قیادت کے اوصاف سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں

سُمیّہ اسلام

قیادت عربی زبان کا لفظ ہے جو قود سے لیا گیا ہے یعنی کسی کے آگے چلنا، رہبری اور راہنمائی کرنا وغیرہ، حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوش بختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

تاثیر و کردار کے مجموعہ کوقیادت کہتے ہیں اور قائد سے مراد ایک ایسا شخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قیادت کوئی آسان ا ور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے۔ قیادت کا ہردم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے سامنا ہوتا رہتا ہے۔ ان چیلنجز سے عہدہ براں ہوکر ہی قیادت اعتماد، استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو ممکن نہیں ہے۔ اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ براں ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے۔

چند خصوصیات ایسی ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز ونمایاں کرتی ہیں جن میں قیادت (لیڈرشب) بھی شامل ہے۔ قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ باشعور، باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعدد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لئے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طئے شدہ سمت پر گامزن کرنے کا نام ہے۔

نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہ نماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتا فوقتا انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے۔ مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہ نمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔ حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

کُلُّکُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِهِ.

تم میں کا ہر شخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔

بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے لیکن اس کی عظمت و جلالت کی وجہ سے قیادت کے کسی بھی حکم پراندھا دھند عمل نہیں کیا جاسکتا۔ قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول ا ور واجب العمل ہوں گے ورنہ یک لخت انھیں نامنظور کردیا جائے گا۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّهَ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الْأَمْرِ مِنکُمْ.

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔

(النساء: 59)

سورۃ النساء کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے۔ اولوالامر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ (قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔ قیادت ( الوالامر) کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول ﷺ سے متضاد نہ ہوں۔ صاحبان امر (قیادت) کے نظریات، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول ﷺ سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ ہی باغی۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے بعد حکام ہوں گے جو نیک بھی ہوں گے اور فاسق بھی، تم ان کے احکام سننا جو حق کے موافق ہوں، ان کی اطاعت کرنا اوران کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اگر و ہ نیک کام کریں تو اس میں ان کا بھی نفع ہے اور تمہارا بھی اور اگر وہ برے کام کریں تو ان کو ضرر اور تمہیں فائدہ ہوگا۔

اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی، سنت رسول ﷺ کی روشنی میں متقی، باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خدا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو۔ اللہ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت، رہنمائی ا ور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ اساتذہ اپنے تلامذہ کو، اکابر اپنے اصاغر، راعی اپنی رعیت، بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے۔ قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کے لئے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے۔ کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔

آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو ز ندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کرسکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو۔ قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں۔ قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط و محیط ہے۔

اخلاص

قیادت کی کامیابی و کامرانی میں اخلاص کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ قیادت یقیناً ہمیشہ وقتی مصلحتوں اور تقاضوں کے گھیرے میں رہتی ہے لیکن قائد کا اخلاص و للہیت اسے وقار و مرتبہ عطا کرتا ہے۔ عبادات میں اگر اخلاص شامل نہ ہو تو فر ض تو ادا ہوجائے گا لیکن عرفان الٰہی کی دولت سے انسان محروم رہے گا۔ سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دعوت حق پر آپ ﷺ کو مکہ کے بت پرستوں نے کتنی اذیتیں نہ دیں، کیسے کیسے لالچ آپ ﷺ کونہیں دیئے گئے لیکن آپ ﷺ کے پائے استقامت و اخلاص میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آپ ﷺ نے ہر طر ح کی اذیتیں برداشت کیں اور ہر قسم کی لالچ کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔ دنیا گواہ ہے کہ یہ مشقتوں اور آزمائشوں کا دور ختم ہوگیا اور صرف 23 سالوں میں صفحہ ہستی پر ایک ایساعظیم انقلاب رونما ہوا جس نے ہر ظلم، ہر باطل کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا۔ کسی بھی تحریک انجمن اور تنظیم کے قائد اور کارکنان میں خلوص نیت کا پایا جانا اہم ہے۔ جب قائد و قوم اخلاص سے متصف ہوجاتے ہیں تو ان کے قدموں تلے عظمتوں اور رفعتوں کے پرچم سرنگوں ہوجاتے ہیں۔

علم

علم ملک و ملت کے لئے قلعہ اور ذرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ علم میں انسانوں کی بھلائی، بہتری، ترقی، استقامت، تزکیہ، رشد و ہدایت، سعادت مندی اور نسلوں کا تحفظ پنہاں ہے۔ علم سے ذہن و دل روشن ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو علم کے ذریعے فرشتوں پر برتری عطا فرمائی۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِی بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ.

اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔

(البقرة: 31)

قیادت کے تقاضوں میں علم و حکمت کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ علم سے آدمی میں خیر و شر کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ قائد میں عام افراد سے زیادہ علم کا ہونا ضروری ہے۔ علم انسان میں عدل و توازن پیدا کرتا ہے۔ علم کی وجہ سے انسان میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔

إِنَّمَا یَخْشَی اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.

بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔

(فاطر: 28)

علم کی وجہ سے اعمال میں حسن و خوبی پیدا ہوتی ہے۔ انسان کا عقیدہ، اخلاص اور سنت کی پیروی علم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات عیا ں ہے کہ قیادت کے فرائض انجام دینے والے شخص کا علم و حکمت سے متصف ہونا لازمی ہے۔ قیادت کا ضروری علوم سے لیس ہونا لازمی ہے تاکہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی درست طریقے سے انجام د ے سکے اور وقت ضرورت دوسروں کی تربیت کے فرائض بھی بہتر طور سے انجام دے سکے۔ قائد کے علم میں اتنی وسعت ہو کہ دوسرے مشورے اور رہنمائی کے لئے اس کی طرف دوڑے چلے آئیں۔

حکمت

عقل و حکمت قیادت کی تیسری شرط ہے۔ ایک عام انسان کے بہ نسبت قائد کا زیادہ عقل مند ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآں ہوسکے اور عوام کی رعایت کرسکے۔ عقل و حکمت اور دانشوری سے قائد میں تجربہ، فکر اور تدبیر کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ قائد میں عقل و حکمت جیسے اوصاف کو لازمی گردانا جاتا ہے۔ قائد اپنی دانشوری کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت احتیاط سے گفتگو کرتا ہے۔ دانش مندی اور حکمت مظاہر عقل میں سے ایک عظیم مظہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

یُؤتِی الْحِکْمَةَ مَن یَشَاءُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِ.

جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔

(البقرة: 269)

قیادت کے فرائض انجام دینے والے اشخاص کے لئے قرآن اور سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ لازمی ہے۔ قرآن مجید ایک کتاب انقلاب ہے۔ قرآن نہ صرف عصر حاضر کے فتنوں اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ تمام مسائل کا کامیاب حل بھی فراہم کرتا ہے۔ علم و حکمت، دانش و بینائی کے لئے قائد ین کواس کتاب الٰہی سے رجوع کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ امن و انصاف کو دنیا میں رائج کیا جاسکے۔

یقین و اعتماد

قیادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ قائد کو اپنی ذات پر کامل اعتماد ہو اور قوم کو اپنے قائد کی صلاحیتوں پر۔ اعتماد قیادت کی اعلیٰ، اساسی اور گراں قدر خصوصیت ہے۔ قائد جتنا پراعتماد ہوگا اسی قدر و صائب رائے ہوگا۔

عوام میں اعتماد پیدا کرنے سے پہلے قائد کا اللہ کے بعد اپنی ذات پر کامل یقین و اعتماد ضروری ہے۔ اعتماد جرأت کو جنم دیتا ہے۔ ایک پر اعتماد قیادت اپنے پیروکاروں میں اعتماد و یقین کی ایسی فضا پیدا کردیتی ہے کہ گدا بھی بادشاہوں کے جاہ و جلال کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کی ذات پر کامل یقین اورخود اعتمادی ہی تھی کہ وہ دہکتی آگ کے شعلوں میں کود پڑے اور ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابربھی لغزش نہیں آئی۔ بہ زبان علامہ اقبالؒ

بے خطر کود پڑا آتش نمرو د میں عشق
عقل ہے محوئے تماشہ لب بام ابھی

اللہ پر یقین اور اپنی ذات پر جب اعتما د ہوتو نصرت الٰہی مدد کے لئے پہنچتی ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

قُلْنَا یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَی إِبْرَاهِیمَ.

ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔

(الانبیا: 69)

مقصد سے آگہی نصب العین

قائد کا نصب العین اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے۔ دوراندیش ولائق قیادت اپنے ملک و قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو وضع کرتی ہے۔ قائد کا فرض ہے کہ وہ متعین مقاصد کو صاف اور شفاف انداز میں پوری قوم کے آگے پیش کرے اور خیال رہے کہ مقاصد کے متعلق قائد اور قوم میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔ مقاصد واضح ہوں اور مقاصد کے ادراک و تفہیم میں کسی کو بھی کسی قسم کی دشوار ی نہ پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے واشگاف الفاظ میں زندگی کا مقصد و مدعا بیان کردیا ہے۔

میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ (الذاریات)۔

اگر ایک جگہ اللہ نے حسن عمل کو مقصد زندگی قرار دیا ہے:

الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا.

جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔

(الملک: 02)

قرآن کی ان آیات سے جہاں انسان کے مقصد حیات اور زندگی کی کامیابی کے راز سے پردہ اٹھا جاتا ہے وہیں قیادت کے مقاصد بھی بڑے واضح انداز میں ہمارے سامنے آجاتے ہیں لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے۔ مقاصد پوری قوم کی آرزؤ ں اور تمناؤ ں کا مرکز ہو تے ہیں اسی لئے قائد مقاصد کے تعین میں اپنے ملک و قوم کے معاشی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، دینی اور علمی حالات کو پیش نظر رکھے۔

قوانین واصولوں کی پاسداری

قائد اگر پابند ڈسپلن ہوتو اس کا خوش گوار اثر معاشرے، ماحول اور عوام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ قائد کی ذات اصول و قوانین سے بالاتر نہیں ہوتی ہے۔ عوام کے ساتھ قائد کی اصول و قوانین پر عمل پیرائی لازمی ہے۔ قیادت کی اصول پسندی سے اس کے رعب، دبدبے اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ سے ہم کو قانون کی پاسداری اور اصول پسندی کی تعلیم دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے چوری کی مرتکب عرب کی ایک معزز وبا اثرخاتون کے ہاتھ کاٹ دینے کا جب حکم جاری فرمایاتو اس کے قبیلے والوں نے رسوائی اور سزا سے بچنے کے لئے آپ ﷺ سے سفارش کی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں، بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل قبیح کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر فاطمہؓ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ یہ حدیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قربت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ قائد میں جب اصولوں پسندی کا یہ جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو ہر طرف امن و امان کا دور دورہ رہتا ہے۔ امیر غریب الغرض معاشرے کے ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اعتدال

ہر کام کو عمدگی سے انجام دینے کے لئے اعتدال و توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا.

اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا۔

(سوره البقرة: 143)

اللہ رب العز ت نہ صرف امت کے ہر فرد کو اپنی زندگی میں اعتدال و توازن برقراررکھنے کا حکم دیتے ہیں بلکہ ہادی اعظم ﷺ کو بھی اعتدال والی روش اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ قیادت کے مطلوبہ اوصاف میں اعتدال اور توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہر شخص کو اور بالخصوص قائد کو اپنی زندگی میں شدت پسندی، افراط و تفریط اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا چاہئے۔

شجاعت

قائد میں شجاعت کاہونا بے حدضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امارت، قیادت و سیادت ممکن نہیں ہے۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سب سے زیادہ سے زیادہ حسین اوربہادر تھے۔ نبی ﷺ کا شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی مقام سب سے بلند اور معروف ہے۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ دلیر تھے۔ نہایت کٹھن اور مشکل موقع پر جبکہ اچھے اچھے جانبازوں اور بہادروں کے پاؤں اکھڑجاتے آپ ﷺ اپنی جگہ برقرار رہتے، پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے ہی بڑھتے چلے جاتے اور کبھی پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے شعلے خوب بھڑک اٹھتے تو ہم رسول اللہ ﷺ کی آڑ لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔ (الرحیق المختوم)

سخاوت

سخاوت ایک عبادت اور اللہ کی نعمتوں کے شکر کا نام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے سخاوت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ آپ ﷺ نے ہر چیز کو اللہ کی راہ میں لٹا دیا اور جتنا بھی تھا سارا کا سارا اللہ کی راہ میں قربان کردیا اور اپنے پاس کچھ بھی باقی نہ رکھا۔ حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی نے مانگا تو آپ نے انکار نہیں کیا، حتیٰ کہ ایک آدمی نے بکریوں سے بھری وادی کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ بھی دے دی۔ امت سے آپ ﷺ کی محبت بھی آپ ﷺ کی جود و سخا کی ایک مثال ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ حاجتمندوں، ضرورتمندوں اور محتاجوں پر خرچ کرتے تھے۔ آپ کے خرچ کرنے اور سخاوت کرنے کی شان ایک تیز ہوا کی طرح تھی جو کچھ مال آپ کے پاس آتا اسے فوراً مستحقین تک پہنچا دیتے۔ قیادت سخاوت کے وصف سے آراستہ ہونی چاہئے۔ قیادت کو معلوم ہونا چاہئے کہ مال و اسباب کاباٹنا ہی سخاوت نہیں بلکہ سخاوت کے کئی طریقے ہیں؛ مال خرچ کرنا، ظالم کو معاف کر دینا، زیادتی کرنے والے سے درگزرکرنا، قطع تعلق کرنے والے سے تعلق جوڑنا، مسلمانوں کی اصلاح کرنا، غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دینا، کسی کا عذر قبول کرنا وغیرہ۔

قوت فیصلہ

عام حالات کی طرح مشکل اور ہنگامی حالات میں ہر شخص کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ ایک بااثر قائد مشکل اور کٹھن وقت میں بھی اپنی دانش و بینش کے بل پر اہم فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہتر قائد ہمیشہ فیصلہ سازی میں جماعت کے تجربہ کار اہل علم افراد کو نہ صرف شامل رکھتا ہے بلکہ ان تجاویز و آرا پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ آرا وتجاویز کو رد کرتے وقت ان کی عزت نفس کا بھی خاص خیال رکھتا ہے۔ اگر قائد ان امور پر توجہ مرکوز نہیں کرے گا تو اپنے ماتحتوں کے مشوروں اور تجاویز سے وہ محروم ہوجائے گا اور وہ اسے ایک آمر یت پسند قائد کے طور پر دیکھنے لگیں گے۔

تجربہ و مہارت

قیادت کسی چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہے یا پھر ایک بڑی جماعت کی بھی۔ قیادت ادنیٰ درجے کی بھی ہوسکتی ہے اور اعلیٰ درجے کی بھی۔ قائد کو جب کوئی قیادت سونپی جائے وہ اس میں مہارت رکھتا ہو یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات کا اسے علم ضرور ہو بصورت دیگر وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا۔

اسلام نے اپنے نظام اطاعت میں قائدین کو بلند منصب اس لیے دیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کے زمین میں نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس منصب کا بد یہی تقاضا یہ ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے قانون کی اطاعت کریں اور اس کے بندوں کے اندر اسی کے قانون کو جاری و نافذ کریں۔ آج کے اس پرفتن در رمیں ایسی صفات کی حامل قیاد ت کا ملنا مشکل تو ضرورہے لیکن محال بھی نہیں ہے۔ آج قیادت بدترین شخصیت پرستی اور آمریت کے دور سے گزر رہی ہے۔ قیادت و سیادت آج احساس ذمہ دار اور اپنے فرض منصبی سے عاری ہے۔ قیادت عیاری ومکاری کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔ قوم کے مال پر قائدین اپنی زندگی شاہانہ ٹھاٹ باٹ اور کروفر سے بسر کررہے ہیں۔ معصوم عوام قیادت کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ قیاد ت کی عیاری سے واقف نہیں ہے۔ یہ بالکل واقف ہیں لیکن ان کے پاس جرات نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے۔ اگر علم ہوتو بھی یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے لاعلم ونابلد ہیں۔ علم آدمی میں اعتماد پیدا کرتا ہے پھر اعتماد آدمی میں جرات پیدا کرتا ہے۔ شخصی و موروثی قیادت کی موجودگی میں نوجوان نسل کی قائدانہ تعلیم وتربیت کا انتظام کیے بغیر اس منظر نامے کو نہ تو ہم بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی، خوشحالی اور امن و استحکام کی توقع کرسکتے ہیں۔

اسلام نے قیادت کا فریضہ ہر کس و ناکس کے حوالہ نہیں کیا اور نہ ہی خاندان، برادری، قبیلہ، زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد پر کسی شخص کو قیادت کا استحقاق عطا کیا ہے بلکہ ایمان، علم، عمل، تقویٰ، حکمت، دانائی، بصیرت و بصارت، جہاں بینی، بہادری، اخلاص، امانت، دیانت، صداقت اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے وفاداری جیسے اوصاف کو قائد کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اوصاف کا ہر شخص میں پایا جانا بہت مشکل ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کے تاریخ کے ہر دور میں مسلمان معاشروں میں ایسے افراد ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں جو عوام و خواص کے لیے مرجع لیکن ملوک و سلاطین کے لیے ناقابلِ قبول رہے ہیں۔ عصر حاضر میں سیرت طیبہ کی روشنی میں اوصاف قیادت پڑھ کر جس شخصیت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں، آپ نے اپنے اوصاف قیادت کی بدولت بہت مختصر عرصہ میں دنیا میں اپنے علم و تحقیق کی بدولت نمایاں مقام حاصل کرلیا ہے، آج تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل دنیا کے 100 ممالک میں اپنا موثر وجود رکھتی ہے جو یقینا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قائدانہ صلاحیتوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔ یہی وہ درِ نایاب ہیں جنہیں گوہرِ حقیقی جان کر آج اُمت مسلمہ اپنا سر تاج بنالے تو اُمت کا تنزل و ادبار، رفعت و شوکت سے بدل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کو مخلص قیادت کو ڈھونڈنے اور اُن کی قیادت کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)