شیخ الاسلام نے ترقی کے لیے تعلیمی انقلاب کا ویژن دیا

مسز پروین بھٹہ

ایک ہستی، ایک شخصیت، ایک محقق، ایک مجدد بوستانِ دہر کا گُل، افقِ عالم کا تابندہ ستارا لاکھوں دعاؤں کا حاصل، تمناؤں کا مرکز و محور مصطفوی انقلاب کا داعی، امید کی کرن، لاکھوں دلوں کی دھڑکن، جذبوں کا سمندر، جرات کا پیکر، عاشقِ ساقیِ کوثر، محبِ آلِ رسولؐ، عظمت کا عنوان، مستقبل کا وجدان، دھرتی کا ناز، غریبوں کا ہمنوا، جوانوں اور مزدوروں کا عزم، کربلا کا مسافر، ارے یہ کون ہستی ہے؟ جس کا روشن چہرہ جو ماحول کو منور کردے۔

عقابی آنکھیں جن میں ایمان کی چمک، نور بکھیرتی پیشانی جس پہ سجدوں کے نشان، خاموشی میں آب رواں کا ترنم، مسکراہٹ میں کلیوں کا تبسم بولنے میں غنچوں کی چٹک، باتوں میں پھولوں کی مہک خوشی میں گلاب کے اس پھول کی مانند جسے باد صبا گدگدا رہی ہو، غمی میں دریا کا سکوت، غصے میں سمندر کا تلاطم، سادگی میں بنارس کی صبح۔

ان کی سٹیج پر آمد طلوعِ آفتاب کا منظر، ان کی سٹیج سے رخصتی بلبل کا گلوں سے بچھڑنا، سامعین میں ان کی موجودگی ستاروں میں چودھویں کا چاند، ان کا سٹیج کی جانب چلنا کوئل کا سوئے گلستان جانا الفاظ جگنوؤں کا چراغاں ان کے فقرے ستاروں کی قندیلیں ان کے اشارے شمشیر مومن کی کاٹ، ان کی خطابت بحرِ جوش کا مدوجزر، ان کے خطاب کا تسلسل رنگین تتلیوں کا بادل، ان کے دل میں امت کا غم ان کے دماغ میں عظمت رفتہ کی بازیابی کے منصوبے، ان کے خون میں جذبہ جہاد کے شرارے، ان کی نظروں میں نشانِ منزل یعنی مدینہ منورہ۔

ان تمام اوصاف کو جب ہم یکجا اور اکٹھاکرتے ہیں تو جو شخصیت ان تمام خوبیوں سے مزین ذہن کے اوراق پر ابھرتی ہے زمانہ اسے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام سے جانتا اور پہچانتا ہے۔

میرا قائد اوصاف کا سمندر ہے ان کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ غلام مصطفی ﷺ ہیں وہ اس غلامی کو کائنات کا سب سے بڑا اعزاز سمجھتے ہیں وہ اپنے آقا ﷺ کی اک اک ادا پر سو جان سے قربان ہیں انہوں نے آقا ﷺ کی محبت میں بڑا حساس دل پایا ہے پیارے آقا کا کہیں ذکر آجائے تو ان کی آنکھیں ساون کی برکھا بن جاتی ہیں اور ان کی آنکھوں سے عشقِ رسول ﷺ کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔

یہ آپ کا دیا ہوا درس ہے کہ 12 ربیع الاول پر تمام سرکاری عمارتوں اور عاشقِ رسول ﷺ لوگ اپنے گھروں پر بھی چراغاں کرتے ہیں۔ مسجدوں اور محلوں میں محافل میلاد کا انعقاد ہورہا ہے۔ حاضرین کے لیے عمرے کے ٹکٹوں کی قرعہ اندازیاں ہوتی ہیں۔ گلیوں کے نام میلاد سٹریٹ اور چوکوں کے نام میلاد چوک رکھے جاتے ہیں۔ معصوم بچے اور بچیاں نعت خوانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

19 فروری کا دن وہ تاریخی دن ہے جس دن مجدد رواں صدی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جھنگ میں جنم لیا اور اس دن کو PAT اور منہاج القرآن کے جملہ فورمز کے لاکھوں کارکنان قائد ڈے کے حوالے سے سیمینارز اور مختلف قسم کی تقریبات میں اپنے قائد کی سیاسی، علمی، تجدیدی، مذہبی، روحانی، اخلاقی، فلاحی اور انسانیت کو امن دینے کے لیے گرانقدر خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور انفرادی اور اجتماعی طور پر کیک کاٹتے ہیں۔ دعائیہ تقاریب میں اپنے محبوب قائد کی درازیٔ عمر اور ان کی فکر ان کے نظریے کے ساتھ تجدید و وفا کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے تحریک منہاج القرآن کے نام سے انقلابی اور تجدیدی جدوجہد کا آغاز کیا اور مذہبی و روحانی تعلیمی اور فلاحی میدانوں میں گرانقدر کامیابیاں سمیٹیں۔ شدید سردی میں لانگ مارچ اور حبس کی گرمی میں 70 دن کا دھرنا دینا ان کی سیاسی تاریخ میں اپنی حیثیت منوا گیا۔ آئین اور دستور کی بحالی کے لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آرٹیکل 62، 63، 213اور 218 اور دیگر آرٹیکلز کا جو شعور عوام کو دیا وہ آج زبانِ زد عام ہے۔ ’’ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے‘‘ کا جملہ سیاست کے ایوانوں اور گلی کوچوں میں گونج رہا ہے۔

شیخ الاسلام تعلیمی انقلاب کو قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت منہاج یونیورسٹی اور سینکڑوں کالجز اور سکولز کا قیام ان کے وژن کا عملی ثبوت ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت آغوش آرفن ہاؤس، ہسپتال، دیہاتوں میں صاف پانی کی فراہمی اور غریب خاندان کی لڑکیوں کی شادی جیسے پراجیکٹ قائم کیے۔ تجدید دین کے لیے ان کی خدمات تاریخی نوعیت کی ہیں۔ ہزارہا کتابوں کے مصنف ہیں اور پورے عالم میں لاکھوں لوگ ان کتابوں سے ایسی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ان کا 2010ء میں جاری ہونے والا فتویٰ ایک ایسا ڈاکو منٹ ہے جس نے پوری دنیا میں امن پسندوں کو حوصلہ اور عزم دیا ہے اور خاموش امن پسند اب متحرک ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

ان ہی خدمات کے پیش نظر انہیں امن کا سفیر کہا جاتا ہے۔ مذاہب کے درمیان مکالمے کے لیے مشترکات پر اکٹھے ہوکر انسانیت کو محبت اور امن کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے آپ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں لندن ویمبلے کانفرنفس، انسانیت کو محبت اور امن کی دوڑ میں باندھنے کی تاریخ تھی۔ جس میں دنیا کے چھ بڑے مذاہب کے بارہ ہزار افراد نے ایک چھت تلے جمع ہوکر امن کے اجتماعی دعا میں شرکت کی اور پوری انسانیت کو امن اور محبت کا پیغام دیا۔ گلوبل پیس اور یونٹی کے تحت لندن میں ہونے والی کانفرنسز میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا پیغام امن و محبت انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے کروڑوں افراد تک پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا صحافی کہنے پر مجبور ہوگیا کہ دنیا کے کسی کونے میں چلے جاؤ اور کچھ ملے نہ ملے طاہرالقادری کا نام ضرور ملے گا۔

آپ نے پاکستانی عوام کو یہ شعور دیا ہے کہ پاکستان کی ترقی راز سیاسی نظام کی تبدیلی میں چھپا ہے۔ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ دلوں میں جذبہ عشق مصطفی ﷺ کو راسخ اور پختہ کرنے اور عالمی سطح پر اس کا فروغ اور احیاء ہے۔ افریقہ سے لے کر مشرق بعید کے ممالک اور یورپ سے لے کر لاطینی امریکہ، آسٹریلیا، مشرقِ وسطیٰ اور دنیائے انسانیت کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آپ نے محبتِ مصطفی ﷺ کا آفاقی پیغام نہ پہنچایا ہو اور کئی مسلم اور غیر مسلم ممالک میں اب یہ فریضہ ان کے شاگرد خاص اور منہاج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ و طلابات سرانجام دے رہے ہیں۔

آپ کی شخصیت اندھیری غار کے دوسرے کنارے پر امید کا نشان دکھائی دے رہی ہے اسلام کے روشن چہرے پر پڑ جانے والی گرد کو صاف کرنے اور اپنے وجدان، فکرو عمل اور خداداد صلاحیتوں کے ذریعے آپ پوری دنیا میں ہر پلیٹ فارم پر اسلام کے دفاع کے لیے فکری ونظریاتی اور علمی و عملی محاذوں پر مصروف جدوجہد ہیں۔

شیخ الاسلام نے اپنی دینی، تنظیمی، انتظامی، تعلیمی، تحقیقی، تبلیغی اور روحانی خدمات کے ذریعے شرق تا غرب اسلام کے پیغام محبت و امن کو کامیابی کے ساتھ پہنچا رہے ہیں اور اس پیغام نے یورپ کی چکا چوند میں مادیت کے بتوں کے سامنے سر بسجود لاکھوں نوجوان، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو اٹھا کر صاحب گنبد خضریٰ کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔

قرآن کی آیتوں سے خیرات لینے والا
دامانِ شہرِ شب میں سورج اگا رہا ہے
ملت کی کشتیوں کے گرداب ابتلاء میں
طیبہ کے ساحلوں کا راستہ دکھا رہا ہے

شیخ الاسلام کی تعلیمات اور تبلیغ ان کی کتب لٹریچر اور کارہائے نمایاں دیکھتے ہوئے کثیر تعداد میں یورپ اور دیگر غیر مسلم ممالک کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ پاکستان ہو یا دیگر ممالک عموماً فلم ٹیلی ویژن کے اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں وغیرہ کے بال، لباس کو کوئی خاص انداز (Style) نوجوان طبقے میں مشہور ہوجاتا جبکہ آج تک کسی مذہبی لیڈر کا کوئی انداز اس طرح پسند نہیں کیا گیا مگر ڈاکٹر طاہرالقادری وہ شخصیت ہیں کہ جس نے ایک خاص انداز کی ٹوپی سر پر رکھی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ ٹوپی لاکھوں سروں پر نظر آنے لگی دوسرے لفظوں میں وہ ٹوپی جس نوجوان کے سر پر رکھی ہوئی نظر آجائے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ نوجوان اپنے لیڈر کی ایک صدا پر مصطفوی انقلاب کے لیے اپنا سر پیش کرسکتا ہے۔

مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ قائد کسے کہتے ہیں تو میرا جواب ہوگا کہ قائد وہ ہندسہ ہوتا ہے جس کے بغیر جینے بھی صفر ہوں وہ صفر ہی رہتے ہیں ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی حقیقت یہ ہے کہ مجدد رواں صدی شیخ الاسلام اپنے عہد کا وہی ہندسہ ہے جس کے ساتھ لگنے سے لاکھوں بے جہت لوگ منزل آشنا ہوکر مقصد حیات پا رہے ہیں۔

الغرض ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ نابغۂ عصر ہیں کہ آپ کسی ایک محاذ پر ہی نہیں بلکہ کثیرالجہات پہلوؤں سے اسلامی تعلیمات کے فروغ اور عالمی سطح پر اسلامی تعلیمات کے دفاع میں مصروف عمل ہیں۔

19فروری کی خوش نصیب ساعتیں مبارک ہو تمہیں کہ جس کے تاریک آنگن میں چراغِ مصطفوی کی کرنوں نے طاہرالقادری کے روپ میں جنم لیا کون ہے جو زمان و مکان کی پیشانی سے ان کرنوں کی ضیاء کو مٹاسکے جو پیشانی ہر گھڑی اور ہمہ وقت اپنے خالق و مالک اور عظیم پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہے۔

ایک مدت سے سلگتے چیختے ماحول میں
ابر رحمت کی طرح برسے گا طاہر قادری
گونجنے کو ہے قضا پھر نعرۂ تکبیر سے
کفر کے لات و ہبل توڑے گا طاہر قادری
ظلمتِ آفاق میں چمکے گا طاہر قادری
اک نئی تاریخ پھر لکھے گا طاہر قادری (ان شاء اللہ)

ہم اپنے قائد کو ان کی 70ویں سالگرہ کے پرمسرت موقع پر دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کی قیادت میں اسلام کو سپر پاور بنائے آمین۔