منہاج ویمن لیگ خواتین کی سب سے بڑی تعلیمی و تربیتی تحریک

سدرہ کرامت

اللہ رب العزت نے تخلیق کائنات کے ساتھ ہی انسان کو اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر پیدا کیا اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مرد ہو یا عورت دونوں کے کردار کا تعین بھی کر دیا مگر ا دیان عالم کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس میں عورت کا کردار بالکل مفقود ہے۔ یہ تو گزشتہ ایک دو صدیوں کی بات ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور عورت کو بھی مرد کے برابر قرار دیا گیا لیکن اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا ہے وہ آج دنیا کے لیے نہ صرف ایک واضح سبق، قابل تحسین کا رنامہ بلکہ قابل فخر تاریخ بھی ہے۔ مگر وقت کی شکست و ریخت اور بدلتے ہوئے حالات و واقعات نے اسلامی تاریخ میں عورت کے کردار کو بھی کبھی واضح کبھی معدوم رکھا خصوصاً دینی خدمت کے حوالے سے مختلف سطحو ں پر ہونے والی جد و جہد اور اس میدان میں سر گرم عمل مختلف جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے عمومی مزاج، مطمع نظر، دائرہ کار اور طریق کار میں خواتین کے کردار کو نظر انداز کیا گیا یہی وجہ ہے کہ معاشرے کی سیاسی و اقتصادی، سماجی و معاشرتی، تہذیبی و ثقافتی اور فکری و عملی زندگی میں پائے جانے والے اصلاح طلب پہلوؤں سے انکی سعی و کاوش کی کوئی چھاپ دکھائی نہیں دیتی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے عالمگیر مقصد کے حصول کی جدوجہد میں خواتین کوخصوصی حیثیت اور مقام دیا اور اسلامی تہذیب کی درخشندہ روایت کو زندہ کرنے کے لیے فکری و نظریاتی اور علمی و عملی جدوجہد میں خواتین کو شریک کار بنانے کے لیے 05 جنوری 1988ء کو منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ بالخصوص تعلیم و تربیت ،قیام امن اور معاشرتی اصلاح میں اپنا متحرک کردار ادا کیا اور پوری دنیا میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار کے تحفظ کے ساتھ خواتین میں بیداری شعور کے حوالے سے گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ الحمد للہ تین دہائیوں میں منہاج القرآن ویمن لیگ نے اپنے شاندار تنظیمی وتحریکی کردار اور فکری و نظریاتی جدوجہد سے منہاج القرآن ویمن لیگ کو عالم اسلام کی تنظیمی نیٹ ورک کے اعتبار سے خواتین کی سب سے بڑی نمائندہ اصلاحی تحریک ثابت کیا جو دنیا کے 30سے زائد ممالک میں اپنا موثر وجود رکھتی ہے سماجی اصلاح کا فریضہ ہو یا محبت الہی کا حصول عوامی تحریک کا سیاسی سفر ہو یا یا عشق و ادب رسول ﷺ کا فروغ، امر بامعروف ونہی عن المنکر کی دعوت ہو یا معاشی فلاح و بہبود کی ذمہ داری مجالس علم و فکر ہوں یا حقوق و فرائض کے ضمن میں بیداری شعور مہم منہاج القرآن ویمن لیگ نے ہر سطح پر خود کو منوایا۔ اندرون و بیرون ملک ویمن لیگ کا پھیلا ہوا وسیع نیٹ ورک بہترین علمی ،فکری ذہنی اور عملی صلاحیتوں کے ساتھ ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے یہ اصلاحی اور خدمت دین سے متعلق اپنے نیٹ ورک کے اعتبار سے خواتین کا واحد نمائندہ فورم ہے جس میں ہر طبقے سے خواتین شامل ہو کراپنا اصلاحی و دینی کردار بخوشی ادا کرتی ہیں۔ جس نے پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں خدمت دین کو ایک نئے رنگ آہنگ اور اسلوب سے ہر گھر تک پہنچایا ہے۔ کانفرنسز، علمی و تحقیقی منصوبہ جات اور اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے ملک بھر میں خواتین کا ایک وسیع حلقہ قائم کیا ہے۔ اصلاح احوال و معاشرہ اور احیائے دین کے جن عظیم مقاصد کے حصول کیلئے منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی گئی وہ الحمد للہ حاصل ہوئے ہیں منہاج ویمن لیگ اصلاح احوال کے ضمن میں سوسائٹی میں واضح اثرات بھی موجود ہیں منہاج القرآن ویمن لیگ نے مردوں کے شانہ بشانہ اپنا اصلاحی تعلیمی، تحقیقی اور دینی کردار ادا کیا ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے علمی، فکری، روحانی اور عملی کاوشوں سے خواتین کو اپنی طرف راغب کیا۔ 30سالہ اس سفر میں ہزاروں، لاکھوں خواتین اس پلیٹ فارم سے اخلاقی ،نظریاتی اور تربیتی مراحل سے گزر کر با عمل مسلمان اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کا خواتین کی فلاح و بہبود میں کردار:

خواتین کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق معاشرے میں اپنا مفید کردار ادا کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیاکیا گیا ویمن لیگ کے تحت دنیا بھر میں خواتین اسلامی اور جدید تعلیمات کے تناظر میں خدمت دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔

خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کا قیام:

معاشرے میں جاری قدیم و جدید تصورات کو متوازن شکل دینے کے لیے ایک ایسے تعلیمی ادارہ جات کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ خواتین کو جدید علوم سے بہرہ ورکر کے معاشرہ میں اصلاح احوال کیلیے تیار کیا جاتاہے۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس نظریے کے تحت کہ امت مسلمہ میں بیداری شعور اور اصلاح احوال خواتین کی تعلیم و تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔

پیشہ ورانہ اور عائلی زندگی میں توازن:

آزادی نسواں کے نام پر تباہ ہونے والے خاندانی نظام سے مسلم معاشرے کو بچانے کے لیے ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اسلام میں خواتین کے کردار سے مسلم خواتین کو روشنا س کروایا کہ جب تک عورت دونوں حیثیتوں میں توازن قائم نہیں کرے گی وہ معاشرے کی ترقی میں فعال کردار ادا نہیں کرسکتی۔

مغرب معاشرہ اسلام میں خواتین کے کردار پر قدامت پسندانہ نظریہ رکھتا ہے اور قدامت پسند مذہب ہونے کا الزام لگاتا رہا۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے خواتین کو تحریک منہاج القرآن میں نمایاں نمائندگی دیتے ہوئے ویمن لیگ کا پلیٹ فارم دیا جس کا مقصد دنیا میں خواتین کے کلیدی کردار کو متعارف کروانا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے اسوہ سے ثابت ہے کہ آپ ریاستی اور عسکری معاملات میں خواتین کی رائے کو اہمیت دیتے اور خواتین غزوات میں بھی شر کت کرتیں لہذا اسلام عورت کو معاشرے کا جزو لا ینفک بنانے کا درس دیتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا معاشرے کی خواتین کو انکے حقیقی مقام سے روشناس کروانے کا نتیجہ ہے کہ آج منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے یونٹ اور گھروں کی سطح پر خواتین معاشرے میں اصلاح احوال امت اور تجدیداحیائے دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں جن میں بڑا طبقہ عام گھریلو خواتین پر مشمل ہے۔

Women Empowerment کا معتدل نظریہ:

آج Women Empowerment کا چرچا ہر طر ف سننے کو ملتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معاشرے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 27 سال قبل ہی Women Empowerment کی بنیاد منہاج القرآن ویمن لیگ کے قیام کے ساتھ رکھ دی تو بے جا نہ ہو گا۔

آج اگر ہم پاکستانی معاشرہ کو دیکھیں تو تصور مساوات مردو زن سے متعلق دو طبقات چھائے ہوئے نظر آتے ہیں ایک طبقہ عورت کو ان بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کی تائید تو کرتا ہے جو اسلام نے اسے دیے مگر وہ عورت کے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا طبقہ معاشرے میں ظلم و ستم کا شکا ر عورت کا مادر پدر آزاد کر دینا چاہتا ہے یہ افراط و تفریط معاشرے کے بگاڑ کا باعث بن رہا تھا ایسے میں ضرورت اس امر کی تھی کہ خواتین کی نمائندہ کوئی ایسی تنظیم وجود میں آئے جو عورت کے کردار کو متوازن انداز میں لے کر چلے جو مظلوم و محکوم عورت کو بیرونی فنڈنگ پر چلنے والی تنظیموں کا آلہ کار بننے سے بچا جا سکے۔ پر وفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے جس دور میں ویمن لیگ کی بنیاد رکھی اس وقت پاکستانی معاشرے میں عورت کے مر دکے برابر کام کرنے کا تصور نہ تھا جس پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا جبکہ آج Women Empowermentکا چرچا ہر طرف سننے کو ملتا ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کا ذیلی شعبہ WOICE بھی وجود میں آچکا ہے جو معاشرے میں خواتین کے مقام کو اسلام کی حقیقی روح کے مطابق مستحکم بنانے میں مصروف عمل ہے۔

پیشہ ورانہ اور خانگی امور میں توازن کا نظریہ:

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خواتین کے پیشہ ورانہ اور خانگی ذمہ داریوں میں متوازن روش اختیار کرنے کا نظریہ دیا۔ آپ نے اسلام کے تصور حقوق اور فرائض کو نہایت خوبصورتی سے واضح کیا کہ مرد اور خواتین دونوں اپنے ذمے حقوق اور فرائض پر برابر جوابدہ ہیں۔ قرآن اور سنت سے خانگی امور کی جملہ ذمہ دار یاں عورت پر ہونا ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں مر د اور عورت ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ عورت کا گھریلو ذمہ داریاں سر انجام دینا اس کے فرائض میں شامل نہیں لہذا مرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان امور میں عورت کی معاونت کرے کیونکہ معاشرہ حقوق اور فرائض کے حسین امتزاج سے تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح مرد کی معاونت سے عورت پیشہ وارانہ امور بھی خوش اسلو بی سے انجا م دے سکتی ہے۔ اس کی مثال حضر ت ام کلثوم بنت علی ؑ کی ہے جنہوں نے با پردہ رہ کر اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق خانگی امور کی انجام دہی کیساتھ روم کی سفیر کے طور پر خدما ت دیں۔ لہذا اسلام کااس حوالے سے نظریہ توازن اور اعتدال پر مبنی ہے۔ اسی نظریے پر عمل کرتے ہوئے منہاج القرآن ویمن لیگ میں بڑی تعدا د میں خواتین مذکورہ دونوں سطحوں پر باحسن خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

عورت کا کردار بحثیت داعیہ:

عورت معاشرہ ساز ہے اسکی تربیت معاشرہ کی تعمیر میں نمایاں مقام رکھتی ہے لہذا ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے امت مسلمہ کو کنتم خیرا امتہ کی عملی تصویر بنانے کے جس مشن کا آغا ز کیا اس میں خواتین کا بحثیت داعیہ اہم کردار شامل ہے یہی وجہ ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن کے رفقاء میں خواتین کی ایک کثیر تعدا د شامل ہے جوبطور مبلغہ اور مقررہ معاشرے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے سپیکرز فورم کے ذریعے خواتین دنیا بھر میں اپنے موثر انداز تقریر سے اسلام کی اشاعت میں اپنا کر دار ادا کر رہی ہے۔

فقہی قوانین میں اعتدال کا نظریہ:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیا ت ہے یہ اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی اشاعت کے بعد مسلمان درجہ بدرجہ جس تنزلی کا شکار ہوئے اس میں عورت سے متعلقہ قوانین کے حوالے سے بھی رجعت پسندی کا عنصر غالب آگیا اور خواتین کی حیثیت صرف ایک قیدی کی حد تک بنا دی گئی ایسے میں وہ قوانین جو اسلام نے عورت کے لیے مقرر کیے ان میں بھی تنگ نظری آگئی۔ مثلاً عورت کی دیت نصف ہوگی یا مکمل اس پر علماء نے مختلف موقف اختیار کیے جس میں بڑی تعداد عورت کی نصف دیت کی قائل تھی۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے یہ نظریہ دیا کہ بحیثیت انسان عورت کی جان کی حرمت بھی مرد کے برابر ہے لہذا عورت کے دیت بھی مرد کے برابر مکمل ادا کی جائے گی۔

اسی طرح خلع سے متعلق یہ نظریا ت وجود میں آئے کہ عورت بحالت مجبوری مثلاً شوہر کی طرف سے تشدد یا نان و نفقہ نہ ملنے کی صورت میں خلع لے سکتی ہے اس پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے یہ نظریہ دیا کہ خلع عورت کا بلا مشروط حق ہے لہذا وہ صرف اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنا پر خلع لے سکتی ہے۔ حضور ﷺ کی سنت سے بھی ثابت ہے کہ ایک عورت کو حضور ﷺ نے صرف اس بناء پر شوہر سے خلع لینے کی اجازت کی کہ وہ اپنے شوہر کو ناپسند کرتی تھی الغرض اسلام عورت کی حیثیت کے متعلق روشن خیال تصور پیش کرتا ہے۔

خواتین معاشرے کا مفید اور اہم رکن ہیں ان کی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لا کر نہ صرف معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے بلکہ معاشرہ سازی کا کام بھی لیا جا سکتا ہے ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ انھیں ایسا مناسب پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں وہ نہ صرف اعتماد بلکہ عزت و احترام کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں الحمد للہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی صورت میں خواتین کو آج ایسا ایک پلیٹ فارم میسر ہے جو حقیقی معنوں میں خواتین کے حقوق کی حفاظت اور ان کی اصلاح کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔