فکرِ شیخ الاسلام: عظمت معراج مصطفی ﷺ کے چند پہلو

نازیہ عبدالستار

اللہ رب العزت نے یہ ارشاد فرمایا:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا.

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی۔

(بنی اسرائیل، 17: 1)

سفر معراج کے مختلف مرحلے:

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے برگزیدہ خاص اور مقرب بندے کو سیر کروائی۔ رات کے تھوڑے سے حصے میں بڑی سیر کروائی یعنی عالَم مکان اور عالم لامکان کی سیر کروائی، مادی اور بشری سفر مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ تک مکمل ہوا پھر مسجد اقصیٰ سے عروج شروع ہوا۔

گویا آپ خلاء میں داخل ہوگئے جو کرہ ارضی سے لے کر پہلے آسمان تک کے حصے پر مشتمل ہے۔ جس کو آج کی سائنسی زبان میں سپیس کہتے ہیں، آپ ﷺ جب پہلے آسمان سے ساتیں آسمان پر پہنچے جو جبرائیل امین کا مقام ہے۔ اس پر جبریل امین بھی رک گئے۔ عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ میرا اس سے آگے جانا ممکن نہیں، کیونکہ آگے اللہ رب العزت کی خاص تجلیات کا نزول ہورہا ہے۔ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔

براق کی سواری:

آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہٰی سے براق پر سوار کروایا گیا۔ جب براق جو سراسر نور تھا بلکہ پیکر انوار تھا، براق برق کی جمع ہے۔ بجلی کو بانور کہتے ہیں۔ بجلی اور نور کی طاقت کا اندازہ اس سے لگا جا سکتا ہے۔ اگر ایک جگہ بجلی گر جائے تو انسان جل جاتا ہے، اس طاقت کا عالم یہ ہے کہ ایک لاکھ چوراسی ہزار میل 84000 ایک سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ براق ایک روشنی نہیں تھا بلکہ ملٹی پر لائٹ براق تھا۔ وہ بھی رک گیا آگے نہ بڑھ سکا ۔

رف رف کی سواری:

وہاں سے رف رف پر حضور علیہ السلام کو سوار کیا گیا۔ رف رف ایک نوری تخت تھا، حضور علیہ السلام کو رف رف پر بٹھانے کا مقصد یہ تھاکہ حضور علیہ السلام کو اوپر بٹھا کر تخت نشین کردیا گیا، گویا آپ عالم لامکان میں تخت نشین ہوئے اور ساری کائنات عالم بالا آپ کی سلطنت بن گئی۔ جب تخت رف رف پر جلوہ افروز ہوئے تو حضور علیہ السلام کو لامکان عبور کروایا گیا، ایک مقام وہ آیا کہ رف رف بھی رک گیا وہ بھی آگے نہیں جاسکتا تھا۔

بقعہ نور کی سواری:

اب اگلے سفر کے لئے ایک بقعہ نور یعنی خالص نور کا ایک جھرمٹ بھیجا گیا جس نے حضور ﷺ کوکملی میں چھپالیا، اس نور میں آقا علیہ السلام کو مقام دنی تک پہنچایا گیا، پھر نور کے بعد آگے کچھ بھی نہ تھا، رب تھا اور ایک مصطفی ﷺ تھا اور یہ مقام دنی تھا۔ جس کو قرآن مجید نے کہا:

ثمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی.

(النجم، 53: 10)

اب جب حضور قریب ہوئے، کچھ بھی نہ رہ گیا تھا، نہ بقعہ نور رہا، نہ رف رف رہا اور نہ براق رہا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام رہے نہ عالم بشریت رہا اور نہ عالم نور رہا۔

نور وبشر پر لڑنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ:

حضور ﷺ کے نورو بشر کو اپنے عقلوں و علموں میں تولتے تولتے جن کی زندگی بسر ہوگئی، ان سے سوال کرنا چاہئے کہ کس بشریت کے پیمانے پر آپ حضور ﷺ کو تولتے ہیں، بشریت کی دنیا کے سردار کون ہیں؟ دراصل انبیاء علیہم السلام سے اونچے درجے کی بشریت کسی انسان کی نہیں، وہ بشریت حضور ﷺ کو حاصل ہے۔ کوئی پیغمبر بشریت سے خالی نہیں بشمول حضور ﷺ کی ذات گرامی کے، اس کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے۔ یہ کہنا کہ انبیاء علیہم السلام میں بشریت نہیں ہے۔ یہ کہنا کفر ہے مگر جو بشریت ان کو حاصل ہے وہ ایک شان ہے، وہ ایک لباس ہے جو ان کو پہنا کر بھیجا جاتا ہے کیونکہ بشروں میں آرہے ہیں تو ان کو بشر بن کر آنا چاہئے۔جب بشروں میں بشر بن کر نہیں آئیں گے تو نظر کیسے آئیں گے؟

اگر یہ خیال کیا جائے کہ وہ محض بشر تھے۔ معراج کی رات بشریت تو مسجد اقصیٰ تک رہ گئی۔ تمام انبیاء و تمام رسل مقتدی اور آپ امام ہوگئے۔ پورا عالم بشریت تو معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہیں ہمارے نبی سب کو چھوڑ کر اوپر چلے گئے۔ صرف بشر ہوتے تو اوپر نہ جاسکتے جبکہ حضور ﷺ خلا بھی کراس کرگئے اور عالم نور میں داخل ہوگئے۔

ذات مصطفی ﷺ کی اصل حقیقت:

عالم نور میں داخل ہونے کے لئے کوئی بشربراق پر سواری نہیں کرسکتا، یہ تو عالم انوار کی سواری ہے۔ اگر بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ نہیں لگاسکتے دراصل بجلی کی تار پر ربڑ کا میٹریل چڑھتا ہوتا ہے، تو تار کام آتی ہے اگر اوپر سے کٹ جائے، ہاتھ لگنے سے جان چلی جاتی ہے، تار نور بشر کا امتزاج ہے، اندر نور ہے باہر بشر چڑھا ہوا ہے، تار کی وجہ سے روشنی ملتی ہے، ٹیوبیں جلتی ہیں، بلب جلتے ہیں، اجالا ہوتا ہے اس سے الیکٹرک کا سسٹم چلتا ہے۔

تار کی مثال:

اس دنیا کی مادی روشنی کو پھیلانے کے لئے رب نے ایک تار بنائی۔ تانبے کی تار کو سنبھالنے کے لئے ایک ربڑ چڑھایا۔ نور ایک کرنٹ ہے۔ نادان شخص ہوگا جو سمجھے کہ ٹیوبیں بھی جل رہی ہوں، بلب بھی جل رہے ہوں، کہے کہ یہ سارا کچھ ربڑ ہی ربڑ ہے، جس طرح مادی نور کو سنبھالنے کے لئے رب نے ربڑ کے لبادے چڑھا رکھے ہیں، وہ عالم نور ہے جب نبی کے نور پر آفتاب کا نور بھی ماند پڑھ جائے، یہاں جبریل امین کانور بھی جواب دے جائے، فرشتوں کا نور بھی جواب دے جائے، رف رف کا نور بھی جواب دے جائے، عالم لامکان کا بقعہ نور بھی جواب دے جائے، جہاں سارے انوار نیچے رہ جائیں اس نبی کے نور نے ہمیں فیض دیا۔

اس نور کی ایک صفاتی تجلی طور پر پڑی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے تھے ۔

معلوم ہوا حضور ﷺ میں بشریت کے ساتھ نورانیت بھی ہے۔ آپ ﷺ مقام دَناَ پر پہنچے وہاں نہ کسی بشر کی مجال ہے اور نہ کسی نور کی مجال تھی۔

ثمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی دَنَا پر جلوہ مصطفی ﷺ ہے ۔ مقام تدلی پر جلوہ خدا ہے، قرب بڑھتا گیا قریب ہوئے دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا۔

فاصلے کے ذریعے مثال دینے کی حکمت:

فاصلہ ہمارے لئے بتایا کیونکہ ہم فاصلے کے بغیر نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً گھڑی کو آنکھوں کے اوپر رکھ لیں ہونا یہ چاہیے تھا زیادہ نظر آئے کہ آنکھوں کے بالکل قریب ہوگئی ہے جبکہ نظر نہیں آتی، قاعدہ یہ ہے کہ دیکھنے کے لئے کچھ فاصلہ چاہئے۔ ہماری حقیقت یہ ہے۔ فاصلہ ہو تو نظر آتا ہے۔ اللہ جانتا تھا کہ یہ فاصلے والے لوگ ہیں ان کوفاصلے کے بغیر بات ہی سمجھ نہیں آتی۔

باری تعالیٰ کیا حضور کا معراج یہاں ختم ہوا، فرمایا: ختم یہاں نہیں ہوا۔ بس تمہاری سمجھ یہاں ختم ہوگئی، قاب قوسین دو کمانوں کا فاصلہ تمہیں سمجھانے کے لئے بتایا، فاصلہ نہ ہو تو تمہیں سمجھ نہیں آسکی۔ پھر جلوہ مصطفی ﷺ اور جلوہ خدا کے سب فاصلے مٹادیئے گئے۔ کوئی فاصلہ نہ رہا۔ سارے فاصلے شب معراج مٹادیئے گئے۔ ایک فاصلہ رکھ لیا۔ وہ رب رہا۔ یہ اس کا بندہ رہا۔

حد تو قاب قوسین تھی۔او ادنیٰ کہہ کر خود رب نے مٹا دی، ہم لوگ کون ہیں حد بڑھانے والے، حد گھٹانے والے، جو گھٹائے گا اپنا ایمان تباہ کرے گا اور بڑھانے کا تو قصہ ہی کوئی نہیں۔ بس ایک ہی معاملہ ہے۔ خدانہ جانو حضور کو، عبد کو معبود نہ جانو، باقی سب کچھ جانو یہ ایمان ہے، یہ عقیدہ ہے۔

تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
اللہ ہی کو معلوم کیا جانئے کیا ہو

اعلیٰ حضرت کہتے ہیں:

اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی کی طرف گئے تھے

بس اتنا عقیدہ رکھنا چاہیے کہ حضور خدا نہیں، خدا مصطفی ﷺ نہیں اس فرق میں فرق ڈالنا بھی کفر ہے۔

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.

حضور کی نگاہیں جم گئیں، جب جلوہ کیا۔

فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰیo

پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اللہ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔

(النجم، 53: 10)

رب نے باتیں کیں اپنے محبوب بندے سے جو باتیں کیں، اس نے وحی کی جو وحی کی صرف اتنا بتایا ہے۔ پوچھا محبوب! میرے لئے کیا تحفہ لائے ہو؟ عرض کیا باری تعالیٰ

اَلتَّحِیِّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ.

مولا جانی، قولی، مالی، بدنی ساری عبادتوں، نیاز مندیوں کا تحفہ لایا ہوں۔ اللہ پاک نے قبول فرمایا۔ جواب میں تحفہ کیا دیا؟ محبوب تم سلامت رہو۔ جواب میں حضور نے عرض کیا مولا! اکیلا میں نہیں میری امت بھی سلامت رہے۔

اَلسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِاللّٰهِ الصّٰلِحِیْنَ.

مختلف مقامات کی سیر:

جب جلوہ حق کو تک رہے تھے، کوئی اور شے درمیان میں حائل نہ تھی۔ اللہ نے فرمایا: سلامت رہو عرض کیا کہ مولا! میری امت بھی سلامت رہے۔ یہ آقا علیہ السلام کی عظمت تھی اپنی امت کو نہ بھولے جبکہ ہم جیتے جی اپنے آقا کو بھول گئے، وہ وہاں جاکر بھی نہ بھولے۔ کتنی مدتیںگزر گئیں، کوئی اندازہ نہیں، کتنی دیر تک کلام ہوا، عالم ھاھوت کی کتنی سیر ہوئی، کوئی پتہ نہیں عالم لاھوت کی کتنی سیر ہوئی، کوئی اندازہ نہیں۔ عالم ملکوت کی کتنی سیر ہوئی کوئی اندازہ نہیں، عالم جبروت کی کتنی سیر ہوئی کوئی اندازہ نہیں جنت کی سیر ہوئی، دوزخ کا معائنہ فرمایا۔ دیدار کروایا، سدرۃ المنتہٰی پر فرشتے ملے، بار بار چھٹے آسمان پر پلٹ کر گئے۔

موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات اور معراج کا تحفہ:

موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوتی رہی۔ رب نے پچاس نمازیں دے دیں وہ چاہتا تو شروع سے ہی پانچ دے دیتا، لوگوں کی منفی سوچ نے فتنہ پیدا کردیا، کہتے ہیں کہ اگر حضور ﷺ کو علم ہوتا تو بالآخر پانچ نمازیں لے جانی ہیں تو شروع سے ہی پانچ لاتے۔ اللہ کو معلوم تھا کہ بالآخر پانچ ہی دینی ہے پچاس دے بھیجیں، اس کے اندر ایک راز محبت ہے۔ ان جھگڑوں میں وہی پڑتے ہیںجنہوں نے مَے نہیں چکھی، جن کو معلوم نہیں رموز سرِ، جنہیں دل ہی نصیب نہیں، انہیں دل کا حال کیا نصیب ہوگا۔ جنہوں نے میخانے کا منہ نہیں دیکھا، انہیں ان لذتوں اور سرشاریوں سے کیا غرض وہ تو جھگڑا ہی کریں گے اور جو پی لیتے ہیں وہ کہتے ہیں:

چپ کر مہر علی ایتھے تھاں نہیں بولن دی

حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ:

سورہ یوسف میں واقعہ ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی بڑی مدت کے بعد مصر میں غلہ لینے کے لئے آئے۔ ان کے حقیقی بھائی بنیامین تھے، بھائی نہیں پہچان سکے۔ ان کا دل چاہا کہ میں بنیامین کو اپنے پاس روک لوں، وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ظاہر ہو، اشتیاق اور محبت کا یہ عالم ہے کہ میں یوسف ہوں یہ راز بھی کھل جائے، رکھنا بھی چاہتے ہیں۔ کارندوں کو کہا کہ میرے بھائی بنیامین کے سامان میں کچھ چیزیں ڈال دیں، سامان بند ہوگیا جب چلنے لگے لوگوں نے آکر کہا کہ ہمارا کچھ سامان غیب ہے، یوسف علیہ السلام نے کہا ان کی تلاشی لو، جس سے ہماری چیزیں ملیں گی اس کو ہم روک لیں گے، باقیوں کو جانے دیں گے، بنیامین کا سامان کھلا تو چیزیں مل گئیں۔ انہوں نے کہا تم جاؤ اپنے والد کو جاکر بتائیں بھائی بنیامین کے سامان سے چیزیں نکلی تھیں اس لیے روک لیا ہے۔ قرآن مجید نے یوسف علیہ السلام کا ایک واقعہ سنایا ہے۔

نبی کریم ﷺ کو بار بار واپس بھیجنے کی حکمت:

خدا نے اپنے محبوب کے سامان میں پچاس نمازیں ڈال دیں موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر کھڑا کردیا۔ حکم دیا! موسیٰ علیہ السلام جب میرا محبوب آئے تو پوچھنا: کتنی نمازیں لائے ہو۔ جب محبوب کو کہو گے کہ پچاس نمازیں امت نہیں پڑے گی، فوری تشویش میں بخشوانے واپس آئیں گے۔ میں بھی پھر پانچ بخشوں گا، اکٹھی نہیں۔ پانچ بخش کے سامان میں رکھوں گا اور بھیج دوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام پوچھیں گے محبوب کتنی نمازیں ہیں فرمائیں گے 45۔ وہ کہیں گے حضور زیادہ ہیں کچھ اور بخشوائیں پھر آئیں گے۔ میں پھر پانچ بخشوں گا، تو بار پلٹ کے بھیجتے رہنا۔ ادھر آئے گا میں تکتا رہوں گا تیرے پاس آئیں گے تو تکتے رہنا۔ سارے کام ہوجائیں گے۔ پلٹ پلٹ کر جب محبوب آئے گا مجھے تکتا رہے گا اس کا بھی کام ہوتا رہے گا۔ میں اس کا جلوہ کروں گا، میری خوشی بھی ہوگی۔ بات چیت بھی ہوگی پلٹ کر تیرے پاس جائے گا۔ ہر بار تو بھی تکتے رہنا یہ محبوب کی بھی معراج ہے، موسیٰ تیری بھی معراج ہے اور امت کی بھی معراج ہے۔

عالم ہاھوت کا سفر کھربوں سالوں کا ہے:

اور یہ سارے سفر طے کرکے عالم ملکوت جبروت عالم لاہوت عالم ناسوت عالم ھاھوت ساری بڑی سیریں خدا جانے کتنے کروڑوں سال وہاں بیت گئے ہوں گے، تارے جو جھل مل کرتے رات کو ہمیں دکھائی دیتے ہیں، وہ روشنی آج رات کی نہیں ہوتی، کروڑوں سال پہلے کی چلی ہوئی ہوتی ہے، جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں صدیوں، ہزاروں، لاکھوں سال، اربوں سال پرانا منظر ہے، خلا میں ان کی روشنی کروڑوں سال بعد پہنچ رہی ہے۔ آقا علیہ السلام کروڑوں مسافتیں نیچے چھوڑ کر پہلے آسمان پر تشریف لے گئے، کیا حضور کا سفر کروڑوں اربوں سالوں کا ہوگا، پھر یہ ساری مدتیں، سارا سفر طے کرکے واپس آگئے۔ یہ سارا کچھ رات کے چند لمحوں میں ہوا، وقت تھما رہا، ساری مدتیں اور سارے سال رات کی چند گھڑیوں میں بیت گئے۔ فرمایا:

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰیo

قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔

(النجم، 53: 1)

تاروں کی روشنی جو چار ہاتھ کے فاصلے پر ہے وہ کروڑوں سال بعد پہنچتی ہے۔ جب نبی ﷺ کھربوں سالوں کی مسافتیں طے کرکے واپس آئے تو ایسے لگا جیسے پانی بھی ابھی چل رہا ہے، کنڈی ہل رہی ہے، بستر بھی ابھی گرم تھا، سارا کچھ ابھی ویسے ہے لیکن آپ نے زمانے بھی گزار دیئے، سیریں بھی کرلیں مگر وقت کچھ بھی نہیں بیتا۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا.

پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اے محبوب! تجھے سیریں کروائی۔

(بنی اسرائیل، 17: 1)

واقعہ معراج کا پیغام:

پیغام واقعہ معراج کا یہ ہے جب حضور واپس آنے لگے تو اللہ نے نمازوں کا تحفہ دیا، ہر فرض زمین پر ملا مگر نماز اوادنیٰ سے ملی۔ اس لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ نماز مومن کی نماز ہے، جو نماز پڑھتا اسے قاب قوسین کی لذتیں نصیب ہوتی ہیں۔