قوموں کی بقا و دوام کا راز فکری تحرّک میں پنہاں ہے

ڈاکٹر فرخ سہیل

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دین اسلام کی عالمگیریت اور اس کے احکامات کی ہمہ گیریت اور آفاقی وسعت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی اگر جمود و تعطل کا شکار ہوجائے تو قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہذا قوموں کی بقا و دوام کے لیے تغیر و تبدل اور انقلابی فکر بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اگر ایک طرف دینی و سیاسی، معاشی اور معاشرتی میدان میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں تو دوسری طرف بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق شرعی احکامات کے معاملات میں بھی تبدیلی کو مدنظر رکھا۔ کیونکہ وقت کے تقاضوں اور ضرورت حال کے مطابق معاملاتی احکام میں تبدیلی بڑے سے بڑے مسائل کو انتہائی خوش اسلوبی سے حل کرسکتی ہے۔ لہذا ڈاکٹر صاحب نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انتہائی دور اندیشانہ فکر سے ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیے انتہائی خوش اسلوب انداز میں قدم اٹھایا جیسا کہ دہشت گردی اور دین میں شدت پسندانہ رویے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی ساکھ متاثر ہوکر رہ گئی تھی اپنے فتوے سے ثابت کیا کہ دہشت گردی کا اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں بلکہ اسلام امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے۔ رواداری اور انسان دوستی سکھاتا ہے جس دور میں بعثت رسول ﷺ مبارک ہوئی وہ دور شدت پسندی کا دور تھا اور نبیٔ رحمت نے اس شدت پسندانہ ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔ امن اور انسان دوستی کا پیغام دیا رنگ و نسل اور زبان کے فرق کو ختم کردیا اور بتایا کہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ہے۔ ہر قسم کے نسلی و لسانی امتیازات کا خاتمہ کرتے ہوئے ریاست مدینہ کو امن کا گہوارہ بنادیا۔ صدیوں سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے عربوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا۔ مختصر سے تاریخی دور میں صرف عمل کو ہی نہیں تبدیل کیا بلکہ سوچ اور فکر میں نمایاں تبدیلی برپا کردی۔

رسولِ رحمت ﷺ کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے دین میں شدت پسندی اور دہشت گردانہ فکرو عمل کے خلاف ایک بھرپور اور مستند فتویٰ صادر فرمایا جو کہ اس دور میں انتہائی دلیرانہ اقدام تھا۔ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا بلکہ دہشت گردانہ سوچ کے خاتمے کے لیے عالمی نظریہ امن و آشتی کو متعارف کروایا۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب کا زندگی کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ زندگی جمود اور تعطل کا شکار نہیں ہوسکتی بلکہ زندگی ہر دم رواں دواں ہے اور یہ ان کی سوچ فکر اقبال سے متاثر ہے جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں کہ

کہ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی

زندگی چونکہ رواں دواں ہے اس لیے تغیرات زمانہ کے ساتھ ساتھ قوانین الہٰیہ میں بھی ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے چونکہ اسلامی قوانین کی بنیاد ہی انسانیت کی دنیاوی و دنیوی فلاح و بہبود پر ہے۔ لہذا اللہ تبارک و تعالیٰ نے قوانین کو لچکدار رکھا تاکہ وہ زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ مصلحت عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ معاملات سے متعلق احکامات میں تبدیلی ہوسکے۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ لہذا حالات کے مطابق احکامی معاملات میں تبدیلی قانون کی بقاء کے علاوہ عوامی افادیت اور بین الاقوامی مقبولیت کی حامل ہوتی ہے کیونکہ قانون کی بنیادی وجہ اور ضرورت اس سے منفعت حاصل کرنا ہے جس سے عوام الناس کو سہولیات فراہم کی جائیں اور مضرات سے دور رکھا جاسکے۔

لہذا مصلحت عامہ کے اسی اصول کے تحت ڈاکٹر صاحب نے بھی دین میں دی جانے والی آسانی اور سہولت کو مدنظر رکھا اور فرمایا کہ

دین اسلام میں بدلتے ہوئے زمانے اور تغیر احوال کے پیش نظر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہر مسئلہ کے حل کی صلاحیت کے موجود ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے جملہ پہلوئوں اور تعلیمات کے اندر اللہ تعالیٰ نے آسانی اور سہولت کو مقدم رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ’’یُسر‘‘ (آسانی) کو پسندیدہ اور ترجیحی انداز میں بیان فرمایا۔ اس اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں آسانی اور وسعت کے پہلو کو پسندیدہ محل میں ذکر فرماکر اسے نرم اور بامروت (accomodating) دین بنایا ہے اور دوسری طرف تنگی کا ذکر کرنا پسندیدہ محل میں بیان کرکے دین کو جمود سے نکالا۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کی یہ آیت جس میں پروردگار فرماتے ہیں:

یریدالله بکم الیسر ولا یرید بکم العسر.

کہ اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا۔

اسلام چونکہ ایک عالمگیر اور ہمہ گیر مذہب ہے جو قیامت تک کے لیے باقی رہنے والا دین ہے۔ لہذا بدلتے ہوئے حالات اور زمانے کے نشیب و فراز کے علاوہ معاشرے کے بدلتے ہوئے رویے اور طرز زندگی، تہذیب و تمدن کا عروج و زوال دین اسلام کی عالمگیریت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ دور حاضر چونکہ سائنسی ترقی کا دور ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے انسانی معاشرت میں انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اہل اسلام کے لیے چونکہ یہ صورتحال بے حد دشوار ہے۔ لہذا ایسے نازک دور میں علمائے اسلام اگر خلوص نیت کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے منفی استعمال اور فواحش کے خلاف اخلاقی رکاوٹ نہیں لگائیں گے تو نئی نسل اخلاقی بگاڑ کی آخری حد بھی پار کرلے گی۔ لہذا ایسے دور میں ڈاکٹر صاحب نے روایتی اور دقیانوسی سوچ سے نکل کر بتایا کہ سائنسی ایجادات بذاتِ خود بری نہیں بلکہ ان کا استعمال ہی اس کو اچھا یا برا بناتا ہے اور اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے علمائے کرام پر واضح کیا کہ زمانے اور حالات و عادات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ عوام میں نیا شعور بیدار کریں اور شریعت میں بھی عوام الناس کی فلاحی مصلحتوں کے مدنظر تبدیلی کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور یہی سراسر حکمت و دانائی کی علامت ہے۔

علمائے کرام اور مفتیانِ عظام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

فتویٰ اور تحقیق میں ہمیشہ بڑوں کے احترام کو ملحوظ رکھیں۔ ان کی کتب سے سیکھیں مگر ان کی سطور کے قیدی بن کرنہ رہ جائیں۔ اسلاف کے فتوے ہمیں فکری آزادی کا درس دیتے ہیں کیونکہ اگر وہ سابقین کے فتوئوں میں قید ہوجاتے تو اس طرح فتوے نہ لکھ سکتے اور نہ ہی علم کی نئی دنیا آباد کرسکتے۔ لہذا اسلاف کے بنائے ہوئے قواعد سے سیکھیں اور وسعتِ قلبی و نظری پیدا کریں کیونکہ علم وسعت کا نام ہے تنگی کا نہیں۔ علم زندگی ہے اگر علم زندہ نہ ہو تو درپیش چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے، نئے زمانے کے ساتھ تعلق بھی علم سے جوڑنا ہے اور وہی علم اس تعلق کو جوڑے گا جس میں تحرّک ہوگا جو پہلے زمانے کی لکھی گئی سطور سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ اُسے آنے والا زمانہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔

شیخ الاسلام کہ ہمہ وقتی و ہمہ جہتی کاوشوں کے اثرات نہ صرف ملکی سطح پر رونما ہوئے بلکہ عالمی سطح پر بھی جابجا نظر آتے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن دراصل ڈاکٹر صاحب کی دور اندیش اور مدبرانہ فکرو نظر کا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی 40 سالہ انتھک محنت اور جہدِ مسلسل کا نتیجہ ہے کہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت میں بتدریجاً کمی واقع ہورہی ہے۔ بین المذاہب مروت و رواداری اور امن و آشتی کے فروغ کے حوالے سے آپ کی انقلابی جدوجہد نے مثبت کردار ادا کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی ہمہ جہتی فکرو نظر اور جہدِ مسلسل نے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ امت مسلمہ اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے شب و روز خدمات سرانجام دیں۔ 100 سے زائد ممالک میں تنظیمات اور دفاتر قائم کرکے دین کی خدمت کرنے والوں کو ایک منظم اور معتدل پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں سے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو انتہا پسندی اور تنگ نظری سے بچاتے ہوئے امن کا حقیقی درس دیا جاتا ہے تاکہ بیرون ممالک میں مسلمانوں کا مستقبل محفوظ رہ سکے اور وہ پرامن زندگی بسر کرسکیں۔ اسی طرح جب یورپ میں گستاخیٔ رسول کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف تمام عالمی راہنمائوں کو خطوط ارسال کیے بلکہ تمام مذہبی راہنمائوں کے احترام کے لیے قوانین وضع کرنے کی دعوت دی اور بتایا کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دیگر بانیانِ مذاہب کی گستاخی پر باقاعدہ بین الاقوامی (انٹرنیشنل) سطح پر قانون وضع کیا جائے۔ دہشت گردی پر فتویٰ دینے کے علاوہ عالمی میڈیا پر بے شمار انٹرویوز دیئے اس کے علاوہ عالمی کانفرنسز و اجتماعات میں لیکچر دیئے اور دہشت گردوں کو کافر قرار دے کر اسلام سے الگ کردیا۔ عالمی سطح پر یہ ایک ایسی کاوش ہے کہ جس کی دور و نزدیک کوئی مثال نہیں ملتی۔

ڈاکٹر صاحب کہ ہمہ جہت و ہمہ صفات شخصیت کو بیان کرنے کے لیے بہت سے دفتر درکار ہیں لیکن اگر آپ کی ذات پُرصفات کو ایک جملے میں سمویا جائے تو شاید حق ادا نہ ہوسکے لیکن پھر بھی یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی ذات میں ایک وسیع و عریض دنیا آباد ہے اور اقبال کا یہ شعر آپ کی شخصیت کا غماص ہے:

یقین محکم، عملِ پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں