ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے

سعدیہ کریم

ہمارے بچے ہماری خوشیوں اور شادمانیوں اور مسرتوں کے گلشن کے پھول اور کلیاں ہوتے ہیں۔ ان کی آبیاری ہمہ وقت ان کی آبادکاری، ان کی نگہبانی اور باغبانی کرنا والدین کا فرض ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک باغبان باغ میں پیڑوں، پودوں اور پھولوں کی باغبانی کرتا ہے۔ وقت پر پنیری لگاتا ہے، زمین کو نمو کے قابل بناتا ہے، بے موسمی اثرات سے بچاتا ہے، نقصان دہ حشرات اور کیڑوں مکوڑوں کے حملوں سے بچاتا ہے، ان کی تراش خراش کرتا ہے، ان کی نزاکت، خوبصورتی، رعنائی و زیبائی اور دلربائی کو بچانے کے لیے ہر جتن کرتا ہے۔ بالکل ایسے ہی بلکہ اس سے بڑھ کر والدین خصوصاً مائیں اپنی زندگی کے گلشن اورچمن کے کلیوں اور پھولوں یعنی اپنے بچوں کی بہترین پرورش کے ذمہ داری ہوتی ہیں تاکہ وہ عالم شباب میں پہنچ کر والدین کے لیے اور خود اپنے لیے نیک نامی اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا باعث بن سکیں۔

بچے کسی بھی قوم کا بیش قدر سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کی اعلیٰ تربیت، عمدہ تعلیم، مناسب پرورش اور مہذب نگہداشت والدین کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘۔

(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

اب بچوں کی تعلیم و تربیت کا حکم دیتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب سکھاؤ‘‘۔

(سنن ابن ماجه)

اسی مقصد کے حصول کے لیے والدین خصوصاً مائیں ہمیشہ اپنی زندگیاں باغبان بن کر گزار دیتی ہیں اور پھر بہترین تربیت کی بنیاد پر تیار ہونے والی اولاد کے لیے تیز دھوپ میں سایہ ثابت ہوتی ہے اور ان کو راحت و آرام پہنچا کر خود راحت محسوس کرتی ہے اور اپنے پروردگار سے ان کے لیے یوں دعا کرتی ہے کہ

رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا.

(الاسرا، 17 :24)

’’اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا‘‘۔

ماں کی گود پہلی تربیت گاہ:

ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے بچوں کی اچھی تربیت کرنا عورت کی خوبی ہوتی ہے، بچوں کی تربیت نہایت ہی صبر آزما کام ہوتا ہے۔ اس کے لیے بے پناہ صبر و تحمل، ایثار و قربانی، دل سوزی، نرمی، رحمت و محبت اور ہمہ وقت شفقت بھری نگرانی درکار ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں بچے کی زبردست محبت پیدا فرمائی ہے جس کی وجہ سے اس کے لیے بچے کی تربیت کا مرحلہ انتہائی خوشگوار اور آسان مشغلہ بن جاتا ہے۔ بچے اپنی ماں کی گود سے جو تعلیم و تربیت حاصل کرتے ہیں اس کی حیثیت پتھر پر لکیر جیسی ہوتی ہے۔ وہ علم ایسا مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے جو زندگی بھر تازہ رہتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے:

’’حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بچپن کی تعلیم (بچے کے دل و دماغ) پر ایسے پختہ ہوتی ہے جیسے پتھر پر نقش (کہ جو کبھی نہیں مٹتا)‘‘۔

اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا کہ اگر بچپن سے ہی بچے کو تہذیب، اخلاق، ادب و شائستگی کے قالب میں ڈھالا جائے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس کے اچھے، بہتر اور ثمر آور اثرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔

کسی مفکر کا قول ہے:

’’ابتدائی زندگی کے نقوش خواہ مسرت کے ہوں یا ملال کے ہمیشہ گہرے ہوتے ہیں، یہی ابتدائی نقوش مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں‘‘۔

لہذا اگر ماں بچپن سے ہی بچے کی تربیت اسلامی اقدار کے مطابق کرے تو یہ اقدار بچے کے دل و دماغ میں اتر جائیں گی اور اس کے کردار پر اسلامی اقدار کی چھاپ ہوگی لیکن اس کے برعکس مائیں بچپن سے ہی اپنے بچوں کو غیر اسلامی باتیں سکھائیں یا بچوں کو غیر اسلامی ماحول کا دلدادہ بنائیں تو وہی باتیں ان کے دل و دماغ پر مرتب ہوجائیں گی اسی لیے شیخ سعدی نے کہا کہ

خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریا می رود دیوار کج

’’معمار جب پہلی پشت (بنیاد) ٹیڑھی رکھتا ہے تو آخر تک دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچوں کی حفاظت اور تربیت کا ذمہ دار ماں کو ٹھہراتے ہوئے فرمایا:

’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران کار ہے‘‘۔

(صحیح بخاری)

اور عورت اپنی اس ذمہ داری سے اسی وقت بخوبی عہدہ برآہوسکتی ہے جب وہ خود اسلامی تعلیمات کی پابند اور اسلام کے سائے میں ڈھلی ہوئی ہو۔

عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ

الام مدرسة اذا اعددتھا اعددت شعبا طیب الاعراق.

’’یعنی ماں ایک مدرسہ ہے اگر اس کو تیار کرو گے، تو تم ایک پوری بااخلاق قوم کو پیدا کردو گے‘‘۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بہترین ماں نے ہی حقیقت میں قوم و ملت کو ایسے سپوت عطا کیے ہیں جنہوں نے تاریخ کو عظمت بخشی۔

حضرات حسنین کریمین کی شخصیت سازی میں ان کی ماں سیدہ فاطمۃ الزہرائؓ کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو رضائے الہٰی کی بنیاد پر ہر کام کرنے کی تاکید کرتی تھیں۔ ایک دفعہ بچپن میں دونوں بھائی آپس میں کسی بات پر الجھ پڑے جب معاملہ ماں تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جاننا چاہتی کہ کس نے کس پر ظلم کیا ہے، میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ جھگڑا کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے تم دونوں نے اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیا ہے۔ یہ سن کر دونوں بھائیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دونوں نے صلح کرلی اور اپنی ماں سے درخواست کی کہ وہ ان کے حق میں دعائے مغفرت کریں۔

ماں بچے کے جنتی یا دوزخی ہونے کی ضامن ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

’’جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘۔

اس حدیث پاک سے یہ پتہ چلتا ہے انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کا انحصار ماں پر ہے کیونکہ جنت ماں کے قدموں میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ماؤں کو اختیار دیا گیا کہ وہ چاہیں تو ان کا بچہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ اگر وہ اپنے بچے کی بہتر تربیت کریں تو ان کا بچہ جنتی ہوگا لیکن اگر تربیت بُری ہوگی تو وہ بچے کو دوزخ کے راستے پر چلادے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماں خود بھی نیک سیرت و کردار کی حامل ہو تاکہ بچہ جنتی بن جائے۔ حضرت عمرؓ کے پاس ایک شخص اپنے بچے کی شکایت لے کر آیا اور کہا کہ میرا بیٹا میرے حقوق پورے نہیں کرتا۔ حضرت عمرؓ نے اس کے بیٹے کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تو اپنے والد کے حقوق پورے کیوں نہیں کرتا؟ لڑکے نے کہا کہ پہلے مجھے بتایئے کہ میرے باپ پر میرے کیا حقوق ہیں اور کیا اس نے وہ پورے کیے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے والد پر اولاد کے حقوق بیان کیے جو کہ درج ذیل ہیں:

  1. صحیح ماں کا انتخاب کرنا
  2. اچھا نام رکھنا
  3. اچھی تربیت کرنا (تعلیم دلوانا) وغیرہ

اس لڑکے نے جواب دیا کہ میرے باپ نے میرے یہ تینوں حقوق پورے نہیں کیے۔ سب سے پہلے تو اس نے ایک مجوسیہ عورت سے شادی کی۔ پھر میرا نام ایک کپڑے کے نام پر رکھا اور سب سے بڑھ کر مجھے صحیح اور غلط کا شعور ہی نہیں دیا۔ میری دینی، دنیاوی اور اخلاقی تربیت نہیں کی مجھے کسی عالم کے پاس حصول تعلیم کے لیے نہیں بھیجا جب اس نے میرے حقوق پورے نہیں کیے تو میں کس طرح اس کے حقوق پورے کرسکتا ہوں۔

اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کی تربیت میں ماں کا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے، اس کے لیے بہترین ماں کا انتخاب ضروری ہے اگر ماں اسلامی اخلاق و کردار کی حامل ہوگی تو بچہ دونوں جہاں میں کامیاب و کامران ہوگا۔ اس کی اور بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسی لیے نپولین نے بھی کہا تھا کہ

’’تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا‘‘۔

اگر اولیاء اللہ کے حالات زندگی پر نظر دوڑائیں تو ان کی ماؤں کا کردار ان کی شخصیات سے جھلکتا نظر آتا ہے۔

حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کو جب قرآن کریم سیکھنے کے لیے استاد کے پاس داخل کروایا گیا تو وہ چودہ پاروں کے حافظ تھے استاد صاحب حیران ہوکر کہنے لگے کہ جس استاد کے پاس 14 پارے حفظ کیے ہیں انہی کے پاس باقی قرآن کریم بھی پڑھ لیتے۔ حضرت بختیار کاکیؒ نے جواب دیا کہ میری ماں کو صرف 14 پارے ہی آتے تھے۔ وہ ہر کام کاج کرتے ہوئے وہ تلاوت کرتی رہتی تھیں اور انہیں سے میں نے یہ 14 پارے حفظ کیے ہیں۔

مائی راستی جو حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی والدہ تھیں وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ولی اللہ بنے۔ اس کے لیے انہوں نے بچپن سے ہی اپنے بیٹے کی تربیت ایسے منہج پر کی کہ آج دنیا بابا فرید کو گنج شکر کے نام سے جانتی ہے۔ اپنے بیٹے کو نماز کا پابند بنانے کے لیے وہ مصلے کے نیچے شکر کی پڑیا رکھ دیا کرتی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کے بیٹے کو شکر بہت پسند تھی۔ اپنے بیٹے سے کہتی تھیں کہ بیٹے نماز پڑھا کرو تو شکر ملے گی۔ فریدالدین شکر کی محبت میں بہت ذوق و شوق سے نماز پڑھتے تھے اور سلام پھیرنے کے بعد مصلے کا کونا اٹھاتے اور انہیں شکر مل جایا کرتی تھیں۔ ایک دن بازار گئیں تو شکر رکھنا بھول گئیں بہت پریشان ہوئیں کہ اگر شکر نہ ملی تو کہیں بیٹا نماز پڑھنا نہ چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مولا فرید کی ماں کی لاج رکھ لینا۔ جب گھر پہنچی تو بیٹے سے پوچھا کہ نماز پڑھی؟ شکر ملی؟ تو بیٹے نے جواب دیا کہ ہاں شکر تو ملی مگر آج والی شکر کا ذائقہ پہلے والی سے بہت اچھا تھا۔ ماں نے جواب دیا کہ پہلے شکر ماں دیتی تھی آج شکر رب نے دی ہے تو ذائقہ تو اچھا ہی ہوگا۔

آج ماؤں کو اپنی اولاد کی تربیت کرتے وقت بابا فرید کی ماں سے insipiration لینی چاہیے۔

ایک دفعہ حضرت بابا فریدالدینؒ اپنی ماں سے کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے کبھی میری تہجد قضا نہیں ہوئی۔ ان کی والدہ نے فرمایا کہ فرید خدا کی عزت کی قسم اس کی وجہ تمہاری ماں ہے کیونکہ تمہاری ماں نے تجھے کبھی بے وضو دودھ نہیں پلایا۔ اسی دودھ کی تاثیر ہے کہ تمہاری کبھی تہجد قضا نہیں ہوتی۔

ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کی شخصیت میں ماؤں کی تربیت کا رنگ نظر آتا ہے۔ ماں کی صالحیت کے اثرات بچے کی شخصیت پر مرتب ہوتے ہیں کیونکہ بچے کی آئیڈیل اس کی استاد اور اس کی پیرو مرشد اس کی ماں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے نسل نو کی تربیت میں خواتین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر ماں فاطمہؓ ہو تو بیٹے حسن و حسین علیہم السلام ہوتے ہیں۔ اگر ماں زینبؓ ہو تو بیٹے عون و محمد علیہم السلام ہوتے ہیں۔ اگر ماں ام سلیمؓ ہو تو بیٹے انس بن مالکؓ ہوتے ہیں۔ اگر ماں ایسی پاکیزہ صفت ہو جس نے کسی غیر محرم کو نہ دیکھا ہو تو بیٹے سید عبددالقادر جیلانیؓ جیسے ہوتے ہیں۔ اور اگر ماں مائی راستی ہو تو بیٹے فریدالدین گنج شکرؒ ہوتے ہیں۔

خلاصہ کلام:

آج کی اولاد کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ خواتین بطور ماں پہلے اپنی اصلاح کریں کیونکہ نسل نو کی بہترین تربیت تب ہی ممکن ہے جب ماں خود اسلامی اقدار و کردار کی حامل ہو۔ آج امت کی نئی نسل کا مستقبل خواتین اسلام کے ہاتھوں میں ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو صحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور اسلامی شخصیتوں سے متعارف کروائیں ان کی زندگیوں سے عبرت آموز واقعات و قصص اپنے بچوں کو سنائیں اپنے بچوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کا شوق پیدا کریں تاکہ بچوں میں دینی و اسلامی جذبات و احساسات پروان چڑھیں اور نئی نسل اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ بن سکے۔

خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ بچپن سے ہی وہ نیکیوں کی طرف مائل ہوں۔ اچھائیوں سے پیار کریں اور برائیوں سے بیزار رہیں۔ نیکیوں پر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بُرے کاموں پر مناسب انداز میں روک ٹوک کی جائے۔ بچے کو شروع ہی سے توحید اور رسالت کے عقائد کا حقیقی تعارف کروانا چاہیے۔ بچے کا ایمان مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے بچپن سے ہی بچوں کو طہارت و پاکیزگی کا عادی بنایا جانا چاہیے۔ قرآن و حدیث سے صفائی و پاکیزگی کی اہمیت بتائی جائے بچوں کے سامنے جھوٹ بولنے لڑائی جھگڑا کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ بچوں کے سامنے جھوٹ بولنا اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔

ماں بچے کی دنیا و آخرت کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے خواتین کی بچوں کی تربیت میں معاونت فراہم کرنے کے لیے ذیلی شعبہ ’’ایگرز‘‘ قائم کیا جس کی ایکٹیوٹیز اور لٹریچر آج ہزاروں بچوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروا رہے ہیں۔ ایگرز بچوں کی اخلاقی، ادبی تربیت کے لیے بھرپور کاوشیں کررہا ہے۔