تربیتِ اولاد ایک اہم چیلنج اور حائل رکاوٹیں

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم رانا

جب کسی باغبان کے گلشن میں کوئی نئی کونپل پھوٹتی ہے تو اس کے ساتھ اس کی امیدوں کا چمن بھی کھِل اُٹھتا ہے۔ اس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کونپل ایک شجرِ تناور بنے۔ چنانچہ وہ اس کی آبیاری کرتا ہے، اسے ناموافق موسموں سے بچاتا ہے، اس کی کانٹ چھانٹ کرتا ہے، حتی کہ وہ پودا برگ و بار لاتا ہے، پھل پھول دیتا ہے، پھر کئی بہاریں گزارنے کے بعد وہ ایک شجرِ سایہ دار بنتا ہے، بیٹھنے والے پھر اس کی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں اور اس کے پھل سے لطف اٹھاتے ہیں۔ یہ ایک فطری سائیکل ہے جو کسی بھی چیزکی تخلیق میں کار فرما ہوتا ہے۔

یہی معاملہ انسان کی اولاد کے ساتھ بھی ہے۔ بچے کا مل جانا ایک نعمتِ خداوندی ہے، لیکن اس نعمت کے مل جانے کے بعد ایک باغبان کا کردار ادا کرنا والدین کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اگر تو وہ اس ذمہ داری کو خاطر خواہ انداز میں پورا کریں گے تو اس نعمت کا پھل خود کھائیں گے اور دوسروں کو بھی تقسیم کریں گے، اور اگر کوتاہی کریں گے تو اس نعمت سے ثمر یاب ہونے سے محروم ہو جائیں گے۔

والدین کی کوتاہی کیا ہوتی ہے؟ کبھی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کی پرورش میں لا پرواہی کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بچے ابتداہی سے کمزور، کم ہمت، پثر مردہ، بلکہ گلِ مردہ بن جاتے ہیں۔تربیت اولاد میں جو رکاوٹیں سب سے زیادہ حائل ہوتی ہیں ان، میں سے درج ذیل یہ ہیں :

محبت میں افراط و تفریط:

محبت میں افراط و تفریط بچوں کی مناسب تربیت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ تربیت کی راہ میں محبت کی روش اس وقت مفید و موثر ہو سکتی ہے جب حد اعتدال سے خارج نہ ہو اور افراط و تفریط تک نہ پہنچے جبکہ عدم توجہ اور محبت کی کمی، بچوں کو غلط راہ پر ڈال دیتی ہے۔ ایسی محبت جو بچوں کے رشد و ارتقاء کا سبب بن سکتی ہے وہ وہ محبت ہے جس میں اعتدال و واقعیت ہو، جو تکلف و تصنع سے عاری اور ان کی عمروں، حالتوں سے مناسبت رکھتی ہو۔

بچوں کی ذہنی و روحی تربیت میں محبت کا کردار غذا کی طرح ہے جس طرح سے غذا کی کمی و زیادتی اس کے جسم کے اوپر مثبت و منفی اثر ڈال سکتی ہے اس طرح سے محبت و توجہ کی کمی و زیادتی اس کے دل و دماغ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

رویے کی سختی:

بچوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ یا انتہائی سخت لب و لہجہ ان کی تربیت میں بہت بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے اور بہت منفی اثر ڈالتا ہے۔ جس طرح سے گزشتہ زمانوں میں بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے بہت سے غلط اصول و ضوابط مثلا ان سے تحقیر آمیز سلوک کرنا، انہیں سخت کاموں کے لیے ہدایت دینا، برا بھلا کہنا، گالی دینا، خلاصہء کلام یہ کہ ان کی شخصیت کو درک نہ کرنا، وغیرہ پر عمل کیا جاتا تھا جس کا نتیجہ تند خوئی و اضطراب، بدبینی، کینہ توزی اور برائیوں کے ارتکاب کی شکل میں سامنے آتا کرتا تھا۔ عصر حاضر میں علوم کی ترقی اور علم النفس وغیرہ کی تحقیقات کے منظر عام پر آنے سے، جس کے تحت بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کی روش میں یہ سعی کی جاتی ہے کہ ان سے محبت آمیز سلوک ہو تا کہ ان سے گزشتہ زمانوں والی برائیوں کا ارتکاب سامنے نا آئیں۔ مگر والدین کے افراط اور بیجا لاڈ پیار سے اس طرح کی دوسری نازیبا باتیں بچوں میں جنم لینے لگتی ہیں جو ان کی غلط تربیتی روش کا نتیجہ ہیں اور جس کے نتیجہ میں پر توقع، خود سے راضی، کمزور، جلدی ناراض ہو جانے والے بچے وجود میں آتے ہیں جو زندگی میں پیش آنے والی ہلکی سی سختی اور تنگی میں مایوسی، کینہ توزی، ذہنی و روانی امراض، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور تعلیمی و تربیتی و معاشرتی زندگی میں شکست سے دوچار ہو جاتے ہیں۔

لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دل کی گہرائیوں سے چاہیں مگر کھلی آنکھوں کے ساتھ ان کی برائیوں پر بھی نظر رکھیں اور نہایت ہوشیاری سے ان کی اصلاح کریں۔ محبت و عشق فطری ہے مگر اس کے مقابلہ میں ہمارا رد عمل اور ہوشیاری دکھنا بھی ضروری ہے۔ بچوں کی جائز و ناجائز باتوں پر بغیر قید و شرط کے ہاں کہنا صحیح نہیں ہے، ڈانٹ پھٹکار کے بجائے پیار کرنے سے نہ صرف یہ کہ نتیجہ ٹھیک نہیں نکلے گا بلکہ ان کی شخصیت پر ایسا منفی اثر ڈالے گا کہ جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔

محبت میں برابری و مساوات:

گھر میں جتنے بچے موجود ہوں، ان سب کے ساتھ محبت، شفقت، گفٹ یا دیگر چیزیں دینے میں اگر برابری اور مساوات قائم نہ کی جائے تو یہ بچوں کی تربیت میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب سے محو گفتگو تھے کہ ایک بچہ بزم میں وارد ہوا اور اپنے باپ کی طرف بڑھا، جو ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، باپ نے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے داہنے زانو پر بیٹھا لیا، تھوڑی دیر کے بعد اس کی بیٹی وارد ہوئی اور باپ کے قریب گئی، باپ نے اس کے سر پر بھی دست شفقت پھیرا اور اپنے قریب بیٹھا لیا، آنحضرت (ص) نے جب اس کے دوسرے سلوک کو ملاحظہ کیا تو فرمایا: اسے تم نے اپنے دوسرے زانو پر کیوں نہیں بیٹھایا؟ تو اس شخص نے بچی کو اپنے دوسرے زانو پر بیٹھا لیا تو آپ (ص) نے فرمایا:

اعدلوا بین ابناء کم کما تحبون ان یعدلوا بینکم فی البر و الطف.

اپنے بچوں کے درمیان عدالت سے پیش آؤ، جس طرح سے تم پسند کرتے ہو کہ تمہارے ساتھ نیکی اور محبت میں مساوات کے ساتھ سلوک کیا جائے۔ لہذا بچوں کے درمیان عدالت و مساوات کے ساتھ پیش آنا، تربیت کے اہم نکات میں سے ایک ہے، جس کی رعایت نہ کرنے سے برے آثار و نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔

تربیت کی بجائے صرف تعلیم پر زور:

صرف تعلیم پر زور دینا اور تربیت کو نظر انداز کر دینا بچوں کی بہترین اور مثالی کردار سازی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بچوں کی زندگیاں والدین کے گردگھومتی ہیں، بچہ ہر معاملے میں ان کا محتاج نظر آتا ہے۔ اپنی زندگی کا ہرمشورہ اور فیصلہ اپنے ماں باپ کی مرضی سے کرتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ تعلیم کے بغیر دنیا میں بہت سی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو نکھارتی اور سنوارتی ہے۔ جونہی بچہ پیروں پر کھڑا ہوتا ہے ماں باپ اسے تعلیم دینے میں مصروف کر دیتے ہیں جیسے بچہ سمجھ دار ہونے لگتا ہے ماں باپ اس پر زور دینا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ بن کر ان کا نام روشن کرے۔ سوال یہ ہے کہ ماں باپ کا اصل مقصد بچوں کو دنیاوی تعلیم دینا ہوتا ہے؟ کیا تعلیم اور تربیت کے موازنے میں تعلیم کو برتری حاصل ہے؟ اس سوال کاجواب یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر رہے بلکہ صرف تعلیم حاصل کرنے پر ہی زور دے رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی افادیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارے ہاں محض تعلیم ہے مگر تربیت کا فقدان نظر آتا ہے اسی لیے یہاں تعلیمی نظام کے بہتر نتائج سامنے نہیں آپاتے۔ اگر تربیت بچپن سے ہی کی جائے تو اور زیادہ بہتر ہے تربیت کے لیے ضروری نہیں کہ وہ درسگاہ میں ہی کی جائے بلکہ وہ تربیت جو گھر پر کی جاتی ہے، عام طور پر زیادہ موثر و مضبوط ہوتی ہے پھر گھر پر تربیت کرنا زیادہ آسان بھی ہوتا ہے۔

قول و فعل کا تضاد:

والدین کی اپنی زندگی میں قول و فعل کا تضاد بچوں کی تربیت میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ والدین سب سے پہلے خود نیک ہوں اورجس چیز کی تربیت اولاد کودیں پہلے اس پر خود عمل پیرا ہوں، بچے بہت سی باتیں اپنے والدین کی نقل وحرکت اور ان کے کاموں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچے بات کرنے کا انداز چھوٹے بڑے کا ادب، رہن سہن کے آداب وغیرہ اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔ اگر بچپن میں والدین اپنے بچوں کو بہتر طریقے بتاتے ہیں تو وہ بہت حد تک اپنے والدین کی باتوں اور ان کے ماحول کو اختیار کر لیتے ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ آج کل مسلم معاشرہ کے بہت سے گھرانوں کا ماحول اس قدر آزاد ہوگیا ہے کہ اولاد پر اس کا اچھا اثر مرتب ہوتا نظرنہیں آتا۔ والدین رات کو دیر تک جاگتے اور دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ بچوں بھی اسی روایت کے امین بن گئے۔ دن بھر گھروں میں ٹی وی چلتا رہتا ہے، جسے والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ چھوٹے بچوں کو بھی ٹی وی کی عادت پڑجاتی ہے۔ ایک تو اس سے ضیاع وقت ہوتا ہے دوسرے بہت سی منفی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

سوشل میڈیا کے منفی اثرات اور بےجا استعمال:

سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے پیدا ہونے والے منفی اثرات ہمارے بچوں کی شخصیت سازی اور تربیت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ یہ دور میڈیا کا ہے اور میڈیا کی اقسام میں سوشل میڈیا کا کردار بہت نمایاں ہوگیا ہے اس وجہ سے بچے، جوان، بوڑھے یعنی عورت ومرد میں سے سار ے قسم کے لوگ اس سے جڑ گئے ہیں اور چوبیس گھنٹوں کا اسے اپناساتھی بنالیا گیا ہے۔ آج فتنے کا دور دورہ ہے، قسم کی قسم کی آزمائشیں اورطرح طرح کے فتنہ وفساد جنم لے رہے ہیں سوشل میڈیا کی آمد نے ان فتنوں کو مزیدبڑھاوا دے دیاہے۔ ہم مسلمانوں کے لئے سوشل میڈیا کے اس پرفتن دور میں بچوں کی تربیت پہ ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ بہت ہی کٹھن اور سنگین سوال ہے۔ بچوں کی فطرت میں ضد ہے اگرہماری غفلت سے اسے سوشل میڈیا کے استعمال کی ضد ہوگئی تو والدین کیا پوری دنیا کی طاقت اسے اس ضد سے دور نہیں کرسکتی پھر اس کی جوانی، بڑھاپا اور پوری زندگی برباد ہوجائے گی۔ اس دور کا المیہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش پر ہی کھیلنے کے لئے نٹ موبائل ہاتھ میں تھمادیا جاتا ہے، یہ بچے جوں جوں موبائل سے مانوس ہوتے ہیں اس سے ان کی دلچسپی گہری سے گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ تنہائی کا خوگر ہوجاتا ہے۔ اسے پڑھائی میں دل نہیں لگتا، دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنا اور ان کے یہاں جاناپسند نہیں آتا وہ تنہائی چاہتا ہے۔ نٹ والا موبائل اس کے ذہن کو اپنی مرضی کا سکون دیتا ہے۔ وہ جس قدر اس کا عاشق بنتا جائے گا اسی قدر اس کے اندر اخلاقی پستی، دیوانگی، تشدد، چڑچڑاپن، اکیلاپن، ناچ گانا، فحش کام، بے ہودہ گوئی، قبیح حرکت اور لایعنی اقوال وافعال کا رسیا ہوتا چلا جائے گا۔اگر ہم اپنے بچوں کا بچپن بچانا چاہتے ہیں اور اسے تاریک زندگی کی بجائے روشن مستقبل دینا چاہتے ہیں تو ابھی اسے موبائل سے دور رکھنا ہوگا۔

دینی تعلیم و تربیت کا فقدان:

سائنس اور دنیاوی تعلیم کی دوڑ میں دینی تعلیم و تربیت کو نظر انداز کر دینا ہماری اولادوں کی تربیت میں منفی اثر پیدا کر رہا ہے۔ سب سے اہم تربیت روحانی ہے۔ یہی تو ہماری اسلامی شناخت ہے۔ نبی ﷺ نے بچپن سے بچوں کو تعلیم دی، اخلاق سکھائے، آداب سے آگاہ کئے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اورسونے جاگنے کے اصول بتائے۔ ہم میں سے اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے جب بڑا ہوجائے گا تو خود ہی سمجھ جائے گا۔ نہیں، ہمیں اپنے بچوں کی ابھی سے ہی تربیت کرنی ہے۔ روحانی تربیت میں پہلی چیز توحید وعقائدسے آگاہ کرنا ہے اور اس کے برخلاف الحادی کام، شرکیہ اعمال، بدعیہ افعال اور کفر وضلالت سے تنفر دلانا ہے۔ روحانی تربیت میں دینی اور اسلامی تعلیم کے ساتھ عملی تطبیق بھی چاہئے، خالی باتوں سے فائدہ نہیں ہوگا اس لئے میں نے کہا کہ بچے اس کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں جو کرتے ہوئے کسی کو دیکھتے ہیں۔ آپ کو موبائل استعمال کرتے ہوئے دیکھے گا تو موبائل استعمال کرے گااور قرآن پڑھتے ہوئے دیکھے تو قرآن پڑھے گا۔ عملی تطبیق کے لئے اپنے ساتھ نماز پڑھنے مسجد لے جائیں اور نماز میں اپنی صف میں بغل میں کھڑا کریں، اسے وضو کرکے دکھائیں، غسل کرکے دکھائیں اور صفائی کے دوسرے طریقوں پر مطلع کریں۔ رمضان میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو روزہ رکھوائیں وغیرہ۔ اخلاق کریمہ سے واقف کرائیں مثلا سلام کرنا، چھینک پہ الحمد للہ کہنا، بڑوں کی تعظیم کرنا، والدین اور استاد کی خدمت کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، سوتے جاگتے اور پیشاب وپاخانہ جاتے آتے ذکر کرنا۔ اسی طرح برے اخلاق سے باخبر کرکے اس سے روکیں مثلا دوسرے بچوں کو مارنا، بڑوں کے ساتھ بے ادبی کرنا، والدین کو گالی دینا، چوری کرنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا وغیرہ ہے تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے بچوں کو جس قدر ہوسکے دور رکھیں۔

آزادی اظہار کو دبا دینا:

بچوں کی آزادی اظہار کو دبا دینا بچوں کی تربیت میں ایک رکاوٹ ہے جس سے بچوں کے ذہن پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گھر میں ایسا ماحول ہونا چاہیے کہ بچے والدین سے آزادانہ تبادلہ خیال کرسکیں۔ بالخصوص اگروہ گھرسے باہر کی بات کریں تو انہیں نظرانداز نہ کریں۔ توجہ سے ان کی سنیں، اگر کوئی تنگ کررہا ہے تواسباب جاننے کی کوشش کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اور جرائم پیشہ افراد بچوں کو اپنا آلہ کار بنانے کی کوشش کریں، کوئی فرد حسد اور رقابت کی وجہ سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر منفی طورپر اثر اندز ہونے کی کوشش کرے، کوئی اسے بلیک میل کرکے اس کی شخصیت کو تباہ کردے اور اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرے، بچہ کسی شخص کے خوف کی بناء پر کچھ ایساکام کرلے جس کی تلافی ناممکن ہو۔اس پر ڈر خوف نہ ہو کہ اگرمیں گھر میں ذکرکروں گا تو گھر والے سزادیں گے بلکہ وہ آزادی سے اپنے معاملات والدین کو بتاسکے۔ورنہ ان حالات سے دوچار ہونے کے بعد بچہ کی جسمانی، ذہنی،جذباتی اور سماجی نمو کا عمل سست ہوجاتا ہے۔اوروہ دل میں یہ حسرت لئے پھرتاہے کہ دل میں سینکڑوں باتیں ہیں لیکن کوئی میری سننے والا ہی نہیں۔ آزادانہ فیصلے کرنے دیں: آزادی ایک نفسیاتی تقاضہ ہے۔ انسان بچپن ہی سے آزادی کا خواہاں ہوتا ہے اور اپنے کاموں میں بڑوں کی مداخلت ناپسند کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر کے افراد اس کی انفرادیت، شخصیت اور آزادی کو تسلیم کریں۔ والدین بچوں پر ہر وقت احکام نافذ نہ کریں۔ ان کے سامنے متبادل (Alternate Options) رکھیں۔ جن امور میں بچے کی شخصیت کو نقصان پہنچنے کا امکان نہ ہوان امور کو بچے کی مرضی پر چھوڑدیں تاکہ انہیں بہتر چیز کا انتخاب کرنا آئے۔ اس عمل سے بچے کی ذہنی نشوونما میں اضافہ ہوگا۔ بچوں سے دریافت کریں کہ کن وجوہات کی بناء پر اس نے ردکیا یا ترجیح دی۔ بچوں سے خود مشورہ بھی لیں ان کی رائے کو اہمیت دیں۔ ایسا کرنے سے ان کے قوت استدلا ل اورزور بیان میں اضافہ ہوگا۔ان میں اعتماد کے ساتھ بروقت فیصلہ سازی کی صلاحیت پیدا ہوگی اور وہ آپ کی غیر موجودگی میں بھی بروقت فیصلہ کرنے کے قابل ہوگا۔ بروقت اورصحیح فیصلہ کرنا کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔

بچوں کے ذہن پر خوف کا مسلط ہونا:

خوف کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور نقصانات۔ اگر بچوں کے ذہن پر ہر وقت بے جا خوف مسلط کر دیا جائے تو بچوں کی تربیت میں رکاوٹ بنتا ہے۔ خوف تو یہ ایک فطری جذبہ ہے۔انسانی زندگی میں تین بنیادی خوف پائے جاتے ہیں۔ اچانک زورداردھماکہ ہونا، بلندی سے گرنا اورسہارا کاچھوٹ جانا۔ بنیادی طور پر ان تینوں قسموں میں عدم تحفظ کا احساس پایاجاتاہے۔اس کے علاوہ جتنے خوف ہیں وہ بچہ دوسروں کی باتوں، عملی تجربات اور کہانیوں اور افسانوں سے سیکھتا ہے۔ خوف اللہ رب العزت نے بڑے خطرات سے بچنے کے لئے پیدا کیا۔ مثلاً اگر بچہ بلاخوف وخطربے احتیاطی سے پرہجوم شاہراہ عبور کرے گا وہ کسی بڑے حادثہ کا شکار ہوسکتا ہے۔حادثہ کاخوف بچے کوایسا کرنے سے روکے گا۔لیکن بے جا ڈر اور خوف کا تدارک ہونا چاہئے اورکسی حد تک اسے بچے کی زندگی سے نکال دینا چاہئے۔ بالخصوص بچپن کے ڈر اورخوف کے نقوش تاحیات انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اوراس کی شخصیت کی تعمیر رک جاتی ہے۔

بچہ کی عزت نفس کا خیال نہ رکھنا:

بچوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا ان کی تربیت میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ بچہ کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے۔بعض اوقات وہ احساس جرم کا شکار ہوکر خود اعتمادی کھوبیٹھتا ہے جو بہت ہی نقصان دہ صورت ہے۔ احساس جرم ہوگا نہ تذلیل کیجئے قلب خود اعتماد نہ تبدیل کیجئے۔ بچے کوواضح طور پر معلوم ہو کہ کس غلط کام کی اسے سزا ملی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ سزا کے بعد یا اس سے قبل بچے کو سمجھایابھی جائے کہ سزا کسی دشمنی کی وجہ سے نہیں بلکہ رویوں میں بہتری کے لئے ہے۔کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جس معاملہ کے اسباب و پس منظر اس کے ذہن میں نہ ہو وہ اس پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ایسا کرنا بغاوت یا سرکشی نہیں بلکہ یہ فطری امر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے درمیان مکالمہ سے ثابت ہوتا ہے۔

قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا.

اس بندے نے کہا (اے موسیٰ) آپ میرے ساتھ صبرکرنے کی طاقت نہیں رکھتے اورآپ صبرکربھی کیسے سکتے ہیں اس بات پر جس کی آپ کو پوری طرح خبر نہیں"۔ یہاں اسی اہم فطری اور نفسیاتی تقاضہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔