فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمانِ الٰہی

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُو الْیَوْمَ ط اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ. یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَعَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا ج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.

(التحریم، 66: 7-8)

’’اے کافرو! آج کے دن کوئی عذر پیش نہ کرو، بس تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو کرتے رہے تھے۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ (اپنے) نبی (ﷺ) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی (ظاہری یا باطنی) معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف (روشنی دیتا ہوا) تیزی سے چل رہا ہوگا وہ عرض کرتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل فرما دے اور ہماری مغفرت فرما دے، بے شک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے‘‘۔

(ترجمه عرفان القرآن)

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رضي الله عنہما قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ یَوْمَ الْحُدَیْبِیَۃِ، وَالنَّبِيُّ ﷺ بَیْنَ یَدَیْہِ رِکْوَۃٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَھِشَ النَّاسُ نَحْوَہُ، فَقَالَ: مَالَکُمْ؟ قَالُوْا: لَیْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَابَیْنَ یَدَیْکَ، فَوَضَعَ یَدَہُ فِي الرِّکْوَۃِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ یَثُوْرُ بَیْنَ أَصَابِعِہِ کَأَمْثَالِ الْعُیُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْکُنَّا مِائَۃَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَۃَ مِائَۃً.

رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا: لوگ آپ ﷺ کی طرف جھپٹے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرامl نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 666-667)