فکرِ شیخ الاسلام: خدمت دین افضل ترین عمل ہے

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوةَ وَیُطِیْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ ط اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُهُمُ اللهُ ط اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.

(التوبه، 9: 71)

’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے‘‘۔

خدمت دین میں فیملیز کا کردار:

احیائے دین، فروغ اسلام کے اس مشن میں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کرتے ہیں۔ اگر بہنیں، بیٹیاں مصطفوی مشن کے لیے کام کررہی ہیں تو ان کے در پردہ ان کے والدین کی سپورٹ یا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ اگر بیوی دین کا کام سرانجام دے رہی ہے تو شوہر کے تعاون کے بغیر وہ اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اگر شوہر یا مرد یہ ذمہ داری ادا کررہا ہے تو بیوی تعاون کرتی ہے۔ جو افراد دین کے کام کرنے والوں کو سپورٹ کرتے ہیں تو وہ اس دین کے اجر میں برابر کے شریک ہیں اور گھر بیٹھے دین کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔

شاید ان کو اندازہ نہیں کتنا بڑا اجر ان کے نامہ اعمال میں جارہا ہے۔ خاص طور پر جب بیٹیاں کام کرتی ہیں تو قربانی دیتی ہیں تو اس میں صبر ہوتا ہے اور جتنا صبر زیادہ ہوتا ہے اتنا اجر زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے جب جسم کام کرتا ہے تو پوری دنیا کا نظام چل رہا ہوتا ہے۔ آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں، کان سن رہے ہوتے ہیں، ناک سے سونگھ رہے ہوتے ہیں، منہ سے کھاتے اور چکھتے ہیں، ہاتھ سے کام کرتے ہیں، پائوں سے چلتے ہیں، بازو سے طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے حرکات و سکنات اور سارا کام ہے دراصل یہ ان اعضاء کی فیملیز ہیں جو پردوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھے ہیں اور کسی کو دکھائی نہیں دیتے۔ سر کی کھوپڑی میں دماغ ہے۔ اگر دماغ کام نہ کرے تو کوئی کام نہ ہو۔ اگر آنکھوں کی نروز بند ہوجائے تو دکھائی نہ دے۔ سننے کی نروز اگر خراب ہوجائے تو سنائی نہ دے۔ ہاٹ خراب ہوجائے تو موت واقع ہوجائے، دل کی حرکت آنکھوں سے تو نظر نہیں آرہی۔ وہ صرف ڈاکٹر ہی ای سی گرام یا انجیو گرام کے ذریعے بتاتا ہے۔ کورونا سے موت پھیپھڑوں کو ختم کرکے دل کو بند کردیتی ہے۔ گردے نظر نہیں آتے۔ فیل ہوجائیں تو انسان ختم ہوجاتا ہے۔ کتنے اعضاء ایسے ہیں اگر وہ کام کرنا چھوڑ دیں تو موت واقع ہوجاتی ہے۔

پس ظاہری اعضاء کے پیچھے باطنی اعضاء کا کردار ہے اسی طرح جو کام نظر آتا ہے اس کے پیچھے وہ افراد ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ ان کا رول زیادہ ہوتا ہے۔ وہی ظاہر نظر آنے والی چیزوں کو متحرک زندہ اور توانا رکھتے ہیں۔ فیملیز دو طرح کی ہوتی ہے ایک جو ساری کی ساری مشن میں شریک ہے اس نے اللہ کے اس دین کی خدمت اور نوکری کا جھنڈا اٹھا لیا ہے۔ گھر میں ماحول پیدا کردیا اسی ماحول میں بیٹے، بیٹیاں پیدا ہوئے۔ ان کو کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ وہ کام کو لے کر آگے بڑھتے رہے۔ جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔ کچھ فیملیز ایسی ہیں جن کے والدین، میاں یا اعزا و اقارب وہ خود زیادہ Active نہیں تھے لیکن ان کی اولاد سے ایک بیٹا یا بیٹی کو اللہ نے اس مشن کی ذمہ داری دی ان کے والدین متحرک نہیں تھے یعنی گھر کا پورا ماحول مشن کے اس کام میں شریک نہیں تھا۔

لیکن انہوں نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو ایسا ماحول نہ ہونے کے باوجود اس کام سے روکا نہیں، خاموش رہے، تعاون کیا یا حوصلہ افزائی کی اس کا بڑا اجر ہے۔ یہ ایسا کام ہے بعض اوقات 10گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں جیسے میلاد کے انتظامات کیے تو دو، دو، تین، تین دن وہاں رہنا پڑا۔ جب ان مرحلوں سے گزرتے ہیں تو وقت کا کوئی تعین نہیں ہوتا پھر بیویاں اس چیز کو برداشت کرتی ہیں اور جھگڑا نہیں کرتی تو اس کی بیوی نے سارا اجر گھر بیٹھے لوٹ لیا۔ بیوی کو یہ سارا اجر اللہ کے خزانے سے ملا ہے لیکن شوہر کا اجر کم نہیں ہوا۔ بیوی کو کچھ مشکلات آئی ہوں گی، بچوں کے مسائل ہوں گے، شوہر کی جگہ بھی وہ خود ڈیل کرتی رہیں تو ان کا اجر ڈبل ہوگا۔

اس سوسائٹی میں جو گھرانے بے دین ہیں، جن میں دینی و روحانی قدریں نہیں یا جو مڈل کلاس ہیں جن کے اندر کچھ دین کی قدریں ہیں، شرم و حیا ہے بہت زیادہ سوشل میل میلاپ نہیں ہے حدود ہیں، بیٹیوں کو باہر آنے جانے میں اتنی اجازت نہیں دیتے، سوسائٹی کے حالات عجیب ہیں جس کی وجہ سے انہیں گھبراہٹ ہوتی ہے۔ سارے عوامل جمع ہونے کے باوجود مردوں سے بڑھ کر اگر ان گھرانوں کی بیٹیاں حضرت عائشہ صدیقہؓ کی سنت پر عمل پیرا ہیں اور اللہ اور رسولؐ کا کام کررہی ہیں۔ سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کا علم اٹھا کر چل رہی ہیں۔ سیدہ زینبؓ کا فریضہ ان کی باندیاں بن کر ان کی مطابقت میں سرانجام دے رہی ہیں تو ان کی فیملیز کو بہت بڑا اجر ملتا ہے۔ اس طرح اگر شوہر ہو تو بیوی کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ بیوی ہو تو شوہر کو دینی پڑتی ہے تب جاکر کام ہوتا ہے۔ ایک فریق تنہا دین کا کام نہیں کرسکتا۔ میرے ہاں کلچر ایسا ہے کہ جوائنٹ فیملیز سسٹم ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہر بندہ تھوڑا زیادہ ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے فرد کے نیک کام میں فیملی کا تھوڑا یا زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر حسن محی الدین کی اہلیہ محترمہ غزالہ باجی کے سسٹرز لیگ کے ساتھ کیمپ ہوتے ہیں اور انہیں اپنی مشنری ذمہ داری نبھانے کے لیے باہر کا سفر کرنا پڑا ہے۔ پیچھے سے گھر کے معاملات ہیں اگر گھر کا ایک فرد بھی منع کردے تو باجی نہیں جاسکتیں۔ اس طرح ہر شخص مشن کے لیے قربانی نہ دے تو کام آگے چل نہیں سکتا۔

دراصل جو فرد فرنٹ پر کام کررہا ہوتا ہے اس کو اللہ پاک ایک اجر عطا کرتا ہے۔اس کے ہر کام پر دس گنا اجر دیتا ہے۔ اگر صدق و اخلاص سے کرتا ہے تو دس گنا سے بڑھ کر 70 گنا اجر دیتا ہے اور اخلاص کے ساتھ کرتا ہے تو 700گنا کرتا ہے اور اخلاص کے ساتھ کرتا تو اللہ پاک لاکھوں، ہزاروں گنا اجر کردیتا ہے۔

یہ سارا اجر اس شخص کو ملتا ہے جو دین کا کام کررہا ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات کو آگے پہنچا رہا ہے۔ اب نظامت دعوت کے جتنے سکالرز ہیں اور ذمہ داران ہیں اور جتنے ناظمین اعلیٰ ہیں جن کے پاس زون ہیں۔ وہ دائماً ہر مہینے تقریباً 15 دن یا اس سے بھی زیادہ فیلڈ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پروگرام ترتیب دیئے ہوتے ہیں۔ کتنے کتنے دن باہر رہتے ہیں پھر واپس آتے ہیں موازنہ کریں ان لوگوں کے ساتھ جن کا مقامی جاب ہے۔ 8، 10 گھنٹے کے لیے جاب پر جاتے ہیں کام کرکے شام کو گھر تو آتے ہیں۔ رات اپنے بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس طرح میں اپنی زندگی سے چند نمونے پیش کرتا ہوں کہ 80 کا زمانہ تھا جب میں تنظیمات سیٹ کررہا تھا تو دورے ہوتے تھے۔ کبھی ایک ایک مہینہ، بیس بیس دن گزر جاتے تھے، بچے چھوٹے تھے میں ان کو نہیں ملتا تھا۔ دو صورتیں تھیں میرا دورہ اتنا طویل ہوا کہ میں باہر چلا گیا۔ دو مہینے کا دورہ ہوگیا۔ کبھی ملک کے اندر دورے ہوئے۔ یہاں سے کراچی گیا درس قرآن ہوا۔ تین چار دن کراچی گزارے وہیں سے کوئٹہ چلے گئے وہاں درس قرآن ہوا، پھر بلوچستان میں چند دن گزارے یا پنجاب کے اندر دورے ہوئے تو لیٹ آور گھر پہنچتا تو صبح دوسری سائیڈ کا پروگرام بنانا ہوا تب بچے سوگئے ہوتے۔ میں رات کو دس بارہ بجے آیا صبح نماز پڑھتے ہی گاڑیاں تیار ہوتیں اگلے پروگرام کے لیے سفرپر روانہ ہوجاتا۔ پھر وہاں پر آٹھ دس دن لگ گئے۔ ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی 15، 20 دن گزر جاتے تھے۔ بچوں کو مل نہیں سکتا نہ بچے مجھ سے مل سکتے تھے تو میری مسز کی قربانی ہے کہ وہ تنہا بچوں کی دیکھ بھال کرتیں، ان کی ذمہ داری نبھائی۔

بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دین کی راہ آسان نہیں ہے دین کی راہ پر جو نکلتے ہیں انہیں وقت، مال کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ بعض اوقات بہت سے کانگی امور میں وقت نہیں دے پاتے لیکن اس سب کے باوجود اس راہ پر نکلنے والوں کو برکتیں بھی بہت نصیب ہوتی ہیں۔ اللہ رب العزت دینی راہ پر کام کرنے والوں کے راستے آسان کردیتا ہے اُن کے وقت اور مال میں برکت دیتا ہے۔

خدمت دین کا اجر:

خدمت دین کے نتیجے میں وہ درجات ملتے ہیں جو اولیاء کو مجاہدات، اطاعت، ریاضات کی کثرت کے باعث ملتے ہیں۔

دراصل یہ مشن اللہ کے دین کو اس صدی میں زندہ کرنے کا مشن ہے جبکہ ایک مدرسہ بنایا ہو تو اس کا بھی بڑا اجر ہوتا ہے کہ دین پھیل رہا ہے۔ ایک مسجد بنائی جائے اس کا بڑا اجر ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کام کے بھی بڑے اجر ہوتے ہیں۔ اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے لائے ہوئے دین کی قدریں کمزور ہوجائیں اس کا چہرہ مسخ ہوجائے تو تحریک اس دین کو زندہ کرے۔ دین کے چہرے کو دھوکر اس کی خوبصورتی کو نمایاں کردے۔ اس کے اصل تصور کو بحال کردے۔ اس کے اعتدال کو بحال کردے۔ آقا علیہ السلام کی سنت و سیرت کی اصل تشخص کو بحال کردے۔ اس کی قدروں کو پہچانیں۔ شرق سے غرب تک اس کو اونچا کریں۔ نسلوں تک پہنچائے لوگوں کے عقیدے بنیں۔ اپنے احوال کی اصلاح کریں گھرانے سنوار جائیں۔

جن گھروں میں اندھیرا ہوگیا ہے ان میں دین کی شمعیں جلا دینا جو نماز چھوڑ گئے تھے اس کو نماز پر لگادینا جو اللہ رسول ﷺ کے منکر ہوگئے تھے ان کو دین کی طرف لے آنا۔ جن میں فسق و فجور آگیا تھا ان کے گھر میں دین اور قدروں کو داخل کردینا۔ اتنا بڑا کام کوئی ایک تحریک کے ذریعے کررہا ہو۔ ان کے اجور کا کوئی شمار نہیں سمندروں، دریائوں، درختوں کے پتوں، مٹی کے ریت کے ذرات کو گن لیں لاکھوں، کروڑوں اربوں اور کھربوں سے ضرب دے لیں جو ٹوٹل سم آئے گا وہ کم ہے۔ مگر خدمت دین کا اجر زیادہ ہے کیونکہ یہ پیغمبرانہ کام ہے۔ ختم نبوت کے بعد پیغمبروں کا کام آقا علیہ السلام کی امت کے کچھ طبقوں کو سونپ دیا ہے اور وہ قیامت تک آتے رہیں گے۔

اس لیے فرمایا: ’’میری امت کے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح کام کریں گے‘‘، جو کام اللہ رب العزت پہلے وقتوں میں انبیائ، پیغمبروں اور رسولوں سے لیتا تھا۔ وہ ختم نبوت ہوجانے کی وجہ سے اللہ پاک حضور کی امت کے کچھ لوگوں سے لے گا۔ تحریک منہاج القرآن وہ تحریک ہے اگر ان شاخوں اور شعبوں کو گنتے جائیں تو اس کا کوئی شمار نہیں۔ مختلف جہات پر کام ہورہا ہے جو اس میں شریک ہیں۔ وہ سارا خاندان خوش نصیب ہے کیونکہ جس گھر میں ایک بچہ حافظ قرآن ہوجائے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اس کو اپنے سارے گھرانے کی شفاعت کرنے کا حق دے دیا ہے۔ ایک باعمل عالم ہو اس کو پورے گھرانے کی شفاعت کا حق دے دیا ہے۔ کسی کو 70 لوگوں کی شفاعت کا حق دے دیا ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: ایسے لوگ بھی میری امت میں ہوں گے ایک ایک کو پورے قبیلے کی شفاعت کروانے کا حق دے دیا ہے پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا ایسے بھی اولیاء و صالحین ہوں گے ایک فرد ستر ہزار لوگوں کو بغیر حساب و کتاب بخشوا کے جنت میں لے جائے گا۔

تحریک منہاج القرآن کے لوگوں کی زندگیوں پر اثرات

تحریک منہاج القرآن کے ذریعے لاکھوں لوگوں کے دین بچ گئے۔ پاکستان کے اندر یا باہر کے گھرانے کہتے ہیں کہ اگر منہاج القرآن سے نہ جڑتے تو بے راہ روی کا شکار ہوتے۔ اس لیے کہ ان کے گھرانے میں دین نہیں تھا۔ ماں باپ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ دوست یار برائی کی طرف تھے۔ وہ نوجوان تھے انہوں نے مجھے دیکھا کہ ایک نوجوان اٹھا ہے نوجوان، نوجوان کے ساتھ لگ گئے۔ کسی کے دل میں اور کسی کے دماغ میں بات پہنچ گئی۔ لاکھوں ایسے ہیں جو بدعقیدہ ہوگئے ہوتے۔ ان کو کوئی اس سے روکنے والا نہیں تھا۔ ان کے عقیدے بچ گئے۔ کتنی زبانیں پاکستان میں تھیں جو میلاد کے خلاف اٹھتی تھیں اب بند ہوگئی ہیں۔ کتنے شرک و بدعت کے شور اٹھتے تھے۔ اب شرک و بدعت کا نام سوسائٹی سے غائب ہوگیا۔ حضور علیہ السلام کے توسل و شفاعت کے خلاف زبانیں بند ہوگئیں۔ ادب و احترام، میلاد اور نعت خوانی کے خلاف دنگا فساد ہوتے تھے، سب ختم ہوگئے۔

پاکستان میں کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ سوائے منہاج القرآن کے کہ اس نے کیا ہے۔ یہ پورے 40 سال پر محیط ایک محنت ہے جس نے لوگوں کی سوچوں کے دھارے تبدیل کردیئے ہیں۔ فکر کی سمتیں تبدیل کردی ہیں، زبانیں بند کردی ہیں، زاویہ نظر بدل دیئے ہیں۔ آقا علیہ السلام کی صحبت، نسبت، توسل، شفاعت اور میلاد کو غالب کردیا ہے۔ اس سارے اجور میں فیملیز بھی شامل ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا مومن مرد اور مومن عورتیں اس میں فیملیز کا ذکر ہے۔ بعض ھم اولیاء بعض جو ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ اگر وہ ایک دوسرے کی مدد نہ کریں تو مومن مرد اور مومن عورتیں کام نہیں کرسکتیں۔ کسی کی تنخواہ تھوڑی ہے مگر صبر کرے مدد کررہا ہے، کوئی شکر کرکے مدد کررہا ہے یعنی طرح طرح کی قسمیں ہیں۔ مگر ہر ایک کی نظر آقا علیہ السلام کے چہرے پر ہے۔ کسی چیز کی پرواہ نہیں کیا ملتا ہے کیا نہیں۔ مگر خواہش ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ خوش ہوجائیں اور آخرت سنور جائے اور یامرون بالمعروف ونہی عن المنکر میں مدد کرتے ہیں۔

نیکی کا ماحول پیدا کرنا:

نیکی کو فروغ دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینے کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے بعد میں فرمایا۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذکر پہلے کیا ہے۔ اچھائی کو مضبوط کرنے کی کوئی کوشش ہوگی تو تب ہی نماز پڑھنے اور پڑھانے اور نماز کو قائم کرنے کا ماحول پیدا ہوگا۔ جب نیکی کو طاقت ور نہیں کریں گے تو مسجدیں ویران ہوجائیں گی۔ نماز کی رغبت اور اہمیت ہی نہیں رہے گی۔ اللہ کے ساتھ تعلق ہی ٹوٹ جائے گا۔

لہذا تحریکی، تبلیغی، دعوتی و تنظیمی، تعلیمی اور تربیتی اجتماعی کام پہلے ہیں کیونکہ یہ وال مہیا کرتا ہے۔ بارڈر کو محفوظ کرتا ہے دراصل دین پر عمل کرنے کے ماحول کو پہلے تحفظ کی ضرورت ہے۔ منہاج القرآن پروٹیکشن کی کوشش کرتی ہے وہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں، رفقاء بناتے ہیں اور اس کو فیملیز مضبوط کرتی ہے۔ تب جاکر ماحول بنتا ہے۔ پھر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا۔ اللہ پاک نے پہلے یہ ساری شرائط رکھی ہیں۔ اس طرح سورۃ انبیاء میں فرمایا:

وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّۃً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوةِ وَاِیْتَآءَ الزَّکٰوةِ ج وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ.

(الانبیاء، 21: 73)

’’اور ہم نے انہیں (انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے‘‘۔

یہ پیغمبرانہ کام ہے۔ اس لیے اس کے اجر کا شمار نہیں ہے۔ تحریک منہاج القرآن سوسائٹی میں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہدایت دینے کی تحریک ہے۔ یہ پہلے نیکی کا کلچر اور ماحول پیدا کرتے ہیں۔ پھر وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، مثلاً جب بھی گھر بنتا ہے تو پہلے اس کی اساس بنتی ہے۔ تب دیواریں کھڑی ہوتی ہیں، چھتیں لگتی ہیں، کھڑکیاں اور روشن دان بنتے ہیں تب گھر رہنے کے قابل ہوتا ہے۔ جب تک کوئی دیواریں قائم نہ کرے۔ اندر جو کوئی ہے اس کی پروٹیکشن نہیں ہوتی۔

تحریک منہاج القرآن دین کی پروٹیکشن کررہی ہے۔ جو لوگ جس سطح پر کام کررہے ہیں جس قدر جتنا جس کا فائدہ سوسائٹی، نسلوں اور گھرانوں کو پہنچ رہا ہے۔ اللہ پاک اجر کے اعتبار سے اسی قطار میں شامل کرتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے:

فرمایا جتنے بھی نبی آئے اور ان نبیوں کی امتیں ہوئیں فرمایا ہر نبی کی امت میں سے کچھ اصحاب اور مددگار اللہ نے بنائے تھے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے مامن نبی بعثہ اللہ فی امتی۔ کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا مجھ سے پہلے جسے اللہ نے کسی امت سے مبعوث کیا ہو۔ اس کی امت میں سے کچھ اس کے اصحاب بنائے۔ جو درس، ہدایت، تعلیم اس نبی نے دیا تھا۔ خود بھی اس پر عمل کرتے اس کو مضبوط، مستحکم کرتے اور آگے لے کر چلتے، پھر زمانے گزرتے ہیں تو اللہ کے نبی کی ناخلفی کرنے والے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے فعل اور قول کے خلاف عمل کیے۔ دین سے ہٹ گئے فسق و فجور کی راہ کو اپنا لیا۔ اپنے پیغمبر کے اسوہ کی راہ کو چھوڑ دیا تو امت میں بگاڑ بڑھتا گیا۔ اللہ پاک نے اس سے بگاڑ ختم کرنے کے لیے پھر اس امت میں سے ایسے لوگوں کو پیدا کیا۔

فهم جهدهم بیده وهم مومن وهم جهده بلسانه وھو مومن وھم جهدهم بقلبه فھو مومن.

امت میں ایسے لوگ پیدا کیے جنہوں نے قوت کے ساتھ اس دھارے کو بدل دیا پھر وہ مومن ہوگئے۔ کئی قوت کے ساتھ بدلنے والے نہیں تھے انہیں اپنی زبان کے ساتھ، دعوت و تبلیغ کے ساتھ، فہم و علم کو پہنچاکر لوگوں کو قائل کرکے دھارا بدل دیا۔ وہ پلٹا کر اس اپنے پیغمبر کی فکر و سیرت کی طرف لے آئے۔ لوگوں کے رخ کو اصل کی طرف موڑ دیا وہ بھی مومن ہیں۔ کچھ لوگوں میں یہ ہمت بھی نہ ہوئی ایسے لوگ پیدا ہوگئے پھر جنہوں نے اپنے دلوں کو بدلنے نہیں دیا۔ دل سے برائی سے نفرت کی اور اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ یہ تین درجے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن نے تینوں طرح کے کام کیے۔ اس نے تنظیمیں، ادارے اور فورم بنائے اس کے کارکنان رات دن اللہ کے دین کے لیے باہر نکلتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں اور توانائی لگا کر محنت کرکے ان کو کھڑا کررہے ہیں۔ مٹی ہوئی قدروں کو زندہ کررہے ہیں۔ لوگوں کو پھر سے حضور کے اسوہ و سیرت کی طرف پلٹا رہے ہیں۔ فکر کے دھارے بدل رہے ہیں۔ کئی لوگ زبان کی حد تک دعوت کو پہنچا رہے ہیں دعوت کے اثرات لوگوں پر مرتب ہورہے ہیں جو پھسل رہے تھے ان کو پھسلنے سے بچالیا ہے۔ تذبذب اور متزلزل کو پرسکون کردیا ہے۔ یہ سب مومن ہیں ان کے بعد ایمان کو کوئی درجہ نہیں۔ آقا علیہ السلام نے ان کی نشان دہی کی ہے۔ حدیث پاک ہے:

لن تذال ھذه امه قائمة علی امراللہ.

نفس کا علاج اطاعت و فرمانبرداری:

قیامت تک میری امت کا ایک طبقہ اس منہج پر قائم رہے گا۔ انہیں آقا علیہ السلام کا فیض ملتا رہے گا۔ وہ میرے فیض کی تقسیم سے ہر دور میں میرے دین پر قائم ہوگا۔

پھر فرمایا لوگ ان کی مخالفت کریں گے۔ مگر کسی کی مخالفت ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گی۔ خوش نصیب وہ لوگ ہیں اس قافلہ میں شریک ہوئے ہیں اور مرتے دم تک اس پر قائم رہیں۔ مگر شیطان بڑے حملے کرتا ہے شیطان کو ایسے لوگ گوارا نہیں وہ وسوسے کے بیج ڈالتا ہے۔ یوسوس فی صدور الناس (الناس) اللہ نے اپنا کلام اور قرآن کا اختتام اس بات پر کیا کہ شیطان وسوسے ڈالتا ہے۔ اس وسوسے سے بچیں۔ وسوسوں کے لیے سو میدان ہیں، آپس کے معاملات ہیں۔ ہر شخص کسی شخص سے کسی وقت بھی ناخوش ہوسکتا ہے۔ ہر ایک بندے کی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ ہر ایک بندے کی رائے پر پورا نہیں اترا جاسکتا۔ ہر شخص کی رائے کسی دوسرے شخص سے مل نہیں سکتی۔ اختلاف کو کبھی روک نہیں سکتے، ذہن، دل اور دماغ ہے سو اختلاف آئیں گے۔ دل مطمئن نہیں ہوگا، اضطراب آئے گا۔ یہ کیا کیا؟ یہ انسانی رویے ہیں جو اجتماعیت کا حصہ ہیں۔ شیطان ان کے ذریعے اپنے وسوسے کے بیج ڈال دیتا ہے۔ وسوسہ اگر داخل کرتا ہے جس سے بندے کی لگن اور استقامت کو کمزور کردیتا ہے۔ جیسے دیمک آہستہ آہستہ لکڑی کو کھانے لگ جاتی ہے۔ وسوسہ آہستہ آہستہ داخل ہوتا ہے۔ خواہ بیٹیاں ہیں، مرکز کے لوگ ہیں، تنظیمات کے لوگ ہیں، علماء کونسل ہیں شعبہ جات ہیں۔ آپ کا کام یامرون بالمعروف ہے۔ ایک عہدے دار کا عہدے دار کے ساتھ تعلق ہے۔ کارکن کارکن ساتھ تعلق ہے۔ انسانی رشتے ہیں اجتماعیت ہے تو سو مواقع آئیں گے، جہاں ذہن ایک دوسرے کے کام غیر مطمئن ہوں گے۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ آپ کی رائے اور تھی اور آپ کے امیر کی رائے اور تھی۔ ایسا نہیں ہوسکتا ایک جگہ کام کرنے والے ساروں کی رائے ایک جیسی ہو، اس لیے اطاعت کا تصور دے دیا۔ اگر رائے سب کی ایک ہوجاتی تو اطاعت کی ضرورت نہ رہتی۔ فرمایا:

اطیع الله واطیع الرسول واطیع اولی الامر.

اللہ کی اطاعت کرو تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ سمجھیں ٹکرائیں گی مگر اطاعت اس کا حل ہے۔ رسول کی اطاعت کرو، تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ پس رسول جان کر اطاعت کرو اور جس کو امر مل جائے اس کی اطاعت کرو۔ اگر وہ اللہ رسول ﷺ کے حکم کو پامال نہ کریں معصیت کا حکم نہ دیں۔

وسوسہ ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ سر اٹھاتی ہے۔ اس کا علاج اطاعت ہے یہ وہ چیلنجز ہے جس مرحلہ پر لوگ خود کو سنبھال نہیں سکتے۔ اختلاف جوں جوں بڑھتا ہے کہ میں نے یہ کیا، میری بات نہیں سنی گئی پھر اجتماعی نظم نہیں رہتا۔ نظم اطاعت کے ذریعے آتا ہے۔ اس طریقے سے چلیں گے تو مرتے دم تک جڑے رہتے ہیں۔ اس لیے آپ کا جڑنا ایک نعمت ہے مگر آخری سانس تک جڑے رہنا بڑی نعمت ہے، یہ آزمائش ہے۔ بڑے لوگ قافلے میں شریک ہوتے ہیں۔ نیکیاں کرتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں جاکر شیطان اتنا بے ایمان دشمن ہے۔ وہ حملہ آور رہتا ہے۔ دین کا کام اور اپنے نفس کی راحت اگر دونوں ایک ہی سمت پر جڑے رہیں تو انسان کرتا چلا جاتا ہے۔ کبھی کوئی ایسا لمحہ آتا ہے کہ دین کا کام جو کررہا تھا۔ اس کا تقاضا کچھ اور ہوجاتاہے۔ نفس کی راحت نہیں رہتی۔

دین کا کام کررہا تھا تو عزت بھی مل رہی تھی۔ بندہ جڑا رہتا ہے۔ اس کو پتہ نہیں چلتا کیونکہ دین کے کام کی محبت اور نفس کی راحت دونوں آپس میں ضم ہوکر چل رہے ہوتے ہیں جہاں یہ پھوٹ جاتی ہے تو اس کا سمت کچھ الگ ہوجاتا ہے دین کے کام کا سمت الگ ہوجاتا ہے۔ جب ایک سمت پر کھڑے نہیں ہوتے وہاں آدمی بگڑ جاتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے اس کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ جو کام کررہے ہیں وہ رحمن کا ہے جب نیک کام کرتے ہیں تو نفس ختم تو نہیں ہوجاتا۔ نفس تو قطب اور غوث کے ساتھ بھی ہوتا ہے ان کا بھی کلیتاً ختم نہیں ہوتا وہ اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شیطان غائب تو نہیں ہوجاتا، اس کا وعدہ ہے کہ میں تو قیامت تک ورغلائوں گا۔

خواطر کی اقسام:

حضرت شیخ جنید بغدادی نے لکھا ہے کہ خواطر خیالات کو کہتے ہیں۔ یہ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ خاطر رحمانی، خاطر نفسانی اور خاطر شیطانی۔ بہت سے مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ تینوں ایک ہی سمت میں ایسے جڑ کر چلتے ہیں کہ ان میں فرق نظر ہی نہیں آتا۔ رحمانی کام کررہے ہیں۔ اب نفس دیکھتا ہے کہ اس بندے نے ہٹنا نہیں وہ بھی اسی قافلے میں شامل ہوجاتا ہے۔ خاطر نفس، خاطر رحمانی کے تابع ہوجاتا ہے۔ مگریہ اس کی عیاری ہوتی ہے۔ خاطر شیطانی بھی اسی لائن میں پیچھے چل پڑتا ہے۔ عارضی طور پر جیسے جاسوس لباس بدل کر دشمن کی فوج میں داخل ہوجائے۔ وہ سمجھتے یہ ہمارے بھائی ہیں، کیونکہ اس بندے پر نیکی کا جذبہ اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ نفس کہتا ہے کہ میری نہیں سنے گا۔ شیطان کہتا ہے یہ میری نہیں سنے گا۔

ہم ناکام ہوجائیں گے۔ ہمارامقصد تو ورغلاکر نیکی کی راہ سے ہٹنا ہے۔ لہذا ایک خاص وقت تک چھپ کر نیک بن جاتے ہیں۔ نماز، روزہ، تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔ ان کو پتا ہے کہ ایک سٹیج آئے گی چلتے چلتے کہیں نفس کو پرابلم آئے گا۔ جب نفس کو پرابلم آتا ہے تووہ تکلیف اٹھاتا ہے۔ جب اس کی راحت دین کے ساتھ جڑی نہیں رہتی تو فاصلہ دیکھتا ہے کہ میری عزت نہیں رہی، میری بات نہیں سنی جارہی۔ مجھے اہمیت نہیں دی جارہی تو اس طرح کرکے وسوسے ڈالتا ہے تو خاطر نفسانی جدا ہونے لگتا ہے۔ جب اسے راستہ الگ ہونے کا ملتا ہے تو پھر خواطر شیطانی بھی مل جاتا ہے اور مل کر حملہ کرتے ہیں اور اسے راہ راست سے ہٹا دیتے ہیں۔ بعض اوقات بندے کو بڑی راحت مل رہی ہوتی ہے۔ نیکی کا کام بھی ہورہا ہے، عزت بھی مل رہی ہوتی ہے، نفس کو تسکین ہورہی ہوتی ہے، بندے کی جان پہچان ہورہی ہے۔ جڑا رہتا ہے لوگ اس کے لیے کھڑے ہورہے ہیں۔ اس کی authority مانی جارہی ہے۔ اس کو سنا جارہا ہے، اس کو فائدہ پہنچ رہا ہے، نفس کو راحت، عزت، شہوت سے تسکین مل رہی ہوتی ہے تو اس وقت وہ حملہ نہیں کرتا۔ موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ شیطان بھی حملہ نہیں کرتا۔ حملہ اس وقت کرتا ہے جب اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔ پہلے وہ صدر تھا پھر نئی ٹرم آگئی تو صدر کسی اور کو بنادیا اب نفس چھٹتا ہے آپ شعبہ کے ڈائریکٹر تھے، آپ کی ذمہ داری پر کسی اور کو لگادیا۔ وہ کہتا ہے میں نے اتنی خدمت کی، مجھے کیوں ہٹایا؟ جب رنجش ہوتی ہے تو رنجش رحمن کے کام میں نہیں ہوتی لیکن یہ رنجش ’’میں‘‘ کو ہوتی ہے۔ جب رنجش اور ملال اس کو آتا ہے وہ مناسب وقت ہوتا ہے شیطان حملہ کرتا ہے۔ وہ رحمانی خاطر سے ہٹا کر لے جاتا ہے پھر اس کے ذہن میں وسوسے ڈالتا ہے پھر وہ نئی بولیاں بولتا ہے۔ جو پہلے ساری زندگی اس کو سوجھی بھی نہیں تھی۔ پہلے کیوں نہیں سوجھتی تھیں اس لیے کہ خاطر رحمانی سے خاطر نفسانی کو بھی تسکین تھی۔ خاطر شیطانی بھی جڑا ہوا تھا۔ جب وہ جدا ہوگئے تو شیطان پھر طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔ لہذا میرے بیٹے اور بیٹیاں ہمیشہ اس کا محاسبہ کریں۔ اس تعلق کا ملنا بڑی محنت ہے۔ اس کو مرتے دم تک سنبھالنا اس سے بڑی آزمائش ہے۔ اس لیے صالحین اطاعت کے ساتھ ساتھ استقامت پر زور دیتے۔ نیکی کی توفیق ملے مگر اس کے ساتھ استقامت بھی ملے۔ کہیں چھن نہ جائے۔ اللہ رب العزت ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے۔ اطاعت کی توفیقات میں اضافہ کرے اور ہر لمحے ہر قدم پر استقامت دے۔ آمین