اسلام مساوات انسانی کا علمبردار

ڈاکٹر فوزیہ سلطانہ

اسلام ہمیشہ سے مساوات انسانی کا علمبردار رہا ہے اسلام نے ہی انسانیت کو روشناس کروایا کہ بنیادی انسانی ضروریات ہر کسی کو بغیر رنگ، نسل اور جنس میں امتیاز کیے بغیر برابر ملنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عورت کو جو مقام حاصل رہا اس کی وجہ وہ رہنما اُصول تھے جس پر اسلام کی بنیادیں قائم کی گئیں اور انسان کو اگر باعث تکریم کہا گیا تو اس سے مراد مرد اور عورت دونوں تھے۔ اسلام میں اگر فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر اگر کوئی تقویٰ میں اچھا ہے تو اسکا مقام دوسروں سے مختلف ہے۔

اسلام کے نزدیک انسان کی فلاح سلامتی فکر اور درستی عمل کے ساتھ وابستہ ہے وہ ان نظریات کی قطعا نفی کرتا ہے جو عورت کو محض عورت ہونے کی وجہ سے ذلیل تصور کر کے انسانیت کی بلند ترین سطح سے دور پھینک دیتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے جو اُصول اس ضمن میں نمایاں وہ درج ذیل ہیں جن کی بنیاد پر اسلام نے مساوات ا انسانی کا درس دیا۔

عظمت انسانی:

اسلام سے قبل معاشرہ میں جس طرح سے طبقاتی تقسیم تھی امیروغریب کا فرق تھا اُس نے انسان کو اسکا جائز مقام نہ دیا اسلام نے انسان کو تمام مخلوق سے افصل قرار دیتے ہوئے اُسے دنیا میں اللہ کا خلیفہ قرار دیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَهً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِیهَا مَن یُّفْسِدُ فِیهَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ.

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

(البقرة، 2: 30)

پھر فرمایا:

وَهُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلاَئِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِیم.

اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔ بیشک آپ کا رب (عذاب کے حق داروں کو) جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ (مغفرت کے امیدواروں کو) بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے۔

(الانعام، 6: 156)

انسانی مساوات کا نظریہ:

اسلام نے انسان کو بغیر رنگ، نسل، مذہب کے یکساں حقوق دینے کا نظریہ دیا اسلام نے لوگوں کو بتایا چونکہ تخلیق کے اعتبار سے سب برابر ہیں لہذا سب کو ایک جیسے حقوق حاصل ہونے چاہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِی تَسَائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا.

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

(النساء، 4: 1)

ایک جگہ فرمایا:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ.

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم)کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔

(الحجرات، 49: 13)

حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہان کیلئے رحمت بنا کر بھیجا آپ کو رحمت کا دائرہ کار صرف مردوں تک محدود نہ تھا بلکہ عورتوں پر بھی یکساں شفقت فرماتے انسانی مساوات کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:

یایها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمرا علی اسود ولا لاسود علی أبیض الا بالتقویٰ.

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، سنو کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر سوائے تقویٰ۔

(الهیثمی، علی بن ابی بکر، (1407ھ)، مجمع الزوائد، بیروت، القاھرہ، دارالریان، 3: 24)

تقوی کا ایک معیار:

جب انسانیت کا معیار تقوی ہے تو پھرہر وہ شخص تقوی میں بڑھ کر ہے وہ افضل ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد اگر عورت تقویٰ میں اچھی ہے تو اسکا رتبہ بلند ہے۔

سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیَاهً طَیِّبَهً وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ.

جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔

(النحل، 16: 97)

اسی طرح سوۃ الاحزاب میں ارشاد ہوا:

إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِینَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِینَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِینَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِینَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِینَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِینَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِینَ اللَّهَ کَثِیرًا وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَهً وَأَجْرًا عَظِیمًا.

بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔

(الاحزاب، 33: 95)

یعنی اسلام مردوں اور عورتوں کو مساوی بنیادوں پر دیکھتا ہے۔

اسلام انسانی حقوق کا علمبردار:

عورت کے بارے میں اسلام کے جامع تصور کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام نے دنیا کو انسانی حقوق سے روشناس کروایا۔ اسلام کے عطا کردہ انسانی حقوق ابدی ہیں کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے بندوں کو عطا کیے گئے ہیں نہ کہ کسی انسان کے بنائے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری رقمطراز ہیں:

انسانی حقوق اور آزادیوں کے بارے میں اسلام کا تصور آفاقی اور یکساں نوعیت کا ہے جو زمان و مکان کی تاریخی اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا منشور اس اللہ کا عطا کردہ ہے جو تمام کائنات کا خدا ہے اور اس نے یہ تصور اپنے آخری پیغام میں اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی وساطت سے دیا ہے۔ اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر عطا کیے گئے ہیں اور ان کے حصول میں انسانوں کی محنت اور کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ (قادری، محمد طاہر، ڈاکٹر، (2009ء)، اسلام میں انسانی حقوق، ص:36)

لہذا انہیں انسانی حقوق میں عورتوں کے وہ حقوق بھی شامل ہیں جس سے کہ پہلے معاشرے نے اسے محروم رکھا تھا۔

اسلام میں حقوق و فرائض کا حسین امتزاج:

اسلام جہاں ایک طرف حقوق کی بات کرتا ہے وہیں فرائض کی ادائیگی پر بھی زور دیتا ہے۔ اسلام کے انسانی حقوق کے تصور کا لب لباب یہ ہے کہ اگر ہر فرد اپنے فرائض کی بجا آوری کرے تو دوسرے کا حق ادا کر دے گا اگر شوہر اپنے فرائض سرانجام دے تو بیوی کو اسکا حق ملے گا۔ بیوی اپنے فرائض کو ادا کرے تو حقوق پورے ہونگے۔ یوں اسلامی معاشرہ حقوق و فرائض کا حسین امتزاج بن جاتا ہے جو کہ ایتائے حق پر زور دیتا ہے تو دوسری طرف وہ فرائض کی ادائیگی پر زور دیتاہے۔

درج بالا اُصولوں نے اسلام میں عورت کی حیثیت کو متعین کرنے میں بنیادوں کا کام لیا اور آگے چل کر جو حقوق عورت کو ملے وہ انہیں بنیادوں پر ملے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عورت کی حیثیت نہایت مسلم ہے حضور اکرم ﷺ کی آمد کے ساتھ جہاں تاریکیوں کے بادل چھٹے رہے وہیں آپکی آفاقی تعلیمات نے عورت کو فرش سے عرش پر بٹھا دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.

اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر۔

(الانبیاء، 21: 107 )

چونکہ آپ سراپا رحمت ہیں اور یہ دائرہ رحمت مردوں اور عورتوں کیلئے یکساں۔ تھا اسلام کے عورت کے بارے میں نظریہ سے متعلق سید جلال الدین عمری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔

اسلام کے آنے سے پہلے دنیا نے عورت کو ایک غیر مفید بلکہ مختلف تمدن عنصر سمجھ کر میدان عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک غار میں پھینک دیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہ تھی۔ اسلام نے دنیا کی اس روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور بتایا کہ زندگی، مرد اور عورت دونوں کی محتاج ہے۔ عورت اس لیے نہیں پیدا کی گئی کہ اسے دھتکار دیا جائے اور شاہراهِ حیات سے کانٹے کی طرح ہٹا دیا جائے کیونکہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے اس طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے۔

پھر اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں، بیٹی، بیوی، بہن کے متعارف کروایا اور اُسی اعتبار سے اُس کے حقوق بھی متعین کیے۔

اسلام نے ایک طرف عورت کو شرفِ انسانیت سے آراستہ کیا اور حقوق سے نوازا اور دوسری طرف اس کے اخلاق و کردار کا تحفظ کیا اس کی فطری صلاحیتیوں کے مطابق اُسے ذمہ داریاں سونپی اور عورت کے ہر روپ بیٹی، ماں، بیوی، بہن ہر حیثیت کیلئے احترام پیدا کیا اور اُس کے تمام مسائل حل کیے اور اُسے فوز و فلاح کی منزل سے ہمکنار کیا۔

اسلام میں عورت کی حیثیت سے متعلق ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب اسلام میں انسانی حقوق میں لکھتے ہیں۔

اسلام کی آمد عورت کے غلامی، ذلت اور ظلم واستحصال کے بعد حصوں سے آزادی کا بیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا۔ جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں:

اسلام نے عورت کو جیسے وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیئے ہیں اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں اور اُن حقوق و مراتب کی حفاظت کیلئے اپنی اخلاقی اور قانونی ہدایات میں جیسی پائیداری نمائش مہیا کی ہیں ان کی نظیر دنیا کے کسی قدیم و جدید نظام معاشرت میں نہیں ملتی۔

اسلام سے قبل عورت کی حیثیت سے متعلق کون آگاہ نہیں پھر آج جو یورپ عورت کے حقوق کا علمبردار ہے وہ خود عورت کو قدیم معاشرہ میں ذلیل و رسوا کرتا تھا اسلام سے قبل جس معاشرہ، مذہب، تہذیب کو اٹھائیں وہ عورت کے معاملے میں اندھیروں کا شکار نظر آتے ہیں۔

مولانا ظفیر الدین رقمطراز ہیں:

اعتدال کے فطری نقطہ پر اسلام نے انسانوں کو لا کر کھڑا کر دیا جس کا جو حق تھا وہی اس کو دیا گیا ظلم و ستم کی چکیوں میں پسنے والی صنف نازک (عورت) کو بھی پوری قوت کے ساتھ اسلام نے اپنے دامن حمایت کے سایہ میں لیا ناموس نسواں کی قدروقیمت کے سوال کو زندہ کیا گیا۔ اس راہ میں کسی قسم کی چشم پوشی روانہ رکھی گئی۔

بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے جو مغربی عورت آج بھی پوری طرح حاصل نہیں کر سکی مگر ان تمام جامع حقوق کے باوجود آج اسلام کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہے اور عورت کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے افسوس کا مقام کہ اسلام نے پہلی مرتبہ عورتوں کو حقوق سے روشناس کروایا آج اس الزام کی زدمیں ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کے اتار چڑھاو میں جہاں طبقاتی تقسیم آئی اور اسلام کے ساتھ دیگر تہذیبوں کا ارتباط ہوا وہیں عورت کو پھر سے معاشرتی حقوق سے محروم کر دیا گیا مگر پھر بھی اسلامی شریعت میں عورت کے جو حقوق مقرر کر دیئے گئے انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکا۔ اسلام سے قبل عورت کا جس طریقے سے معاشی، معاشرتی، سماجی، سیاسی طور پر استحصال کیا جا رہا تھا اسلام نے عورت کو ان تمام حقوق سے بہرہ مند کیا اور سب سے پہلے اس کی حیثیت متعین کی اور پھر ان حیثیتوں میں متعارف کرایاضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اسلام کی ان تعلیمات سے آج کی خواتین کو روشناس کروایا جاسکے جو مساوات انسانی کی حقیقی عکاس ہیں۔