شیخ الاسلام بحیثیت سیرت نگار

محمد سجاد فیضی

تاریخ کی کہکشاں میں بہت سی لافانی شخصیات ستاروں کی مانند جھلملا رہی ہیں ان میں سے کسی کے فکرو نظر نے لوگوں کو نئی راہ سمجھائی، تو کسی کے عزم و ہمت نے افراد میں دلولہ پیدا کیا۔ کسی نے ایجادات سے دنیا کو نفع پہنچایا تو کسی نے اپنے علم سے لوگوں کو فیض یاب کیا ،کسی کے عشق و جنون نے اسے لافانی بنایا تو کوئی اپنی قوت بیان کی بنا ء پر امر ہوا ،کسی کو اس کی شاعری نے دوام بخشا تو کسی نے روحانیت کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی پائی، کوئی اپنے قائدانہ اوصاف کے باعث تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہا تو کسی کی فتوحات نے اسے لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رکھا۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شمار ان عبقری شخصیت کے حامل افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں دین کے ہر شعبہ میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ آپ کی خدمات کا لوہا نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں مانا جاتا ہے۔ آپ کی گرانقدر خدمات کا اعتراف صرف اسلامی حلقوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ غیر مسلم محقیقین بھی آپ کی خدمات کے معترف ہیں۔

آپ کا اسلوب تصنیف محققانہ، طرز زیست قلندرانہ اور انداز نگارش ہمیشہ ساحرانہ رہا۔ بعض کتابی عبارتوں سے آشنا ہوتے ہیں زمانی ضرورتوں سے آگاہ نہیں ہوتے۔ بعض مجادلے میں مگن رہتے ہیں مطالعے سے لگن نہیں رکھتے۔ بعض شعلہ بیانی سے کام چلاتے ہیں تلقین غزالیؒ کو نہیں آزماتے اور بعض دیوان و مکتب کے محض دربان ہوتے ہیں بزم کے محرم اور رازدان نہیں ہوتے۔ اسی طرح کچھ صوفی تسبیح کے دانے پلٹنے کے ماہر تو ہوتے ہیں دل کی دنیا بدلنے پر قادر نہیں ہوتے کچھ اوراد و وظائف میں لگے رہتے ہیں تاہم معارف و لطائف سے پرے رہتے ہیں، کچھ شعبدے تو نہیں رکھتے۔ کچھ وجدو رقص کا پرچار کرتے ہیں تزکیہ نفس پر اصرار نہیں کرتے۔ کچھ لمبی عباؤں میں ملبوس رہتے ہیں قلندرانہ اداؤں سے محروم ہوتے ہیں، کچھ ویرانوں کو جا کر بساتے ہیں انسانوں سے نباہ نہیں کر پاتے، اور کچھ فقط مزاروں پر چراغ جلاتے ہیں دلوں کی جوت نہیں جگاتے اور ایسے ہی ادیبوں کا معاملہ ہے ان میں ایسے بھی ہیں جو لفظ و حرف تو رکھتے ہیں ان کا صحیح مصرف نہیں جانتے۔ جو لفظوں کا ابلاغ تو کر سکتے ہیں دلوں کا سراغ نہیں پا سکتے جو قلم تو زوردار رکھتے ہیں۔ موضوعات بیکار چنتے ہیں۔ جو کاغذی تصویر تو اچھی بناتے ہیں روحانی تاثیر سے محروم رہتے ہیں اور نظم و نثر سے ہنگامہ تو اٹھا دیتے ہیں لیکن اسرار حیات اور رموز کائنات سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں لیکن اسرار حیات اورر موز کائنات سے پردہ اٹھانے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی شخصیت ہمہ صفت موصوف ہے۔ وہ بیک وقت عالمانہ جلال، صوفیانہ جمال اور ادیبانہ کمال کے حامل و وارث ہیں۔

یوں تو اللہ تعالیٰ نے حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو بہت سی خوبیوں کا مرقع بنایا ہے۔ مگر یہاں پر شیخ الاسلام کی سیرت نگاری کے چند پہلوؤں کواُجاگر کرنے کی کوشش کروں گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدح سرائی اور سیرت نگاری زمانہ ازل سے جا ری اور تاقیامت جا ری رہی گی۔ اس موضوع پر جس کسی نے قلم اٹھایا کمال خوبی کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے اوصاف حمیدہ کو اپنے نگینوں میں پرویا۔

مدحت رسول ﷺ میں فارسی شاعر کا یہ مصرعہ:

بعد از خدابزگ توئی قصہ مختصر

ضرب المثل بن چکا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نصیت و منقب کا عنوان او ر مدحت رسول کا موضوع اختصار و اجمال نہیں بلکہ زیادہ شرح و اطناب کا تقاضا کرتا ہے۔ اس ذکر کو زیادہ طول دینے کے بعد بھی دل کی سیری نہیں ہوتی اور جی یہ چاہتا ہے کہ یہ مقدس داستان دراز تر ہوتی چلی جائے زبان و قلم کی سب سے بڑی سعادت ہی یہ ہے کہ سیرت النبی ﷺ کے اعلان و اظہار کے ذریعے قرار پائیں اور سالہا سال کی زمزمہ خوانی اور ہزاروں صفحوں کی کتابت و املاء کے بعد وجدان و ضمیر اس عجزو درماندگی کا اعتراف کریں:

ماہمچناں در اول وصف تو ماندہ ایم

غالب نے روح القدس کی تائید کے بعد ہی اتنا سچا شعر کہا ہے:

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

کسی کی مجال ہے جو خلاصہ کائنات، فخر موجودات علیہ الصلوۃ والتحیات کی مدحت سرائی اور سیرت نگاری کا حق ادا کر سکے۔ یہ غلط دعوی نہ کسی زبان سے نکل کر فضاء میں پھیلا اور نہ کسی قلم نے اسے صفحہ قرطاس پرثبت کیا۔ اس بارگاہ ِ اقدس میں جس نے بھی لب کشائی کی تو اس کا مقصود حصول سعادت کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

برصغیر میں سیرت نگاری پر اس سے پہلے مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبی معروف اور متداول ہے۔ لیکن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سیرت الرسول جو کہ دس جلدوں میں ہے ، جس کا صرف مقدمہ دو جلدوں پر مشتمل ہے جس میں سیرت نبوی ﷺ کی مطالعہ کی ضرورت و اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔

موجودہ دور کے چیلنجوں میں سے ایک اہم چیلنج اسلام کی احیاء و اصلاح اور غلبہ و تمکن کا چیلنج درپیش ہے۔ لہٰذا اس دور میں سیرت نگاری کا تقاضا یہ ہے کہ ماسبق کتب سیرت کی طرح حالات و واقعات کو ہی نہ بیان کیا جائے بلکہ سیرت کی روشنی میں مذکورہ چیلنجوں سے عہدہ برآمد کی سبیل تلاش کی جائے۔

مفکر اسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عصر حاضر کے انہی چیلنجوں سے عہدہ برآمد کے لیے سیرۃُ الرسول ﷺ کی تصنیف کا آغاز فرمایا۔ اور اردو زبان کی اس ضخیم ترین سیرۃُ الرسول ﷺ کا آغاز مقدمہ سے کیا جو صرف اردو بلکہ سیرت پر لکھی گئی عرب و عجم اور مسلم و غیر مسلم کی تمام کتب میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے اس سے قبل اسلامی دنیا میں تفیسر، حدیث اور تاریخ کی کتب کے مقدمے لکھے گئے۔ تاہم سیرت نگاری کی تاریخ میں کسی بھی مصنف نے اصولِ سیرت پر مشتمل مقدمہ اس قدر تفصیل کے ساتھ تصنیف نہیں کیا۔ یہ امتیاز شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو حاصل ہے کہ آپ نے علمی دنیا میں اس باب کا اضافہ کیا۔

دوجلدوں پر مشتمل مقدمہ سیرت الرسول ﷺ شیخ الاسلام کی ایک عہد آفریں تصنیف ہے جس میں آپ نے سیرت الرسول ﷺ کی حکمت و فلسفہ و سائنس اور معاصر مسائل حل کرنے کے حوالے سے دور حاضر میں ہماری انفرادی اور قومی زندگی کے لیے سیرت کی معنویت کو بیان کیا ہے۔ ا س میں سرفہرست سیرت کے مطالعے کے منہاج کا تذکرہ کیا پھر سیرت کی تہذیبی، ثقافتی، معاشی، سائنسی، سیاسی و ریاستی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ اور اس امر کی پورے وثوق کے ساتھ نشاندہی فرمائی ہے کہ دور حاضر میں سیرت کے فہم میں حائل ایک سبب نہ صرف سیرت کا ادھورافہم ہے بلکہ اس میں ہماری انفرادی اور قومی زندگی کے مختلف مسائل سے دو چار ہے۔ اس امر کو بھی واضح کیا کہ ان تمام مسائل کا حل بھی سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ اپنا قلبی تعلق استور کرنے میں ہے اور حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہونے میں ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

شیخ الاسلام کی تحریر کی سب سے نمایاں صفت قوت اور جوشِ بیان ہے جو ان کے احساس عظمت اور احساس کمال کا آئینہ دار ہے ۔ وہ اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب کرتے ہیں۔ ان کے طریقہ خطاب میں خود اعتمادی اور برتری کا احساس ہر جگہ نمایاں ہے۔ انہیں زمانہ کی جہالت کا پورا پورا احساس ہے۔ وہ موقع کے لحاظ سے کسی جگہ خطیب بن کر کہیں مدرس بن کر کہیں واعظ بن کر اور کہیں فلسفی بن کر قاری سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریر پڑھ کر قاری کی طبیعت میں ایک جوش اور ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کا اسلوب ان کے موضوع کا تابع ہے۔ ان کی تحریروں میں جوش اور ولولہ اپنے شباب پر نظر آتا ہے۔ مثلاً سیرت النبی ﷺ کی ولادت کے موقع پر انہوں نے جو انداز تحریر اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف شیخ الاسلام کا دلی جوش اور ولولہ نظر آتا ہے بلکہ یہ تحریر پڑھ کر قاری کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہوجاتی ہیں۔ ذرا اقتباسات ملا حظہ فرمائیں۔

ولادت کی رات سرشام ہی سے اجرام کائنات کو الہام ہوگیا تھا کہ وہ سرور وانبساط کے ترانے گائیں اور آنے والی ذات کا مسرتوں کے ہجوم میں استقبال کریں۔ ساکنانِ عرش کی آمد و رفت میں اضافہ ہو گیا وہ نورانی پروں کے ساتھ ہواؤں اور فضاؤں میں اداب و احترام سے کھڑے ہو گئے۔ حوران بہشت نے کاشانہء آمنہ کو گھیرے میں لے لیا اور ہر سو خدمت کیلیے مستعد ہو گئیں۔ فرشتوں نے مشرق و مغرب میں آمدو استقبال کے پرچم لہرا دیئے۔ ستاروں اور بہاروں نے آگے بڑھ کر قدم چومے۔

حضرت عبدالمطلب اسی صبح نور کے تڑکے صحن کعبہ میں رونق افروز تھے کہ ایک دم انقلاب آگیا، بت درہم برہم ہو گئے، اوندھے منہ ایسے گر پڑے جیسے نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے انہیں زمین پر پٹخ دیا اور ساتھ ہی دیوار کعبہ سے ایک دلکش آواز گونجی۔

ولد المصفطی المختار الذی تهلک بیده الکفار. (السیرة النبویه)

وہ مختار و مصطفیٰ ﷺ پیدا ہو گئے ہیںِ کفار جن کے ہاتھوں شکست کھا ئیں گے۔

ابھی وہ صورت حال پر غور ہی کر رہے تھے اور اس انقلاب آفریں واقعہ پر حیرت زدہ تھے کہ اتنے میں حضرت آمنہ کافر ستادہ ان کے پاس پہنچ گیا پیغام تھا کہ قدرت نے آپ کو پوتا عطا فرمایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جس صبحِ ولادت با سعادت ہوئی، علماء ِ یہود کی صفوں میں ہلچل مچ گئی اور وہ بے قرار ہو کر گلی کوچوں میں گھومنے اور پوچھنے لگے کہ آج کس کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے؟ انہوں نے دھوم مچا دی کہ وہ نجم طلوع ہو گیا ہے جس کی موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی تھی وہ محمد مصطفی ﷺ پیدا ہو گئے ہیں۔

سیرت الرسول ﷺ میں شیخ الاسلام کے قلم کی طہارت، فکر کی پاکیزگی، دل کا سوز اور دین شفف پوری طاقت کے ساتھ ابھرتا دکھائی دیتا ہے، ایک ایک سطر محبت رسول ﷺ کی خوشبو میں بسی ہوئی اور ایک ایک ورق پر عقیدت کے لعل و گُر جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام نے جب اپنے محبوب آقا ﷺ کی مدینہ میں آمد کا تذکرہ کرتے ہوئے الفاظ کو ایسا پرویا کہ قاری آپ کی تحریر پڑھ کر گویا ایک سحر میں ڈوب جاتا ہے۔ ہجرت مدینہ کی چند سطور ملاحظہ کیجئے۔

جان نثار ان مصطفیٰ ہر روز قبا میں اپنے آقا ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے، دامن آرزو کو دیدار مصطفیٰ کی تجلیوں سے بھرتے، کشت ایمان و ایقان میں جذبوں کے پھول سمیٹتے، آرزوؤں کے سکے کشکول دیدہ و دل میں سجاتے وہ ایک ایک لمحہ گن رہے تھے کہ کب حضور ﷺ ان کے شہر کو اپنی قدم بوسی کا شرف بخشیں، کب ان کی روحوں کو قرار آئے، کب ان کے دلوں کو سکون کی دولت نصیب ہو، پیمانہ صبر تھا کہ لبریز ہوا جاتا تھا، انتظار کی گھڑیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ اب ہر دل میں یہ ارمان مچلنے لگا کہ حضور ﷺ اسے میزبانی کا شرف بخشیں، جذبے سینوں میں مچل رہے تھے، آرزوئیں چشم تمنا میں سلگ رہی تھیں، ایک عجیب کیف کے عالم میں شب و روز گزر رہے تھے، عورتیں اور بچے بھی ہادی برحق ﷺ کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے، جس روز فصیلِ شہر پر آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے، وہ دیوانہ وار حضور ﷺ کے جلوس کی پیشوائی کے لئے گلیوں اور سٹرکوں میں نکل آئے، ان کے چہرے خوشی سے ٹمٹما رہے تھے۔ مرد اپنے جسم پر ہتھیار سجا کر صاف ستھرے کپڑے پہن کر جلوس مصطفیٰ میں شرکت کی سعادت حاصل کر رہے تھے، مشتاقان دید سٹرک کے دونوں طرف صفیں باندھے احترام کی تصویر بنے اپنے آقا ﷺ کے جلوس پر دیدہ و دل نثار کر رہے تھے عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پر کھڑی اظہار تشکر کے پھول برسا رہی تھیں، دختر حوا کا نجات دہندہ ان کے شہر کو عزت افزائی کی خلعت فاخرہ سے نواز رہا تھا او ر وہ سلاموں کی ڈالیاں اپنے آقا ﷺ کی نذر کر رہی تھیں۔

تتلیوں نے ادب سے ان کی نورانی پیشانیوں کو بوسہ دیا جگنوؤں نے جھک کر ان کی پلکوں پر ستارے سجا دئیے اور خوشبوؤں نے عالم وارفتگی میں ان بچیوں کے ہاتھوں میں عشق مصطفی کی قندیلیں تھما دیں، وفور جذبات سے ان بلند بخت بچیوں کے ہاتھوں میں عشق مصطفی کی قندیلیں تھما دیں، وفور جذبات سے ا ن بلند بخت بچیوں کی آنکھیں چھلک پڑیں وہ کب سے مہان ذی حشم کی راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑی تھیں دف کی آواز پر حروف سپاس گلاب بن کر مہک اٹھے کائنات کا ذرہ ذرہ بنو نجار کی ان بچیوں کا ہم زبان بن گیا۔ آمد مصطفی مرحبا ، مرحبا، پوری وادی گونج رہی تھی۔

لما قدم رسول الله ﷺ المدینه جعل النساء والصبیان والولائد یقلن.

جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو عورتوں اور بچوں نے گانا شروع کیا۔

طَـــــلَــــــــــعَ البَــــدْرُ عَـــلَیـْنَا مِــــــــنْ ثَــــــــــــــــــنــِیَّات الوَدَاعْ
وَجَــــــــــــــبَ الشُّــــــــــکْـــــرُ عَــــلَــــــیْـــــــنَا مَا دَعَــــا لله دَاعْ
أَیُّــــــــــــهَا المَـــبْعُوثُ فینَا جِــــــــئْـــــــــــــــتَ بالأمْـــــرِ المُطَاعْ
جِــــئْــــتَ شَرَّفْتَ المَـــدِیــــنَــــة مَرْحَـــباً یَــــا خَـــــــــــیــْرَ دَاعْ

آج بھی شہر حضور ﷺ کی معطر، معتبر اور مقدس فضاؤں میں انصار کی بچیوں کے نغمات سرمدی کی گونج سنائی دے رہی ہے آج ان فضاؤں میں ان معصوم بچیوں کے انفاس کی خوشبو رچی بسی ہے چشم تصور آج بھی ان بچیوں کے قدموں سے اٹھنے والی دھول سے اپنے دامن صد چاک کو منور کرتی ہے، عشاق مصطفیٰ آج بھی اس منظر کو دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو ان کی پلکوں پر ستارے سے جھلملاتے لگتے ہیں سانسوں میں درودوں کی تتلیاں سی اڑنے لگتی ہیں اور عنائی خیال کے پیکروادی ذہن میں قطار اندر قطار اترنے لگتے ہیں۔

ذات نبوی کیساتھ تعلق کے باب میں فہم سیرت کے حوالے سے صرف بنیادی قواعد و ضوابط تک ہی بات کو محدود نہیں رکھا گیا بلکہ شیخ الاسلام نے اس کی توضیح براہ راست سیرت صحابہ کے عمل سے فرمائی ہے۔ صحابہ کرامؓجو حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں بیٹھنے والے اولین خوش نصیب افراد تھے جنہوں نے صرف براہ راست بارگاہ نبوت سے فیض پایا بلکہ انہوں نے اس نمونہ مثالی پر بھی اپنے آپ کو ڈھالا۔

ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

میں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ حجام آپ ﷺ کے سرمبارک کی حجامت بنا رہا ہے اور صحابہ کرامl آپ ﷺ کے گردحلقہ باندھے ہوئے تھے اور چاہتے تھے کہ حضور ﷺ کا جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔

سیرت الرسول ﷺ لالہ وگل کی طرح رنگین، آبشاروں کی ماند مترنم اور کہکشاں کی طرح روشن اور تابناک ہے۔ اس کی زبان میں بڑ ی سلاست و روانی پائی جاتی ہے اور اسلوب نگارش بہت دلکش اور بعض مقامات پر دیدہ زیب ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القاری نے سیرت مقدمہ کے واقعات کے انتخاب میں بڑی دیدہ ریزی اور احتیاط سے کام لیا ہے۔ انہوں نے اپنے امکان بھر پور کوشش کی ہے کہ سچے موتیوں کے ساتھ حزف ریزے نہ آنے پائیں جو واقعہ بھی آپ کی کتاب میں درج ہے وہ روایت و روایت کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہے۔

ارودو زبان میں ہی نہیں بلکہ دوسری زبانوں میں بھی جن اہل فکر و نظر اور ارباب علم و دانش کی نگاہ سے سیرت پر کتابیں گندی ہیں وہ سیرت الرسول ﷺ کو پڑھ کر اس کی انفرادیت کو ضرور محسوس کرتے رہیں گے۔