شیخ الاسلام اُفقِ عالم پر اسلام کا معتبر حوالہ ہیں

مسز مصباح عثمان

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کی ہستی کے بارے میں قلم اٹھانے کی ادنیٰ سی کاوش ایسے ہی ہے کہ گویا وہ معطر و معنبر خوشبوؤں کا با غ ہیں اور یہ نذرانہ عقیدت مثلِ غُنچہ، وہ ایک سورج ہیں ان کے لیے یہ تحریر ایک ہلکی سی کرن، وہ سمندر ہیں اور یہ الفاظ مانندِ قطرہ؛ کیوں؟ اس لیے کہ وہ ایک عظیم تحفہ خداوندی، عطائے مصطفی ﷺ اور دعائے فرید کا ایسا نادر و نایاب ثمر ہیں جو اپنی ہستی میں اک جہاں بسائے ہوئے ہیں۔ آپ کی عظیم شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا، آپ کی عالمگیر جدوجہد اور احیائے اسلام کی کاوشوں کو احاطہ تحریر میں لانا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ راقمہ کی یہ تحریر اس دعا کہ ساتھ کہ اے ہمارے شیخ، سیدی و مرشدی قبلہ حضور !

آپ سلامت رہیں ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

آپ کی خدمت میں ایک ہدیہ تبریک ہے اور بارگاہِ الٰہی میں نذرانہ تشکر ہے کہ جس نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مجددِ رواں صدی، مردِ باصفا، شیخِ کامل کی سنگت و صحبت نصیب فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس سنگت و صحبت کو دونوں جہانوں میں دوام نصیب کرے۔ امین ثم امین

کسی بھی عظیم شخصیت کی عظمت کا ادراک اس کے فکر ونظریہ کی بلندی سے ہوتا ہے۔ فکر و نظریہ جتنا بلند اور وسیع ہو گا اس ہستی کا کام بھی اُسی نوعیت کا ہو گا۔ گویا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کسی شخصیت کے کام کی نوعیت کو جاننے کے لیے اس کے فکر، سوچ، نظریہ اور ویژن کو دیکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی جدو جہد کا دائرہ کار کیا ہے۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عصرِ حاضر میں اسلام کا ایک ماڈریٹ ویژن دیا جو فرقہ واریت، تعصب، انتہاپسندی اور تنگ نظری سے بالاتر وسیع پیمانے پر خدمتِ دین کا استعارہ ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری انسانی تاریخ میں اُفقِ عالم پر اسلام کا معتبر حوالہ ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور اسلام کے پُر امن چہرے کو اقوامِ عالم کے سامنے لائے۔ آپ نے اپنی تحریک کے آغاز سے ہی اپنی کاوشوں کو صرف ملکی سطح تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عالم گیر تحریک قرار دیا اور اس کے پلیٹ فارم سے آپ نے دنیا کے ہر کونے میں اسلام کی حقیقی تعلیماتِ امن کو عام کیا۔اردو، انگریزی، عربی ہر بین الاقوامی زبانوں میں تحریر و تقریر کے ذریعے اسلام کے پیغام کو عام کیا۔ دنیا کی ایک درجن سے زائد زبانوں میں آپ کی کتب کے تراجم موجود ہیں۔

آپ نے ملتِ اسلامیہ کو ایک نئے رجحان سے روشناس کرایااور عوام الناس کی ایک کثیر تعداد جو عبادات و اعتقادات کو ہی مکمل دین سمجھ بیٹھے تھے ان کے سامنے دین کا ایک وسیع تصور پیش کیا۔جس میں آپ نے اس حقیقت کو باور کروایا کہ دیگر شعبہ حیات مثلاََ معیشت،معاشرت،سیاست و سیادت، تہذیب و ثقافت،قانون و اخلاق وغیرہ نہ صرف دینِ اسلام کا حصہ ہیں بلکہ معاشرتی امن و امان کا قیام تعلیمات ِ اسلام کی روح ہے۔ آپ نے دینِ اسلام کو دلائل کے ساتھ امن و سلامتی والا دین ثابت کیا۔

آپ کی زیرِ قیادت چلنے والے تعلیمی ادارے قدیم و جدید علوم کا حسین امتزاج ہیں۔وہاں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کی تربیت اس نہج پر کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے کا پر امن شہری بنیں۔ آپ نے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے کو اپنے شعور و آگہی کے فیض سے نوازا۔ خواتین، علماء، نوجوان، اساتذہ، طلباء، تجارت پیشہ احباب اور صاحبان طریقت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور انہیں ایک بامقصد زندگی کی طرف دعوت دی۔ قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے اسلام کی اساس تصوف کو نوجوانوں میں بیدار کر کے ایک نئی روح پھونکی۔ دلوں کی ویران بستیوں میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی شمعیں فروزاں کیں، اسلاف کے نقوشِ قدم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس دور میں رومی، رازی، بلالی رنگ ڈھنگ دیا۔ آپ امت کا سرمایہ افتخار ہیں۔

دہشت گردی کے مسئلے نے اکیسویں صدی کے آغاز پر دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور عالمی سطح پر war on terror کے نام سے اس سے نبٹنے کے لیے تدابیر کی جانے لگیں۔ انسانیت سے ہمدردی کا دم بھرنے والوں نے اس ناسور کے خلاف عملی، تحریری و تقریری کاوشیں کیں اور اس کی مذمت اور تردید کی۔ دہشت گردی کے خلاف بلند ہونے والی بے شمار آوازوں میں ایک توانا آواز امتِ مسلمہ کے پلیٹ فارم سے بھی بلند ہوئی اور وہ آواز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے۔ جنہوں نے بغیر وقت کے ضیاع کے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہوئے اس کے خلاف تاریخی فتویٰ لانچ کیا۔

دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے رہنما اصولوں میں نمایاں اور لازمی اصول پیغمبرِ اسلام ﷺ کی ذات سے عشق و محبت اور اطاعت و اتباع کے تعلق کو مضبوط کرنا اور سیرت و تعلیماتِ مصطفوی ﷺ سے خود کو آشنا کرنا ہے کیوں کہ اطراف و اکناف میں پھیلی ہوئی دہشت گردی، قتل وغارت گری اور فتنہ وفساد کی اصل وجہ تعلیماتِ اسلام اور پیغمبر امن ورحمت ﷺ کی ذات سے دوری ہے۔

علامہ اقبال کے اس شعر

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اجالاکر دے

کی مصداق بلاشبہ شیخ الاسلام کا ہر اقدام چاہے وہ امن کا قیام ہو، انتہا پسندی و تنگ نظری کا خاتمہ ہو، مسالک کے مابین اتحاد کی کاوشیں ہوں، بین المذاہب روادرای کا فروغ ہو، دنیا کو عالمی امن کا گہوارہ بنانا ہو، دہشت گردی کو ختم کرنا ہو یا دہشت گردوں کے خلاف احادیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں اعلانِ جنگ ہو؛ ہر اقدام آپ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ سے عشق و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ محبت و عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سر شار، سنت ِمصطفیٰ ﷺ کا آئینہ دار ، دینِ مصطفیٰ ﷺ کی سر بلندی میں مصروفِ کار ہے۔ گویا آپ کی حیات

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

کے مصداق بسر ہو رہی ہے۔ آپ کی قائم کردہ تحریکِ منہاج القران اس دور میں ایک رسول نُما تحریک ہے، رسول ﷺ کا راستہ دکھانے والی، رسول ﷺ کے قریب کرنے والی، رسول ﷺ سے تعلقِ غلامی بحال کرنے والی، رسول ﷺ کی سیرت و سنت کو عام کرنے والی، اسلام کی مٹتی ہوئی اخلاقی اقدار کا از سرِ نو احیاء کرنے والی ہے۔ یہ تحریک بلاشبہ خاتم النبیین حضرتِ محمد مصطفی ﷺ کے لیے کیے گئے اس خدائی فرمان:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔

(الانشراح، 4: 94)

وَلَلْأٓخِرَةُ خَیْر لَّکَ مِنَ لْأُولَیٰ.

اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلے سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔

(الضحیٰ، 4: 93)

کے فیض سے سیراب ہو رہی ہے۔ یہ تحریک اپنے عظیم قائد کی قیادت میں لمحہ بہ لمحہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔جس کا ہر اقدام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جو امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام نے میدانِ کربلا سے شروع کیا۔

الغرض شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری امنِ عالم کے نگہباں، اخوت کا بیان، محبت کی اذاں، وفا کا کارواں ، جہدِ مسلسل کی لازوال داستاں ،اور عظمت و رفعت کا عظیم نشاں ہیں۔ آپ کی فکری اور عملی کاوشیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کے حقیقی پیغامِ امن و محبت کی خوشبو پھیلارہی ہیں۔ یورپ کی چکاچوند اور مادیت زدہ ماحول میں بھی لاکھوں نوجوان مردوں عورتوں بوڑھوں اور بچوں کو آپ نے صاحبِ گنبدِ خضراء کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ شاعرِ انقلاب اسی محبوب قائد کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ آپ وہ عظیم قائد ہیں۔

جس کی گردن نہ باطل کے آگے جھکی
جس کی آواز بُنتی رہی روشنی
علم سے جس کے بٹتی رہی آگہی
فکر سے جس کے تاباں رہی زندگی

جو تقدس کا عظمت کا مینار ہے
گلشن زندگی کی جو مہکار ہے
بے مثال و جریح جس کا کردار ہے
کاروان وفا کا جو سالار ہے

یہ تصور بس اک خوش گمانی نہی
لفظ میرے فقط مدح خوانی نہی
یہ حقیقت ہے لوگوں کہانی نہی
میرے قائد کا کوئی بھی ثانی نہی

وہ جو بولے تو موتی کئی رول دے
وہ جو بولے تو اسرار دیں کھول دے
حکم جس کا محبت کی برسات ہے
علم جس کا محمد ﷺ کی خیرات ہے

بے کسوں بے نواؤں کا قائد ہے یہ
دل سے نکلی صداؤں کا قائد ہے یہ
انقلابی اداؤں کا قائد ہے یہ
رہبر و رہنماؤں کا قائد ہے یہ

المختصر شیخ الاسلام شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کی امامت کے تقاضے پر کماحقہ پورے اترتے ہیں جو امامِ برحق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے مری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے