سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراہ سلام اللہ علیہا

ڈاکٹر فرخ سہیل

معاشرے میں عورتوںکی حیثیت کے بارے میں ایک عرصے سے گفتگو جاری ہے اور اکثر و بیشتر کشمکش اور متضاد نظریات کی بنا پر عورتوں کی معاشرتی حیثیت پر ہونے والی مباحث منفی رنگ اختیار کرلیتی ہیں۔ لیکن اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ اسلام ہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت کو اس کے نام پر حقوق اداکرنے کا علم بلند کیا کیونکہ ماضی بعید میں بہت سے ایسے معاشرے بھی گذرے ہیں جن میں عورتوں کو انسانی معاشرے سے بالکل الگ شمار کیا جاتا تھا۔

اگرہم ماضی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیں تو یونانیوں میں عورت کا وجود شیطانی سمجھا جانا تھا۔ رومی قوم بھی عورتوں کو روح انسانی سے عاری گردانتی تھی جیسا کہ

اسی طرح ساسانی دورِ حکومت میں مالکی قوانین میں عورت کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی۔ لہذا ان کا شمار انسانوں کی بجائے اشیائے خرید و فروخت میں ہوتا تھا۔

یہودی قوم میں بھی عورت کی گواہی اور قسم کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں باپ کے لیے لڑکی کی پیدائش کو باعث ذلت سمجھاجاتاتھا۔ یہاں تک کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ لیکن اسلام کی آمد کے بعد عورتوں کوجو مقام و مرتبہ عطا کیا۔ اس کی مثال کسی مذہب میں بھی نہیں ملتی۔ اسلام نے انسانیت کو درس دیاکہ عورت مختلف صفات کی مالک ہے جیساکہ ایک مرد اور ایک انسان مختلف صفات کامالک ہوتاہے عورت بھی مردوں کی طرح ایک گوشت پوست کا انسان ہے جو ہر خوشی اور غم محسوس کرسکتی ہے وہ ایک متحرک وجود ہے۔

ہمارے ہادی و رہبر آقائے دوجہاں نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجۃ الکبریٰ کو جو مقام و مرتبہ عطاکیا وہ ہمارے سامنے ہے کہ آپ نے پہلی وحی کا تذکرہ سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا اور انہوں نے آپ کو تشفی دی۔ لہذا اس بات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کسی بھی مرحلے میں اپنی شریک حیات سے مشاورت کرنا کس قدر اہم ہے کیونکہ وہ شریکِ حیات سے بہتر شوہر کی شخصیت اس کے عادات و اطوار کو کوئی نہیں جان سکتا۔ (ماسوائے والدہ کے بشرطیکہ وہ حیات ہو) اسی طرح آپ کی حیات مبارکہ میں بیٹی کے مقام کی مثال آپ کی دخترجناب فاطمۃ الزہرا ہیں جن کی آمد پر نبیوں کے سردار رحمۃ للعالمین کھڑے ہوکر استقبال کرتے تھے اوریہ رسول جو کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے عالمین کے لیے رحمت قرار دیا وہ خود بیٹی کے وجود کو والدین کے لیے رحمت قرار دے رہے ہیں۔

حضرت فاطمہ پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ اور جناب خدیجۃ الکبریٰ کی نورِ نظر اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی رفیقہ حیات اور ام الحسنین شریفین تھی آپ کے مشہور القاب زہرا و سیدۃ النساء تھے۔ آپ کی ولادت نبی محترم کی معراج کے بعد 20 جمادی الثای یوم جمعہ کو مکہ معظمہ میں ہوئی۔ جناب سیدہ میں بچپن کے وہ آثار ہی نہ تھے جو عام لڑکیوں میں ہوا کرتے ہیں۔ روایات میں ہے کہ حضرت رسول اکرم جناب سیدہ کو اکثر اپنی آغوش میں بٹھا لیا کرتے تھے اور ان کے بوسے لیتے اور اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دے دیتے تھے۔ رسول اکرم کو اپنی اس دختر سے اس قدر محبت تھی کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

میری دختر فاطمہ اولین و آخرین تمام عالمین کی عورتوں کی سیدہ و سالار ہیں۔ وہ میرے جسم کا حصہ ہیں۔ وہ میری آنکھوں کا نور ہیں جس نے اسے رنجیدہ کیا گویا اس نے مجھے رنج پہنچایا۔

یہ نبی کریم ﷺ کے لعاب دہن مبارک کا فیض تھا کہ جس سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہ فصاحت و بلاغت، حلاوتِ بیان، دل نشین منطق، استدلالی قوت، متانتِ دلیل اور ترتیب و تنظیم سخن کا حسین مرقع تھیں جناب سیدہ طاہرہ روشن دلائل اور قاطع براہین و استدلال تھیں۔ رسول خدا کی رحلت کے بعد پہلی مرتبہ جب مسجد نبوی میں تشریف لائیں تو ایک عہد ساز خطبہ ارشاد فرمایا۔ روایت کے مطابق یہ خطاب ایسا تھا کہ مسجد میں موجود حاضرین کی آنکھوں سے بے اختیار آنسوئوں کا سیلاب رواں ہوگیا۔ اس خطبے کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

’’اے بندگانِ خدا! تم اس کے حکم کا مرکز ہو اس کے دین و وحی کے حامل ہو اپنے نفس پر اللہ کے امین اور امتوں تک ان کے پیغام رساں ہو۔ تمہارا خیال ہے کہ تمہارا ان پر کوئی حق ہے حالانکہ تم میں ان کا عہد موجود ہے جسے اس نے بھیجا ہے اور جسے اسنے اپنی خلافت دی ہے وہ خدا کی کتاب، ناطقِ قرآن، نورِ ساطع اور روشن ضیا ہے جس کی بصیرتیں نمایاں اور اسرار واضح ہیں۔ اس کے ظواہر منور اور اس کی اتباع قابل رشک ہے۔ وہ رضوان الہٰی کا قائد ہے اور اس کی سماعت ذریعہ نجات ہے۔ اسی کے ذریعہ اللہ کی روشن حجتیں واضح ہوتی ہیں، اس کے روشن فرائض، مخفی محرمات، ظاہر و باہر بینات، براہین کافیہ، فضائل مندوبہ، لازمی تعلیمات اور قابلِ رخصت احکام کا اندازہ ہوتاہے تاکہ تم لوگ کتاب کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی روشن اور روشن گر دلائل پاسکو اور اس کی تفسیر و بیان اورمقررات و واجبات کو سیکھ سکو اور اس نے اپنی کتاب میں موانعد رشد و کمال کی نشاندہی کی ہے کہ ان کے ارتکاب سے ہوش وار کیا ہے تاکہ اس کے فرامین پر عمل کرکے اپنے آپ کو ساحلِ نجات پر لنگر انداز کیجئے۔‘‘

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ نے اس مقام پر پیغمبر اسلام ﷺ خاتم النبیین کی دو عظیم یادگاروں میں سے ایک کا ذکر یوں فرمایا کہ

کتاب الله الناطق

اللہ کی کتاب ایک ناطق کتاب ہے۔

النور الساطع

یہ نورِ فروزاں ہے۔

والضیاء اللامع

ایسا نور ہے جو افشاں ہے۔

بینة بصائره

اس کے دلائل و براہین واضح ہیں۔

منکشفة سرائسره

اس کے اسرار آشکار ونمایاں ہیں۔

متجلیة ظواهره

اس کے ظواہر کامل طور پر آشکار و جلوہ گر ہیں۔

مغتبطة به اشیاعه

اس کے راستے کے راہرو کو لوگ رشک و حسرت سے دیکھتے ہیں۔

قائد الی الرضوان اتباعه

اس کی اتباع اللہ کی خوشنودی کی طرف راہبری کرتی ہے۔

مود الی النجاة استماعه

اس کو دل کی گہرائی سے سننا نجات کی ضمانت ہے۔

به تنال حجج الله المنورة

اس کے دلائل و حجت سے انسان اعتماد حاصل کرتا ہے۔

وعزائمه المفسرة

اس کی برکت سے واجبات معلوم ہوئے ہیں۔

و محارمه المعذرة

اس کے وسیلے سے محرمات خدا کو جانا۔

وبیناته الجالیة

اس کے روشن دلائل کو تشریح و تاویل کی ضرورت نہیں۔

وبراهین الکافیة

اسکے متشابہات صرف انہیں معلوم ہیں جو راسخون فی العلم ہیں۔

وفضائله المندوبة

اس کے اخلاق و فضائل اللہ نے بیان فرمائے اور بندوں کو انہیں اپنانے کا حکم دیا۔

و رخصه الموهوبة

احکام قرآنی کچھ اختیاری ہیں کچھ واجبی۔

و اشرائعه المکتوبة

اس کے قوانین و احکام اللہ نے بندوں پر مقرر فرمائے۔

اس ملکوتی خطبے میں بی بی سیدۃ النساء العالمین نے فلسفہ اسلام پر بھی بےحد خوبصورت الفاظ میں گفتگو فرمائی۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔

و الصلوة تنزیها لکم عن الکبر.

کہ نماز کو اللہ نے غرور و تکبر کا علاج ٹھہرایا۔

و الزکوٰة تزکیة للنفس و نماء فی الرزق

کہ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کو جان کی پاکیزگی اور تزکیہ کے لیے مقرر فرمایا۔

و الصیام تثبیتا للاخلاص

روزے کو خلوص کے استحکام کا وسیلہ بنایا۔

و الحج تشییدا للدین

اور حج کو دین مستقیم کے استحکام کے لیے مقرر فرمایا۔

و العدل تنسیقا للقلوب

عدل کو قلوب کے مربوط ہونے کا ذریعہ فرمایا۔

اس کے علاوہ اہل بیت کے فضائل اور ان کی اہمیت کے بارے میں رسول محترم ومکرم کی دختر نے فرمایا کہ

وطاعاتنا نظاما للملة

اللہ نے ہماری اطاعت کو ملت اسلامیہ کے لیے ایک نظام مقرر کیا۔

امامتنا امانا من الفرقة

ہماری امامت اور رہبری کو انتشار اور پراگندگی سے بچنے کا وسیلہ ٹھہرایا۔

کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جو عترتِ نبی کریم ﷺ ہیں ان کے مقابل کوئی اور نہیں جو اپنی قدرت و طاقت سے زمام اقتدار کو اپنے ہاتھ میںلے لے اور اپنے احکام نافذ کرے۔ مسلمانوں کے نظام کے لیے پروردگار عالم نے ائمہ اہل بیت کی اطاعت واجب قرار دی رسول کریم ﷺ نے انہیں قرآنِ مجید کا ساتھی قرار دیا اور ان سے تمسک کو نجات کا ذریعہ قرار دیا جیساکہ حدیث ثقلین اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ

انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی هل بیتی وانھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض وانکم لن تضلوا ما ان لمسکتم بھما.

’’میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اپنے اہل بیت۔ یہ دونوں آپس میں کبھی جدانہیں ہوں گے۔ حتی کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں گے۔ اگر تم نے ان دونوں کو تھامے رکھا توکبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔‘‘

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب سیدہ عالم صاحب فراش تھیں توان کی دعا یہ تھی:

یا حی یا قیوم برحمتک استغیث فاغثنی اللهم زحنرجنی عن النار و ادخلنی الجنة والحقنی بابی محمد.

اے حی و قیوم بادشاہ! تیری رحمت کے دامن میں پناہ لینا چاہتی ہوں مجھے پناہ دے دے۔ خدایا مجھ سے جس طرح وعدہ فرمایا ہے مجھے نار جہنم سے دور رکھ اور مجھے اپنی جنت میں داخل فرما اورمجھے جلد اپنے بابا حضرت محمد ﷺ سے ملحق فرما۔

آپ کی تاریخ رحلت میں مورخین کا اختلاف ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ بی بی فاطمہ زہرا کی رحلت بروز منگل تین جمادی الثای گیارہ ہجری کو ہوئی تھی۔

جملہ مسلمانوں کے منابع و مصادر میں بہت سی احادیث موجود جن میں وضاحت سے درج ہے کہ قیامت کے دن سیدالانبیاء کی دختر سیدۃ النساء العالمین گناہگاروں کی شفاعت فرمائیں گی۔

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کی پوری زندگی کے اعمال و افکار اور مدلل انداز وتکلم اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اسلام نے عورت کو جو آزادی گفتار عطا کی ہے وہ مسلمان خواتین کے لیے باعث شرف ہے۔مسلمان عورت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی ظاہری خوبصورتی اور حسن و رعنائی کے ذریعے سے معاشرے میں اپنے آپ کو منوائے بلکہ اس کے لیے باطنی خوبصورتی اور جمال ازلی نور سے پُر اور روشن ہو۔لہذا اس پُر خطر اور پُرآزمائش دور میں بی بی فاطمہ زہرا کے سیرت و کردار اور اعمال و گفتار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمانانِ عالم کی تمام خواتین جناب فاطمہ زہرا کی سیرت کو اپنائیں گی تو نہ صرف مسلمان معاشرہ بلکہ دیگر معاشروں میں بھی وہ قابل تحسین و صد آفرین ہوگی اس لیے ہمارے آقا و مولا جناب خاتم النبیین ﷺ کی امت کی خواتین کا وقار و مرتبہ بلند ہوگا۔