رشوت ایک معاشرتی ناسور

ڈاکٹر فرخ سہیل

پاکستانی معاشرے میں رشوت ایک ناسور کی طرح سرایت کرچکی ہے۔ معیار زندگی بڑھانے کے لیے رشوت خوری، ملاوٹ، اکتساد و اکتناز اور منافع خوری جیسی ممنوعات مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکی ہیں چونکہ لوگوں کا معیار زندگی بدل چکا ہے۔ اس لیے اسے برقرار رکھنے کے لیے ناجائز اور ممنوع ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ بدعنوانیوں نے معاشرے میں فروغ پالیا ہے۔ انتظامیہ کی کارکردگی برح طرح متاثر ہوچکی ہے۔ سرکاری افسران میں بددیانتی تشویشناک حد تک گھر چکی ہے۔ عوام کا حکمران طبقے پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ملک کا کوئی بھی ادارہ فرض شناسی کی بجائے رشوت ستانی اور ناجائز ذرائع سے مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔ سرکاری ترقیاتی ادارے ہوں یا پرائیویٹ سیکٹر ہر شعبہ میں سودا بازی اپنے عروج پر ہے کوئی کام بھی بغیر لین دین کے مکمل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ محکمہ پولیس اور عدلیہ جیسے اہم اور مقدس ادارے بھی رشوت کی ستم ظریفی سے نہیں بچے کیونکہ ملک میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کام بگاڑنے کے ماہر ہیں اور دوسروں کے مال پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔ لہذا ایسے بدنیت لوگ کسی حقدا رکا اس کا حق ادا کرنے میں رخنہ اندوزی کرتے ہیں حالانکہ قرآن مجید کی تعلیمات اس کے برعکس ہیں جیسا کہ سورہ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہورہا ہے کہ:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ.

’’اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو‘‘۔

(النساء، 4: 29)

اسی طرح سورہ بقرہ کی یہ آیت کہ:

وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.

(البقرة، 2: 188)

’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطورِ رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھا سکو حالاں کہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے)‘‘۔

مذکورہ دونوں آیات میں ناجائز کمائی سے منع فرمایا جارہا ہے۔ مفسرین کرام کے نزدیک بھی اَکَلَ سے مراد اَخَذَ ہی ہے جیسا کہ سید آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ یہاں اَکَلَ سے مراد کھانا نہیں بلکہ تصرف میں لانا ہے۔ اسی طرح علامہ رشید رضا تفسیر المینار میں اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اَکَلَ سے مراد اَخَذَ ہے۔ بالباطل کی تشریح و تفسیر روح المعانی میں یہ بیان کی گئی ہے کہ باطل سے مراد حرام اور ہر وہ چیز جس کے لینے کی اجازت شریعت نے نہیں دی۔

علامہ قرطبی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ:

وہ مال حلال بھی باطل کے حکم میں آتا ہے جو اس کے مالک سے اس کی خوشدلی کے بغیر لیا جائے یا مالک اسے خوشی سے دے رہا ہو لیکن شریعت نے اس مد کو ناجائز قرار دیا ہے۔

یہاں اس سے مراد ہے رشوت میں دیا جانے والا مال حلال، چاہیے دینے والا اپنا کام نکلوانے کی غرض سے اپنی مرضی سے ہی دے رہا ہو لیکن شریعت میں وہ بھی مال حرام ہی کہلائے گا۔ اس شخص کے لیے حرام ہوگا جو ایسے وصول کررہا ہوگا۔

تفسیر البحر المحیط میں باطل سے مراد یہ ہے کہ اموال کو ایسے طریقے سے لیا جائے جو مشروع نہیں ہے۔ چنانچہ لفظ باطل، لوٹ کھسوٹ، جوا، کاہن کی شرینی، رشوت، نجومیوں کی اجرت اور ہر وہ چیز جس کے لینے کی شریعت نے اجازت نہیں دی ان سب کو شامل اور ان سب پر حاوی ہے۔ رشوت کی حرمت سے متعلق سورہ بقرہ کی گذشتہ مذکورہ آیت بہت واضح اور صریح ہے کہ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

’’اور نہ مالوں کو اس غرض سے حکام تک پہنچاؤ کہ لوگوں کے مالوں کا ایک حصہ ناحق ظلم سے کھاجاؤ اور تم کو معلوم بھی ہو‘‘۔

رشوت کو ادلا، دلو سے تشبیہ دینے کی دو وجوہات امام فخرالدین رازی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’پہلی وجہ رشوت ضرورت کی رسی ہے پس جس طرح پانی کا بھرا ہوا ڈول رسی کے ذریعہ دور سے قریب کھینچ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مقصدِ بعید کا حصول بھی رشوت کے ذریعہ قریب ہوجاتا ہے‘‘۔

اور دوسری وجہ جس طرح حاکم کو رشوت دے کر بغیر کسی تاخیر کے فوراً موافق فیصلہ کرالیا جاتا ہے اسی طرح ڈول بھی جب پانی نکالنے کے لیے کنوئیں میں ڈالا جاتا ہے تو نہایت تیزی کے ساتھ بغیر کسی تاخیر کے چلا جاتا ہے۔

اور علامہ ابوحبان اندلسی البحرالمحیط میں تدلوا بھا الی الحکام کی تفسیرمیں رقمطراز ہیں کہ:

اس کے معنی یہ ہیں کہ حکام کو مال کی رشوت نہ دو تاکہ وہ تمہارے موافق فیصلہ کردیں۔

قرآن مجید کی روشنی میں تو رشوت کے حرام ہونے کے بہت سے دلائل موجود ہیں جن میں سے چند دلائل سے رشوت کے حرام ہونے کی وضاحت پیش کی ہے۔ اسی طرح خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ  نے بھی معاشرے سے تمام برائیوں کی بیخ کنی کرتے ہوئے رشوت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ  نے رشوت کو خدا تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور لعنت کا سبب قرار دیا ہے۔ رشوت ایسی لعنت ہے کہ جس کا اثر کئی نسلوں تک برقرار رہتا ہے۔

رشوت کی ممانعت میں آنحضور ﷺ  کا فرمان ہے:

’’رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے‘‘۔ ایک اور حدیث میں آپ کا یہ فرمان بھی ہے جس میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت کی گئی ہے۔

’’آنحضرت ﷺ  نے فرمایا: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے رشوت کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے‘‘۔

ان دونوں احادیث مبارکہ میں رشوت لینے اور دینے والے پر برابر کی لعنت کی گئی ہے۔ رشوت دینے والے پر اس لیے لعنت کی وہ اپنی حق یا ناحق غرض اور مطالبے کو پورا کروانے کے لیے اپنے مال کو پیش کرتا ہے اور لینے والا اس سے بھی بڑا لعنتی کہ وہ اپنے فرض کی بجا آوری کی بجائے کچھ مال کے عوض کام کرتا ہے۔ لہذا اس جرم کی اعانت میں دونوں اخلاقاً اور قانوناً گناہ گار ٹھہرتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ شریعت میں تو راشی اور مرتشی کے درمیاں سمجھوتہ کرانے والا بھی ملامت کا حقدار ہے اور یوں یہ تینوں ہی برابر کے گناہ گار ٹھہرتے ہیں۔

کچھ سرکاری محکمے ایسے ہیں جہاں پر رشوت ستانی کی بہت ہی دلخراش مثالیں موجود ہیں جیسا کہ پولیس کا محکمہ جس کا وجود تو معاشرے کو دہشت گردی، عدم تحفظ، بدامنی، تنازعات، جرائم کا خاتمے کے لیے معرض وجود میں لایا گیا تاکہ زور آور اور طاقتوروں کے ظلم وجور سے کمزور افراد کو بچایا جاسکے لیکن اکثر معاملہ اس کے برعکس ہی نظر آیا ہے۔ محکمہ پولیس کے اکثر افسران اور ملازمین اپنے فرائض منصبی کو ترک کرتے ہوئے خود رشوت خوری جیسے مکروہ جرائم میں ملوث ہیں۔ باز پرس کا احساس ختم ہوچکا ہے اور یوں یہ شعبہ معاشرے کی نظروں میں بے شمار خامیوں کا محور بن چکا ہے۔ محکمہ پولیس نے بڑے عہدیداران سے لے کر نچلے درجے کے اکثر ملازمین کی کرپشن نے معاشرے میں امن قائم کرنے کے خوف اور بدامنی میں اضافہ کردیا ہے اور اس محکمے کی رشوت خوری نے معاشرے پر بے پناہ اثرات مرتب کئے ہیں۔ جیسا کہ خود غرضی، حرص، مفاد پرستی، اقربا پروری، طمع و لالچ جیسی روحانی بیماریاں پورے معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں۔ بدامنی، انتشار، بداعتمادی، سنگدلی، غنڈہ گردی اور دہشت گردی جیسے گھمبیر مسائل نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔

اسی طرح دوسرا اہم ترین ادارہ ’’عدلیہ‘‘ ہے جس میں رشوت نے حق تلفی اور ظلم و جور کو بڑھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ حالانکہ قرآن مجید میں ایک منصف اور قاضی جیسے معزز اورذی اختیار طبقہ کو اس نحوست سے بچانے کے لیے رشوت کو سنگین جرم قرار دیا جیسا کہ گذشتہ آیات بھی اس کا بین ثبوت ہیں۔

الحلال والحرام فی الاسلام میں مذکور ہے کہ:

’’جب رشوت لینے والا اس بنا پر رشوت لیتا ہے تاکہ وہ ظلم اور حق تلفی کرے تو اس سے بڑھ کر اور کون سا جرم ہوگا اور وہ اس بنا پر رشوت لیتا ہے کہ عدل و انصاف پر عمل کرے گا تو عدل و انصاف کرنا خود اس پر واجب ہے جس کے معاوضہ میں مال نہیں لیا جاسکتا‘‘۔

اسی طرح عدلیہ کے محکمے میں رشوت کے حوالے سے امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں کہ:

رشوت کی چند اقسام ہیں ان میں سے ایک فیصلہ کرنے میں رشوت لینا ہے اور یہ رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر حرام ہے۔اسی کے متعلق آنحضرت ﷺ  نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے رشوت دینے والے اور اس شخص پر جو دونوں کے درمیان سمجھوتہ کرائے ان سب پر لعنت کی ہے‘‘۔

مقدمات کے فیصلے کرنے میں رشوت لینا انتہائی ممنوع قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آنحضور ﷺ  کا یہ فرمان ہے:

’’ہر وہ مال جو حرام سے نشوونما پائے وہ آگ میں جلائے جانے کا زیادہ مستحق ہے‘‘۔ دریافت کیا گیا کہ السحت سے کیا مراد ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینا۔

اسی طرح ایک اور جگہ پر آپ کا یہ فرمان کہ فیصلہ کرنے میں رشوت لینے والے پر لعنت کی گئی ہے وہ رشوت اس شخص اور جنت کے درمیان حائل ہوجائے گی۔

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے: ’’فیصلہ کرنے میں رشوت لینا اور دینا کفر ہے اور لوگوں کا باہمی رشوت کا لین دین حرام ہے‘‘۔

مختصر یہ کہ شریعت اسلامیہ میں رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں برابر کے گناہ گار ہیں۔ یہاں تک کہ وہ تیسرا فرد جو ان کے درمیان لین دین کا معاملہ طے کرے کیونکہ رشوت کے بہت سے اثرات ہیں جو کہ معاشرے میں ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکے اور افراد پر درج ذیل طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں کہ:

  • انسان کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے۔
  • انسان کا وقار مجروح ہوجاتا ہے۔
  • باہمی ہمدردی اور رحم دلی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
  • حق و باطل کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔
  • رشوت خور انسان بداخلاق اور بدنیت ہوجاتا ہے۔
  • رشوت خور مردہ دل اور مردہ ضمیر ہوجاتے ہیں۔
  • انسان میں شرم و حیاء کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
  • یقین اور توکل کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
  • رشوت خور انسان فضول خرچ بن جاتا ہے۔
  • سکون قلب ختم ہوجاتا ہے۔
  • انسان کی عزت نفس برباد ہوجاتی ہے۔
  • خدمتِ خلق کے جذبے کا فقدان ہوجاتا ہے۔
  • دوسرے انسانوں کے درمیان رشوت خور کی کوئی عزت نہیں رہتی۔
  • رشوت خور انسان شیطانی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔
  • مال حلال میں سے بھی برکت ختم ہوجاتی ہے۔
  • اور بالآخر رشوت خور آخرت میں نبی کریم ﷺ  کی شفاعت اور اللہ کی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔