پرامن معاشرہ کی تشکیل میں خواتین کا کردار

سُمیَّہ اسلام

اسلام سے پہلے دنیا نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس میں صرف مرد کا حصہ ہے عورت کا کہیں بھی کوئی کردار نہیں لیکن اسلام آیا تو اس نے دونوں صنفوں کی کوششوں کو وسائل ترقی میں شامل کر لیا۔ اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا ہے اُس کی مثال نہ تو قومی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی دنیا کی مذہبی تاریخ میں۔ اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کئے بلکہ ان کو مردوں کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عورت چاہے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہے جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے ۔ عورت اپنی ذات میں ایک تناوردرخت کی ما نند ہے جو ہر قسم کے سردوگرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے ۔ ا سی عزم وہمت ، حوصلہ اور استقامت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھا دیا۔ عورت ہی وہ ذات ہے جس کے وجود سے کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیائے کرام علیھم السلام نے جنم لیا اور انسانیت کے لئے رشد وہدایت کا پیغام لے کر آئے ۔ حضرت حوا علیہا السلام سے اسلام کے ظہور تک کئی نامور خواتین کا ذکر قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی میں موجود ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ازواج حضرت سارہ ؑ ، حضرت ہاجرہؑ ، فرعون کی بیوی آسیہ، حضرت ام موسیٰ، حضرت مریم، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، ام المومنین حضرت ام سلمہؓ، سیدہ کائنات حضرت فاطمہؓ، حضرت سمیہؓ اور دیگر کئی خواتین ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ کے اور اق بھرے پڑے ہیں۔

مثالی خواتین کا مثالی کردار:

تاریخ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں سے چند ہستیوں کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ان پاکیزہ خواتین کے تذکرے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی خواتین اِن محترم ہستیوں کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا:

اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردا ر رہا وہ آج ساری دنیا کی خواتین کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے۔ اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے کی سعادت حاصل کرنیوالی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راز دار ، ہمسفر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف سب سے پہلے اسلام قبول کیا بلکہ سب سے پہلے عمل کیا اور اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ دین اسلام کے لئے وقف کر دیا۔ حضرت خدیجہؓ نے 3 سال شعب ابی طالب میں محصوررہ کر تکالیف اور مصائب برداشت کئے اور جب 3 سال کے بعد مقاطعہ ختم ہوا تو آپؓ اس قدر بیمار اور کمزور ہو گئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالق حقیقی سے جاملیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے صحابیات تو درکنار صحابہ کرام نے بھی علم حدیث حاصل کیا۔ وہ خوش نصیب حضرت عائشہؓ ہیں۔ حضرت عائشہؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں منفرد مقام حاصل ہے۔ آپؓ اپنے ہم عصرصحابہ کرام اور صحابیاتِ عظام ؓمیں سب سے زیادہ ذہین تھیں ۔ اسی ذہانت و فطانت اورو سعتِ علمی کی بنیادپر منفرد مقام رکھتی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہؓ کی وجہ سے محفوظ ہو گا۔ 8 ہزار صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا:

خاتون جنت، سردارانِ جنت کی ماں اور دونوں عالم کے سردار کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی زندگی بھی بے مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ تھیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونہ حیا ت ہیں جنہوں نے اپنے عظیم باپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرات مندی، شجاعت، ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔ حضرت فاطمہؓ چھوٹی تھیں۔ ایک دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحن کعبہ میں عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ ابوجہل کے اشارہ پر عقبہ بن ابی معیط نے مذبوحہ اونٹ کی اوجھڑی کو سجدہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن پر رکھ دیا، حضرت فاطمہؓ دوڑتی ہوئی پہنچیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذیت وتکلیف کو دور کیا۔

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ دوران جنگ بے خوف وخطر ہوکر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔ انہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپؓ نے اس پرزوردار وار کیا جس سے اس کا کام تمام ہو گیا۔

حضرت ام عمارہؓ:

حضرت ام عمارہؓ مشہور صحابیہ تھیں۔ انہوں نے غزوہ احد میں جبکہ کفار مکہ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں ایسی انتہائی نازک حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔

حضرت حاجرہؓ:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت حاجرہ ؑ کا تذکرہ کرنا نہایت ہی اہم ہوگا ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب مکہ کی بے آب وگیاہ بنجر زمین میں حضرت حاجرہ کو چھوڑ دیا تو حضرت ہاجرہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اپنے خاوند کے حکم کی تعمیل میں حضرت اسماعیل ؑ کے لئے پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کی تقلید قیامت تک کیلئے تمام مردوں اور عورتوں پر لازم کر دی۔

اقبال اور خواتین کا کردار:

اقبال بھی اپنی شاعری میں خواتین کے ہر کردار کی اہمیت کو سراہتے ہیں۔ علامہ کے نزدیک دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق عورت ہر حیثیت یعنی بیٹی، بہن ، بیوی اور ماں کے روپ میں قابلِ تکریم ہے۔ عورت اپنی زندگی میں بتدریج مختلف کردار نبھاتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں تاریخ سے عمدہ مثالوں کی مدد سے عورت کے بہترین کردار کے راہنما اصولوں کا تعین کیا ہے۔ پس علامہ اقبال عورت کو بیٹی کے روپ میں معصوم، با حیا ، تعلیم یافتہ، کافرانہ ادا سے عاری، ایک بہن کے روپ میں جرأت مند، بیوی کے روپ میں صبر اور تسلیم و رضا کا پیکر، شوہر کی دلجو، ماں کے روپ میں اولاد کی تربیت گاہ اور تقدیر امم، ایک مجاہدہ کے روپ میں، نڈر انسان، آبروئے امت، اور ایک فرمانروا کی حیثیت میں نیک نام، غمگسار، عادل اور فرض شناس انسان پاتے ہیں۔ ان خصوصیا ت کی حامل مثالی عورت ایک مثالی خاندان اور اس کے نتیجے میں ایک مثالی معاشرہ اور مثالی ملت تشکیل دیتی ہے اور ایسی ہی خواتین کے لئے اقبال نے فرمایا کہ:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اقبال کے نزدیک عورت شروع سے ہی ایک مقدس ہستی رہی ہے، جو محبت ووفا کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔ جس نے اپنی پاکیزہ محبت سے عشق کی ایک نئی بنیاد قائم کی اور اسی وجہ سے خدا نے بھی عورت کی ذات میں ساری رنگینیاں ، رعنائیاں اور دلفریبی کو سمودیا ہے۔ عورتوں کی شجاعت وبہادری اور ان کی عزت واحترام کا عکس ہمیں اقبال کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے۔ اقبال نے فاطمہ بنت عبداﷲ کو شجاعت کی مثال کہا ہے۔ جو پہلی جنگ عظیم کے وقت غازیوں کو پانی پلاتے وقت شہید ہوگئی تھیں۔ ان کو امت کی آبرو بتایا ہے اور ان کی شہادت پر فخر کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:

فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے

عورت کے متعلق اقبال کے تمام اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال عورت کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتا اور اس کو مخاطب کرتا ہے۔ اقبال نے عورت کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ عورتوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ ایک عورت سات خاندان کو تعلیم یافتہ کرتی ہے۔ اور وہ ایک عورت ہی ہے جس کے وجود سے قوم بنتی ہے اور اگر عورت ہی تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو وہ پوری قوم تباہ وبرباد ہوجائے گی۔ اسی لیے اقبال یہ درخواست کرتا ہے کہ عورتوں کو تعلیم سے مزین کرو۔ عورت اور تعلیم کے عنوان سے ان کی نظم کے چند اشعار پیش ہیں:

بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

قائداعظم اور خواتین کا کردار:

قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی عورت کے کردار کی ناگزیریت کو بھانپتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ

کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملک ترقی میں حصہ نہ لیں۔

اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو اس خودمختار ریاست پاکستان کی تشکیل میں خواتین کا کردار روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے۔

قومی ترقی میں عورتوں کا کردار:

اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس کی روشنی میں اپنے حقوق سے بخوبی آگاہ ہوسکیں، اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی فعالیتوں کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔

خاندان میں عورت کا کردار:

اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گی۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔

انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔

بچوں کی تربیت، ایک اہم فریضہ:

گھر اور کنبے کے اندر عورتوں کی ایک بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ بچوں کی پرورش کی بہترین روش یہ ہے کہ ان کی پرورش ماں کی آغوش میں اس کی مہر و الفت اور مامتا کی چھاؤں میں ہو۔ جو خواتین اپنے بچوں کو اس خداداد نعمت سے محروم کر دیتی ہیں، ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ ان کا یہ عمل ان کے بچوں کے لئے بھی نقصان دہ ہے، خود ان کے اپنے لئے بھی ضرر رساں ہے اور معاشرے کے لئے زیاں بار ثابت ہوتا ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عورت کا ایک اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ بچوں کو اپنے جذبات کی گرمی سے، اپنی صحیح تربیت سے اور اپنی پوری توجہ اور دلجمعی کے ذریعے ایسا بنائیں کہ یہ بچہ جب بڑا ہو تو ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک صحتمند انسان ہو، احساس کمتری سے دوچار نہ ہو، نفسیاتی پیچیدگیوں میں گرفتار نہ ہو۔

اصلاحِ معاشرہ میں خواتین کا کردار:

معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور فرد ہمیشہ اصلاح طلب رہتا ہے۔ افراد کا تشکیل پذیر معاشرہ بھی بالکل افراد ہی کی طرح ہمیشہ اصلاح چاہتا ہے اور خصوصاً ہمارا موجودہ معاشرہ۔ آج کے معاشرے میں اعلیٰ اقدار زوال پذیر ہیں۔ اچھائیوں کا تناسب روز بہ روز کم ہوتا جارہا ہے اور برائیوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ لہٰذا اصلاح معاشرہ کی ضرورت آج کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہے۔ گھروں کا ماحول پاکیزہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہو تو گویا معاشرے کی ہر اکائی بذات خود بہتر، ستھری اور پاکیزہ ہوگی اور اس طرح ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔

اصلاح معاشرہ میں خواتین کے کردار پر غور کرتے ہوئے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ خواتین، مجموعی معاشرے میں تعداد کے لحاظ سے مردوں کے تقریباً مساوی ہوتی ہیں۔ لہٰذا اول تو اگر ہر خاتون اپنی ذات کی اصلاح پر توجہ دے تو پھر اس طرح عورتیں معاشرے کی اصلاح پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے جو کہ خواتین کے دائرے کار کا محور و مرکز ہوا کرتا ہے اس لیے معاشرے کی بگاڑ کی اصلاح کے لیے گھر یعنی معاشرے کی بنیادی اکائی کو مستحکم کرنا نہایت بنیادی بات ہے اور خانگی زندگی کا دار و مدار صنفِ نازک پر ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو خانگی اور معاشرتی ہر سطح پر ان کا صحیح مقام و درجہ عطا فرمایا۔ خانگی اور معاشرتی ہر دو سطح پر عورت کو انسانی عظمت و احترام سے سرفراز کیا۔ دراصل کسی معاشرے میں عورت کو جو مقام عطا کیا جائے وہ اس لیے بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک تو اس مقام کی بہ دولت خود عورت کی ذات، شخصیت اور معاشرے میں اس کے کردار کا تعین ہو تا ہے، دوسرے لازمی طور پر خود پورا معاشرہ بھی متاثر ہو تا ہے۔ اگر بالفرض عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ نہ دیا جائے تو نہ صرف معاشرہ اس کی قابلیت و صلاحیت سے استفادہ کرنے سے محروم رہتا ہے بل کہ عورتیں اپنے مخصوص دائرہ کار یعنی گھر میں بھی خاطر خواہ اور بھرپور کردار ادا نہیں کرسکتیں۔

اصلا ح معاشرہ کے عمل میں خواتین کا کردار مردوں کے کردار کے مقابلے میں بہت زیادہ اہم ہے۔ کیوں کہ عورت ماں ہے اور ماں کی گود میں ہر معاشرے کی نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ ماں اپنی تربیت سے نسلِ نَو کو کردار و عمل کا ایسا نمونہ بنا سکتی ہے جو انسانیت کے لیے باعث فخر ہو۔ نئی نسل تک زندگی کی اعلیٰ اقدار کو پہنچانے میں عورتوں کا حصہ زیادہ ہو تا ہے اور نئی نسل کی ذات و شخصیت میں اعلیٰ اقدار اور اوصاف حمیدہ کا رچاو ماں ہی کرتی ہے۔ غیر محسوس طور پر اپنے نظریات، اپنے طرز فکر اور اپنی شخصی خوبیوں کو اپنی گود میں پلنے والی نئی نسل کو منتقل کرتی رہتی ہے۔ ماں کی گود انسان کی اولین درس گاہ ہو تی ہے۔ یہ درس گاہ جتنے بلند معیار کی ہوگی، یعنی ماوں کی تربیت جتنے بلند معیار کی ہوگی، اگر جذبہ ایمانی کی سچائی کے ساتھ ہوگی اور اسلام کی تعلیمات کی روح کے مطابق ہوگی تو معاشرہ بھی اسی معیار کا ہوگا۔

لہٰذا ثابت یہ ہو ا مسلمان خواتین تربیت اولاد اور اصلاح اولاد کے متعلق ذمے دار ہیں اور ان سے اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ہم مسلمان خواتین پر ان احادیث کی روشنی میں فرض عائد ہو تا ہے کہ جو اولاد اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اپنے لطف و کرم سے عنایت کی ہے اس کی تربیت و پرورش پوری ہوش مندی سے کریں۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا اہم کام ہے جس سے پورا معاشرہ بنتا ہے۔ لہٰذا حکیم و بصیر اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے تربیت اولاد، شخصیت سازی اور اصلاح معاشرہ کا جو بے حد اہم اور بنیادی فریضہ مسلمان خواتین کو تفویض کیا ہے اس کے لیے ان سے یوم حشر سوال کیا جائے گا۔ آج جب ہم اپنے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ، اعلیٰ اقدار کی کمی اور عملیت کا فقدان دیکھتے ہیں۔ آج جب ہم مسلمانوں کو کردار سے عاری دیکھتے ہیں تو یہ صورت ِحال دراصل اس حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے کہ آج کی مسلمان مائیں یا تو اخلاصِ عمل سے، جذبہ ایمانی کے لحاظ سے اس معیار اور اس درجے کی مسلمان خواتین نہیں رہیں یا پھر اپنے فرائض سے کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہیں، جس معیار پر تعلیمات نبوی ﷺ کے مطابق مسلمان مائوں کا کردار ہو نا چاہیے۔

مائوں کی سیرت و کردار، علم و فضل اور معمولات تو بچے کی شخصیت و ذات پر اس کی ولادت سے پہلے یعنی دوران حمل سے اثرانداز ہوتا ہے اور رحم مادر میں بچے کے ذہن کی ساخت و تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ تمام اولیائے کرام اور نیک ہستیوں کی مائیں ہمیشہ بہت نیک، متقی اور باعمل خواتین رہیں۔ راسخ العقیدہ اور باعمل مسلمان خواتین کے بطن سے ہی قابل فخر فرزندان اسلام اور بطل جلیل پیدا ہوا کرتے ہیں۔ یہی حکمت تھی کہ کائنات کے محسن اعظم حضرت محمد ﷺ نے اہل ایمان خواتین کی تربیت و تعلیم پر زور دیا اور مسلمان مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کے لیے بھی طلبِ علم کو فرض قرار دیا۔

ماہرین عمرانیات کی نظر میں معاشرتی اصلاح کا جامع اور ہمہ گیر پروگرام یہی ہے کہ افراد معاشرہ کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے اجالوں میں لایا جائے۔ یعنی معاشرتی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کے افراد کو تعلیم یافتہ بنادیا جائے۔ اور یہ صرف ایسی وقت ہوسکتا ہے جب مسلمان خواتین کو حصول علم سے محروم نہ رکھا جائے، آج اگر بیٹوں کی تعلیم پر والدین یہ سوچ کر تو جہ دیتے ہیں کہ وہ باشعور شہری بنیں، اپنی معاش بہتر طور پر کما سکیں تو بیٹیوں کو بھی اسی طرح تعلیم سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیں کہ وہ باشعور شہری بنیں نیز بہتر ماں، بیوی، بہن اور بہتر بیٹی بن سکیں۔ مسلمان خواتین حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں اگر طلب علم کے فریضے کو اولین اہمیت دیں اور اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے حصول علم کی راہ ہموار کریں تو یہ معاشرہ تعلیم یافتہ افراد کا معاشرہ ہوگا اور جہالت کے باعث، جو معاشرتی بُرائیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں ایسے اقدامات کی سخت ضرورت ہے جو خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے متوازن فکر کے ساتھ مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں ایسی سرگرمیاں فراہم کی جائیں جن میں وہ پورے اعتماد کے ساتھ نہ صرف حصہ لیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی اپنا مفید کردار ادا کرسکیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ اس متوازن فکرو نظریے کے تحت خواتین کو ایسے مواقع فراہم کررہی ہے جس میں خواتین معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنا کلیدی کردار اداکررہی ہیں۔