اللہ کا پیغام انسانوں تک کتاب کے ذریعے پہنچا

نورالہدیٰ

خدا کی تخلیق کردہ یہ کائنات ایک بہت بڑی کتاب ہے۔ اگر انسان کے پاس دوراندیشی کی صلاحیت ہو تو اس کے لیے ہر منظر ہی ایک کتاب ہے، ہر انسان ہی ایک کتاب ہے۔

اس کائنات کے مالک نے اپنا کلام انسانوں تک بھی کتابوں کے ذریعے منتقل کیا۔ کتاب کی تاریخ بہت زیادہ پرانی ہے انسانوں نے اپنا حاصل کردہ علم آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے لکھنا شروع کیا اور یوں کتابیں بنتی چلی گئی۔ کسی بھی انسان کے لئے سیکھنے کا سب سے اہم ذریعہ کتاب ہے اچھی کتابوں کو پڑھنے والے طالب علم ایک دن صاحب کتاب بن جانے کے قابل ہوتے ہیں۔ کتاب ایک طالب علم کی سوچ وسیع کرتی ہے۔ صدیوں پرانے تجربات زندگی سے حاصل کیا گیا علم ان کو چند صفحات میں مل جاتا ہے جس کی بنا پر انسان کم عمر میں ہی عقل کے اعلی ترین بلندیوں کو چھو لینے کے قابل بن جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کتاب ایک طالب علم کی سب سے اچھی دوست ہوتی ہے کیونکہ وہ طالب علم کی زندگی میں اچھے کام کرنے اور ناکامیوں سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے- اچھی کتاب شروع کرنے سے پہلے کا شخص کتاب ختم ہونے تک ایک مختلف اور بہتر شخص بن چکا ہوتا ہے- طالب علموں کے لئے لیے ایک کہاوت ہے۔

A room without books is a body without soul

کتاب ایک بہت بڑی صحبت ہے یہ ہر فتنے سے بچا لیتی ہے یہ ہمیں اُس دور میں لیے جاتی ہے جس کا یہ ذکر کر رہی ہوتی ہے۔ قرآن کی تلاوت کر رہے ہوں تو یہ ہمیں اللہ کی یاد دلاتی ہے اور فتنہ سے بچا لیتی ہے۔ حدیث پڑھ رہے ہوں تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں لے چلتی ہے اور صحابہ کرام کی صحبت میں بیٹھے حاضری ہوتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری فرماتے ہیں کہ جس طرح مرتے دم تک ہم کھانا نہیں چھوڑ سکتے، اسی طرح ہم کتاب سے تعلق مرتے دم تک نہیں توڑ سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے دنیا سے سیکھ لیا ہے، کہ ہم پڑھے پڑھائے ہیں مگر پڑھا پڑھایا کوئی بھی نہیں ہوتا۔ کتابوں اور لیکچرز کے ذریعے ہر انسان کو چاہیے کہ طالب علم بنے۔ ہمارے آقاa طلب علمی میں رہے اللہ تعالی کی ذات ان کو علم دیتی رہی اور حضورa لیتے رہے۔ شیخ الاسلام پوچھتے ہیں کہ وہ کیسا مسلمان ہے وہ شخص جو پڑھنے سے دلچسپی نہیں رکھتا؟

بحیثیت مسلمان پڑھنا ہماری عبادت ہے کیونکہ یہ سنت ہے۔ باقی دنیا پڑھے یا نہ پڑھے، ہم پر لازم ہے کہ ہم پڑھنے کو زندگی کا اہم حصہ بنا لیں۔ قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہے "اقرا" "پڑھیے!"۔ تو جو شخص مسلمان ہوکر پڑتا نہیں, اس کا قرآن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ لفظ "قرآن" کا مطلب ہے "جو پڑھا گیا" اور "جو پڑھایا گیا"۔ اللہ نے ہماری مقدس کتاب کا نام پڑھانے والا رکھا یعنی پورا دین ہی پڑھنے اور پڑھانے سے متعلق ہے۔ ایک اور خطاب میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ طالب علم کے لیے کتاب ری انفورسمنٹ کا ذریعہ ہے۔ کتاب کے ذریعے طالب علم، علم حاصل کرتا رہتا ہے اور انسانیت کے درجے میں بہتری کی طرف قدم بڑھاتا رہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جب آپ ایک کتاب کھولتے ہیں تب آپ نئی دنیا کھولتے ہیں۔ کتابیں علم، غوروفکر کی دعوت، زندگی کی رہنمائی، محبت، خوف، عبادت اور بہترین نصیحت سے بھرپور ہوتی ہے۔ کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے آباؤ اجداد میں سے غور و فکر کرنے والے طبقے نے اپنے علم کو کتابی شکل میں محفوظ نا کیا ہوتا تا تو آج انسانیت کہاں ہوتی؟

جدید تحقیقات کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ جو طالب علم کتاب سے پڑھتے ہیں وہ زیادہ علم حاصل کرتے ہیں بجائے ان کے جو سکرین سے پڑھتے ہیں۔ لا ئبریری سے کتابوں کی خریداری اور امتحانوں میں کامیابی کے ایک تجزیہ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو طالب علم زیادہ کتابیں لیتے ہیں وہ بہتر گریڈ حاصل کرتے ہیں بجائے ان طلبہ کے جو کتابیں نہیں لیتے۔

ایک اور ریسرچ کے مطابق کتابیں پڑھنے کا شوق رکھنے والے طالب علم بہتر جی پی اے حاصل کرتے ہیں اور ان طالبعلموں کو میڈیا کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہے بالمقابل ان طالب علموں کے جو کتابیں پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ بہت سی تحقیقات کا ایک منٹ این ایس اس چیز کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ کتاب ڈیجیٹل میڈیا سے زیادہ فائدہ مند ہے۔

علم حاصل کرنے کے مختلف طریقے انسان اپنا سکتا۔ ایک شخص جس کو پڑھنے کا شوق نہیں ہے لیکن وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو آج کے دور میں اس کے پاس بہت سے طریقے موجود ہیں۔ وہ کسی علم والے کو سن کر علم حاصل کر سکتا ہے، کسی کتاب کی آڈیو بک سن سکتا ہے، پریزنٹیشنز کے ذریعے، اینیمیشنز کے ذریعے، وہ علم حاصل کرنے کو اپنے لئے آسان بنا سکتا ہے۔ جب یہ ساری سہولیات موجود ہیں پھر کتاب پڑھنے پر آج بھی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟ کیوں وہی پرانے طریقوں سے ہم بھی علم حاصل کریں کہ جن سے ہمارے آباء و اجداد نے حاصل کیا۔

ہمارے آباؤ اجداد کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لیکن ہمارے پاس ہے اس سوال کا جواب جورڈن پیٹرسن، ایک مشہور کینیڈا کے ماہر نفسیات، ایک انٹرویو میں دیتے ہیں۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک کتاب اور ایک لیکچر میں فرق ایسا ہے جیسا ایک تصویر اور ایک پورٹریٹ میں۔ ایک عام تصویر ایک لمحہ خود کے اندر روک لیتی ہے جبکہ ایک پورٹریٹ تفصیل سے بھرپور ہوتا ہے۔ پورٹریٹ میں تصویر کے ہر ایک ایک جز پر ہفتوں اور مہینوں محنت کی جاتی ہے اور پورٹریٹ پر بہت سی تہیں موجود ہوتی ہیں۔ عام تصویر اور پوٹریٹ دیکھنے میں تو ایک طرح ہی معلوم ہوتے ہیں مگر پورٹریٹ میں ایک گہرائی موجود ہوتی۔ ایک کتاب آپ کو سوچنے کا موقع دیتی ہے اور پھر دوبارہ سوچنے کا موقع دیتی ہے۔ تو ایک کتاب میں آپ وہ گہرائی حاصل کرسکتے ہیں جو دنیا کے اور انسانی تاریخ کے کسی اور طریقے میں حاصل کی نہیں جا سکتی۔

آڈیو بک اور یوٹیوب لیکچر ہمارے دور میں طالب علموں کے لیے ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں اور یقینا بے حد فائدہ مند ہیں۔ ان سے اکثریت تک ان کی رسائی آسان ہوجاتی ہے۔ کتاب پڑھنے کو آج بھی بہتر اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ اگر ایک انسان واقعی کتاب پڑھنا جانتا ہے تو وہ یہ بات جانتا ہے کہ سننے سے زیادہ جلدی پڑھا جا سکتا ہے تو کتاب پڑھنے سے وقت بچتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس عمل کی اہمیت کے بارے میں بہت کم بتایا جاتا ہے کہ لکھنا اور پڑھنا کیوں اس قدر ضروری ہے کہ سب سکولوں میں اور مدارس میں یہی دو عمل بہت زیادہ سکھائے جاتے ہیں۔ جو انسان ایک کتاب پڑھ سکتا ہے اور پھر اپنے الفاظ کو بہتر طریقے سے لکھ سکتا ہے تو ایک عام بات نہیں یہ ایک سپر پاور ہے۔ ایسی شخصیات کے پاس بیٹھ کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ عقل اور سوچ کے بہت اعلی درجے پر ہیں اور جس طرح سے وہ ایک جملہ کہتے ہیں اس میں ایک ربط ہوتا ہے اور حکمت ہوتی ہے بجائے ان لوگوں کے کہ جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔

جورڈن پیٹرسن کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے ہی معمول رہا ہے کہ اپنے شوق سے کتاب پڑھنے والے لوگ اقلیت میں ہوتے ہیں، اکثریت میں نہیں ہوتے۔ لوگوں کی وہ اقلیت جو شوق سے کتاب پڑھتی ہے اس اقلیت میں سے بھی ایک اقلیت کتابیں خریدتی ہے۔ لہذا کتابیں پڑھنے کا عمل ہمیشہ سے اقلیت کا عمل رہا ہے۔

23 اپریل کو ورلڈ بک ڈے منایا جاتا ہے یہ دن مصنفین, کتابیں اور سب سے اہم پڑھنے کی اہمیت واضح کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ اور یہ دن کتاب کی محبت طالبعلموں میں اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے کتاب پڑھنے کے لطف کا پیغام سب لوگوں کو پہنچایا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک بہترین نظریہ پیش کرتے ہیں کہ طالب علم سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں جو پڑھتے ہیں وہ اصل علم نہیں ہوتا۔ پھر ذہن میں سوال آتا ہے کہ پھر وہ سب کیا ہے؟ تو فرماتے ہیں کہ وہ حصول علم کا سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔

وہ پورا دور جو کہ آٹھ، دس، سولہ یا اٹھارہ سال پر محیط ہے وہ دراصل علم تک پہنچنے، علم کو حاصل کرنے کے طریقے اور اس کو حاصل کرنے کے تقاضے سکھانے کا دور ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں علم صحیح معنی میں فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے۔

فراغت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دراصل علم سے کوئی فارغ نہیں ہو۔ اگر ایک شخص علم کے سمندر بھی پی لے پھر بھی وہ ایک طالب علم ہی رہتا ہے۔ جس طریقے سے ہم نے کچھ علم حاصل کیا اور فارغ ہوگئے وہ درحقیقت علم نہیں تھا کیونکہ علم سے فارغ تحصیل نہیں ہوا جا سکتا وہ تحصیلِ علم کے طریقے کی سکھائی سے فارغ ہوتا ہے۔ پھر وہ شخص اس قابل ہوتا ہے کہ اب وہ اس طریقے کو استعمال کر کے حقیقت کا علم حاصل کر سکے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ ایک طالب علم مقررہ نصاب پڑھتے ہوئے علم کے سمندر تو کیا علم کی اگر کوئی ندی بھی ہو تو اس میں بھی غوطہ زنی نہیں کرتا۔ یہ اسی طرح ہے کہ اگر کوئی تیراک بننا چاہتا ہے تو اس کا استاد اس سے ایک، دو، دس سبق دیتا ہے۔ وہ سیکھنے سے وہ طالب علم تیراک بن نہیں جاتا وہ بس تیراکی سیکھ جاتا ہے۔

پھر جو معلومات طالبعلم نے حاصل کی ہے اس کو وہ استعمال میں لاتا ہے۔ قائد فرماتے ہیں کہ معلومات منتشر ہوتی ہے اور علم منتشر نہیں ہوتا۔ جب وہ اس معلومات کو استعمال میں لاتا ہے پھر تمام متفرقہ معلومات کو اجتماعی طور پر استعمال کرتا ہے تب ہی وہ صحیح معنوں میں علم حاصل کرتا ہے۔ قائد فرماتے ہیں کہ طالب علمی کے دور میں تو بندہ معلومات میں بھی داخل نہیں ہوتا طالبعلم کے مقرر کردہ اسباق تو دراصل محض علم حاصل کرنے کے قواعد و ضوابط ہیں۔ یہ دور درحقیقت بے حد اہم ہے کیونکہ یہ علم حاصل کرنے کی فونڈیشن اور اس کی بنیاد ہے۔

اس کے بعد اگر کوئی شخص علم کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو حاصل کرسکتا ہے اور اگر حاصل کرنا نہیں چاہتا تو طریقہ بھی رفتہ رفتہ بھول جاتا ہے۔

کتابیں بہت سے غیر متوقع طریقوں سے فائدہ مند ہیں کتابیں اپنے اندر ایک طالب علم کی زندگی بدلنے کی استطاعت رکھتی ہیں ، کتابیں ہماری سوچ کو پر لگا دیتی ہیں، ہماری آنکھیں دل اور دماغ کھول دیتی ہیں ، ایک اچھی کتاب ایک اچھی دوست ہوتی ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ایک طالبعلم نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں البتہ اس سے فرق ضرور پڑتا ہے کہ اس نے اس کتاب سے کتنا سیکھا ہے۔

کتاب ایک طالب علم کی لُغت اور اس کے بولنے کے انداز کو بہتر کرتی ہے اور انسان کی زندگی کا اہم ترین جز ہے۔ کتاب دراصل طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اس کو ہمت دیتی ہے کہ وہ زندگی کی مشکلات سے کس طرح لڑ سکے اور طالب علم کو سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔

کتاب طالب علم کو کو یہ سکھاتی ہے کہ دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں اور اس کو اپنے اندر موجود قوت سے روشناس کرواتی ہے، کتاب ایک علم کے متلاشی کی زندگی کو روشن کرتی ہے اور اسے دماغ کی خود ساختہ حدوں کو پار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

تیرے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی