علم اور تعلیم و تربیت کے فروغ میں ویمن لیگ کا کردار

سعدیہ محمود

عورت کا علم، عمل میں ڈھلتا ہے تو قوموں کا کردار بنتا ہے۔ عورت معاشرے کی وہ اکائی ہے جو قوموں کے عروج وزوال کا براہ راست موجب بن سکتی ہے کیونکہ اگلی نسل اس کی گود میں پروان چڑھ رہی ہوتی ہے۔ عورت چاہے ماں ہو، بہن ہو، بیٹی ہو یا بیوی، ہر روپ میں اس کا کلیدی کردار مسلم ہے مگر ماں کا کردار نہ صرف مقام بلکہ ذمہ داری کے اعتبار سے بھی سب سے منفرد اور ممتاز ہے کیونکہ ماں سے سیکھا ہوا سبق اور ماں کے قول و فعل سے ملنے والا عملی نمونہ اولاد اپنے کردار کی صورت میں ماحول پر منعکس کرتی ہے۔اور یوں فردا فردا سماجی اقدار تشکیل پاتی ہیں جو مجتمع ہوکر قوم کی شنا خت بن جاتی ہیں۔

منہاج ویمن لیگ، منہاج القرآن انٹرنیشنل کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔جس کا منشور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی دینی، معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں پر تربیت کرنا ہے۔ تربیت کے ساتھ ساتھ عصرِحاضر کے تقاضوں کے مطابق علم وہنر، تحقیق و مطالعہ اور خوداعتمادی سے ہمکنار کر کے عورت کو معاشرے کا موثر اورمعتبر حصہ بنانا بھی اس کے منشور میں شامل ہے۔  ویمن لیگ اس عزم کے ساتھ مصروف عمل ہے کہ ہر عورت چاہے وہ خاتونِ خانہ ہو یا کسی اور پیشے سے منسلک ہو، اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات سے لیکر فہم قرآن وحدیث اور جملہ انفرادی، خاندانی، سماجی و معاشرتی حقوق وفرائض سے آگاہ کر کے معاشرے میں اپنا موثر کردار اور مقام حاصل کرنے کاموقع فراہم کیا جا سکے۔ مزید برآں شخصی اوصاف کو مزید نکھار کر مضبوط کردار اور متوازن شخصیت کی حامل خواتین کے ذریعے مستقبل کے معماروں میں علم وعمل کی شمعیں روشن کرنے کاپیشگی سامان کرنا ویمن لیگ کے مشن کا اہم حصہ ہے۔

ویمن لیگ محقق عصر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سربراہی میں مشرق تا مغرب 90 سے زائد ممالک میں دین و ملت کی خدمت میں مصروف ہے۔  وسیع تنظیمی نیٹ ورک کی صورت میں ویمن لیگ نے بہت سے چھوٹے بڑے منصوبے شروع کیے ہوئے ہے جن کا مقصد عورت میں بااختیار اور بامقصد زندگی گزارنے اور دین کی خدمت کرنے کی سوچ اور صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ اور اس کا سب سے پہلا نمونہ خود ویمن لیگ کا تنظیمی نظام ہے جو اوپر سے نیچے تک براہ راست خواتین کے زیرانتظام کام کررہا ہے۔

مجموعی طور پر ویمن لیگ خواتین کے لیے چہار جہات پر کام کر رہی ہے اور ہر جہت میں دیگر بہت سے چھوٹے بڑے پروگرام اور منصوبے ترتیب دئیے گئے ہیں جو وقت، موقع اور خطے کی نسبت سے منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان جہات میں چار بڑے منصوبہ جات دعوۃ، تربیۃ ، تنظیمات اور سٹوڈنٹس افیرز ہیں۔

دعوۃ پروجیکٹ کا مقصد خواتین کو بنیادی دینی، شرعی اور فقہی تعلیمات سے روشناس کروا کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کر کے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے، تاکہ جس عظیم مقصد کے لیے انسان کی تخلیق عمل میں آئی اس میں کوتاہی سے مکمل اجتناب ہوجائے۔ اس سلسلہ میں حلقہ عرفان القران، حلقہ درودوسلام، عرفان القران کورسز، میلادمحافل، سیرت کانفرنس اور معلوماتی سیمینار کا انعقاد کرکے عملی بنیادوں پر عوامی سطح تک خواتین کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جاتا ہے۔

تربیۃ پروجیکٹ اپنی نوعیت کا ایک منفرد پروجیکٹ ہے جس کا مقصد دینی اور دنیاوی تقاضوں کے مطابق مروجہ تعلیمات کو عمل میں ڈھالنے کی مشق کرنا اور تعمیری کردار کی عملی بنیاد رکھنا ہے۔  یعنی تربیۃ، علم کو عمل میں ڈھالنے کا پروجیکٹ ہے۔ عبادات میں باقاعدگی سے لیکر شخصی ترقی، عملی پختگی اور متوازن فکروعمل کو فروغ دینا اس منصوبے کے مطلوبہ اہداف ہیں۔

مزید برآں ذیلی تنظیمات جیسے کے منہاج سسڑز ایک نہایت وسیع اور کثیر المقاصد منصوبہ ہے جس کا نصب العین نوجوان خواتین کو متحرک کرکے علم وتربیت کے اس عمل کا حصہ بنانا ہے۔ اس کے علاوہ ایگرزبچوں میں مثبت رجحانات اور تعمیری سرگرمیوں کو فروغ دینے کا منصوبہ ہے۔ سٹوڈنٹس افیرز کا شعبہ براہ راست سکول، کالج اور یونیورسٹی میں موجود طالبات کو تربیتی سرگرمیوں میں شامل کر کے مضبوط قوم کی بنیاد بنانے میں سرگرم عمل ہے۔ ان تمام امور سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ویمن لیگ انفرادی اور اجتماعی سطح پر قوم کوایک بہتر مستقبل دینے کے لیے بر سرِ پیکار ہے۔

ویمن لیگ کے منشور اور جملہ منصوبہ جات سے عورت کا جو خاکہ تشکیل پاتا ہے اس سے مراد ایک ایسی خود مختار، با کردار، با صلاحیت، باعمل، تعلیم یافتہ اور خود اعتماد عورت ہے جو اپنے گھریلو امور سے لے کر معاشرتی ذمہ داریوں اور جملہ حقوق سے نہ صرف مکمل آگاہ ہے بلکہ بطریقِ احسن ان کی انجام دہی کی مکمل صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

وہ نہ صرف ایک خوشحال خاندان بلکہ ایک متوازن معاشرے کو بھی مکمل عملی حمایت مہیا کر سکتی ہے۔ وہ دنیوی علوم میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ دینی علوم سے بھی با عمل تعلق کی حامل ہے۔

اب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایسی صلاحیت کی حامل خواتین جب کسی بھی فرد یا خاندان کی تربیت میں حصہ لیں گی تو ایک مثالی کردار کا حامل خاندان وجود میں آئے گا جو ملتِ اسلامیہ کو ایسی نسلوں کی دولت سے سرفراز کرے گا کہ اسلام اور مسلمان اپنی متاعِ گم گشتہ کو پھر سے پانے کے قابل ہو جائیں گے۔

اسلام کے ابتدائی ادوار جن میں مسلمانوں نے اقوامِ عالم پر ہزارہا سال حکومت کی، ایسی ہی زندہ مثالوں سے بھرپور ہیں۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارکہ میں حضرت خدیجۃ الکبری دضی اللہ تعالی عنہا جو ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین بیوی بھی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا احادیث کی راوی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ، ادب، طب، شاعری اور علومِ فلکی کی ماہر خاتون تھیں۔ عائشہ بنتِ طلحہ علومِ فلکی، تاریخ اور ادب میں اپنی مثال آپ تھیں۔ میمونہ بنتِ علی وہ خاتون راوی ہیں جن سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے احادیث روایت کیں۔ امام بخاری نے بھی ان سے روایت احادیث رقم کیں۔ اسی طرح امام ابنِ عساکر نے اسی (80) مختلف خواتین علماء سے علم حاصل کیا۔ نفیسہ بنت الحسن جو کہ امام جعفر صادق کی بہو تھیں، علم میں اس قدر مقام کی حامل تھیں کہ امام شافعی آپ کے شاگردوں میں شامل تھے۔

ریاستی اور سیاستی امور کے حوالے سے بہت سی بھی تاریخ میں نامور خواتین کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے ایک سیدہ شریفہ فاطمہ ایک مشہور مسلمان رہنما تھیں جویمن، سنا اور نجران کی گورنر تعینات رہیں۔ حضرت عمرفاروق نے اپنے دور میں شفا بنتِ عبداللہ کو احتساب عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔ اسی طرح خلیفہ مقتدر کی والدہ بغداد کی عدالت کی چیف جسٹس تعینات رہیں۔

تاریخِ اسلام کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی یے کہ خواتین ہر دور اور ہر میدان میں اسلام کا ہراول دستہ رہی ہیں۔ گویا اسلام کا نظام عورت کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طبعی میلان کے ساتھ ہر میدان میں کام کرنے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ کام کرنے کے جملہ حقوق اور تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام میں ہر شعبہِ علم و فن سے منسلک خواتین کا تذکرہ تاریخ میں ملتا ہے۔ فلسفہ، ریاضی، فزکس، کیمیا، علم الاعداد، علومِ بحر وبر، علومِ نباتات و حیوانات، انتظامی، ریاستی ، سیاسی، کاروباری، دفاعی گویا زندگی کا کوئی میدان ایسا نہیں جہاں مسلم خواتین نے اپنا لوہا نہ منوایا ہو۔ گویا اسلام ایک ایسا نظامِ عمل دیتا ہے جس میں عورت نہ صرف تمام عائلی امور بلکہ گھر سے باہر تمام پیشہ ورانہ امور مکمل حقوق، تحفظ اور عزت کے ساتھ سر انجام دے سکتی ہے۔

گویا ویمن لیگ جیسی تنظیم کا قیام اسلام کی ان عظیم روایات کا تسلسل ہے جو ہمیشہ سے ایک کامیاب اسلامی معاشرت کا حصہ رہی ہیں۔ عورت پر اعتماد کر کے اس کو با اختیار ، فرض شناس اور وفا شعار پیکر کی صورت میں سماج میں مکمل نمائندگی اور مقام دینا ہمارے اسلاف کی روایات کا خاصہ رہا ہے۔ آج ویمن لیگ میں بہترین عالمات و فاضلات خواتین موجود ہیں جو ملک کے کونے کونے میں جا کردین، امن، عبادات اور اخلاقیات کا سبق ہر گھر اور ہر عورت تک پہنچا رہی ہیں۔  اسی طرح حافظِ قرآن اور ثنا خوانِ مصطفی خواتین دلوں میں ایمان کی شمع کو جلا بخشنے میں برسرِ پیکار ہیں۔ تربیتی حلقہ جات میں مختلف علوم اور امور کی ماہر خواتین جن میں ڈاکٹر، انجینئر، وکلائ، سیاستدان، اساتذہ، سماجی کارکنان، انتظامی اور کاروباری خواتین شامل ہوتی ہیں جو دیگر خواتین اور طالبات کو اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات سے متعلق مکمل راہنمائی فراہم کرتی ہیں اور اپنے تجربے سے عام خواتین کو معاشرے میں اچھی زندگی گزارنے کے اصول فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے صحیح اور متوازن استعمال کی تربیت ویمن لیگ کی ترجیحات میں سے ایک ہے تا کہ اس دور کی نسل کو جدید ٹیکنالوجی کے درست استعمال کی ترغیب اور غلط استعمال سے محفوظ رکھا جا سکے۔

اسی طرح سماجی، فلاحی سرگرمیوں اور علم و تحقیق کو فروغ دینے کے لئے باضابطہ تنظیمی ڈھانچہ ویمن لیگ کی زیرِ سرپرستی کام کر رہا ہے۔ جس کا مقصد علم سے دوستی اور تحقیقی رجحان کو پیدا کرنا ہے اور فلاحِ عامہ کے کام کرنے کی رغبت پیدا کرنا ہے۔

مختصراً ویمن لیگ نے اپنے قیام کے وقت تعلیم اور تربیت کا جو بیڑا اپنے سر اٹھایا تھا آج یہ کامیابی و کامرانی کے ساتھ جانبِ منزل گامزن ہے۔ چند خواتین سے شروع ہونے والا یہ سفر آج ایک عظیم تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے جو مکمل فرض شناسی کے ساتھ قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی تربیت کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ اور بعید از قیاس نہیں کہ یہی قافلہ عظیم پرامن انقلاب کے ذریعے قوم کا مقدر ہمیشہ ہمیشہ بدلنے کے لئے میدان ِ عمل میں اتر کر اپنا فیصلہ کن اور تاریخ ساز کردار ادا کررہا ہے اور رہتی دنیا کے لئے ایک ایسی عظیم مثال قائم کرے گا جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔