اصلاحِ معاشرہ، دعوت دین اور جدید ذرائع ابلاغ

تحریم رفعت

معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اصلاح وتجدید کی کوششیں ہر دور میں ناگزیر رہی ہیں ۔موجودہ دور سائنسی انکشافات و ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، جس کی بدولت عصر حاصر میں مختلف النوع جدید ذرائع ابلاغ بھی وجود میں آ چکے ہیں اور یہ ذرائع ابلاغ بھی معاشرے کا نہ صرف اہم شعبہ ہیں ،بلکہ یہ دوسرے تمام شعبوں پر اثر انداز ہو کر ان کی صورت گری کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جدید ذرائع ابلاغ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر اس کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنے کا مقصد ہرگزر دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعوت و تبلیغ کی نفی کرنا نہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کیلئے جدید ذرائع ابلاغ سے بہتر سے بہترین استفادہ کرنا ہے۔

جدید ذرائع ابلاغ جن میں موجودہ دور میں سب سے مشہور اور اہم شعبہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے منسلک دیگر ذرائع ابلاغ ہیں، جنہیں آج بدقسمتی سے اصلاح معاشرہ کے استعمال کی بجائے فقط تفریح اور وقت گزاری کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کا یہ شعبہ مختلف النوع مواد کا مجموعہ ہے اور جس کی قوتِ تاثیر دیگر تمام ذرائع سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسے عوام کا میڈیابھی کہا جاتا ہے، اس کا استعمال نہایت آسان اور عام فہم ہے، مگر عوام اس میڈیم کی قوت و طاقت سے بے خبر ہیں اور ان کی توجہ اس امر کی جانب مرکوز نہیں کہ اس زبردست ذریعہ ابلاغ کے مثبت پہلو اصلاح معاشرہ کے لئے کس قدر مفید و مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ افراد خود بھی اصلاح معاشرہ کیلئے کس قدر کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فقیدالمثال بصیرت کی بدولت اس وقت کے جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے سرکاری و غیرسرکاری مذہبی و ثقافتی ہر ادارے سے پہلے 1992ء میں تحریک منہاج القرآن کی ویب سائٹ وجود میں آ چکی تھی، یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں انٹرنیٹ کا آغاز نہیں ہوا تھا،مگر جدید ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے پیش نظر اس کے استعمال کو بیرون ملک سے شروع کیا گیا اور آج تحریک منہاج القرآن کا ہر شعبہ جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال میں دنیا بھر کی بیشتر جماعتوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ دورہ حاضر کی ضرورت کے پیش نظر بالخصوص منہاج القرآن ویمن لیگ نے جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہرحتی کے گاؤں اور دیہاتوں تک بھی ترویج و اشاعت دین اور تبلیغ دین کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔آن لائن کانفرنسز ہوں یا سیمینارز، دروس قرآن ہوں یا پھر حلقات درود، ٹریننگ ورکشاپس ہوں یا پھر تخلیقی و تکنیکی مہارت پر مشتمل تعلیمی تدریسی کورسز ہر ایک شعبہ میں جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال اپنی مثال آپ ہے۔

حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کو جدید ذرائع ابلاغ کا مثبت استعمال سیکھنا اور پھر اسے سب سے پہلے خود پر لاگو کرنا ہوگا۔ جدید ذرائع ابلاغ کی ضرورت و اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصاً نوجوان نسل کو ان صفات سے متصف ہونا انتہائی ضروری ہے ۔تحریک منہاج القرآن جدید ذرائع ابلاغ کے میدان میں اپنا نمایاں مقام رکھتی ہے، اس میدان کو تبلیغ دین اور اشاعت و ترویج دین کیلئے تحریک منہاج القرآن کی دنیا بھر میں موجود تنظیمات بھرپور انداز میں نہ صرف استعمال کر رہی ہیں بلکہ ان ذرائع ابلاغ کے استعمال سے متعلق وقتاً فوقتاً مختلف نوعیت کی ٹریننگ ورکشاپس بھی کروائی جارہی ہیں۔

اصلاح معاشرہ کیلئے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال نوجوانوں کیلئے ایک ذمہ داری بھی ہے، کیونکہ مرد و خواتین بلاتفریق معاشرے کے تشکیلی عناصر کا جزو لاینفک ہیں اور معاشرے کی اصلاح اور اسلامی وخوشگوار معاشرے کی تشکیل کے لیے نوجوانوں کی ذمہ داری سب سے اہم ہے، ان کے اسلامی کردار وگفتار، اخلاق اور اعمال حسنہ کے بغیر معاشرے کی اصلاح اور اسلامی معاشرے کا وجود ناکام وناتمام رہتا ہے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر خلقت کے مقاصد اور انسان کی اجتماعی زندگی کے ناقابل انکار پہلو کو ملحوظ نظر رکھا جائے تو جدید ذرائع ابلاغ کی ناگزیریت اور ایک مثالی معاشرے کی ضرورت خودبخود عیاں ہوجاتی ہے۔

اگر ہم انسانی تاریخ کی ورق گردانی ہیں تو یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان ہر دور کے ذرائع ابلاغ ہی کی بدولت ازل سے حالات سے باخبر رہنے کا خواہش مند رہا ہے اس کی یہ خواہش مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے پوری ہوتی رہی ہے۔ شروع میں تحریریں پتھروں اور ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں، پھر معاملہ درختوں کی چھال اور چمڑے کی طرف بڑھا۔ زمانہ نے ترقی کی تو کاغذ او رپریس وجود میں آیا، پھر انٹریٹ کا دور شروع ہوا تو ذرائع ابلاغ میں انقلاب برپا ہو گیا جس کے بعد سے صحافت میں انتہائی تیزی کے ساتھ بے مثال ترقی جاری ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کی بدولت نظریاتی اور اسلامی صحافت معاشرہ کی مثبت تشکیل ، فکری استحکام، ملکی ترقی کے فروغ ، ثقافتی ہم آہنگی ، تعلیم وتربیت اصلاح وتبلیغ ، رائے عامہ کی تشکیل ، خیر وشر کی تمیز اور حقائق کے انکشاف میں بہت مدد دیتی ہے۔

جدید ذرائع ابلاغ کے مثبت و کارآمد استعمال کیلئے تربیت و اہلیت اور فنی قابلیت شرط اوّل ہے۔ فی زمانہ بدقسمتی سے مثبت سرگرمیوں سے کنارہ کشی و درست رہنمائی و تربیت کی کمی کی بدولت معاشرے کے بیشتر افراد جو جدید ذرائع سے تو منسلک ہیں مگر ان کا مطمع نظر اصلاح معاشرہ نہیں ، ایسے افراد دینی اور اخلاقی اہلیت سے عاری ہیں، اصول و کردار کے لحاظ سے قطعاً غیر ذمہ دار، مغربی یلغار کی حمایت اور لادینی افکار کو نمایاں کرنے میں سر گرم ہیں، ایسے افراد کو اگر راہ راست پر لانے کی بات کی جائے اور اگر ان سے کہا جائے کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ کریں بلکہ معاشرے کا مفید فرد اور مؤثر رکن بنیں تو ان کا جواب وہی ہوتا ہے جو قرآن مجید میں مکالمہ کی صورت میں بیان ہوا ہے کہ وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہم ہی تو معاشرے میں اصلاح کرنے والے ہیں۔

نوجوان نسل کو جدید ذرائع ابلاغ کا مثبت استعمال سیکھانا، ان کی فکری و نظریاتی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا اور معاشرے کیلئے جدید ذرائع ابلاغ کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا معاشرے کے اہم افراد اور مؤثر دینی و مذہبی تنظیمات کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔اگر اصلاح معاشرہ کیلئے جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال سے متعلق رہنمائی کی جائے تو یہی افراد ملک و ملت کی بہترین خدمت کریں گے اور دیگر افراد معاشرہ کو بھی اصلاحی کاموں کی طرف راغب کریں گے۔

عصر حاضر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی جس سطح پر ہے آج سے پہلے کبھی نہ تھا اور ہر آنے والا دن اس ترقی میں اضافہ اور بڑھوتری کی طرف گامزن ہے، لہٰذا منہاج القرآن ویمن لیگ نے بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جدید ذرائع ابلاغ کے اس میدان میں اسلام دشمن عناصراور باطل کے اسلام مخالف پروپیگنڈا کے جواب میں اسلام کا حقیقی چہرہ اور پیغمبراسلام کی حقیقی تعلیمات دنیا کو نہ صرف دکھانے کیلئے مصروف عمل ہے بلکہ نوجوان نسل کے عقائد و نظریات اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا بیڑہ بھی اٹھائے ہوئے ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ آج دنیا بھر میں اس پیغام کو عام کرتی نظر آتی ہے کہ مثالی اور باوقار معاشرے کی تشکیل کیلئے اسلام نے جہاں مسلمانوں کو تبلیغ دین کا حکم دیا ہے وہاں تبلیغ دین کے باوقار طریقے اورآداب گفتگو بھی سکھائے ہیں ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاح معاشرہ کیلئے جدید ذرائع ابلاغ کے تحت ہمیں اپنی حکمت عملی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ در پیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکے، جدید ذرائع ابلاغ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مثالی کردار اس وقت تک ادا نہیں کر سکتے جب تک معاشرے کے سلیم الطبع افراد اس کی ضرورت و اہمیت کو اپنا نصب العین نہ بنا لیں، اور اپنے افکار و خیالات کی صحیح ترجمانی کیلئے فکر و نظر میں وسعت و گہرائی پیدا نہ کر لیں۔