اور وہ عادتیں نہ ڈال دیجئے گا جو ساری عمر کے لیے آپ کے اور آپ کے بچے کے لیے وبال جان اور مضر صحت بن جائیں۔ لاڈ اور پیار کا مطلب بچے کو ہر اس غلط عادت میں مبتلا کرنا نہیں ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہو، چاہے معاشرہ کتنا ہی اس عادت کا گرویدہ ہو بلکہ لاڈ اور پیار کا مطلب ذمہ داری ہے۔ ذمہ داری اپنے بچے کو محفوظ رکھنے کی ہر بیرونی اور اندرونی نقصان سے۔