شیخ الاسلام نے اسلام کا پرامن تشخص دنیا بھر میں نمایاں کیا

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

تحقیق و تجسس کو باری تعالیٰ نے انسان کی فطرت ثانیہ بنایا ہے اور اسی تحقیق کے باعث انسان کی فطرت، ہر چیز کو اس کی اصل تک جاننے کی خواہشمند رہتی ہے۔ حقائق کی تہہ تک پہنچنا ہی انسان کو مطمئن کرتا ہے بصورت دیگر وہ بے چین و مضطرب اور بےقرار و بےسکون رہتا ہے۔

تحقیق کا معنی حقائق کی پُرمغز تفتیش اور کسی بھی علم و فن کے اصول و قواعد کی کھوج لگانا ہے اور اس علم کے مسلمات کی حقیقت کو پانا ہے۔ تحقیق مسلسل تلاش کا نام ہے اس لیے تحقیق تلاش در تلاش اور جستجو درجستجو، کھوج در کھوج کا نام ہے۔

(صفدر علی، تحقیقی طریقه کار، ایورنیو بک پیلس اردو بازار، لاهور، ص: 75)

تحقیق کی تعریفات اور بنیادی تصورات

اسلام ایک عظیم علم اور ایک بے مثال عمل کا نام ہے اور اس سے حاصل ہونے والی قلبی تصدیق اور عملی توثیق کا نام تحقیق اسلام ہے۔ تحقیق سے اسلامی علم کی نشوونما ہوتی ہے اور اسے فروغ ملتا ہے تحقیق علم میں پختگی و صلابت اور ثقاہت و فقاہت کی صفت پیدا کرتی ہے۔ تحقیق کے ذریعے علم میں دریافت کا عمل بڑھتا ہے۔ تحقیق سے علم معتبر اور مستند ہوتا ہے، تحقیق سے کھرے کھوٹے، حق و باطل اور سچ و جھوٹ کی پہچان ہوتی ہے۔ تحقیق علم کو منظم اور مربوط کرتی ہے تحقیق انسانی کے اندر غورو فکر اور سوچ و بچار کو ایک نظم دیتی ہے۔ تحقیق ہماری نظروں کو وسعت اور مسائل کو منفرد اور مختلف طریق سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ تحقیق کے ذریعے مسائل کا تجزیہ کرکے اُن کا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔ تحقیق سراسر حقائق کی مسلسل جستجو اور تلاش کا نام ہے۔ تحقیق انسانوں کی ہر میدان میں بہت زیادہ ضرورت کا نام ہے اور جس چیز کی ضرورت بہت زیادہ ہوتی اُسی کی اہمیت انسان کی زندگی میں بہت شدت سے ہوتی ہے۔ تحقیق کے ذریعے کسی بھی چیز کے مختلف تصورات اور مفروضات کو جانا اور مختلف حقائق کو جمع کرلیا جاتا ہے۔ جستجو و تلاش کا یہی طریقہ کار انسان کا نظریہ اور فکر بن جاتا ہے۔

(صفدر علی، تحقیقی طریقه کار، ص: 73)

تحقیق میں ہمیشہ ندرت اور نئے پن کا عنصر پایا جاتا ہے۔ تحقیق میں استخراج و استنباط اور استقرار استدلال کا عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں غیر منکشف حقائق کا انکشاف کیا جاتا ہے اور نئے نئے مسائل کی گتھیاں سلجھائی جاتی ہیں۔ انسان کی ناواقفیت کی سرحدوں کو واقفیت سے بدلا جاتا ہے۔ کسی بھی علم میں نظری اور عملی کام کی رفتار کو بڑھایا اور پھیلایا جاتا ہے اور اس کو پہلے سے تیز تر کیا جاتا ہے۔

(احسان اللہ خان، تعلیمی تحقیق اور اس کے اصول و مبادی، ص: 52)

تحقیق کسی بھی امر کو اصلی شکل میں دیکھنے کا نام ہے۔ تحقیق میں حجابات رفتہ رفتہ اٹھتے چلے جاتے ہیں۔

اچھی اور معیاری تحقیق

وہ تحقیق اچھی اور معیاری ہے جس سے معاشرے کے سب یا کچھ لوگوں کو فائدہ حاصل ہو اور اس کی قدر و قیمت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جائے اور اس تحقیق میں حق طلبی کا پہلو اور وہ مکمل غیر جانبداری کی حامل ہو اور وہ تحقیق اپنے اندر اعتباریت کا وصف اپنے معیار کی وجہ سے ہر لمحہ سے بڑھاتی جائے اور اعتماد و انقیاد کے سائے مضبوط کرتی جائے اور ہر تشنگی سے وہ پاک ہو اور ہر طرح کے منطقی اسلوب سے معمور ہو، تحقیق جہاں مسلسل کاوش کا نام ہے وہاں یہ محقق کے وسیع المطالعہ کے وصف کو بھی ثابت کرے علمی اور ادبی تحقیق دہ ہے جو حوالہ جات اور معلومات سے معمور ہو اور اس کے ماخذ معیاری ہو اور اس کی حوالہ جاتی کتب معتبر اور مستند ہوں تاکہ یہ تحقیق ہر قسم کے شک و شبہ کو رفع کرے نہ یہ کہ مزید شکوک و شبہات کو پیدا کرے۔

(کلب عابد، عماد التحقیق، ص: 14)

تحقیق کا کام ایک مہارت کاری کا تقاضا کرتا ہے اور حقائق کو باہم مربوط کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور بے قاعدہ امور کو باقاعدہ بنانے کا طریقہ دیتا ہے۔ اپنے شعبہ علم کی تمام تحقیقات سے باخبر ہونے کا سلیقہ دیتا ہے انسان کا علم ہر لمحہ بڑھ رہا ہے اور اس کی فہم و فراست، ہر گھڑی، ہر آن بہتر سے بہتر اور بہترین کی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہے، ہر انسان اعلیٰ سے اعلیٰ تر کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے، انسانی معاشرے میں تحقیق ہی انسان کی حرکت اور اس کی زندگی برکت کا سبب ہے حتی کہ مسلسل حرکت ہی زندگی و زیست کا دوسرا نام ہے۔ تحقیق ذہنی اختراع کا باعث بن کر عملی اختراع کو وجود میں لاتی ہے اور تحقیق ہی نئی ایجادات کی راہیں ہموار کرتی ہے۔

تحقیق کے عوامل اور خصائص

حقیقی اور جامع تحقیق وہ ہے جو کسی ٹھوس مسئلے کے حل کے لیے ہو اور جس میں کسی بھی عصری مسئلے کو سائینٹیفک انداز میں حل کیا جائے اور جس مسئلے کو حل کرنا ہے اس مسئلے کی واضحیت ہونی چاہیے اور پھر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک واضح لائحہ عمل ہونا چاہیے اور اس مسئلے کے حل کے لیے سمت اور جہت بھی واضح ہونی چاہیے اور اس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ معلومات ہونی چاہئے اور وہ تحقیق ایسی ہونی چاہیے جو کسی نئے علم کے ایجاد کا باعث ہو، یہ سارے عوامل مل جائیں تو اس کو ایک جامع اور قابل عمل تحقیق کہتے ہیں۔

(شهناز عارف الله، تحقیقی طریقه کار، ص: 59)

غرضیکہ تحقیق، علم کی توسیع اور وسعت کا نام ہے، نامعلوم کو معلوم کرنے کا نام ہے معلوم کی نئی تشریح و توضیح اور توجیہہ کا نام ہے، تحقیق میں تنقیدی شعور بھی ہونا چاہیے۔ تحقیق میں تخلیقی رنگ بھی ضروری ہے، تحقیق ایک دھن، ایک لگن اور ایک تمنا کا نام ہے، تحقیق ایک ہمہ وقت متجسس اور متلاشی وصف کا نام ہے جو ہر شخص کے مزاج اور طبع میں نہیں پایا جاتا۔ تحقیق ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے بہت سے ماخذ دیکھنا پڑتے ہیں اور ڈھیروں کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور مواد کی تلاش کے لیے مسلسل جستجو کرنا پڑتی ہے، تحقیق بے حد صبر آزما کام کا نام ہے۔

غرضیکہ تحقیق سچائی کی تلاش کا ایک طریقہ اور نام ہے۔ تحقیق ایسے افکار اور حقائق کو جاننے کا نام ہے جن کو انسان پہلے نہ جانتا ہو، تحقیق کسی بھی موضوع پر معلومات حاصل کرنے کی جستجوئے مسلسل کا نام ہے، تحقیق مسائل کے حل کرنے کی ایک منظم کاوش کا نام ہے۔ تحقیق فکری اور عملی کاوشوں کو تیز تر کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی کوشش کا نام ہے جو پہلے تلاش کے عمل سے گذرتی ہے پھر اس کاوش کی تصدیق چاہتی ہے اور پھر اس کوشش کی تشہیر چاہتی ہے۔

عصر حاضر میں اسلام کی تحقیق کا مصداق کامل

تحقیق کا لفظ اپنی تمام تر تعریفات، تاویلات، تخصیصات، تعینات اور تفہیمات میں عصر حاضر میں جس شخصیت پر اپنے مصداق اتم اور اطلاق کامل کے ساتھ صادق آتا ہے وہ شیخ الاسلام، محقق الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی ذات اقدس ہے۔ آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ہی ایک ایسے سوال سے کیا جس کا جواب پوری قوم جاننے کے لیے منتظر تھی۔ وہ سوال اہل صحافت کی مجلسوں میں اٹھتا تھا اور عدالت کے ایوانوں میں بلند ہوتا، اہل سیاست کی باہمی ملاقاتوں میں ایک استفسار بنتا اور اہل قلم کی تحریروں سے چھلکتاتھا اور خطیبوں کی شعلہ نوائیوں اور ان کے خطابت کے پُرزور لہجوں سے بھی تقاضا کرتا تھا۔ عوام بھی جس کے الفاظ کلمات پر اپنی جانوں کے نذرانوں کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے تھے اور طالب علموں کی طلب علم بھی جس کو جاننے کی مسلسل کھوج میں لگی ہوئی تھی۔ وکیلوں کی نکتہ آفرینی کی صلاحیتیں بھی جس کو پانے کے لیے بے تاب تھیں، مگر کہیں سے کوئی موثر آواز بلند ہوتی ہوئی، سنائی نہ دیتی تھی، وہ سوال سب کے ذہن و دماغ اور سوچ و فکر کا مرکز و محور یوں بنا ہوا تھا کہ آخر 1977ء کی تحریک میں نظام مصطفی کیا ہے، اس کا معنی کیا ہے اس کا مفہوم کیا ہے اور اسی کا نفاذ کیونکر ضروری ہے اس سوال کا سب سے پہلے علمی اور تحقیقی جواب آپ کی قلم نے دیا اور اپنی سب سے پہلی تحقیقی اور تصنیفی کاوش کے طور پر دیا تھا۔ بایں عنوان، نظام مصطفی ایک انقلاب آفریں پیغام۔

محقق الاسلام کا عمومی تعارف

علم و تحقیق سے شروع ہونے والا آپ کا یہ سفر اپنی پوری جولانیوں اور بے تابیوں کے ساتھ مسلسل آگے بڑھتا رہا ہے اور ہر دور میں ایک نئے جہان تحقیق سے ہمیں آگاہ کرتا رہا اور آپ کے افکار تازہ سے تحقیق کے جہاں تازہ آباد ہوتے رہے اور آپ کے فہم اسلام سے زمانہ کو قابل عمل دین اسلام کا فہم ملتا رہا، آپ کے علم سے ہمعصروں کو حقیقی علم اسلام میسر آتا رہا، آپ کے نظریات سے اسلام کے آفاقی نظریات سمجھ میں آتے رہے، آپ کی فکر سے اسلام کا چودہ سو سال کا غالب فکر اور قرآنی فلسفہ انقلاب امت کے فہم و تفہیم کے دروازوں پر دستک دیتا رہا اور وہ ذات جس کا تحقیقی سفر اور کردار ہر لحظہ مومن کی نئی شان اور نئی آن کا استعارہ بنارہا، جس نے اپنی گفتار اور اپنے کردار کو اللہ کی برہان بنایا جس نے زندگی کے جمود اور تعطل کا خاتمہ کیا اور ہر مسلمان کی زندگی کو مسلسل تحرک، متواتر تغیر اور مستقل تبدل کی طرف راغب کیا، مگر اُس کے ارادوں اور عزم میں استقامت و مستقل مزاجی کے رنگ بھرے، جس نے امت کا عصر حاضر میں میر کارواں بن کر اپنی نگاہ کی بلندی اور اپنی سخن کی دلنوازی سے ساری امت کو بالعموم اور نوجوان نسل کی جان کو بالخصوص جان پُرسوز کیا اور جنہوں نے اپنے افکار و نظریات کے چراغ جلا کر امت کے ذہنوں کی تہذیب اور روحوں کی تطہیر کی ہے۔ جنہوں نے اپنے حسن بیان اور حسن تکلم و حسن خطابت کی صلاحیتوں سے امت کو مایوسیوں سے نکال کر اسلام کے روشن مستقبل سے وابستہ کیا ہے جنہوں نے عہد زوال میں امت کی تاریک راہوں میں چراغ جلانے کی اسلاف کی سنت کو زندہ کیا ہے۔ جنہوں نے اپنی فصاحت و بلاغت کی قوت سے شریعت و طریقت کی راہوں کو دلکش اور جاذب نظر بنایا ہے۔ جنہوں نے اپنی سحر انگیز آواز کے ذریعے لوگوں کو دین اسلام کا ایسا مجاہد بنایا ہے جن پر یخ بستہ ہوائوں کا اور نہ برفانی راتوں کا اور نہ موسلا دھار بارشوں کا اور نہ اہل زمانہ کی شدت اور سختیوں کا کوئی اثر باقی رہا، وہ اسلام کے لیے سربکف ہوئے اور ہر باطل سے لڑنے اور ٹکرانے کے لیے عازم سفر ہوئے، آپ کی آواز نے یورپ کے نہاں خانوں میں پڑے ہوئے نوجوانوں کو بدل ڈالا، اُن کی سوچ و فکر کے دھارے تبدیل کردیئے، اُن کی جبینوں کو لذت آہ سحرگاہی کی آشنائی دی، اُن کی آنکھوں کو مکین گنبد خضریٰ کی یاد میں اشکبار کیا اور ان کی نسلوں کی اٹھتی ہوئی جوانیوں میں حیاء کے رنگ بھرے آپ نے زمانے کے ہر فرعون اور ہر قارون کو اسلام کی خاطر للکارا اور اقبال کا مرد مومن بن کر ہر دشمن کی ہر چال اور ہر مزاحمت کا عزیمت کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کیا، قوم کے ایسے رہبر بنے جنہوں نے قوم کو صرف ترقی و کمال اور علم و تحقیق کی طرف راغب کیا ہے۔

غرضیکہ آپ کا اسلوب تصنیف محققانہ ہے آپ کا طرز زیست قلندرانہ ہے اور انداز تکلم ساحرانہ ہے۔ آپ اپنے ہمعصروں اور اہلِ زمانہ میں سے اُن کی طرح نہیں ہیں جیسے اگر اُن میں سے کوئی دینی رنگ رکھتا ہے تو دنیوی آہنگ سے بے خبر دکھائی دیتا ہے اگر کوئی قدیم سے جڑا ہوا ہے تو جدید سے کٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر کوئی صرف خبر رکھتا ہے تو دوسری طرف نظر سے محروم محسوس ہوتا ہے۔ اگر کوئی رازی کا فلسفہ جانتا ہے تو رومی کے لہجے سے بے بہرہ معلوم ہوتا ہے کوئی سیاست زمانہ کو جانتا ہے تو مذہب کی حقیقت سے نابلد دکھائی دیتا ہے۔ باری تعالیٰ نے اپنے رسول مکرمa کے صدقے انہیں اپنے فضل و کرم کی عصر حاضر میں عظیم نشانی بنایا ہے، زمانے کے سارے علوم کا آپ کو مھبط اور مظہر بنایا ہے۔ ہر علم کے اظہار کے وقت آپ اس علم کے امام زمانہ کی صورت میں جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں اور وہ ان سارے کمالات کی حقیقت فقط اتنی بتاتے ہیں کہ

بخشے ہیں مجھے حق نے جوہر ملکوتی

ان ساری عطائوں اور نوازشوں اور عنایتوں اور کرم نوازیوں کا دوسرا راز یہ بتاتے ہیں کہ

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

میدان تحقیق کا شہسوار

اس عظیم جوہر ملکوتی کے عمومی تذکرے کے بعد اب ہم اُن کو تحقیق کے میدان میں کارہائے نمایاں کے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔

وہ اپنی تحقیقی روش اور اس عظیم خصلت کی بنا پر ہی پاکستان ٹیلی ویژن کی فہم القرآن کی سکرین پر 9 سال تک بڑے تفوق کے ساتھ چھائے رہے اس سکرین سے جب وہ علم و تحقیق کی آواز گونجتی تھی تو ہزاروں اور لاکھوں افراد کی سماعت بنتی تھی اور وہی آواز سننے والوں کی بھی خلوتی اور جلوتی آواز بن جاتی تھی۔ جس نے اُن کی تحقیقی آواز کو صرف ایک بار سنا اور سمجھا وہ اب تک اس آواز کے سحر میں گرفتار ہے اور ان کی گفتار کا اب تک اسیر ہے بلکہ اُن کے مشن کا مسلسل سفیر ہے۔

پاکستان کی عدالتوں نے 1984ء میں قادیانی مسئلہ میں اُن کی عبادت گاہوں کے تناظر میں اسلام کی تحقیقی بولیاں بولنے والوں کو عدالت کے ایوانوں میں جمع کیا اُس وقت نوجوانی کے حجابوں اور شباب کے دریچوں سے بلند ہونے والی اور اپنے زمانے کی موثر اور محققانہ آواز عدالت میں گونجی تو اس مسئلے کو اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کے جذبات کے عین مطابق فیصلہ کراکے ہمیشہ کے لیے دفن کردیا، پھر مسئلہ رجم پر آپ نے اپنی تحقیقی آواز کو عدالتوں میں بلند کیا اس مسئلہ کا قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں ’’حد‘‘ ہونا ثابت کیا، آپ نے اپنے اجتہادی استدلال اور قرآنی اور نبوی دلائل کی روشنی میں مسئلہ رجم کی سزا کا بطور حد ہونا ثابت کیا اور اس حوالے سے وارد ہونے والے اعتراضات کا بھی مدلل اور مسکت جواب دیا، اس کے بعد پاکستانی عدالتوں نے امت مسلمہ کے ایک اور بہت بڑے مسئلے پر اہل علم اور اہل تحقیق کو متوجہ کیا کہ گستاخی و اہانت رسولa کے مرتکب کی سزا شرعی حوالے سے کیا ہونی چاہیے، اس مسئلے پر آپ نے 1987ء میں تین دن تک مسلسل عدالت میں اپنے دلائل دیے۔ قرآن و حدیث سے اس مسئلے پر خوب تحقیق کی اور ائمہ کے مذاہب اور اقوال کو تحقیقی بنیادوں پر پرکھا گیا اور قرآن و سنت کی صریح اور محکم اور نصوص پر اپنے دلائل کو قائم کیا اور اپنے موقف کو مسلمہ تحقیق سے آراستہ کیا اور عدالت میں بھرپور علمی، تحقیقی انداز میں مسئلہ کا حل پیش کیا۔ آپ کے مدلل اور محقق دلائل و براہین کو سننے کے بعد عدالت عالیہ نے پاکستان میں گستاخ رسول کی سزا بطور حد موت، قانون کی صورت میں تشکیل سازی کی منظوری دی، جس کو بعد ازاں پارلیمنٹ نے اس کے عملی نفاذ کی صورت میں منظور کیا۔ اس قانون پر مشتمل آپ کی کتاب تحفظ ناموس رسالت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس مسئلے میں آپ کی عرق ریزی اور تحقیقی کاوش کی گہرائی اور مختلف علمی و فنی اور تحقیقی و تنقیدی نکتہ آرائی کا پتہ چلتا ہے۔ بعد ازاں آپ کی متعدد تحقیقی مجالس نے بھی بہت زیادہ باریک بینی کے ساتھ اس مسئلے کی تمام جہتوں کو تحقیقی انداز میں پرکھا اور جانچا ہے۔

قومی سطح کا تحقیقی چیلنج اور اس کا موثر جواب

شیخ الاسلام کی زندگی کے مختلف مراحل میں علمی و تحقیقی چیلنجز بھی بڑی قوت کے ساتھ سر اٹھاتے رہے ہیں آپ نے ہر تحقیقی چیلنج کا جواب اتنے بھرپور علمی اور تحقیقی اسلوب کے ساتھ دیا ہے کہ وہ چیلنج خود ہی بے وزن اور بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ 90ء کی دہائی میں حکومتی سطح پر تمام دینی حلقوں اور اہل علم کو چیلنج کردیا گیا کہ سود کا متبادل بینکاری نظام ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ملک سے سودی بینکاری نظام کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک قابل عمل اسلامی بینکاری کا نظام تشکیل نہیں پاجاتا۔ آپ نے اس سلسلے میں حکومت کو TV پر علمی و تحقیقی مباحثے اور متبادل اسلامی بینکاری نظام کے موجود ہونے کا چیلنج کیا اور ذرائع ابلاغ اور اخبارات و جرائد کے ذریعے قابل عمل اسلامی نظام بینکاری کے خدوخال بیان کیے اور اس سلسلے میں اسلامی بینکاری نظام کا عبوری خاکہ موچی دروازہ لاہور میں عوامی جلسہ عام میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جس کو زبانی اور تحریری دونوں صورتوں میں ماہرین معیشت، بینکار حضرات اور تاجر حضرات اور عامۃ الناس کے لیے پیش کیا گیا۔ آپ نے اس عبوری اسلامی بینکاری نظام کے ذریعے واضح کیا کہ یہ نظام دنیا کے متعدد اسلامی ملکوں میں اب بھی رائج ہے اور عملاً جاری و ساری ہے۔ یقینا آپ کی یہ تحقیق بھی ایک بہت بڑے چیلنج کے طور پر حکومت کے سامنے رکھی گئی تھی اور حکومت کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ دنیا بھر کے معاشی ماہرین، بینکوں کے افسران و محققین اور متخصصین کو جمع کرلے اور پینل کی صورت میں TV سکرین پر بٹھا دے اور اگر وہ اُن کو اسلامی بینکاری کے نظام پر مطمئن نہ کرسکے تو عمر بھر اسلامی دعوت کا نام لینا چھوڑ دیں گے۔ اتنا بڑا اعلان یقینا اُن کی اپنی تحقیق پر بہت بڑے اعتماد کا مظہر تھا، اتنے بڑے چیلنج کے بعد حکومت نے درپردہ اپنی شکست تسلیم کرلی اور آج پاکستان میں جاری اسلامی بینکاری کا نظام آپ ہی کی تحریر، ترغیب اور تحقیق کا تسلسل ہے۔

بین الاقوامی سطح کا چیلنج اور اس کا بےمثل جواب

اس قومی سطح کے تحقیقی چیلنج کے بعد بین الاقوامی سطح کا چیلنج بھی آپ کی زندگی میں آیا اور وہ ساری دنیا میں دہشت گردی کی جنگ تھی جس نے دنیا کے نظام امن کو تہ و بالا کردیا اور امن کا لفظ پوری دنیا میں اپنا مفہوم کھو گیا۔ ملک در ملک اور براعظم در براعظم دہشت گردی کی جنگ، ایک خوفناک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی دنیا کا کوئی بھی خطہ ایسا نہ تھا جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان اسلامی ممالک کو ہوا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے نفرت آمیز سلوک کیا جانے لگا۔ مغربی ممالک میں اُن کو دوسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا جانے لگا اور اس جنگ میں سب سے زیادہ خون مسلمانوں کا ہی بہایا گیا ہر جگہ خودکش حملے ہونے لگے اور خودکش بمبار ہر طرف گھس گھس کر سینکڑوں اور ہزاروں جانوں کو ختم کرنے لگے دنیا بھر کے اس فتنے کی نرسری اور افرادی قوت کے لیے زیادہ تر مسلمانوں کو استعمال کیا گیا مسلم لیبل اور اسلام کے عنوان کو ہر دہشت گرد پر چسپاں کیا گیا چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے اور دنیا بھر میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کے لیے خودکش بمباروں کو اسلام کے ساتھ نتھی کیا گیا دنیا بھر میں ہر خودکش حملے کے تانے بانے مسلمانوں سے جوڑے گئے۔ پوری دنیا میں 2001ء سے لے کر 2015ء تک مسلسل ہر روز دہشت گرد حملے ہوتے رہے اور ہر خودکش حملے کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر اسلام کو خوب بدنام کیا جاتا رہا۔

اب پوری دنیا میں اس عالمی جنگ، جو ہر ملک میں خانہ جنگی کی صورت اختیار کرچکی تھی، اس کو روکنے کے لیے حکومتی سطح پر موثر اقدامات کی ضرورت تھی اور دوسرا فکری و علمی سطح پر بھی اس کا مضبوط انسداد کیا جانا تھا، مگر اس دوسرے محاذ پر جب ساری اسلامی دنیا خاموش تھی اُس وقت ساری مسلم دنیا سے ایک بہت ہی موثر آواز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی لندن کی سرزمین سے فضا میں بلند ہوئی کہ دہشت گردی کے ساتھ اسلام کا سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے، دہشت گردی کا عمل اسلام میں فعل حرام کا ہے، اس کا مرتکب خارج از اسلام ہے۔ یہ آواز عالمی میڈیا سے دنیا بھر میں سنی گئی اور یہ آواز پوری دنیا میں ایک اسلامی فتویٰ کی صورت میں بعنوان ’’دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ (مبسوط تاریخی فتویٰ) کی شکل میں بلند ہوئی۔ اس فتویٰ کو انگریزی، عربی، اردو اور دنیا کی دیگر زبانوں میں ترجمہ کرکے بڑی تعداد میں ہر جگہ پہنچایا گیا یوں اسلام کی پرامن تعلیمات پر جو حملہ ہوا تھا اس کا موثر سدباب کرنے کا اعزاز شیخ الاسلام مدظلہ کو حاصل ہوا۔

آپ نے اس فتنے کو پاکستان اور دنیا بھر سے ختم کرنے کے لیے 25 کے قریب کتابوں پر مشتمل نصاب تشکیل دیا جسے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے تیار کیا گیا اور انہیں فراہم کیا گیا، دہشت گردی کے خلاف اس موثر آواز کے بلند ہونے کے بعد دنیا بھر سے اس فتنے کی جڑیں کٹ گئیں اور رفتہ رفتہ یہ فتنہ دہشت گردی یہ کمزور ہوتا ہوگیا اور دنیا بہت بڑی ہلاکت خیزیوں اور معصوم انسانی جانوں کے ضیاع سے محفوظ ہونے لگی۔

اس فتنے کو علمی و تحقیقی اور فکری و نظریاتی سطح اپنی موثر ترین تحقیق کے ذریعے روکنے اور اس کا کلی انسداد کرنے کا انعام باری تعالیٰ نے محقق الاسلام مدظلہ العالی کو عطا کیا۔ اس فتویٰ کی ایک ایک سطر آپ کی تحقیقی قلم کا شاہکار ہے اور آپ کی اس تاریخ ساز تحقیق نے دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنایا اور اسلام کا پُرامن اور سلامتی والا چہرہ ساری دنیا میں متعارف کرایا اور آپ نے اسلام میں دہشت گردی کے فعل کے حرام ہونے کا فتویٰ جاری کیا، دہشت گردوں اور خودکش بمباروں سے اسلام کے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا اور اس فعل کا غیر اسلامی اور غیر انسانی ہونا بیان کیا ہے۔

اسلام کے خلاف ہر چیلنج کا جواب شیخ الاسلام

آپ نے اپنی تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک قرآن و سنت کی عظیم فکر کو اپنی زبان و قلم سے فروغ دیا ہے کبھی آپ کی دعوت بالتقریر ہے اور کبھی آپ کی دعوت بالتحریر ہے، نہ کبھی آپ کی تقریر کا عمل زمانے بھر کی سختیوں کے باوجود رُکا ہے اور نہ تحریر کا عمل شدائد زمانہ کے ساتھ کبھی معطل ہوا ہے۔ ان دونوں کی رفتار اور مقدار میں حالات کے تناسب سے تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اگر شروع میں دعوت باللسان کو غلبہ رہا ہے اور اب دعوت بالقلم کا تغلب ہے جس میدان کا بھی آپ نے رخ کیا ہے اس میں بے مثل، بے مثال اور بے نظیر ہوئے ہیں اور باکمال و لاجواب ہوئے ہیں، انسانی عقیدت ہمیشہ ہی ایسے ہی گوہر نایاب کی طرف متوجہ ہوتی رہی ہے اور اس کی عقیدت و رفاقت میں ڈھل کر اپنے اندر موجود فطرتی حُب کے جذبے کو تقویت دیتی رہی ہے۔

شیخ الاسلام مدظلہ کی قلم تحقیق نے تصنیف و تالیف کی دنیا میں علمی شہ پاروں کو تخلیقی وجود دیا ہے اور اُن کے تحقیقی قلم نے علم کے سمندر سے بڑی ہی گہرائی میں غواصی کرتے ہوئے ہیرے اور موتی چُنے ہیں کسی اور اہلِ قلم نے وہ کمالات نہ دکھائے جن کا ظہور ان کی قلم نے کیا ہے، ان کی استخراجی اور استدلالی قوت بسا اوقات انسان کو سراپا تعجب بنادیتی ہے اور ان کی تحریر و تحقیق پڑھتے پڑھتے اپنے قاری کو حیرت سے ساکت و جامد کردیتی ہے اور انسان کیفیات استعجاب میں گم ہوجاتا ہے کہ مولا یہ نکتہ، یہ تصور، یہ تخیل، یہ فکر، یہ نظریہ، یہ جملہ کہاں سے آیا اور کدھر سے آیا اور کیسے اور کیونکر آیا تو پھر ہر کسی کو اس سوال کا جواب حسبِ حال مل جاتا ہے۔ یہ ساری کیفیات ان کی ہر تصنف میں اسی رنگ کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ بطور مثال سمجھنا چاہیں تو ان کی اولین تصانیف میں سے ’’مناہج العرفان فی لفظ القرآن‘‘ کا ہی مطالعہ کرلیں۔ ’’سورہ فاتحہ اور تعمیر شخصیت‘‘ کے صفحات کی ورق گردانی کرلیں اور ’’اسلامی فلسفہ حیات‘‘ کے صفحات اُلٹ پلٹ کرلیں۔ حقیقت منکشف ہوجائے گی۔

شیخ الاسلام مدظلہ کے تحقیقی قلم نے اب تک 1000 کے قریب کتب کو اپنی تحقیقات سے مزین کیا ہے جس میں سے 600 کے قریب طباعت کی صورت اختیار کرچکی ہیں جبکہ 400 کے قریب مسودات کی ہیت میں ہیں۔ ہر کتاب اپنی اہمیت اور افادیت میں دوسری سے بڑھ کر ہے یقینا یہ بہت بڑا علمی اور تحقیقی اثاثہ ہے جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے صدیوں تک کار آمد ہے اور اسی طرح آپ کی زبان و لسان نے بھی آج تک کوئی بات بغیر تحقیق اور حوالہ کے نہیں کہی ہے۔ آپ اپنے 6000 لیکچرز سننے والوں کو علم و تحقیق کے سمندروں میں غوطہ زنی اور غواصی کراتے ہیں اور اپنے سننے والوں کے ذہن و دماغ کو پختہ و ثقہ اور بصیرت و فراست اور فقاہت و ثقاہت سے معمور علمی و تحقیقی روشنی سے منور کرتے ہیں اور اپنے ان لیکچرز کے ذریعے اپنے سننے والوں کو اسلام کی روشن، قابل عمل اور اعتدال و توازن والی تعلیمات سے آگاہ کرتے ہیں۔

خلاصہ کلام

اسلام کو ہر دور میں ایک نئے محاذ اور نئے چیلنج کا سامنا رہا ہے۔ باری تعالیٰ ہر زمانے میں اپنے محبوب و مقرب بندوں کے ذریعے اسلام کا دفاع کرتا رہا ہے۔ اکیسویں صدی علم و تحقیق کا ایک بہت بڑا چیلنج ہر شعبہ ہائے حیات میں لے کر آئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو بھی عصر حاضر کے قالب میں قابل عمل بنانا ہے اور علم و تحقیق سے مزین اور عصر حاضر کی موثر زبان سے آراستہ کرنا ہے اور انسانی نفسیات کے مطابق اور عصری حالات سے موافق تحقیقات کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہے۔ باری تعالیٰ نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے عصر حاضر میں شیخ الاسلام مدظلہ کی ذات و شخصیت کو جامع الصفات بنایا ہے جنہوں نے ہر ہر میدان علم و تحقیق میں اپنے تحقیقی شہ پارے اس امت کو ہدیہ کیے ہیں۔ آپ نے جس موضوع پر بھی تحقیق کی ہے خوب کی ہے اور تحقیق کا حق ادا کیا ہے۔ آپ نے اسلام کو من حیث الکل لیتے ہوئے ہر موضوع پر تحقیق کی ہے اور ایک مسلمان کی عصر حاضر میں اسلام کے حوالے سے تحقیقی ضروریات کی کفالت کی ہے۔

آپ اپنی حیات مبارکہ کی 70 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت علم و تحقیق کے میدانوں میں صرف کیا ہے اب بھی آپ کے اوقات حیات میں سے کثرت کی نسبت میدان تحقیق کو ہی حاصل ہے۔ آپ اپنے تحقیقی کام کی انفرادیت، جامعیت اور ہمہ گیریت کی بنا پر ساری امت مسلمہ میں بجا طور پر محقق الاسلام کے منصب کا اعزاز رکھنے والے ہیں، آپ کے تحقیقی کام کی یہ وہ فضیلت ہے جس پر اپنے اور غیر سبھی شاہد اور گواہ ہیں اور اسی حوالے سے کہا جاتا ہے:

الفضل ماشهدت به الاعداء.

کسی کی فضیلت اور علو مرتبت وہ ہے جس کی گواہی و شہادت غیر بھی دیں۔

آپ کی تحقیق نے اسلام کے ماننے والوں کے اذہان و قلوب میں یقین کے چراغ جلائے ہیں اور نوجوانوں کی اسلام کے ساتھ وابستگی میں پختگی پیدا کی ہے اور ہر عمر کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات پر ثابت قدم کیا ہے۔ اسلام کے روشن اور معتدل چہرے کو ساری دنیا میں متعارف کرایا ہے، اسلام کی امن و سلامتی والی تعلیمات کو کل عالم میں فروغ دیا ہے، اسلام کو ہر دور کا قابل عمل دین بنایا ہے اور ہر معاشرے کی مذہبی ضروریات کی کفالت کرنے والا بنایا ہے اور ہر انسان کی ظاہری و باطنی تسکین دینے والا بنایا ہے، اسلام کی تعلیمات کی بابت پیدا ہونے والے تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ کیا ہے، ہر پڑھے لکھے اور جدید ذہن کو اسلام کی تعلیمات کی طرف والہانہ طریق پر راغب کیا ہے حتی کہ اُن کا جینا مرنا اسلام کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور اپنے ہر ایک سننے، پڑھنے اور جاننے والے کو ایسا کیا ہے کہ وہ علی الاعلان یہ کہتا پھرتا ہے کہ

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی