اداریہ: حقوق نسواں کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں

چیف ایڈیٹر

ہر سال 8 مارچ کو حقوق نسواں کا عالمی دن منایاجاتاہے۔گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان میں بھی حقوق نسواں کے اس عالمی دن پر پرجوش سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سیاسی، سماجی تنظیمیں حقوقِ نسواں کی مناسبت سے سیمینارز، سمپوزیم اور روڈ ایکٹویٹی کرتی ہیں جن کا بنیادی مقصد خواتین کے حقوق کے ساتھ ساتھ ہر نوع کے استحصال کی روک تھام کے لئے شعور اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ اسلام وہ واحد الہامی دین اور ضابطہ حیات ہے جسے رہتی دنیا تک یہ فضیلت میسر رہے گی کہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے تاریخِ عالم میں پہلی بار خواتین کو خرید وفروخت جنس کی بجائے سوسائٹی کے ایک باعزت رکن کے طور پر متعارف کروایا اور اس کے حقوق و فرائض کا تعین کیا۔ آج سے ساڑھے 14 سو سال قبل خواتین کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا، اُسے خرید و فروخت کی ایک جنس کے سوا اور کوئی شناخت حاصل نہیں تھی۔ بیٹی کی پیدائش کو ایک برا شگون سمجھا جاتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی روش عام تھی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی اس ظالمانہ اور جاہلانہ رویے کو اسلام نے بیک جنبش قلم ختم کیا اور خواتین کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بہو کے روپ میں عزت و آبرو سے نوازا اور اس کے تحفظ کے لئے اہم اقدامات اٹھائے۔ پیغمبرِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺ اپنی بیٹی سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرہ سلام اللہ علیہا سے بے حد محبت کرتے تھے، ان کے احترام میں کھڑے ہوتے اور انہیں بٹھانے کے لئے اپنی چادر مبارک بچھاتے تھے۔ اسلام نے ویمن امپاورمنٹ کے حوالے سے جو سب سے پہلا اور بڑا قدم اٹھایا وہ ان کا معاشی تحفظ تھا۔ خواتین کو وراثت میں حصہ دار بنایا گیا، ویمن امپاورمنٹ کا دوسرا سب سے بڑا اسلامی قدم مردوں اور عورتوں کی مساوی تعلیم و تربیت کا ہے۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی تعلیم کے دروازے کھولنے کے احکامات دئیے اور والدین کو ترغیب دی کہ وہ بیٹیوں کی بہترین تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کریں اور بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی تکمیل میں بطور باپ اپنے فرائض انجام دینے والوں کو آخرت میں انعام و اکرام کی بشارات سے نوازا گیا ہے۔ اسلام نے بلا مطالبہ خواتین کو جو حقوق ساڑھے 14سو سال قبل دے دئیے تھے ان حقوق کے لئے 19 ویں صدی تک یورپ کی خواتین سرگرداں تھیں اور کوئی ان کی حالت زار پر توجہ نہیں دے رہا تھا ۔خواتین کی حقیقی امپاورمنٹ، انہیں تعلیم دینا اور قرآن و سنت کے احکامات کے مطابق انہیں وراثت میں سے حصہ دینا ہے۔ افسوس پڑھے لکھے اور ان پڑھ خاندان خواتین کو ان کے وراثتی حق سے محروم رکھنے کے لئے حیلے، بہانے تراشتے ہیں، ان کا معاشی حق غصب کرنے کے لئے ان کی بروقت شادیاں نہیں ہونے دیتے، خاوند تنازع کی صورت میں نان و نفقہ اور حق مہر سے محروم رکھنے کے لئے کبھی الزام تراشی اور کبھی کردار کشی کا سہارا لیتے ہیں۔ بے شمار واقعات میں خواتین کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے اور تیزاب سے جلائے جانے کے واقعات بھی عام ہیں۔ خواتین کو حقوق و فرائض سے بے خبر رکھنے کے لئے ان پر تعلیم کے دروازے بھی بند کیے جاتے ہیں۔ جو خاندان اور افراد اس نوع کی کرپٹ، غیر قانونی اور غیر اسلامی پریکٹسز میں ملوث ہیں وہ یاد رکھیں یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا راستہ ہر گز نہیں ہے، یہ ابوجہل اور اسلام سے قبل کے عرب ظالمین کفار کا راستہ ہے جو خودغرضی پر مبنی مختلف خود ساختہ وجوہات کی آڑ لے کر بیٹی کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ عورت کا استحصال کرنے والے یورپ کی کاسمیٹک خوبصورتی سے مرعوب کچھ خواتین عورت کے حقوق کے نام پر مشرقی اسلامی اقدار کو ملیا میٹ کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور عورت کے تحفظ کے بچے کھچے فائبر کو تار تار کرنے پر بضد ہیں۔ اگرچہ ایسی مٹھی بھر خواتین کو کسی بھی موقع پر پذیرائی نہیں ملی تاہم اگر ہمارا میڈیا اسی طرح ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہا اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ حقوقِ نسواں کی اسلامی اقدار کا تحفظ کرتے رہے تو یہ مٹھی بھر عناصر اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 34کے مطابق ’’ قومی زندگی کے تمام شعبوں میں عورتوں کی مکمل شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے‘‘ حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے اس آرٹیکل کی روشنی میں خواتین کی امپاورمنٹ کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ تھانوں، دفتروں، عدالتوں ، ورکنگ پلیسز پر خواتین کو جن مسائل اور ہراسمنٹ کا سامنا ہے اسے پوری ریاستی طاقت استعمال کر کے ختم کروایا جائے۔