اسلام نے مرد و زن کی تفریق کئے بغیر حصولِ علم کو لازم قرار دیا

مسز حمیرا ناز

معاشرہ افراد سے بنتا ہے اورفرد ہمیشہ اصلاح طلب رہتا ہے۔ افراد کا تشکیل پذیر معاشرہ بھی بالکل افراد ہی کی طرح ہمیشہ اصلاح چاہتا ہے خصوصا ہمارا معاشرہ جو اس وقت سماجی و اخلاقی حوالے سے جس تنزلی کا شکار ہے اسکی وجہ سے اچھائی کا تناسب کم اور برائیوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا اصلاح معاشرہ کے لیے جدوجہد کی ضرورت آج ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہے۔ گھروں کا ماحول پاکیزہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہو تو گویا معاشرے کی ہر اکائی بہ ذات خود بہتر، ستھری اور پاکیزہ ہوگی اور اس طرح ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔

کسی بھی معاشرے کی ترقی کاانحصار افراد معاشرہ کی ذہنی وفکری استعداد پر مبنی ہوتا ہے۔ مرد وزن اس ترقی کے بنیادی اجزاء ہیں۔ بحیثیت انسان اسلام نے مرد و زن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی دینی درجات اور مراتب کے حصول کی خاطربطور روحانی انسان دونوں کے سامنے یکساں میدان عمل رکھا ہے اور جسمانی تخلیق میں فرق کے لحاظ سے انکے دائرہ ہائے عمل الگ الگ مقرر کیے ہیں۔ عورت کا کردار اسلامی معاشرہ میں بہت متنوع قسم کا ہے بطور بیٹی، بہن، بیوی اور ماں اسکے کردار کی اہمیت کی بناء پر اسکی تعلیم وتربیت کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اصلاح معاشرہ میں خواتین کے کردار پر غور کرتے ہوئے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ خواتین کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے میں تعداد کے لحاظ سے مردوں کے تقریباً مساوی ہوتی ہیں، لہٰذا اگر ہر خاتون اپنی ذات کی اصلاح پر توّجہ دے تو وہ معاشرہ کے عمومی اخلاق کو سنوارنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔

خواتین کی تعلیم و تربیت میں علمی درسگاہوں کا کردار:

اصلاح معاشرہ میں نمایاں کردار ہمارے تعلیمی نظام کا ہوتا ہے جو ذہن اور کردار سازی کر کے ایسے افراد تیار کرتا ہے جو فکری و تربیتی عمل سے گزر کر معاشرے کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کسی ملک یا معاشرے کا نظام تعلیم ایسے افراد تیار نہ کر سکے تو پھر ترقی کا عمل کبھی بھی پروان نہیں چڑھ سکتا اور خواتین کے لئے یہ نظام تعلیم اس لئے بھی مہیا کیا جانا ضروری ہے کہ انکی گود میں جو نسلیں پروان چڑھیں وہ معاشرہ کی مفید رکن ثابت ہوں۔

اسلام نے جس معاشرہ کی بنیاد رکھی اس میں مرد وزن کی تخصیص کیے بغیر تعلیم کو دونوں کے لیے لازمی قرار دیا خصوصاً عورت کے حوالے سے معاشرہ قبل از اسلام میں افراط کاشکار رہا اسلام نے اپنی آفاقی تعلیمات سے اسکی حیثیت کو مستحکم کیا۔حضور اکرمa نے عورت کی تعلیم وتربیت کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے یہی وجہ ہے کہ آگے چل کرمسلمان خواتین نے اصلاح وتعمیرمعاشرہ میں نمایاں کردار اداکیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے منہاج القرآن ویمن لیگ اسلامی فکر و نظریے کو مد نظر رکھ کر قائم کی کیونکہ اصلاح احوال اور غلبہ دین حق کے جس عالمگیر مشن کا آغاز انھوں نے تحریک منہاج القرآن کے قیام کی صورت میں کیا اسکا حصول تب تک ناممکن تھا جب تک کہ وہ معاشرہ کے نصف سے زائد 52% طبقہ خواتین کو ان مقاصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے تیار نہ کریں۔ لہذا آغاز سے ہی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق خواتین کے حقوق اور انکے عملی کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اس غرض سے انہوں نے دوسطحوں پر کام کا آغاز کیا۔

1۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ معاشرہ میں فکری ونظریاتی سطح پر بیداری شعور ہو اور خواتین کی تنظیم سازی کے ذریعے اصلاح احوال امت اور غلبہ دین حق کے مقاصد کا حصول ممکن ہوسکے۔

2۔ منہاج کالج برائے خواتین کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ اسلامی اقدار اور جدید علوم پر مبنی درسگاہ سے متوازن فکر و عمل کے حامل دماغ معاشرے کو سرو کریںکیونکہ تعلیمی درسگاہیں معاصرچیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لیے تربیت یافتہ افراد کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جن سے معاشرہ کی فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاسکتا ہے، اعلیٰ اخلاقی اقدار ہی اعلیٰ تہذیب کو جنم دیتی ہیں۔ لہذا ایسے کسی تعلیمی ادارے کی ضرورت تھی جہاں عمدہ سیرت وکردارسے مزین طالبات معاشرتی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں۔

منہاج کالج برائے خواتین کے مقاصد واہداف:

  1. طالبات کو انسان اور ذات باری تعالیٰ کے درمیان ارتباط سے روشناس کروانا تاکہ وہ خود شناسی سے خدا شناسی تک پہنچاجاسکے۔
  2. قرآن وسنت اور سیرت رسولaکا ایسا مطالعہ جس سے تعلق باللہ اور ربط رسالت کی بچالی ممکن ہوسکے۔
  3. ایمانیات واعتقادات سے ایسی آگاہی جسکے ذریعے عقائد صحیحہ کا اثبات اور عقائد باطلہ کا رد کیا جاسکے۔
  4. مذہبی،مسلکی، لسانی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایسی تعلیم کا اہتمام کرنا جس سے ملت اسلامیہ کا تشخص اجاگر ہوسکے۔
  5. طالبات میں اسلامی فکر کے حوالے سے واضحیت پیدا کرنا تاکہ ان کو اقامت دین کی جدوجہد کے لیے تیار کیا جاسکے۔
  6. ایسی اخلاقی وروحانی تربیت کا اہتمام کرنا جس سے تزکیہ نفس کی منزل کا حصول ممکن ہو تاکہ معاشرہ میں روحانی قدروں کوازسر نو زندہ کیا جاسکے۔
  7. جدیدو قدیم علوم کے امتزاج سے ایسی باصلاحیت طالبات تیار کرنا جو اسلامی معاشرہ کے تمام شعبہ ہائے حیات میں رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز سے آگاہی حاصل کرنا اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انکا حل تلاش کرنا۔

کالج ھذاکی طالبات درس وتدریس، دعوت وتبلیغ، علمی وفکری رہنمائی،اور انتظامی امور کے حوالے سے اہم کردار ادا کررہی ہیں اور کئی میادین میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواچکی ہیں جسکے اہم خدوخال درج ذیل ہیں۔

1۔ بہت سی فاضلات سرکاری سکولز اور کالجز میں تدریسی وانتظامی فرائض انجام دے رہی ہیں۔

2۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام منعقدہ الھدایہ کیمپس اور دروس عرفان القرآن اور عرفان القرآن کورسز کے ذریعے ان طالبات نے قرآن کے پیغام کو پورے ملک میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

3۔ حلقہ ہائے درود، اور روحانی محافل کے ذریعے تزکیہ نفوس کرنے میں بنیادی محرک کا کردار اداکررہی ہیں۔

4۔ تقریر وتحریر کے ذریعے یہ طالبات نہ صرف امت کی فکری رہنمائی کررہی ہیں بلکہ احیائے دین کے عملی میدان میں بھی ہمیشہ ہراول دستہ کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

منہاج کالج فار ویمن کے منفردات اور امتیازی خصائص:

بہترین معاشرہ کی تشکیل میں افراد کی تعلیم وتربیت کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ معاشرے کی تعمیر میں مرد سے زیادہ عورت کا کردار اہمیت کا حامل ہے اگر عورت تعلیم یافتہ، باشعور اور تربیت یافتہ ہوگئی تو معاشرے کا مفید رکن ثابت ہوسکے گی۔ عصرحاضر میں جہاں علمی مراکز، یونیورسٹیز، مدارس کی بہتات نظر آتی ہے وہیں بہت کم ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو تعلیم کے ساتھ فرد کی تربیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان بھر میں ایسے تعلیمی اداروں کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر ہو جو بیک وقت اسلامی اور جدید علوم کو نصاب کا حصہ بناتے ہوں ہمارے ہاں یا تو مدارس کا نظام ہے جہاں کی طالبات صرف شریعہ علوم حاصل کرتی ہیں مگر جدید ترقی یافتہ دور میں معاشرے کے تقاضوں کو پورانہ کرنے کی وجہ سے وہ عضو معطل بن جاتی ہیں۔ دوسرا طبقہ جو جدید یونیور سٹیز سے تعلیم حاصل کررہا ہے وہ اسلامی اقدار وروایات سے نابلد نظر آتا ہے۔ اسلام کا نظریہ تعلیم یہ ہے کہ علم کے ساتھ عمدہ اخلاق اطوار کو بھی متصف کیا جائے تاکہ بندے کے جملہ امور اللہ کی رضا کے تابع ہوجائیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر تحریک منہاج القرآن کے بانی وسرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسلام کے آفاقی اصول تعلیم اور قدیم وجدید علوم سے متصف ایک ایسی درسگاہ قائم کی جہاں نہ صرف طالبات کی علم سے بہرہ ور ہوں بلکہ انکی ذہنی،اخلاقی اور روحانی ترقی ان اصولوں پر کی جاسکے جو آج سے چودہ سوسال پہلے حضور اکرمa نے عطا کیے یہ وہ نظریات ہیں جو آج مفقود ہیں۔ آج ہمارے ہاں تعلیم تو موجود ہے مگر تربیت اور علم نافع کا فقدان ہے جدید دور میں مادیت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے والدین کو مشکل سے دوچار کردیا تھا جو اپنی بیٹیوں کے لیے ایسی تعلیمی درسگاہ کے خواہاں تھے جو جدید تقاضوں کے مطابق علم وتربیت دونوں کا ماحول فراہم کرے بحمداللہ یہ ضرورت MCWکی صورت میں پوری ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ کالج ہذا کی طالبات ایک طرف اسوہ ِ سیدنا فاطمۃ زہرہ رضی اللہ عنہا و زنیب رضی اللہ عنہا کی امین بن کر معاشرے میں کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ۔ ۔۔۔ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خدمت دین کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں تو دوسری طرف جدید تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو کر معاشرے کی خدمت کرتی ہیں۔

اس کالج میں طالبات کی عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی،نظریاتی اور فکری تربیت بھی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالج ھذاکی طالبات درس وتدریس، دعوت وتبلیغ، علمی وفکری رہنمائی،اور انتظامی امور کے حوالے سے کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اندرون وبیرون ملک مختلف انداز کی دعوتی، تحریکی،تربیتی اور تعلیمی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں۔کئی فاضلات گورنمنٹ سکیٹر میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔اب تک سینکڑوں فاضلات پرائیویٹ اور گورنمنٹ سکیٹر میں بطورمعلمات نئی نسل کی تعمیر سیرت وکردار میں کوشاں ہیں۔ اس درسگاہ میں دنیا بھر سے طالبات حصول تعلیم وتربیت کے لئے آتی ہیں۔ اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے علاقوں میں اپنی خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں طبقہ نسواں میں شعور کی بیداری اور اسلامی تعلیمات کے فروغ میں اپنا کردار اداکرتی ہیں۔ کئی فاضلات منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم پر اسلام کی آفاقی وانقلابی تعلیمات کے فروغ میں اپنا کردار اداکرتی ہیں۔

مگر انسان کو وہی علم فائدہ دیتا ہے۔ جو علم نافع ہواسی لیے حضورa کی دعاؤں میں "علم نافع" کا سوال مذکور ہوتا ہے اور ایسے علم سے پناہ مانگی گئی ہے جس سے انسان کو نفع نہ ملے۔علم کو نافع بنانے کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے علم پر عمل کرتے ہوئے اپنی سیرت وکردار میں نکھار پیدا کرے۔ مولانا جلال الدین رومی نے علم کے اثرات بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

علم رابرتن زنی مارے بود
علم را برمن یارے بود

علم کو اگر تن پروری کے لیے پڑھ لیا جائے تو خطرناک اور مضر ہوتا ہے۔یہ سانپ کی طرح نقصان دہ ہوتا ہے اور اگر علم کے حصول میں اخلاص وللہیت ہو تو پھریہ مونس وغم خوار ہوجاتا ہے۔

منہاج کالج برائے خواتین کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس مادرِعلمی میں آنے والی طالبات کے علم کو نافع بنایا جائے۔ان کی سیرت وکردار کی تشکیل کی جائے۔طالبات کو جس طرح عصری اور دینی تعلیم سے بہرہ ور کرایا جاتا ہے۔اسی طرح ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا اہتمام ہوتا ہے۔