قرار دادِ پاکستان اور اس کا پس منظر

ڈاکٹر انیلہ مبشر

ہندوستان وہ سرزمین تھی جہاںمسلمانوں نے انصاف، مساوات، رواداری اور عدل و انصاف پر مبنی کم و بیش ایک ہزار برس تک حکومت کی مگر مغربی اقوام کی آمد اور 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد طاقت کا توازن بدل گیا۔ اب ہندوستان کی سب سے بڑی قوت تاجِ برطانیہ تھی جس کی وسیع سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ انقلابِ زمانہ تھا کہ ہندوستان کی دوسری بڑی قوت ہندو قرار پائے جو اپنی عددی اکثریت اور سیاسی جوڑ توڑ کی بنیاد پر ہندوستان کے آئندہ حکمران بننے کے خواہش مند تھے۔ دولت، تعلیم، سیاسی شعور اور عصبیت کی بنیاد پر وہ صرف اور صرف انڈین نیشنلزم پر یقین رکھتے تھے۔ ہندوستان کے اخبارات، جرائد اور نشرو اشاعت کے ذرائع پر بھی مکمل گرفت رکھتے تھے۔انڈین نیشنل کانگرس جیسی موثر سیاسی تنظیم کے ساتھ ساتھ ہندو لیڈروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوازم کے استحکام اور احیاء میں مصروف تھی۔ ہندوئوں کے سب سے بڑے روحانی لیڈر گاندھی جی مکمل سوراج یعنی انگریزوں سے کامل آزادی حاصل کرکے برصغیر پاک و ہند میں فیصلہ کن اور حتمی سیاسی طاقت صرف ہندوئوں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو آئینی تحفظات کی جگہ صرف حسنِ سلوک کی یقین دہانیوں کے خواہاں تھے۔ وہ مسلمانوں کے الگ تشخص کو محض فرقہ واریت خیال کرتے تھے۔ بال گنگا دھر تلک، سوامی شردھا نند، رابندر ناتھ ٹیگور، سبھاش چند بوس، رام موہن رائے، سوامی رویکا نند، بنکم چندر چڑ جی، آرو بندر گلوش نے شدھی اور سنگھٹن جیسے فلسفے کی اشاعت شروع کررکھی تھی ان کی رائے میں ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل مخدوش تھا۔ 1937ء میں جواہر لعل نہرو بڑے مغرور لب و لہجے میں اعلان کرتے ہیں کہ ہندوستان میں فقط دو قوتیں ہیں ایک برطانوی امپیریلزم اور دوسری ہندو نیشنل ازم جس کی نمائندگی کانگرس کرتی ہے۔ مسلمانوں کے سیاسی مدبر محمد علی جناح نے فوراً جواب دیا ایک تیسری قوت بھی ہے اور وہ ہیں مسلمان۔

بہر طور ہندوستان کی تیسری قوت مسلمان تعداد وسائل اور اسباب قوت کے لحاظ سے سب سے کمزور جماعت تھے گو ان کی تعداد دس کروڑ تھی لیکن برصغیر پاک و ہند کی کل آبادی کا صرف ایک چوتھائی حصہ تھے۔ تعلیم، تجارت، صنعت، زراعت گویا ہر شعبے میں غریب تھے اور پسماندہ بھی۔ وہ انتخابی اداروں یا سول ملازمتوں میں اپنا جائز حق مانگتے تو ان کے جائز مطالبات کو فرقہ وارانہ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا اورجب وہ ہندوئوں کے ساتھ اقتدار میں شرکت کے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کرتے تو ان مطالبات کو آزادی ہند کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا۔ اس کی سب سے بڑی مثلا 1928ء کی نہرو رپورٹ ہے جس میں مسلمانوں کے تمام آئینی حقوق اور مطالبات ایک ایک کرکے مسترد کردیئے گئے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ جو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہلاتے تھے اور جن کی سیاست کا مرکز و محور ہندو مسلم اتحاد کو قائم کرنا تھا دونوں قوموں کے راستوں کی جدائی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج اس وقت وسیع تر ہوگئی جب گورنمنٹ انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت 1937ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے اور جولائی 1937ء سے اکتوبر 1939ء کے درمیان آٹھ صوبوں میں کانگرسی وزارتیں قائم ہوئیں۔ اس دوران مسلمانوں کو شدت سے احساس ہوا کہ بحیثیت قوم ان کا ہندوستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔مسلمانوں کو اپنے مذہب اور تہذیب و ثقافت سے بیگانہ کرنے کے لیے وریا مندر اور واردھا تعلیمی منصوبہ بنایا گیا جس میں بچوں کو گاندھی جی کی تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے رہنے اور بندے ماترم کا ترانہ پڑھنے پر مجبور کیا جاتا۔ بندے ماترم کا ترانہ بنکم چندر چیٹرجی کے ناول انندمٹھ سے لیا گیا تھا اور مسلم دشمنی پر مبنی تھا۔ کانگرس نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں سے جو غیر منصفانہ اور جارحانہ سلوک روا رکھا اس نے مسلمانوںمیں سیاسی شعور، ذہنی بیداری اور آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ ان وزارتوں کے خاتمے کے اگلے برس ہی مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی آخری اور اٹل منزل کا تعین کرلیا۔

سر سید احمد خاں، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر کی طرح قائداعظم محمد علی جناح بھی اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی عشروں میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے قائم ہونے کے بعد سیاسی اداروں کا قیام، سیاسی جماعتوں کا بڑھتا ہوا سیاسی شعور اور پارلیمانی نظام جمہوریت میں عددی برتری کی اہمیت نے ہندوستان میں جدید سیاسی عمل کو اس قدر پیچیدہ بنادیا تھا کہ ایسے میں مسلمانوں کو بحیثیت قوم اپنی نسل، مذہب، تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے تقدس کو محفوظ بنانا سب سے بڑا مسئلہ قرار پایا۔

تاریخ کے طویل سفر نے ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ باور کروادیا تھا کہ اس کے مسائل کا حل صرف برطانوی اقتدار سے آزادی ہی نہیں بلکہ تقسیم ہند اور ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام میں مضمر ہے۔

ہندوستان میں آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا تصور تقریباً ایک صدی تک ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق 1857ء سے لے کر قرار داد لاہور 1940ء تک 119 افراد نے تقسیم ہند کے 170 منصوبے پیش کیے۔ جمال الدین افغانی نے انیسویں صدی ہی میں مرکزی ایشا کی ریاستیں، افغانستان اور برصغیر پاک وہند کے شمال مغرب کے مسلم اکثریتی علاقوں کو ملاکر ایک مسلم جمہوریہ کا خواب دیکھا۔ اس کے علاوہ عبدالحلیم شرر، خیری برادران، عبدالقادر بلگرامی، سردار محمد گل، مرتضیٰ احمد خان کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے جداگانہ مسلم ریاست کے تصور کو اپنے پیش کردہ منصوبوں کے ذریعے تقویت بخشی۔ اس میں سب سے موثر آواز علامہ اقبال کی تھی جنہوںنے 1930ء میں آلہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اپنے تاریخ ساز خطبے میں اسلامی فکر کی تشکیل جدید کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کو ہندوستان مسلمانوںکے قومی مسائل کا واحد حل قرار دیا۔ 1933ء میں کیمبرج کے ایک مسلم طالب علم چودھری رحمت علی نے ’’Now or Never‘‘ میں شمال مغرب میں مسلمان اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ ان علاقوں کے پہلے حروف کو ملا کر لفظ ’’پاکستان‘‘ تخلیق کیا۔ یہ وہ کرشمہ سازلفظ تھا جس سے وابستہ سرزمین کو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنا وطن بنانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔

1940ء کا سال برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی سیاسی و قومی بیداری میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اسی سال 23 مارچ کو ایک قرار دادکے ذریعے ہندوستان میں ایک آزاد مسلم مملکت کا قیام مسلم لیگ کے ستائیسویں عظیم الشان تین روزہ اجلاس میں پیش اورمنظورکیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت ہونے والے منٹو پارک لاہور کے تاریخی اجلاس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچیس ہزار افراد موجود تھے۔ شیر بنگال مولوی اے کے عبدالحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس کی تائید چودھری خلیق الزماں، مولاناظفر علی خان، سر عبداللہ ہارون، سردار اورنگ زیب نواب اسماعیل، قاضی محمدعیسیٰ اور بیگم محمد علی جوہر نے کی۔ اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ

’’اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ ناقابل عمل ہوگا اورنہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول جب تک اسے حسب ذیل بنیادی اصولوں کی اساس پر وضع نہ کیا جائے گا۔ یعنی جغرافیائی طور پر متصل اکائیوں کی ایسے خطوں میں حد بندی کی جائے جن کی تشکیل ضروری علاقائی ردوبدل کے ساتھ اس طرح کی جائے گی کہ جن علاقوں میں مسلمان آبادی کے لحاظ سے اکثریت میں ہیں جیسا کہ وہ ہند کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں ہیں۔ ان علاقوں کو اس طرح آپس میں ملایا جائے گا کہ وہ آزاد مملکتیں بن جائیں۔‘‘

اس قراردادکے پس منظر میں جو بنیادی نظریہ کارفرما تھا قائداعظم نے اپنی تقریر میں بڑی جامعیت سے اس پر روشنی ڈالی۔ دو قومی نظریئے کو دلائل سے ثابت کیا اور اس غلط فہمی کی تردید کی کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان قومیت کی ہر تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں۔ ان کا ایک علاقہ اور وطن ہونا چاہیے۔ ہندوستان کا مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ اس مسئلے کو بین الاقوامی سمجھ کر حل کرنا چاہیے۔ اگر برطانوی حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہندوستانیوں کو امن اور سکون حاصل ہو تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کرکے جداگانہ قومی وطن منظورکیے جائیں۔

قائداعظم محمد علی جناح جو مولانا محمدعلی جوہر کی تمنا اور علامہ اقبال کی آرزو تھے وہ خود کو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے وقف کرچکے تھے۔اس تاریخی اجلاس میں میاں بشیرالدین نے قوم سے ان کی دلی وابستگی کا اظہار اپنی مشہور زمانہ نظم ’’ملت کا پاسبان ہے محمد علی جناح‘‘ کے ذریعے کیا۔ مولانا ظفر علی خان نے ’’رہرو اور رہ نما‘‘ کے عنوان سے ایک نظم 22 مارچ کے دن اس اجلاس میں پڑھی جو مسلمانوں کی مسلم لیگ سے وابستگی کی عکاس ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

ایک جھنڈے تلے جس روز ملت آئے گی
ساری دنیا اس کے آگے خود بخود جھک جائے گی

اس ولولہ انگیز ماحول میں قرار داد لاہورکا پاس ہونا تھا کہ ہندو لیڈروں اور اخبارات نے اس پر سخت تنقید شروع کردی۔ پرتاب، ملاپ، ٹربیون اور دیگر ہندو اخبارات نے اگلے ہی روز قرار داد لاہور کو قرار دادِ پاکستان کا نام دے دیا حالانکہ قرار داد میں کسی بھی جگہ لفظ پاکستان کا استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ صرف بیگم محمد علی جوہر نے اپنے خطاب میں لفظ پاکستان استعمال کیا۔ کچھ عرصہ بعدمسلمانوں نے بھی اسے قرار داد پاکستان کہنا شروع کردیا۔

قرار داد پاکستان نے مسلمانوں کے مقصد حیات اور نشانِ منزل کا تعین کردیا تھا۔ اس کے بعد 1940ء سے 1947ء تک سات سالہ انقلاب آفرین دور کا آغاز ہوا۔ قائداعظم جیسے مدبر اور دور اندیش سیاست دان اور رہبر کامل کی زیر قیادت ایک طبقہ نئے وطن کے منصوبے، نقشے اور خاکے مرتب کرنے میں مصروف ہوگیا۔ مسلم لیگ نے اعتدال پسندانہ مسلک کو خیر باد کہہ کر بہت زیادہ فعال اور منظم ہوئی اس کی شاخیں اپنی اپنی تنظیم سازی میں لگ گئیں۔ رضا کاروں کی جماعتیں تشکیل پانے لگیں۔ حریت پسند عناصر کی بدولت مسلم لیگ کی ترقی پسندانہ سرگرمیوںمیں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ نے ایک قرار داد میں طے کیا کہ ہر سال 23 مارچ کا دن یوم پاکستان کے طور پر منایا جائے گا۔ اس دن قرار داد پاکستان کے مندرجات کی تشریح کی جائے گی اور ہندوستان کے طول و عرض کے مسلمانوں پر واضح کردیا جائے گاکہ تمام قومی اور سیاسی مسائل کا یہی واحد حل ہے۔بالآخر 14 اگست 1947ء کو ایک آزاد اور خودمختارمسلم ریاست کا دیرینہ خواب حقیقت بن گیا۔

قرار داد پاکستان ایک تاریخ ساز فیصلہ تھا جس نے زوال پذیر اور ناتواں قوم میں بقائے ملت کا احساس اجاگرکیا۔ قوم ایک نئی قوت اور توانائی کے ساتھ بیدار ہوئی اور منزلِ مقصود کو پالیا یقینا جو قومیں اپنی منزل متعین کرکے اس کے حصول کے لیے انتھک کوشش اور جدوجہد کرتی ہیں وہ اپنا مطمع نظر حاصل کرلیتی ہیں۔ بابائے قوم محمد علی جناح نے نوجوان نسل کو اتحاد ایمان تنظیم کے جو انمول اصول دیئے تھے آپ نے خود بھی ان پر عمل کیا اور قوم کو بھی ان کی ترغیب دی۔ 23 مارچ کا دن پیغام ہے کہ جو قومیں اپنی صفوں میں اتحاد کا جوہر پیدا کرتی ہیں اور یقین محکم کے ساتھ اپنے نصب العین کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ نظم و ضبط کی موثر ترین تدابیر اختیارکرتی ہیں وہ یقینا اپنا مقصد نظر حاصل کرلیتی ہیں۔ قوموں کی زندگی میں آزمائشیں، مصائب اور مشکلات تو آتی رہتی ہیں مگر صبرو استقلال، عزم و ایمان کی قوت ان کے جذبوں کو جواں رکھتی ہیں اور ان کی منزل آسان کردیتی ہیں۔

جب اس انگارہ خاکی میں ہوتا ہے یقین پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا