شیخ الاسلام کی عائلی زندگی کے چند خوشگوار گوشے

بیگم رِفعت جبین قادری

حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی اَہلیہ محترمہ بیگم رِفعت جبین قادری صاحبہ، مادرِ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل، کی پینتالیس سالہ رفاقتِ اِزدواجی کے آئینے میں، انہی کی زبانی!


اِنسان کی زندگی کے مختلف پہلو، گوشے اور جہات ہوتی ہیں۔ ایک پہلو عامۃ الناس کے سامنے ہوتا ہے جس میں ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ عوام کے سامنے اُس کی زندگی کا اچھا اور خوبصورت پہلو ہی عیاں ہو۔ زندگی کا ایک پہلو دوست اَحباب اور رشتہ داروں کے ساتھ ہوتا ہے جس میں زندگی کی عادات و اَطوار اور اَخلاق کے حقیقی پہلو اپنی اصل صورت میں سامنے آتے ہیں۔ انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو خانگی زندگی اور بیوی بچوں کے ساتھ گزارے لمحات ہوتے ہیں جو درحقیقت کسی انسان کا اصل روپ ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض بڑی علمی، روحانی اور سیاسی و سماجی شخصیات کی عوامی زندگی گھریلو زندگی سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ مگر کائناتِ اَرضی میں مخصوص لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنے، بیگانے سب اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور جن کی عائلی و سماجی زندگی میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ اِنہی خوش نصیب نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک خصوصی انٹرویو میں حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی اَہلیہ محترمہ بیگم رفعت جبیں قادری صاحبہ سے اِستفسار کیا گیا کہ وہ اپنی پینتالیس برس کی اِزدواجی رفاقت کی یاد تازہ کرتے ہوئے کچھ اَہم گوشے بیان کریں تاکہ ہمارے قارئین حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی عائلی زندگی اور خانگی معاملات کے بارے میں جان سکیں۔ اس پر عزت مآب محترمہ رفعت جبیں قادری صاحبہ کچھ یوں گویا ہوئیں کہ:

اللہ تعالیٰ اپنے دین کے لیے صرف ان سعید ہستیوں کو منتخب فرماتا ہے جو اوصافِ حمیدہ پر فائز ہوتے ہیں۔ اوصافِ حمیدہ کے حامل ہمیشہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہمہ وقت اپنے افکار، نظریات اور کردار کو رب العزت کے بتائے ہوئے طریقے میں ڈھالے رکھتے ہیں۔ میری زندگی کے عمیق مشاہدے کا یہ نتیجہ ہے کہ حضور شیخ الاسلام کا اَخلاقِ حمیدہ سرا سر تاجدارِ اَنبیاء کرام ﷺ کی سنتِ مُطہرہ کے تابع ہے! اتنی عظیم المرتبت شخصیت کا حُسنِ اخلاق میں فقید المثال ہونا تحریکِ منہاج القرآن کے لیے بالعموم اور ہمارے لیے بالخصوص ربِ عظیم کا خاص انعام ہے۔

حضور شیخ الاسلام کی عائلی زندگی خلقِ عظیم کا ایک روشن منارہ ہے۔ آپ کی عائلی زندگی کے جس گوشۂ کو بھی لیں، وہ بے مثل اور بے نظیر خُلقِ عظیم پر استوار ہے۔ مثلاً آپ بحیثیت شوہر، بحیثیت باپ، بحیثیت بھائی یا بحیثیت سربراہِ خاندان، الغرض ہر لحاظ سے مکمل اور ہمہ جہت حُسنِ اخلاق کے پیکر ہیں۔ کسی بھی پہلو یا سمت میں کوئی کجی اور کمی نظر نہیں آتی۔ اگر میں آپ کے حُسن اَخلاق کے ہر گوشہ کی درجہ بندی کرنا چاہوں تو یہ قطعی ناممکن ہے۔

اگر ہم اوصافِ حمیدہ کے مبارک لفظ پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اس سے مراد وہ گوہر بار صفات ہیں جو انسانی سیرت و کردار کو ممتاز کرتے ہوئے اسے بامِ عروج تک پہنچاتی ہیں۔ سیرت کے گل ہاے گراں مایہ نہ صرف دنیوی وقار کا باعث بنتے ہیں، بلکہ اُخروی سربلندی کا موجب بھی بنتے ہیں۔ اوصافِ حمیدہ درحقیقت عالی شان اَخلاقِ حسنہ کا مرقع ہوتے ہیں، جن کا عملی نمونہ آقاے نامدار ﷺنے اپنی سیرتِ کاملہ میں پیش فرمایا۔

1۔ نفاست و نظافت

حضور شیخ الاسلام کے اَوصاف میں سے ایک خاص وصف جو ہر وصف کی بنیاد نظر آتا ہے، وہ ہے آپ کی نفاست پسندی۔ نفاست کا طبیعت میں پایا جانا سنتِ مصطفی ﷺ ہے۔ نفاست کا لفظ بذاتِ خود اپنی دل کشی کی داستان سناتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ نفاست انسان کے باطنی محاسن ہی کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ یہ اس کے ذوق، سوچ اور معیار کا تعین بھی کرتی ہے۔ اس لحاظ سے نفاست کسی بھی شخصیت کے ظاہری اور باطنی دونوں محاسن کو ظاہر کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نفاست و لطافت اور حسن و جمال پاکیزہ زندگی اور عملِ صالحہ کی روحِ رواں ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن و حدیث کی روشنی میںہر عمل میں طہارت و پاکیزگی، نفاست، لطافت، ترتیب و سلیقہ، نظم و ضبط اور حسن و جمال پر زور دیا گیا ہے۔ ’الله جَمِیْلٌ وَیُحِبُّ الْجَمَال‘ یعنی الله خوبصورت ہے اور خوبصورتی و حُسن سے محبت کرتا ہے کے فرمانِ نبوی کے مطابق نفاست پسند انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب قرار پاتا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے فلسفہ خودی کا مفہوم بھی یہی ہے کہ انسان کی ذات ہر قسم کی کدورت و نفرت، رذالت، بغض و حسد سے پاک اور ہر قسم کی لطافت و نفاست اور حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ ہو۔ قرآن حکیم نے اس نکتے کو صِبْغَۃَ اللهِ یعنی اُلوہی رنگ قرار دیا ہے۔

ایک عالمِ دین، فقیہ، مفکر اور مفسر کے لیے لطافت و نفاست اور ذوقِ جمالیات سے مزّین ہونا اَز حد ضروری ہے۔ مصنف اور قلم کار کے لیے فنی اور ادبی لطافت و نفاست درکار ہے، جب کہ فکر و نظر سے کام لینے والوں کے لیے فطری اور سماجی جمالیاتی ذوق کی ضرورت ہے۔

دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فطرت میں لطافت و نفاست اور جمالیات کا عنصر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ ان کی طبیعت لطیف اور قلب حسّاس ہے اور ان کی روح عظیم الشان حسن و جمالیت کے نصب العین کی علم بردار ہے۔ ان کا قیام و طعام، رہن سہن، لباس، سواری اور تحریر کرنے کے لیے قلم غرض ان کی ہر چیز سے نفاست جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا ہر گز مبالغہ نہ ہوگا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری بچپن سے لے کر تاحال نفاست و نظافت کے بہترین نمونہ رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کے علاوہ کوئی اور معیارِ نفاست و نظافت نہ تھا، نہ ہے ۔ ان کا نفاست کا معیار تنگ دستی اور خوش حالی ہر حال میں اَعلیٰ ترین رہا ہے۔

2۔ اَشیائے استعمال میں حسنِ نظم و ضبط

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے مزاج میں اشیاء کے نظم و ضبط کی نفاست بھی اعلیٰ درجے کی ہے۔ وہ نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو جب تک بیڈ شیٹ دوبارہ سے عمدہ طریقے سے بچھا نہ لیں، اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتے۔ جب اَہلِ خانہ میں سے کوئی موجود ہوتا ہے تو وہ ان کے گھر کا بستر درست کر دیتے ہیں۔ مگر کئی بار یہ مشاہدہ کیا گیا کہ اگر کوئی موجود نہ ہو تو وہ اپنا بستر خود درست کر لیتے ہیں۔ بعد ازاں میز پر رکھی گئی تمام اشیا نظم و ترتیب سے رکھ کر اپنے معمولات کی ابتدا کرتے ہیں۔ انہوں نے خواہ جتنی بھی جلدی تیار ہو کر نکلناہو، وہ ہر چیز کو اس کی مناسب جگہ پر رکھ کر نکلتے ہیں۔ اس پر انہیں بخوبی یاد ہوتا ہے کہ میں نے فلاں چیز فلاں جگہ میں رکھی ہے اور اگر وہاں موجود نہ ہو تو پوچھتے ہیں کہ وہاں سے کہاں چلی گئی ہے؟ بعد ازاں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ادھر ادھر کر دی تھی۔ غرض ہر چیز کو باقاعدہ جگہ پر نظم و ضبط سے رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں عام روز مرّہ کے مشاہدات کی طرح بے ہنگم زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ انہیں بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ میرا sleeping dress کہاں ہے؟ عام روزمرہ کا لباس کہاں ہے؟ lense cleaner کہاں رکھنا ہے اور عینک کی کون سی جگہ ہے؟ جب وہ گھر آکر لباس تبدیل کرتے ہیں تو اُسے اپنی جگہ پر wardrobe میں رکھتے ہیں۔ اسی طرح اپنی ٹوپی یا عمامہ شریف کو مقررہ جگہ پر موزوں طریقے سے رکھتے ہیں۔ وہ کسی کو حکم نہیں دیتے بلکہ پیار سے فرما دیتے ہیں مگر پھر بھی کوئی شے نفاست و نظافت کے منافی دیکھتے ہیں تو خود جا کر باقاعدہ مناسب طریقے سے رکھ دیتے ہیں!

اسی طرح اگر کسی شخص کے ٹوپی پہننے کا انداز درست نہ ہو یا وہ میلی ہو تو وہ توجہ دلاتے ہیں۔ اپنے گھر والوں اور عزیز و اقارب میں سے کسی کی عینک پر دھبے دیکھ لیں تو اسے تنقیدی انداز میں نہیں فرماتے کہ آپ عینک صاف کیوں نہیں کرتے؟ بلکہ شفقت بھرے انداز میں سمجھا دیتے ہیں۔ اور تربیت کی غرض سے اپنی جیب سے Lense Cleaner نکال کر خود عینک صاف بھی کر دیتے ہیں تاکہ آئندہ وہ خود اپنی جیب میں اپنا لینز کلینر رکھے۔ وہ کسی پر زبردستی کوئی چیز مسلط نہیں کرتے بلکہ جہاں تک ممکن ہو حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پہلے خود اپنی اصلاح فرماتے ہیں اور پھر دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں۔

3۔ اَخلاقِ حسنہ اور جود و سخا کے پیکر

حضور شیخ الاسلام طبعاً خوش خُلق، دریا دل اور جود و سخا کے پیکر اتم واقع ہوئے ہیں۔اُن کی صفتِ جود و سخا سے اپنے پرائے سب فیض یاب ہوتے ہیں اور آپ کی یہ صفت ایسی ہے کہ اسراف و تبذیر کا شائبہ تک بھی نہیں ہوتا۔ آپ جب بھی کسی سفر سے واپس تشریف لاتے ہیں تو اہلِ خانہ اور اعزا و اقارب کے لیے تحائف بھی لاتے ہیں۔ آپ کے چاہنے والے اگر آپ کے لیے تحائف لے کر آئیں تو آپ اُن تحائف کو اپنے یا گھر کے استعمال میں لانے کے بجائے ملازمین و خدام میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ آپ کے اخلاقِ حسنہ کی کیفیتِ جود و سخا میری ازدواجی زندگی کے روزِ اول سے ہی ہے، البتہ وقت کے ساتھ نورانی نکھار اور برکت میں فیوضاتِ اخلاقی کا اضافہ ضرور ہوا ہے۔

4۔ اَخلاقِ حسنہ کی عائلی زندگی پر اثر انگیزی

حضور شیخ الاسلام کے خُلقِ بے مثل کی اثر انگیزی نہ صرف گھر میں اَہل و عیال کے ساتھ مثالی ہے اور جہاں بحیثیت سربراہِ خاندان آپ کے اخلاقِ حَسنہ کے مثبت اثرات اَہلِ خانہ کی زندگیوں کے ہر پہلو میں نمایاں نظر آتے ہیں وہاں قریبی و بعیدی اعزا و اقارب، تحریکی رُفقاء و اراکین اور چاہنے والوں کی حیات میں بھی نمایاں طور پر کار فرما ہیں اور سب آپ کی سربراہی کی کامل و ہمہ جہت حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔

5۔ اَہلِ خانہ کے لیے ہمہ جہت اَخلاقی رواداری اور خوش طبعی

آپ کی عائلی زندگی کا ہر پہلو اخلاق اور رواداری کا حسین امتزاج ہے۔ آپ کا اَخلاقی رویہ مکمل دل دوز اور محبت آفریں ہے، جسے ہم قطعی طور پر فراموش نہیں کر سکتے۔ کیونکہ آپ کا خُلق فقط وعظ و نصیحت تک محدود نہیں، بلکہ آپ کا اخلاق ’’عملی اخلاق حسنہ‘‘ ہے۔

حضور شیخ الاسلام کی خوش طبعی اور خوش خلقی عائلی زندگی میں بالخصوص بچوں اور نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کے لیے خاص فرحت بخش ہے۔ ہمہ وقت آپ کا متبسم چہرہ صبحِ نور کی طرح عیاں ہوتا ہے۔ بے پناہ مصروفیات کے باعث اندرون و بیرون پاکستان تحریکی اور علمی سرگرمیوں کے باعث اوائل دور میں فیملی کو اکثر کم وقت دے پاتے تھے! اور جب کچھ وقت ان کے لیے مخصوص فرماتے تو اتنی کشادگی، فرحت و ندرت اور خندہ پیشانی کے ساتھ ہمہ جہت وقت گزارتے کہ ہر بچہ یہ حُسنِ ظن رکھتا ہے کہ ابو جی، قبلہ میرے ساتھ زیادہ محبت فرماتے ہیں حالانکہ محبت تو سب کے لیے مساوی ہوتی ہے۔ یہ قبلہ قائد محترم کی طبعِ دلستانی اور حُسن خُلق کی سحر انگیزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حضور شیخ الاسلام ہمیشہ سے گھر میں سب سے چھوٹی باجی کوپیار سے ’’میری مما‘‘ کہہ کر مخاطب فرماتے۔ پہلے جب خدیجہ باجی چھوٹی تھیں تب انہیں ایسا فرماتے تھے اور اب مروہ باجی جو میرے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر حسین محی الدین کی صاحبزادی اور ہماری پوتی ہیں انہیں اس پیار بھرے انداز سے یاد فرماتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے حضور شیخ الاسلام کا معمول تھا جس کا ہم مشاہدہ کرتے چلے آ رہے تھے مگر ہمیں اس پیار بھرے انداز میں چھوٹی باجیوں کو ’’مما‘‘ کہہ کر شفقت برتنے کی سمجھ نہیں آتی تھی کیوں کہ یہ روایت اور واقعہ ہماری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ کچھ ہی عرصہ قبل یہ بات اتفاق سے اُس وقت واضح ہوئی جب حضور شیخ الاسلام نے حلقات التربیہ کے تحت صحیح بخاری شریف کے دروس شروع کیے اور ابتدائی خطابات میں سیدہ کائنات سلام الله علیہا کے بارے میں سیدنا امام بخاری کے عقیدے کا ذکر کیا۔پھر اُس میں سیدہ کائنات سلام الله علیہا کے اُس لقب کا بھی ذکر کیا کہ سیدہ کائنات سلام الله علیہا کو ’’أم أبیہا‘‘ یعنی اپنے بابا کی مما کہا جاتا تھا۔

اس سے ایک بات یہ بھی سمجھ آئی اور جس کا میں ہمیشہ سے مشاہدہ بھی کرتی تھی اور محسو س بھی کہ حضور شیخ الاسلام کو اللہ رب العزت نے آقا eکی سیرتِ طیبہ، اُسوۂ حسنہ اور اَخلاقِ حسنہ کی متابعت کا فیض عطا کیا ہے۔ اس لیے میں نے آپ کی کوئی ادا، عمل اور عادت شاید ہی ایسی دیکھی ہو کہ جس کی کوئی اصل آقا e کی سنتِ طیبہ سے نہ ملتی ہو۔ یہ خطاب سننے کے بعد عقدہ حل ہوا کہ حضور شیخ الاسلام کے پیار و شفقت کا جو انداز بچوں بچیوں سے ہے، وہ انداز کہیں نہ کہیں آقا e کی سنت کی پیروی میں ضرور ہوتا ہے۔

6۔ تربیت، نصیحت اور اصلاح میں مشفقانہ پہلو کا غلبہ

حضور شیخ الاسلام جب کسی کو تربیتی و اصلاحی پہلو میں نصیحت فرماتے ہیں تو خاص مشفقانہ انداز اپناتے ہیں جس سے طبیعت کی دلکشی اور دلنوازی نمایاں جھلکتی نظر آتی۔ جس طرح ہلکی بارش زمین کو سیراب کر کے دانے میں بالی اُگنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے بالکل اسی طرح حضور شیخ الاسلام کی مشفقانہ و ہمدردانہ نصیحت دل کی بستی کو حُبِ الہٰی و حُبِ رسول ﷺ سے سیراب کرتی ہے۔مگر آپ کی اس شفقت کے ساتھ آپ کی شخصیت کا رُعب بھی ہمیشہ قائم رہتا۔ آپ کا یہی مشفقانہ انداز اب پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے لیے بھی ہے۔

7۔ بطورِ بیوی حُسنِ سلوک روا رکھنا بےمثل ہے

بحیثیت شوہر! حضور شیخ الاسلام کا کردار انتہائی مثالی و بے مثل ہے۔ خصوصی اعتماد، ہمہ وقت حوصلہ افزائی اور بطورِ خاتونِ خانہ ’’ فیملی کی منجملہ ذمہ داریوں کے بطریقِ احسن سر انجام دینے پر پورے خاندان کے احباب کے روبرو قبلہ شیخ الاسلام کا صمیمِ قلب سے اِظہارِ مسرت اور اِظہارِ اِطمینان کرنا اور اپنی انقلابی جد و جہد میںاہلِ خانہ کی عملی خدمات کو ہمہ وقت سراہنا آپ کا عظیم الشان خلق ہے! جس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ یہ کہنا بالکل حق بجانب ہوگا کہ دیگر گوشوں کی طرح حضور شیخ الاسلام کی ازدواجی زندگی انتہائی پُر مسرت اور سنتِ مصطفوی کی عکاس ہے!ہمیشہ اعلیٰ ازدواجی زندگی پر اظہارِ اطمینان اور متشکر فرماتے ہیں اور میری ہمہ وقت حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔

8۔ اَعزا و اقارِب سے حسن سلوک

حضور شیخ الاسلام کی طبیعت خُلقِ عظیم کی صفتِ صلۂ رحمی کا حسیں شاہکار ہے۔آپ اپنے اعزاو اقارب سے نہ صرف حسنِ سلوک سے پیش آتے ہیں بلکہ اُن کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود انہیں وقت بھی دیتے ہیں۔

ہماری والدہ محترمہ جو آپ کی چچی جان بھی ہیں لیکن اپنی عظیم طبعی روحانیت اور اپنائیت کے باعث انہیں خوش دامن نہیں بلکہ سگی ماں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ کینیڈا سے بالخصوص باقاعدگی کے ساتھ والدہ محترمہ کی طبیعت معلوم اور خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح خلقِ اعلیٰ کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ دور و نزدیک کے رشتہ داروں کی بیمار پرسی فرماتے ہیں اور جب بیرونِ ملک ہوں تو پھر ٹیلی فون پر اکثر سب سے رابطے میں رہتے ہیں۔ دکھ سکھ میں سب کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

قائدمحترم کا حسن خلق ہی ہے کہ والد صاحب کے وصال کے بعد بہن بھائیوں کو حقیقی والد کی محبت عطا کرتے آرہے ہیں۔ ان کی جملہ ذمہ داریاں بطریق احسن 1974ء سے نبھا رہے ہیں یعنی کہ جب آپ کے والد گرامی حضرت فرید ملّتؒ کا وصال ہوا تھا۔ آپ کی شفقتِ پدری ہمہ وقت ان کے ہم نشین ہے۔ گویا حضور شیخ الاسلام کی عائلی زندگی کے بہت سے بے مثال گوشے ہیں جن پر گفتگو کی جا سکتی ہے مگر تنگیِ صفحات کے پیش نظر ان چند پر اکتفا کیا جاتا ہے۔